بِسمِ اللہ الرّحمٰن ِ الرَّحیم
و لہُ الحمدُ فی اُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ، الذَّی لا نَبیَّ و لا مَعصومَ بَعدہُ
::::::: اِیمان والا اُمید اور خوف کے درمیان رہتا ہے :::::::
و لہُ الحمدُ فی اُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ، الذَّی لا نَبیَّ و لا مَعصومَ بَعدہُ
::::::: اِیمان والا اُمید اور خوف کے درمیان رہتا ہے :::::::
عربی میں """ رَجاءَ """ کے ایک سے زیادہ معانی اور مفاہیم بھی ملتے ہیں ، لیکن میں یہاں اِسلامی عقیدے کے جس اہم مسئلے کے بارے میں بات کرنے والا ہوں اس کے لیے لفظ """رَجاءَ""" کا معنی اور مفہوم"""اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی اُمید جو کبھی یقین کی کیفیت تک جا پہنچتی ہے"""لیا جاتا ہے ،
اِس لغوی تعارف کا مقصد یہ ہے کہ اِن شاء اللہ کسی قاری کے دِل و دِماغ میں دیگر معانی کی وجہ سے میری گفتگو کے بارے میں کوئی ایسا خیال نہ آئے جو میرے آج کے موضوع سے دُور کرنے والا ہو،
""" رَجاءَ """ کا متضاد """ خوف """ہے ، جس کا معنی اور مفہوم تقریبا ہر کسی کے علم میں ہے کہ کسی چیز یا شخصیت کی طرف سے کسی نقصان ، دُکھ، پریشانی ، تکلیف وغیرہ کے ملنے کا اندیشہ جو کبھی یقین کی حد تک جا پہنچتا ہے ،
""" رَجاءَ """ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی اُمید ، یا اُن دونوں ، یا دونوں میں سے کسی ایک کے ملنے کا یقین ،مُسلمانوں میں پائی جانی والی جانی پہچانی کیفیات ہیں ،
اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب کا"""خوف """بھی سب کے لیے جانی پہچانی کیفیت ہے ،
سچے اور دُرُست اِیمان والا اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید ، یا ان کے ملنے کا یقین ، اور اللہ کی ناراضگی اور عذاب کے خوف کی کیفیات کے درمیان ہی رہتا ہے ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی مُحبت میں اُس کا قُرب حاصل کرنے کی کوشش میں اُس کی عِبادت کرتا رہتا ہے ،
اِیمان کو عمل کے ساتھ مشروط و مربوط قرار دیتے ہوئے ، اور اِن مذکورہ بالا تین صِفات اور کیفیات، یعنی """ رَجاء ، خوف ، اور مُحبت """ کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے فرمایا ((((( أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدعُونَ يَبتَغُونَ إِلَى رَبِّهِم الوَسِيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجُونَ رَحمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحذُورًا:::وہی ہیں (اِیمان والے)جو اللہ کا قُرب حاصل کرنے کے لیے اسباب اختیار کرتے ہیں ، اور اللہ کی رحمت کے اُمید وار ہوتے ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک آپ کے رب کا عذاب ایسا ہے کہ اُس سے ڈرا ہی جانا چاہیے)))))سُورت الاِسراء(بنی اِسرائیل)/آیت 57،
""" رَجاءَ """ یعنی اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید یا یقین ، اور """خوف """ دونوں ہی صِفات کا پایا جانا ، اور اعتدال کے ساتھ پایا جانا اِیمان کی درستگی کی علامت ہے ،
جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کتاب کریم میں اور اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام کی ز ُبان مبارک سے اپنی رحمت کی وسعت اور عظیم بخشش کی خبریں عطاء فرمائی ہیں ، وہاں انہی دو ذرائع سے ہی اُس ے خوف زدہ رہنے کا حکم اور تعلیم بھی دی ہے ،
(((((وَ خَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤمِنِينَ:::اور مُجھ سے خوف زدہ رہو اگر تم لوگ اِیمان والے ہو))))) سُورت آل عمران (3)/آیت 175،
غور فرمایے ، محترم قارئین ، یہ مذکورہ بالا حکم اِیمان والوں کو ہی دیا گیا ہے اور اللہ کا خوف رکھنے کو اِیمان کی موجودگی کی شرط بنادیا گیا ہے ،
پس یہ سوچ رکھنا کہ اللہ سے خوف اور اللہ کے عذاب سے خوف اِیمان والوں کے لیے ضروری نہیں کہ اللہ نے انہیں کسی عذاب کی وعید نہیں سنائی ، یہ کوئی خوش عقیدگی نہیں بلکہ وسوسہ ہے ،
کیونکہ کسی کے لیے کسی عذاب کی وعید نہ ہونا اُس کا عذاب سے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں ،
اوریہ ہی درست فہم ہے ،جس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت سی آیات ہیں ،
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کی صِفات میں اِن دونوں صفات کا ذِکر بھی فرمایا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اِیمان والوں میں یہ دونوں ہی صِفات موجود رہتی ہیں ، اور ایک جیسی رہتی ہیں ، یعنی کسی ایک کا مفقود ہو جانا یا کمی یا زیادتی کی طرف مائل ہو جانا اِیمان میں کمی ہوتا ہے ،
(((((تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُم عَنِ المَضَاجِعِ يَدعُونَ رَبَّهُم خَوفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقنَاهُم يُنفِقُونَ::: اُن (اِیمان والوں )کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور)وہ اپنے رب کو خوف اور اُمید سے پکارتے اور جو (مال)ہم نے اُنہیں دِیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں))))) سُورت السجدہ (32) /آیت 16،
(((((وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَ يَخشَونَ رَبَّهُم وَ يَخَافُونَ سُوءَ الحِسَابِ::: اور وہ جو اُن رشتوں اور روابط کو جوڑتے ہیں جنہیں جوڑے رکھنے کا حُکم اللہ نے دِیا ہے ، اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں ،اور یہ خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بہت سختی سے حساب نہ لیا جائے)))))سُورت الرعد (13)/آیت 21،
(((((إِنَّ الَّذِينَ يَخشَونَ رَبَّهُم بِالغَيبِ لَهُم مَّغفِرَةٌ وَأَجرٌ كَبِيرٌ ::: بے شک جو بن دیکھے ہی اپنے رب سے ڈرتے ہیں اُن کے لیے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے))))) سُورت المُلک (67) /آیت 12،
(((((وَالَّذِينَ هُم مِن عَذَابِ رَبِّهِم مُشفِقُونَ o إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِم غَيرُ مَأمُونٍ ::: (اِیمان والے)وہ (ہیں)جو اُن کے رب کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں o یقیناً اُن کے رب کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اُس سے بے خوف نہ ہواجائے))))) سُورت المعارج (70) /آیت 27،28،
مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں سے آخری آیت شریفہ میں اللہ نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ اللہ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہو جانا چاہیے ، کیونکہ ایسا ہونا اِیمان کی کمی کا ثبوت ہے جس کے متوقع نتائج میں سے آخرت کی تباہی بھی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے(((((فَلَو يَعلَمُ الكَافِرُ بِكُلِّ الَّذِى عِندَ اللَّهِ مِنَ الرَّحمَةِ لَم يَيأَس مِنَ الجَنَّةِ ، وَلَو يَعلَمُ المُؤمِنُ بِكُلِّ الَّذِى عِندَ اللَّهِ مِنَ العَذَابِ لَم يَأمَن مِنَ النَّارِ:::لہذا اگر کوئی کافر اللہ کے پاس موجود اُس کی ساری ہی رحمت کےبارے میں جان لے تو کبھی جنّت (کے حصول ) سے مایوس نہ ہو ، اور اگر کوئی مؤمن اللہ کےپاس جو عذاب ہیں اُن کے بارے میں جان لے تو کبھی خود کو جہنم سے محفوظ خیال نہ کرے)))))صحیح البخاری/حدیث6469/کتاب الرقاق/باب19،
اور صحیح مُسلم کی روایت کے الفاظ ہیں (((((لَو يَعلَمُ المُؤمِنُ مَا عِندَ اللَّهِ مِنَ العُقُوبَةِ مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ وَلَو يَعلَمُ الكَافِرُ مَا عِندَ اللَّهِ مِنَ الرَّحمَةِ مَا قَنِطَ مِن جَنَّتِهِ أَحَدٌ::: اگر اِیمان والا جان لے کہ اللہ کے پاس کیا کیا سزائیں ہیں تو کوئی(مؤمن) بھی اللہ کی جنّت کی اُمید نہ رکھے ، اور اگر کافر جان لے کہ اللہ کے پاس کتنی رحمت ہےتوکوئی(کافر)اللہ کی جنّت سے نااُمید نہ ہو)))))حدیث 7155 / کتاب التوبہ/باب4،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن مذکورہ بالا فرامین کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ جس کسی کا دِل اُمید اور خوف میں سے کسی ایک جانب جھک گیا وہ درمیانی اور دُرُست راہ سے ہٹ گیا ،
مثلاً کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جِن پر اللہ کا خوف اس قدر غالب ہو جاتا ہے کہ وہ جزوی رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں کہ حلال اور جائز کاموں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں ،
اور کچھ لوگ کُلّی رہبانیّت اختیار کر لیتے ہیں کہ اپنی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے معاشرتی زندگی ترک کر کے جنگلوں ، یا خانقاہوں وغیرہ میں جا بستے ہیں ، جبکہ اس قِسم کے طرزء زندگی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، بلکہ اِسلام اور دوسرے ادیان کے بنیادی فروقات میں سے ایک فرق یہ بھی ہے کہ اِسلام میں دُنیا کے امور میں رہ کر آخرت کمانے کی تعلیم دی گئی ہے ، نہ کہ دُنیاکو چھوڑ کر تنہائی والی زندگی اپنا کر آخرت کمانے کی خود ساختہ کوششیں کرنے کی ، بلکہ ایسے کاموں کی تعلیم یا ترغیب تو کیا اس سے منع کیا گیا ،
جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے ، اس کی کافی تفصیل میری زیر تکمیل کتاب """ وہ ہم میں سے نہیں """ کی انیسویں 19حدیث میں موجود ہے ،
اِسلام میں مُسلمان سے دُنیا کے جھمیلوں اور مشکلوں میں رہتے ہوئے معاشرتی زندگی بسر کرتے ہوئے ، اللہ اور اس کے احکام پر عمل پیرا رہنا مطلوب ہے ،
اِسلام میں اُس راہبانیت اور تجرد کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی جو قبل از اِسلام دیگر أدیان اور مذاھب میں مروج تھی ، اور جسے کچھ کچھ تبدیل کر کے اِسلام میں بھی داخل کر دِیا گیا ، اِسلام میں جِس عمل کو راہبانیت کہا گیا ، وہ عمل بھی معاشرتی زندگی میں رہ کر، دُنیا کے کاموں کے ساتھ ہی کیے جانے والا ہے ، اور وہ ہے اللہ پاک کے دِین کی سر بلندی کے لیے اپنی جان ، مال اور ز ُبان سے جِہاد کرنا ،
جیسا کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((أُوصِيكَ بِتَقوَى اللَّهِ، فَإِنَّهُ رَأسُ كُلِّ شَىءٍ، وَعَلَيكَ بِالجِهَادِ، فَإِنَّهُ رَهبَانِيَّةُ الإِسلاَمِ، وَعَلَيكَ بِذِكرِ اللَّهِ، وَتِلاَوَةِ القُرآنِ، فَإِنَّهُ رَوحُكَ فِى السَّمَاءِ، وَذِكرُكَ فِى الأَرضِ ::: میں تُمہیں اللہ (کی ناراضگی اور عذاب) سے بچنے کی وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ یہ عمل (تقویٰ) ہر ایک (نیکی والی )چیز کا راہبر ہے ، اور تُم جِہاد کیا کرو کیونکہ جِہاد اسلام کی راہبانیت ہے ،اور تُم اللہ کا ذِکر کیا کرو اور قران کی تلاوت کیا کرو ، کیونکہ (یہ ذِکر اور تلاوتء قران)آسمان میں تُماری رُوح(کا مُقام بنانے )والے ہیں، اور زمین پر تُمارےذِکر(کابا عزت مُقام بنانے والے)ہیں)))))مُسند احمد /حدیث 12093/مُسند ابی سعید الخدری کی حدیث رقم 817، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث رقم 555،
پس یہ واضح ہوا کہ اللہ کی رحمت کا حصول معاشرتی زندگی کی ذمہ داریاں چھوڑ کر کرنے کی کوشش مردود ہے ، (اس موضوع پر ایک مضمون """ دُنیا اور آخرت کے کاموں میں موافقت کیسے کی جائے ؟ """ میں کافی تفصیل سے بات کر چکا ہوں ، اِن شاء اللہ اس موضوع کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے اُس کا مطالعہ فائدہ مند ہو گا )
یہاں بات ہو رہی تھی کہ اللہ کی رحمت اور خوف میں سے کسی ایک طرف جھک جانے والے یقیناً درست راہ سے ہٹ جاتے ہیں ، صِرف خوف والے پہلو پر نظر رکھنے والوں کی غلط روی کی بات ہو چکی اب اِن شاء اللہ صرف رحمت پر نظر رکھنے والوں کے بارے میں کچھ بات کرتا ہوں ،
صِرف اللہ کی رحمت پر ہی نظر رکھنے والوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید میں اللہ کے عذاب سے بے خوف ہو جاتے ہیں ، اور یہ بے خوفی اُنہیں عموماً اللہ کی ناراضگی کی طرف ہی لے جانے کا سبب بنتی ہے ،
اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی رحمت پر اس قدر یقین کرتے ہیں کہ جب کبھی انہیں کسی نا دُرست کام سے منع کیا جاتا ہے تو انہیں کچھ خوف کا احساس تو ہوتا ہے لیکن وہ اسقدر کمزور ہوتاہے کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف نہیں آتے ، اور ان کی یہ کیفیت بھی انہیں اللہ کی نا فرمانی کی طرف ہی لے جانے کا سبب بنتی ہے ،
ایسے لوگوں میں سے اُن کی تو بات ہی کیا کیجیے جو اللہ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین سے ناواقف ہوتے ہیں ، اور بس صِرف کہیں سے اللہ کی رحمت و بخشش کی وسعت کا سن کر اُس پر اس قدر یقین کرتے ہیں کہ اپنے کسی بھی گناہ کو اللہ کے عذاب اور سزا کا سبب نہیں جانتے ،
اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی خبروں پر مشتمل ، قرانی آیات اور احادیث شریفہ کو جانتے ہیں ، لیکن اللہ کی ناراضگی ، غصے ، شدید سخت گرفت اور خوفناک عذاب اور سزا پر مشتمل آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ اُن کے اذہان میں نہیں رہتیں ،
میں اگر اللہ کی ناراضگی ، غصے ، شدید ترین گرفت ، خوفناک تکلیف دہ عذاب اور سزا کی خبروں والی آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ ذِکر کرنے لگوں تو یہ مضمون ایک کتاب بن جائے گا ، پس اختصار کے پیش نظر صرف ایک دو آیات اور احادیث ذِکر کرتا ہوں ،
((((( إِنَّ بَطشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ :::بے شک تیرے رب کی گرفت بہت سخت ہے))))) سُورت البروج (85) /آیت 12،
(((((وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ :::اور اللہ سخت قوت والا انتقام لینے والا ہے ))))) سُورت آل عمران (3) /آیت 4،
(((((إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ o مَا لَهُ مِن دَافِعٍ ::: یقیناً آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہنے والا ہے o اُس عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں )))))سُورت الطُور (52) /آیت 7،8،
اللہ پاک نے اِیمان والوں کی صِفات میں اِن دونوں صفات کا ذِکر بھی فرمایا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اِیمان والوں میں یہ دونوں ہی صِفات موجود رہتی ہیں ، اور ایک جیسی رہتی ہیں ، کسی ایک کا مفقود ہو جانا یا کمی یا زیادتی کی طرف مائل ہو جانا اِیمان میں کمی ہوتا ہے
پس اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید یا یقین میں اللہ کے عذاب سے لاپرواہ ہوجانا درست نہیں ، اور نہ ہی اللہ کے عذاب کےخوف میں اُس کی رحمت اور بخشش کی اُمید چھوڑ دینا دُرُست ہے،بلکہ ایک اِیمان والے سے اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید یا یقین رکھنا اور اللہ کی ناراضگی ، غصےاور عذاب سے ڈرنا دونوں ہی مطلوب ہیں ،
(((((نَبِّئ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الغَفُورُ الرَّحِيمُ o وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ العَذَابُ الأَلِيمُ ::: میرے بندوں کو خبر کر دیجیے کہ بے شک میں (اللہ)بہت بخشش والا (اور)رحم کرنے والا ہوں o اور(ساتھ ہی ساتھ)یہ(بھی خبر کیجیے)کہ بے شک میرا عذاب دردناک عذاب ہے)))))سُورت الحجر (15)/آیات 49،50،
دو مقامات پر تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بخشش اور رحمت سے پہلے اپنے عذاب کی یاد دہانی کروائی ہے لہذا اگر میں یہ کہوں کہ اللہ کی بخشش اور رحمت سے پہلے اُس کی طرف سے ملنے والی سزاؤں کو یاد رکھنا چاہیے ، تو قطعا غلط نہ ہو گا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی ہمیں یہ اسلوب بھی سکھایا ہے((((( إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ العِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ::: بے شک آپ کا رب سزا دینے میں بہت تیزی کرنے والا ہے اور بے شک وہ بخشش کرنے والا بہت رحم کرنے والا ہے))))))سُورت الانعام (6) /آیت 165،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ ایک اِرشاد گرامی ہی یہ حقیقت سمجھانے کے لیے بہت کافی ہے کہ اِیمان کی درستگی صِرف اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید یا یقین تک محدود رہتے ہوئے میسر نہیں ہو پاتی بلکہ اللہ سے خوف ہونا بھی ایک لازمی جُز ہے (((((وَاللَّهِ مَا أَدرِى ، وَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ ، مَا يُفعَلُ بِى::: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گا ، اور (جبکہ) میں اللہ کا رسول ہوں )))))صحیح البخاری /حدیث1243/کتاب الجنائز/باب3،
جب اللہ کے سب سے قریبی اور محبوب ترین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ سے اس قدر خوف رکھتے ہیں،
تو کسی اور کو محض اللہ کی رحمت اور بخشش کے خیال میں نہیں رہنا چاہیے ،
چلتے چلتے اللہ کے رسولوں اور نبیوں علیہم السلام کے بعد سب سے بلند ترین رتبوں والی ہستیوں میں سے چند ایک کے خوفء الہی کاکچھ حال بھی بتاتا چلوں ،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور دیگر انبیا ء اور رُسل علیہم السلام کے بعد سب سے قفضل ترین ہستی خلیفہء اول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کہا کرتے تھے """ طُوبىٰ لكِ يا طَير واللهِ لوَددتُ أني كُنتُ مِثلكِ تَقعُ على الشَّجرةِ وتأكلُ مِن الثَّمرَ ثمُّ تَطير ولَيس عليكِ حِسابٌ ولا عَذابٌ::: اے پرندے تمہارے لیے خوش خبری ہے،اللہ کی قسم میری خواہش ہے کہ میں تم جیسا ہوتا ،(کہ تُم ) درختوں پر رہتے ہو اور ان کے پھل کھا کر اُڑجاتے ہو اور تُم پر کوئی حساب ہےاور نہ عذاب ہوگا"""
::::: اُن کے بعد سب سے افضل ترین ہستی خلیفہ دوئم بلا فصل أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ کا کہنا ہے """ والله لَو أن لي طلاع الأرض ذَهباً لأفتديتُ بِهِ مِن عَذاب اللهِ - عزَّ وجلَّ - قَبل أن أراهُ.:::اللہ کی قسم اگر میرے لیے زمین بھر سونا ہوتا تو میں وہ دے کر بھی اللہ عز و جل ّکو دیکھنے سے پہلے سے اُس کے عذاب سےمحفوظ ہو جاتا (کہ اُس کے عذاب کا خوف بہر حال موجود رہتا ہے)"""
اس عبارت کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ """ اللہ عز و جل ّ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے ہی اُس عذاب محفوظ ہو جاتا"""،
دونوں ہی صورتوں میں یہ فرامین، کہنے والے کے دِل میں اللہ کے خوف کی مضبوطی کے ساتھ موجودگی کی دلیل ہے ،
::::: جب أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا آخری وقت قریب تھا ، تو ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ اُن کا سر اپنی گود میں لیے بیٹھے تھے ، أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """اے عبداللہ ، میرا سر زمین رکھ دو """،
عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """ اباجان ، میری گود میں اور زمین پر ہونے میں کیا فرق رہے گا؟ """،
رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے فرمایا """ ::: اے عبداللہ اسے زمین پر رکھ دو،اے عبداللہ اسے زمین پر رکھ دو"""،
اور پھر فرمایا """اگر میرے رب نے مجھ پر رحم نہ کیا تو میری اور میری والدہ کی تباہی ہے"""،
::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اُن کے خوف الہی کے بارے میں اور بھی بہت سے اقوال مروی ہیں ، میں نے اختصار کے پیش نظر صرف شیخین کریمین رضی اللہ عنہما و أرضاھما کے اقوال پیش کیے ہیں ، کہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں دُنیا میں جیتے جی جنتی ہونے کی ضمانت دے دی گئی تھی ، اس کے باوجود وہ اللہ کے سامنے حساب ، اللہ کی ناراضگی اور اللہ کے عذاب سے کس قدر خوف زدہ رہتے تھے ، کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ ہم تو جنتی ہیں ہمیں کیا خوف ؟
اور نہ ہی یہ سوچ رکھتے تھے کہ عذاب کی وعید اِیمان والوں کے لیے تو نہیں ہیں پھر ہمیں اللہ سے خوف کیسا ؟
لیکن ،،،،، ان کے کچھ بعد ہی مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہونے لگے جو اللہ کی رحمت اور بخشش پر اس قدر بھروسے کرنے لگے کہ خود کو جنتی ہی ماننے لگے ، اور اللہ کی طرف سے عذاب کی خبروں کو کفار و مشرکین کے لیے خیال کرنےلگے اور اپنے آپ کو اِیمان والا ہونے کی حیثیت میں اللہ کی ناراضگی ، غصے اور عذاب سے محفوظ سمجھنے لگے محفوظ و مامون سمجھنے لگے ،
جب یہ عقیدہ ظاہر ہوا جسے """ عقیدہ الرجاء """ بھی کہا جاتا ہے ، تو عُلماء حق نے قران و صحیح ثابت شدہ سُنت مبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے جماعت کے اقوال و افعال کے ذریعے اس عقیدے کے غلط ہونے کو واضح کیا ،
اورمجھ جیسے طالب علم انہی علماء کرام رحمہم اللہ و حفظہم اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں یہ معلومات نشر کرتے رہے اور کر رہے ہیں ،
(((((فَذَكِّر إِن نَفَعَتِ الذِّكرَىoسَيَذَّكَّرُ مَن يَخشَىo[FONT=al_mushaf]وَيَتَجَنَّبُهَا الأَشقَى[/FONT]o:::پس آپ یاد دہانی کروایے کہ یاددہانی کروانا فائدہ مند ہےoجلد وہ ہی نصیحت پکڑے گا جو(اللہ سے)ڈرے گا o اور بد نصیب اس سے دور رہے گا o))))) سُورت الاعلیٰ (87) /آیات 9 تا 13
امید ہے کہ اِن شاء اللہ ، یہ مذکورہ بالا معلومات ہر قاری کے لیے یہ واضح کرنے والی ہوں گی کہ اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید یا یقین اور اللہ سے خوف کی دونوں کیفیات کا اعتدال سے موجود ہونا اِیمان کی درستگی کے لیے ضروری ہے،
""" الرجاء """ کو مزید سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی اقسام کا مطالعہ کریں بلکہ انہیں اچھی طرح سمجھ اور جان لیں ،
اِن شاء اللہ ،اگلے مراسلے میں اس موضوع کی تکمیل کرتا ہوں ،
والسلام علیکم۔