عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
یادِ رفتگاں
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
۱۴؍ اپریل کی صبح تقریباً تین بجے دین و ملت کا ایک شاہ بلوط اس دارِ فانی سے ٹوٹ کر اس عالم فنا میں غائب ہو گیا جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔صبح کو جب اہل لاہور کی آنکھ کھلی تو وہ عالم اسلام کی نامور شخصیت ڈاکٹر اسرار احمد کے انتقال کی خبر سن کر دلی صدمہ سے دو چار ہو ئے۔ شہر لاہور جو اپنے دامن میں علما و فضلا کی موجودگی پر ہمیشہ نازاں رہا ہے، ایک بطلِ جلیل کے سانحۂ ارتحال سے سوگو ار ہو گیا۔ قحط الرجال کے سلگتے صحرا میں ڈاکٹر صاحب ایک شاہ بلوط کے درخت کی مانند تھے۔ افسوس کہ ملت ِاسلامیہ بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص ایک ایسی ہستی سے محر وم ہو گئے۔جو اس دور میں تحریک اورخدمت قرآن میں اپنی مثال آپ تھی۔
ڈاکٹر اسرار احمد نادرئہ روزگار تھے، ان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال نے اس طرح کی عظیم شخصیات کے بارے میں ہی کہا تھا :
ان کی نمازِ جنازہ سنٹرل پارک، ماڈل ٹاؤن میں ادا کی گئی۔ ان کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید صاحب نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔ یہ نمازِ جنازہ بذاتِ خود بچھڑنے والی عظیم روح کو زبر دست خراجِ تحسین تھا۔ یوں لگتا تھا کہ پور ا شہر پلٹ پڑا ہے۔ ماڈل ٹاؤن پارک کے باہر سرکلر روڈ پر کہیں بھی گاڑی پارک کرنے کو جگہ نہ تھی۔ مجھے خود بہت دور ایک مارکیٹ کے کونے میں بڑی مشکل سے گاڑی پارک کرنے کو جگہ ملی۔ لوگ ہر طرف سے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے۔ ٹی وی چینلز کی ٹیمیں براہِ راست کوریج کے لئے جذبہ مسابقت کا اظہار کر رہی تھیں۔
محمد عطاء اللہ صدیقی
اِک ’اور‘ شاہ بلوط ٹوٹ گرا !!
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
۱۴؍ اپریل کی صبح تقریباً تین بجے دین و ملت کا ایک شاہ بلوط اس دارِ فانی سے ٹوٹ کر اس عالم فنا میں غائب ہو گیا جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔صبح کو جب اہل لاہور کی آنکھ کھلی تو وہ عالم اسلام کی نامور شخصیت ڈاکٹر اسرار احمد کے انتقال کی خبر سن کر دلی صدمہ سے دو چار ہو ئے۔ شہر لاہور جو اپنے دامن میں علما و فضلا کی موجودگی پر ہمیشہ نازاں رہا ہے، ایک بطلِ جلیل کے سانحۂ ارتحال سے سوگو ار ہو گیا۔ قحط الرجال کے سلگتے صحرا میں ڈاکٹر صاحب ایک شاہ بلوط کے درخت کی مانند تھے۔ افسوس کہ ملت ِاسلامیہ بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص ایک ایسی ہستی سے محر وم ہو گئے۔جو اس دور میں تحریک اورخدمت قرآن میں اپنی مثال آپ تھی۔
ڈاکٹر اسرار احمد نادرئہ روزگار تھے، ان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال نے اس طرح کی عظیم شخصیات کے بارے میں ہی کہا تھا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ڈاکٹر صاحب کی رحلت کی خبر سن کر دل بیٹھ گیا۔ ایک صدمہ تھا جو اَعصاب شکن تھا۔ ساری مصروفیات ترک کر کے قرآن اکیڈمی جا پہنچا۔ عجب دل فگار منظر تھا۔ اُداس کردینے والی ہستی کے آخری دیدار کے لئے خواتین و حضرات گروہ درگروہ آر ہے تھے۔ ان کا جسد ِخاکی ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا تھا۔ خواتین کو پہلے موقع دیا گیا۔ باری آنے پر جب میں اس کمرے میں پہنچا تو جذبات پر قابو نہ رہا۔ وہ سفید اُ جلے کفن میں ملبوس بے حد سکون سے لیٹے تھے۔ صرف چہرہ کھلا تھا۔ میری نظر جب ان کے چہر ے پر پڑی تو یقین نہیں آتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب معمول کی نیند میں ہیں یا اَبدی نیند سو رہے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر ڈاکٹر صاحب اکثر پڑھا کرتے تھے :بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نشانِ مردِ مؤمن باتومی گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب او ست
ان کا چہرئہ مبارک اس شعر کی تصویر تھا۔ اس کمرے میں ان کے عقیدت مند صدمے اور صبر کے درمیان ایک کشمکش میں مبتلا نظر آئے۔ آنکھیں نم ناک تھیں، دل افسردہ تھے مگر لبوں پر آہ و بکا نہ تھی کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ بعض اَفر اد کو دیکھا کہ دیواروں سے لگ لگ کر سسکیاں لے رہے تھے۔ تنظیم اسلامی کے سینکڑوںکارکن اپنے عظیم رہنما اورداعیٔ انقلاب کے انتقال پر ایک دوسرے کو پر سہ دے رہے تھے۔چوں مرگ آید تبسم بر لب او ست
ان کی نمازِ جنازہ سنٹرل پارک، ماڈل ٹاؤن میں ادا کی گئی۔ ان کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید صاحب نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔ یہ نمازِ جنازہ بذاتِ خود بچھڑنے والی عظیم روح کو زبر دست خراجِ تحسین تھا۔ یوں لگتا تھا کہ پور ا شہر پلٹ پڑا ہے۔ ماڈل ٹاؤن پارک کے باہر سرکلر روڈ پر کہیں بھی گاڑی پارک کرنے کو جگہ نہ تھی۔ مجھے خود بہت دور ایک مارکیٹ کے کونے میں بڑی مشکل سے گاڑی پارک کرنے کو جگہ ملی۔ لوگ ہر طرف سے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے۔ ٹی وی چینلز کی ٹیمیں براہِ راست کوریج کے لئے جذبہ مسابقت کا اظہار کر رہی تھیں۔