makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
آزمائش کی گھڑیوں میں ایک عالم ربانی کا کردار
جناب عبدالمالک مجاہد
میرا نام ابراہیم ہے۔ میں سمندر پر انجن سے چلنے والی چھوٹی شکاری کشتی میں کام کرتا ہوں۔ شیخ محمد بن صالح المنجد میرے دوست ہیں۔ وہ عالم باعمل اور بہت فاضل شخص ہیں۔ وہ شہر الخبر (سعودی عرب) کی سب سے بڑی مسجد کے خطیب دلپذیر ہیں۔ میری ان سے دوستی خاصی دیرینہ ہے۔ ہم لوگ گاہے گاہے سیروتفریح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ اس بار میں نے شیخ صاحب سے اصرار کیا کہ میرے ساتھ سمندر کی سیر کو چلیں۔ سمندر کا جوبن دیکھیں گے اور مچھلی کا شکار کریں گے۔
میرے پرزور اصرار پر شیخ صاحب نے ہامی بھرلی۔ جمعرات کے دن عصر کے بعد کا وقت طے ہوا۔ ہم لوگ ساحل سمندر پر طے شدہ پروگرام کے مطابق پہنچ گئے۔ ان کا تین سالہ بیٹا بھی ہمراہ تھا۔ ہم بلاتاخیر کشتی میں سوار ہوئے اور سمندر میں جااترے۔ سمندر پرسکون تھا، گہرے سمندر میں پہنچے تو میں نے شکار کے لیے کشتی ایک جگہ روک دی اور جال پھینک دیا۔ ایک بڑی مچھلی ہاتھ آئی۔ ننھے انس کی تو مارے ڈر کے چیخیں نکل گئیں۔ میں نے اسے بہلایا اور کہا: فکر مت کرو۔ یہ مچھلی تمہیں کچھ نہیں کہے گی۔ شیخ المنجد بھی اس کی حالت دیکھ کر مسکراتے رہے۔ انہوں نے اسے چوما، پیار کیا تو وہ چپ ہوگیا۔
پھر ہم نے طے کیا کہ ہمیں شکار کی جگہ تبدیل کر لینی چاہیے۔ میں نے کشتی کا انجن اسٹارٹ کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں فوراً ریزر و انجن کی طرف بڑھا، اسے اسٹارٹ کیا اور کشتی کا رخ ساحل کی جانب کردیا۔ کشتی نے واپسی کے سفر کا آغاز کیا ہی تھا کہ مجھے انجن کے جانبی خانے میں پانی کھڑا نظرآیا۔
میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ پانی کشتی میں کیونکر داخل ہوا۔ بہرحال میں نے فوراً شیخ صاحب کو متوجہ کیا اور ہم دونوں پانی نکالنے لگے۔ یکایک کشتی کا توازن بگڑا اور وہ الٹ گئی۔ شیخ صاحب کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ انہوں نے انس کو میری طرف پھینکا۔ اتنے میں تیز لہر آئی اور ہمارے سروں پر سے گزرگئی۔ ہم دوبارہ پانی کی سطح پر ابھرے۔ یہ میری زندگی کے نازک ترین لمحات تھے۔ میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ شیخ صاحب کہاں ہیں؟ میں نے اردگرد نظر دوڑائی، وہ نظر نہیں آئے۔ سخت پریشانی ہوئی، میں ادھر ادھر تیرا۔ آخر عقب میں ایک جگہ وہ پانی کی سطح پر آئے۔ ان کے ہاتھ میں لائف گیلن تھی جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔
جب ہم کشتی سے پانی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے تو اسی افراتفری میں کشتی کا وہ بند ڈبہ کھل گیا تھا جس میں لائف رنگ پڑے تھے۔ چند لائف رنگ پانی کی سطح پر تیر رہے تھے۔ میں نے انہیں دیکھتے ہی ایک لائف رنگ پر ہاتھ ڈالا اور اسے شیخ صاحب کی طرف پھینکا۔ ان کے ایک ہاتھ میں تو لائف گیلن تھی، دوسرے ہاتھ میں انہوں نے لائف رنگ تھام لیا۔ اب ہمیں نہایت تیزی سے ساحل پر پہنچنا تھا اور یہ سفر بدقسمتی سے تیر کر طے کرنا تھا۔
مجھے قوی امید تھی کہ بارڈر سکیورٹی فورس ہماری مدد کو ضرور پہنچے گی۔ یہ نہ ہوا تو سمندری مچھیرے ہماری مدد کو آجائیں گے۔ شیخ صاحب کا ایمان بہت قوی تھا۔ وہ برابر ذکر الٰہی میں مشغول تھے اور مجھے بھی اس کی تلقین کر رہے تھے اور تو اور انہوں نے مجھے پانی میں رہتے ہوئے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتلایا۔ انہوں نے مجھے وصیت کی کہ نماز کا وقت ہو تو نماز ضرور پڑھ لینا۔ ایسے سنگین حالات میں بھی وہ بالکل مطمئن نظر آتے تھے۔
ہم لہروں کے اتار چڑھائو میں ہچکولے کھا رہے تھے۔ مجھے یہ خطرناک احساس ہوا کہ ہم تینوں جلد ہی جدا ہو جائیں گے۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ میری جان جا سکتی تھی۔ انس ڈوب سکتا تھا۔ شیخ صاحب سمندر کی بے پناہ لہروں میں کھو سکتے تھے۔ میں نے ان سے معافی چاہی کہ میں ہی انہیں بہ اصرار سمندر میں لایا تھا، مگر شیخ صاحب راضی بقضاء اور پرسکون تھے۔
مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ میںنے شیخ صاحب کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اسی حالت میں وضو کی نیت باندھی اور سمندر کے پانی میں غوطے کھاتے ہوئے مغرب کی نماز ادا کی۔ رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا۔ شیخ صاحب برابر مجھے اپنی پوزیشن کا پتہ بتا رہے تھے۔ تاہم ہمارا درمیانی فاصلہ رفتہ رفتہ بڑھتا جا رہا تھا۔ سمندر کی تیزلہریں ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہی تھیں۔ آخر شیخ صاحب سے میرا صوتی رابطہ منقطع ہوگیا۔ میں نے جان لیا کہ میری مصیبت بڑھتی جا رہی ہے۔
انس کی صورت میں شیخ صاحب کی قیمتی امانت میرے پاس تھی، خود سے زیادہ مجھے اس کی فکر تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا: بابا کہاں ہیں؟ میں کیا جواب دیتا، وہ رونے لگا۔ میں نے اسے دلاسا دیا اور اللہ کے بھروسے کنارے کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ زبان پر اللہ کا ذکر جاری تھا۔ معاً انس چلایا: میرا جوتا گرپڑا۔ مجھے میرا جوتا چاہیے۔ وہ ضد پر اتر آیا۔ میں نے قدرے جھنجلا کر کہا: تمہارا جوتا سمندر میں چلا گیا ہے۔ اب وہ واپس نہیں آسکتا۔ ہم تمہیں نیا جوتا دلا دیں گے، لیکن وہ برابر روتا رہا۔ میں نے غصے میں آ کر اس کا دوسرا جوتا بھی اتارا اور سمندر میں پھینک دیا۔ تب وہ ایک دم خاموش ہوگیا۔
عشاء کا وقت ہوا تو میں نے اسی حالت میں عشاء کی نماز ادا کی۔ مصائب آدمی کا دل بیدار کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میرا دل بھی خواب غفلت سے بیدار ہو چکا تھا۔ کنارے کی جانب میرا سفر تیزی سے جاری تھا۔ انس ایک مرتبہ پھر چلایا۔ چچا وہ دیکھیے بہت بڑی مچھلی۔ مارے خوف کے میری رگوں میں خون منجمد ہونے لگا۔ میں نے متوقع خطرات سے اللہ کی پناہ چاہی اور انس سے اس مچھلی کے بارے میں پوچھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ یہ خلیج کی خونخوار مچھلی ''قرش'' ہے جو ہمیں لقمہ بنانے آ رہی ہے۔
اس نے بتایا کہ مجھے وہ مچھلی اپنے عقب میں بے حد قریب نظر آئی ہے۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اردگرد دیکھا، مچھلی کہیں نظر نہ آئی۔
پھر یہ سوچ کر مجھے قدرے اطمینان ہوا اور میں مسکرایا کہ انس دراصل میرے تیرتے ہوئے ننگے پیروں کو مچھلی سمجھا ہے۔ مجھے تیرتے ہوئے کئی گھنٹے گزرچکے تھے۔ بدن تھکاوٹ سے چور تھا۔ سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ میرے کندھوں پر سوار تین سالہ انس کبھی بے ہوش ہو جاتا اور کبھی ہوش میں آ کر چلانے لگتا۔ اتنے میں فجر کی اذان سنائی دی۔ میں نے تمام رات سمندر میں تیرتے ہوئے گزاردی تھی۔ آخر سورج کے طلوع ہوتے ہی میں کنارے پر جا پہنچا۔ انس کو کندھوں سے اتار کر ریت پر لٹایا۔ خود بھی ریت پر لیٹ گیا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ میں جس جگہ کنارے پر لگا تھا وہاں لوگوں کی چہل پہل نہیں تھی۔ وہ جگہ سیرگاہ سے بہت دور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ذرا سستا کر بندرگاہ کی طرف جانا اور بارڈر سکیورٹی فورس کو شیخ صاحب کے بارے میں بتانا ہے تا کہ انہیں تلاش کیاجاسکے۔ اتنے میں ایک گاڑی اس طرف آتی دکھائی دی، وہ ہمارے قریب آ کر رک گئی۔ گاڑی میں سے ایک صاحب برآمد ہوئے اور ہماری طرف بڑھے۔
مجھ سے پوچھا: آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہم کل عصر کے بعد سمندر میں ڈوب گئے تھے، اب تیرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔
وہ بے حد خوش ہوئے۔ بولے میں نے آپ کو دور سے کنارے کی طرف آتے دیکھا تو کوئی سمندری مخلوق سمجھا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ہفتے بھر میں ایک دفعہ سمندری شکار کے لیے یہاں ضرور آتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور لمبی مسافت طے کرنے کے بعد بارڈر سکیورٹی آفس پہنچا دیا۔
سکیورٹی آفس پہنچنے ہی ہمیں ابتدائی طبی امداد کے لیے مختص وارڈ میں لے جایا گیا۔ طویل تگ و دو کے بعد پانی کا گھونٹ نصیب ہوا تو میں نے بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا۔ پانی واقعی بہت لذیذ معلوم ہوا۔ انہوں نے ہم دونوں کو غذائی ڈرپ لگادی۔ سکیورٹی آفس کے کمانڈنگ آفیسر کو اطلاع ملی تو وہ دوڑے آئے۔ بڑے خوش اخلاق اور نرم خو آدمی تھے۔ انہوں نے ہماری بات سنی اور ڈھارس بندھائی۔ میں نے انہیں شیخ صاحب کے متعلق بتایا۔ انہوں نے فوری طور پر سرچنگ پارٹیوں کو آرڈر دیا کہ شیخ صاحب کو ہرحال میں تلاش کیا جائے۔
مجھے شیخ صاحب کی پوزیشن کا علم تو نہیں تھا البتہ میں نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ہاتھ میں لائف گیلن اور دوسرے ہاتھ مین لائف رنگ تھامے ہوئے ہیں۔
سرچنگ پارٹیاں سمندر میں ہر طرف پھیل گئیں۔ غوطہ خوروں نے غوطے لگائے۔ گھنٹے بھر کی تلاش بسیار کے بعد شیخ صاحب کا سراغ مل گیا۔ خوش قسمتی سے وہ زندہ اور صحیح سلامت تھے۔ مجھے بے حد خوشی کا احساس ہوا۔
میں کمانڈنگ آفیسر اور آفس کے بعض دیگر عہدیداران کے ہمراہ شیخ صاحب کے استقبال کو نکلا۔ وہ ساحل پر آتے ہی قبلہ رو ہوئے اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ یہ خیال مجھے نہیں آیا تھا۔ چنانچہ میں نے بھی ان کے ساتھ سجدۂ شکر ادا کیا۔ انہوں نے فرداً فرداً سب سے معانقہ کیا۔ آخر میں وہ انس کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور اسے سینے سے لگالیا۔ جان لیوا حادثے کے بعد باپ بیٹے کی ملاقات کا منظر دیدنی تھا۔ میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مجھے پچھتاوے کے دائمی احساس سے بچالیا۔ (من کتاب رھائن البحر، للکاتب ابراھیم ابی لجین)
جناب عبدالمالک مجاہد
میرا نام ابراہیم ہے۔ میں سمندر پر انجن سے چلنے والی چھوٹی شکاری کشتی میں کام کرتا ہوں۔ شیخ محمد بن صالح المنجد میرے دوست ہیں۔ وہ عالم باعمل اور بہت فاضل شخص ہیں۔ وہ شہر الخبر (سعودی عرب) کی سب سے بڑی مسجد کے خطیب دلپذیر ہیں۔ میری ان سے دوستی خاصی دیرینہ ہے۔ ہم لوگ گاہے گاہے سیروتفریح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ اس بار میں نے شیخ صاحب سے اصرار کیا کہ میرے ساتھ سمندر کی سیر کو چلیں۔ سمندر کا جوبن دیکھیں گے اور مچھلی کا شکار کریں گے۔
میرے پرزور اصرار پر شیخ صاحب نے ہامی بھرلی۔ جمعرات کے دن عصر کے بعد کا وقت طے ہوا۔ ہم لوگ ساحل سمندر پر طے شدہ پروگرام کے مطابق پہنچ گئے۔ ان کا تین سالہ بیٹا بھی ہمراہ تھا۔ ہم بلاتاخیر کشتی میں سوار ہوئے اور سمندر میں جااترے۔ سمندر پرسکون تھا، گہرے سمندر میں پہنچے تو میں نے شکار کے لیے کشتی ایک جگہ روک دی اور جال پھینک دیا۔ ایک بڑی مچھلی ہاتھ آئی۔ ننھے انس کی تو مارے ڈر کے چیخیں نکل گئیں۔ میں نے اسے بہلایا اور کہا: فکر مت کرو۔ یہ مچھلی تمہیں کچھ نہیں کہے گی۔ شیخ المنجد بھی اس کی حالت دیکھ کر مسکراتے رہے۔ انہوں نے اسے چوما، پیار کیا تو وہ چپ ہوگیا۔
پھر ہم نے طے کیا کہ ہمیں شکار کی جگہ تبدیل کر لینی چاہیے۔ میں نے کشتی کا انجن اسٹارٹ کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں فوراً ریزر و انجن کی طرف بڑھا، اسے اسٹارٹ کیا اور کشتی کا رخ ساحل کی جانب کردیا۔ کشتی نے واپسی کے سفر کا آغاز کیا ہی تھا کہ مجھے انجن کے جانبی خانے میں پانی کھڑا نظرآیا۔
میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ پانی کشتی میں کیونکر داخل ہوا۔ بہرحال میں نے فوراً شیخ صاحب کو متوجہ کیا اور ہم دونوں پانی نکالنے لگے۔ یکایک کشتی کا توازن بگڑا اور وہ الٹ گئی۔ شیخ صاحب کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ انہوں نے انس کو میری طرف پھینکا۔ اتنے میں تیز لہر آئی اور ہمارے سروں پر سے گزرگئی۔ ہم دوبارہ پانی کی سطح پر ابھرے۔ یہ میری زندگی کے نازک ترین لمحات تھے۔ میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ شیخ صاحب کہاں ہیں؟ میں نے اردگرد نظر دوڑائی، وہ نظر نہیں آئے۔ سخت پریشانی ہوئی، میں ادھر ادھر تیرا۔ آخر عقب میں ایک جگہ وہ پانی کی سطح پر آئے۔ ان کے ہاتھ میں لائف گیلن تھی جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔
جب ہم کشتی سے پانی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے تو اسی افراتفری میں کشتی کا وہ بند ڈبہ کھل گیا تھا جس میں لائف رنگ پڑے تھے۔ چند لائف رنگ پانی کی سطح پر تیر رہے تھے۔ میں نے انہیں دیکھتے ہی ایک لائف رنگ پر ہاتھ ڈالا اور اسے شیخ صاحب کی طرف پھینکا۔ ان کے ایک ہاتھ میں تو لائف گیلن تھی، دوسرے ہاتھ میں انہوں نے لائف رنگ تھام لیا۔ اب ہمیں نہایت تیزی سے ساحل پر پہنچنا تھا اور یہ سفر بدقسمتی سے تیر کر طے کرنا تھا۔
مجھے قوی امید تھی کہ بارڈر سکیورٹی فورس ہماری مدد کو ضرور پہنچے گی۔ یہ نہ ہوا تو سمندری مچھیرے ہماری مدد کو آجائیں گے۔ شیخ صاحب کا ایمان بہت قوی تھا۔ وہ برابر ذکر الٰہی میں مشغول تھے اور مجھے بھی اس کی تلقین کر رہے تھے اور تو اور انہوں نے مجھے پانی میں رہتے ہوئے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتلایا۔ انہوں نے مجھے وصیت کی کہ نماز کا وقت ہو تو نماز ضرور پڑھ لینا۔ ایسے سنگین حالات میں بھی وہ بالکل مطمئن نظر آتے تھے۔
ہم لہروں کے اتار چڑھائو میں ہچکولے کھا رہے تھے۔ مجھے یہ خطرناک احساس ہوا کہ ہم تینوں جلد ہی جدا ہو جائیں گے۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ میری جان جا سکتی تھی۔ انس ڈوب سکتا تھا۔ شیخ صاحب سمندر کی بے پناہ لہروں میں کھو سکتے تھے۔ میں نے ان سے معافی چاہی کہ میں ہی انہیں بہ اصرار سمندر میں لایا تھا، مگر شیخ صاحب راضی بقضاء اور پرسکون تھے۔
مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ میںنے شیخ صاحب کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اسی حالت میں وضو کی نیت باندھی اور سمندر کے پانی میں غوطے کھاتے ہوئے مغرب کی نماز ادا کی۔ رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا۔ شیخ صاحب برابر مجھے اپنی پوزیشن کا پتہ بتا رہے تھے۔ تاہم ہمارا درمیانی فاصلہ رفتہ رفتہ بڑھتا جا رہا تھا۔ سمندر کی تیزلہریں ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہی تھیں۔ آخر شیخ صاحب سے میرا صوتی رابطہ منقطع ہوگیا۔ میں نے جان لیا کہ میری مصیبت بڑھتی جا رہی ہے۔
انس کی صورت میں شیخ صاحب کی قیمتی امانت میرے پاس تھی، خود سے زیادہ مجھے اس کی فکر تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا: بابا کہاں ہیں؟ میں کیا جواب دیتا، وہ رونے لگا۔ میں نے اسے دلاسا دیا اور اللہ کے بھروسے کنارے کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ زبان پر اللہ کا ذکر جاری تھا۔ معاً انس چلایا: میرا جوتا گرپڑا۔ مجھے میرا جوتا چاہیے۔ وہ ضد پر اتر آیا۔ میں نے قدرے جھنجلا کر کہا: تمہارا جوتا سمندر میں چلا گیا ہے۔ اب وہ واپس نہیں آسکتا۔ ہم تمہیں نیا جوتا دلا دیں گے، لیکن وہ برابر روتا رہا۔ میں نے غصے میں آ کر اس کا دوسرا جوتا بھی اتارا اور سمندر میں پھینک دیا۔ تب وہ ایک دم خاموش ہوگیا۔
عشاء کا وقت ہوا تو میں نے اسی حالت میں عشاء کی نماز ادا کی۔ مصائب آدمی کا دل بیدار کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میرا دل بھی خواب غفلت سے بیدار ہو چکا تھا۔ کنارے کی جانب میرا سفر تیزی سے جاری تھا۔ انس ایک مرتبہ پھر چلایا۔ چچا وہ دیکھیے بہت بڑی مچھلی۔ مارے خوف کے میری رگوں میں خون منجمد ہونے لگا۔ میں نے متوقع خطرات سے اللہ کی پناہ چاہی اور انس سے اس مچھلی کے بارے میں پوچھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ یہ خلیج کی خونخوار مچھلی ''قرش'' ہے جو ہمیں لقمہ بنانے آ رہی ہے۔
اس نے بتایا کہ مجھے وہ مچھلی اپنے عقب میں بے حد قریب نظر آئی ہے۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اردگرد دیکھا، مچھلی کہیں نظر نہ آئی۔
پھر یہ سوچ کر مجھے قدرے اطمینان ہوا اور میں مسکرایا کہ انس دراصل میرے تیرتے ہوئے ننگے پیروں کو مچھلی سمجھا ہے۔ مجھے تیرتے ہوئے کئی گھنٹے گزرچکے تھے۔ بدن تھکاوٹ سے چور تھا۔ سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ میرے کندھوں پر سوار تین سالہ انس کبھی بے ہوش ہو جاتا اور کبھی ہوش میں آ کر چلانے لگتا۔ اتنے میں فجر کی اذان سنائی دی۔ میں نے تمام رات سمندر میں تیرتے ہوئے گزاردی تھی۔ آخر سورج کے طلوع ہوتے ہی میں کنارے پر جا پہنچا۔ انس کو کندھوں سے اتار کر ریت پر لٹایا۔ خود بھی ریت پر لیٹ گیا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ میں جس جگہ کنارے پر لگا تھا وہاں لوگوں کی چہل پہل نہیں تھی۔ وہ جگہ سیرگاہ سے بہت دور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ذرا سستا کر بندرگاہ کی طرف جانا اور بارڈر سکیورٹی فورس کو شیخ صاحب کے بارے میں بتانا ہے تا کہ انہیں تلاش کیاجاسکے۔ اتنے میں ایک گاڑی اس طرف آتی دکھائی دی، وہ ہمارے قریب آ کر رک گئی۔ گاڑی میں سے ایک صاحب برآمد ہوئے اور ہماری طرف بڑھے۔
مجھ سے پوچھا: آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہم کل عصر کے بعد سمندر میں ڈوب گئے تھے، اب تیرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔
وہ بے حد خوش ہوئے۔ بولے میں نے آپ کو دور سے کنارے کی طرف آتے دیکھا تو کوئی سمندری مخلوق سمجھا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ہفتے بھر میں ایک دفعہ سمندری شکار کے لیے یہاں ضرور آتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور لمبی مسافت طے کرنے کے بعد بارڈر سکیورٹی آفس پہنچا دیا۔
سکیورٹی آفس پہنچنے ہی ہمیں ابتدائی طبی امداد کے لیے مختص وارڈ میں لے جایا گیا۔ طویل تگ و دو کے بعد پانی کا گھونٹ نصیب ہوا تو میں نے بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا۔ پانی واقعی بہت لذیذ معلوم ہوا۔ انہوں نے ہم دونوں کو غذائی ڈرپ لگادی۔ سکیورٹی آفس کے کمانڈنگ آفیسر کو اطلاع ملی تو وہ دوڑے آئے۔ بڑے خوش اخلاق اور نرم خو آدمی تھے۔ انہوں نے ہماری بات سنی اور ڈھارس بندھائی۔ میں نے انہیں شیخ صاحب کے متعلق بتایا۔ انہوں نے فوری طور پر سرچنگ پارٹیوں کو آرڈر دیا کہ شیخ صاحب کو ہرحال میں تلاش کیا جائے۔
مجھے شیخ صاحب کی پوزیشن کا علم تو نہیں تھا البتہ میں نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ہاتھ میں لائف گیلن اور دوسرے ہاتھ مین لائف رنگ تھامے ہوئے ہیں۔
سرچنگ پارٹیاں سمندر میں ہر طرف پھیل گئیں۔ غوطہ خوروں نے غوطے لگائے۔ گھنٹے بھر کی تلاش بسیار کے بعد شیخ صاحب کا سراغ مل گیا۔ خوش قسمتی سے وہ زندہ اور صحیح سلامت تھے۔ مجھے بے حد خوشی کا احساس ہوا۔
میں کمانڈنگ آفیسر اور آفس کے بعض دیگر عہدیداران کے ہمراہ شیخ صاحب کے استقبال کو نکلا۔ وہ ساحل پر آتے ہی قبلہ رو ہوئے اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ یہ خیال مجھے نہیں آیا تھا۔ چنانچہ میں نے بھی ان کے ساتھ سجدۂ شکر ادا کیا۔ انہوں نے فرداً فرداً سب سے معانقہ کیا۔ آخر میں وہ انس کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور اسے سینے سے لگالیا۔ جان لیوا حادثے کے بعد باپ بیٹے کی ملاقات کا منظر دیدنی تھا۔ میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مجھے پچھتاوے کے دائمی احساس سے بچالیا۔ (من کتاب رھائن البحر، للکاتب ابراھیم ابی لجین)