• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آزاد کے بدلے آزاد + قصاص ہی میں عافیت ہے ۔ ۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝۰ۭ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى۝۰ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَہٗ مِنْ اَخِيْہِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْہِ بِاِحْسَانٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۸ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۹
مومنو! مقتولوں کا قصاص تم پر فرضکیا گیا ہے۔آزاد۱؎ کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت۔پھرجس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف ہوجائے تو چاہیے کہ دستور کے پیچھے لگے اور اس کی طرف نیکی سے اداکیاجائے۔یہ تمھارے رب کی طرف سے آسانی اور رحمت ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی زیادتی کرے تو اس کو دکھ کا عذاب ہوگا۔(۱۷۸) اور اے عقلمندو! قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے ۔ شاید تم پرہیز گار ہوجاؤ۔(۱۷۹)
آزاد کے بدلے آزاد
۱؎ اسلام سے پہلے قصاص وانتقام کا مفہوم بھی صاف نہیں تھا۔ یہودی اگر قاتل امیر ہوتا توچھوڑدیتے اور اگرغریب ہوتا تو کچھ روپیہ لے کرمعاف کردیتے اور اگرغلام ہوتا توپھر ان کی شریعت نوازی جوش میں آجاتی ،جس کے معنی یہ ہیں کہ تعزیرات کا باب صرف غربا کے لیے ہے اورروپیہ خدا کے قانون میں نرمی پیدا کرسکتا ہے ۔ قریش مکہ بھی اس مذموم ذہنیت سے آلودہ تھے۔ ان کے سردار وصناد یدبھی محض سرمایہ داری کے بل پر تعزیرسے بچ جاتے۔ قرآن حکیم جو عدل وانصاف کا اعلان ہے بھلا کب اس ظلم اور جنبہ داری کو برداشت کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے فرمایا کہ قصاص کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں ۔آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور عزت وسرمایہ کو کوئی درجہ نہ دیاجائے اس لیے کہ خدا کے ہاں سب کا درجہ یکساں ہے ۔ اس کے کسی ایک بندے کو حقوق زندگی سے محروم کردینا بہرحال سزاوار تعزیر ہے ۔
عفو بہتر ہے
قاتل کے ورثاء اگر مقتول کے ورثاء کو کچھ دے دلاکر راضی کرلیں یا مقتول کے ورثاء انتقام نہ لینا چاہیں اور معاف کردیں توفرمایا یہ بہتر ہے۔ مِنْ اَخِیْہِ کہہ کر گویاترغیب دی ہے کہ عام حالات میں معاف کردیا کرو۔اخوت وہمدردی کا یہی تقاضا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام عفو کو بہرحال مقدم سمجھتا ہے ۔بات بھی یہی درست ہے کہ تاحد مقدور حسن سلوک بجائے خود ایک کڑی سزا ہے جس کا اثر نہایت گہرا ہوتا ہے مگر ہرحالت میں نہیں بعض حالات میں۔ وہ طبیعتیں جوشریر اور فتنہ پرداز ہیں وہ کسی طرح معافی سے متاثر نہیں ہوتیں ۔
قصاص ہی میں عافیت ہے
بلکہ بعض دفعہ اس قسم کی نرمی کا اثر ان کے طبائع پر الٹا پڑتا ہے ۔ وہ اس حسن سلوک کو جبن وبزدلی سے تعبیر کرتی ہیں ۔ ان کا علاج بجز انتقام وقصاص کے اور کوئی نہیں۔ تعزیرات کے باب میں اسلام کی خصوصیت دیگر مذاہب سے یہ ہے کہ اس میں عام نفسیات کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے ۔ جن مذاہب میں ''دانت کے بدلے دانت'' کی سزا مقرر ہے اور معافی کے لیے کوئی گنجائش نہیں، وہ بھی فطر ت انسانی سے دور ہیں اور وہ جو ہمیشہ ہمہ عفو ہے ،اسے بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا۔

اسلام میں یہ جامعیت ہے کہ وہ ہرشے کا لحاظ رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بعض دفعہ معاف کردینا نتائج کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور بعض دفعہ سزا دینا ۔جب فطرت انسانی قبول وتاثر کے لحاظ سے مختلف ہے تو پھر ایک سچے فطری مذہب کے لیے اس کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ ''دشمن سے بھی پیار کرو۔'' نہایت اچھے لفظ ہیں۔ یقینا ان سے بلند اخلاق کا اظہار ہوتا ہے لیکن عملی دنیا میں اس پر کہاں تک عمل ہوسکتا ہے ۔ اس کا پتہ لگانا ہوتو یورپ کا موجودہ طرز سیاست دیکھو۔ اس میں جس اصول پر عمل کیا جاتا ہے ، وہ یہ ہے کہ'' دوستوں کو بھی دشمن سمجھو۔'' کیا اس حقیقت کے بعد بھی مسیحی مبلغین اس تعلیم پرناز کریں گے جس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ عیسائیت اور اسلام میں بڑا امتیاز یہ ہے کہ اخلاق وتعزیرات کے بارے میں عیسائیت نے صرف فرد کو ملحوظ رکھا ہے ۔ جماعتی مصالح اس کے پیش نظر نہیں مگراسلام نے فرد وجماعت ہردو کی تکمیل کو مد نظررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات بہرحال قابل عمل ہیں مثلاً یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک کامل اور بردبار انسان شریر کا مقابلہ نہ کرے اور مارکھاتا رہے لیکن شریر سے یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہ بھی شرافت سے متاثر ہوگا ۔ کیا یہ نری سادگی نہیں؟ اور پھر یہ اصول قوموں میں رائج کیسے ہوسکتا ہے ؟یورپ کے مستعمرانہ اعتراض ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ نہی پر عمل کرے۔ یہ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جنھیں عفو وصلح کی تعلیم دی گئی تھی وہی سب سے بڑھ کر ظالم وسفاک ثابت ہوئے ۔ ان کی تاریخ کا ہرورق بربریت ووحشت کا بدترین نمونہ ہے اور وہ جنھیں بقول عیسائیوں کے سوا جہاد اور قصاص کے کچھ سکھایانہیں گیا وہ دنیا میں سب سے زیادہ شائستہ،غیر متعصب اور صلح جو رہے ۔ کیا یہ واقعہ نہیں؟

حل لغات
{اَلْحُرّ}آزاد۔{اَلْعَبْدُ}غلام۔ {اَلْقِصَاص}بدلہ۔مجازات۔انتقام۔
 
Top