الطاف الرحمن
رکن
- شمولیت
- جنوری 13، 2013
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 64
آپ کیوں بگڑ بیٹھے بات تھی زمانے کی؟
تحریر : وسیم المحمدی
-----------------------
پڑھنا لکھنا بہت مبارک اور عمدہ عمل ہے،اس سے ذہن کی تربیت اور فکر کی نشو نما ہوتی ہے، فکر کا چشمہ رواں دواں رہتا ہے اور اس کے سوتے خشک ہونے کے بجائے اپنا بہاؤ مزید تیزی سے جاری وساری رکھتے ہیں۔ لکھنا بہت جلیل القدر اور عظیم عمل ہے،اس سے انسان بذات خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی مستفید کرتا ہے۔
ویسے تو قلم کی اہمیت ہر زمانے میں مسلم رہی ہے اور لکھنے والوں کی اہمیت وعظمت کو ہر دور میں تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ کی کثرت اور ترسیل معلومات کے متعدد طریقوں نے اس کی اہمیت وافادیت کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیا ہے کیونکہ ہر آدمی اس لیے لکھتا ہے کہ اس کی تحریر کو پڑھا جائے، لہٰذا اس کی تحریر جتنی زیادہ پڑھی جائے گی اس کا یہ ہدف احسن طریقے سے پورا ہوگا۔ ظاہر ہے انٹرنیٹ کی لا محدود دنیا اور سوشل میڈیا کے متعدد ذرائع نے یہ چیز اتنی آسان اور تیز کر دی ہے کہ چند ساعتوں میں آدمی اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ جہاں اس سہولت نے ایک لکھنے والے کو حوصلہ بخشا ہے وہیں اس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ بڑھا دی ہیں،اور قلم کے تئیں اس کو مزید سنجیدہ اور ذمہ دار بنا دیا ہے۔ کیونکہ جس تحریر کو کل سو دوسو اور ہزار لوگ پڑھتے، اس سے فائدہ اٹھاتے اور اس کو تنقیدی نگاہ سے پرکھتے تھےاب اس کو ہزاروں اور لاکھوں لوگ پڑھتے اور پرکھتے ہیں۔ پھر قلم بذات خود ایک بہت بڑی امانت ہے جو صاحب قلم کے گردن میں پڑی ہوتی ہے اور اس سے بخوبی عہدہ بر ہونا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں صحافت اور میڈیا کی اکثریت یرغمال بن کر رہ گئی ہے اور اکثر ذرائع ابلاغ اور قلم کار ایک مخصوص فکر کے تابع ہوتے ہیں، چاہے وہ حکومت اور سرکاری سطح کی بات ہو،یا ذاتی وانفرادی سوچ، اس سے باہر نکل کر لکھنا اور لوگوں کو صحیح معلومات فراہم کرنا بہت ہی مشکل سےانجام پاتا ہے۔ اور بدقسمتی سے بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی تعمیری مقصد کو لے کر، ذاتیت سے پرے ہوکر اور شہرت طلبی، ریا کاری، خود پسندی، مجاملت وچاپلوسی،بے جا مدح سرائی نیز تنقید برائے تنقید وتجریح کے مکروہ حصار سے نکل کر لوگوں کو معلومات فراہم کرنے یا اپنی عمدہ آراء کو دوسروں تک پہنچانے کی قابل ستائش کوشش کرتے ہیں اور جب سے سوشل میڈیا میں فیس بک، واٹساپ، ٹیلیگرام اور میسینجر نیز بعض دیگر ذرائع کا بازار گرم ہوا ہے تب سے تو ہر آدمی معلومات کے موتی بکھیرنے اور اپنے اقوال زریں نشر کرنے میں اس طرح لگا ہوا ہے کہ اس کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ قلم کتنی بڑی امانت ہے اور اس کی یہ تحریر مع اس کی نیت کے اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ریکارڈ ہوتی اور فرمان الٰہی : (وکل صغیر وکبیر مستطر) کے ضمن میں آتی ہے۔ اور جو وقت وہ اپنی خامہ فرسائی میں صرف کر رہا ہے وہ اس کے عمر کا بیش قیمت حصہ ہے جو لوٹ کر آنے والا نہیں!
بعض لوگوں کو لکھنے کی لت ہوتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بیماری ہوتی ہے۔ جو پایا لکھ دیا، جہاں پایا لکھ دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ دل ودماغ کا سارا کوڑا کرکٹ اٹھا کر سب کے سامنے رکھ دیا ہے کہ لیجیے برداشت کیجیے۔ علم میں رسوخ نہیں، شعور میں پختگی نہیں، مگر لکھنے کا جنون اتنا کہ جو بھی دل میں کھٹکا اسے لکھنے کے لیے بے تاب۔ ایسے لوگوں کو شاید یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ وہ علم کے موتی بکھیر رہے ہیں یا افکار عالیہ کی نشر واشاعت کر رہے ہیں جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنے اس جذبے کی (جس کے پیچھے عموماً خود نمائی، شہرت طلبی،بے جا تعریف پسندی جیسی مختلف نیتیں پنہاں ہوتی ہیں) تسکین کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ مشق کے لیے ایک ڈائری یا دفتر بنا لیں اور ایک معقول حد تک ابتدا میں اسی کو مشق ستم بنائیں۔ اور جب دھیرے دھیرے تحریر میں پختگی آجائے، علم میں رسوخ ہوجائے، گفتگو کا سلیقہ سیکھ لیں اور معتمد ومجرب نیز کہنہ مشق اصحاب اس کی تصدیق کردیں تو اسے نشر کریں۔
اسی لیے اپنی تحریر کے تئیں ایک اچھے کاتب کا مخلص ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس اخلاص کے کئی پہلو اور مختلف جوانب ہوتے ہیں اور ان میں ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں کاتب جو کچھ لکھ رہا ہے وہ اس کے دل کی وہ آواز ہے جو وہ قارئین تک پہنچانا چاہتا ہے؟ اور کیا صحیح معنوں میں اس کی اس تحریر کی لوگوں کو اس وقت ضرورت ہے؟ اسی طرح کیا اس کی تحریر علمی ثقافتی معاصرانہ ضرورت اور معیاری اسلوب کے اس درجہ تک پہنچ رہی ہے کہ اسے وہ نشر کرے؟ کوئی بھی کاتب اگر اپنے اور اپنی تحریر کے تئیں مخلص ہو کر یہ بات سوچے تو بآسانی وہ صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔ مگر اکثر اوقات خودنمائی کی عادت اور شہرت طلبی نیز اپنے ہی جیسے یا اپنے سے کم تر لوگوں کی واہ واہی کی شہوت اسے اندھا کر دیتی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی یہ تحریریں لوگوں میں اس کا مقام ومرتبہ بڑھا رہی ہیں جبکہ ایسے عجلت پسند حضرات خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ذکر خیر اور حسن سمعت پر کلہاڑا چلا دیتے ہیں۔ اور اگر بعد میں وہ عمدہ تحریریں بھی پیش کریں تو اہل علم اس کو نظر انداز کردیتے ہیں اور پڑھنے سے گریز کرتے ہیںکیونکہ کاتب کا ایک تصور ان کے دلوں میں اس کی ابتدائی تحریروں سے ہی بیٹھ جاتا ہے جو پھر مشکل سے ہی نکلتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے انسان اپنی تحریروں سے پہچانا جاتا ہے پھر اس کی تحریریں اس سے پہچانی جاتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی کاتب کی شروعات بہت زوردار اور بہترین ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی ابتدائی تحریروں سے پہچان لیا جائے اور پھر اس کی تحریروں کا وہ خود تعارف بنے۔ اسی طرح وہ تحریریں اس کی شخصیت کا غماز بھی ہوتی ہیں اور عموماً کسی کی شخصیت کے تئیں پہلا تصور ہی اصل ہوتا ہے، اس لیے ہر لکھنے والے کو قاری کے سامنے اپنا بہترین تصور پیش کرنا چاہیے۔
لکھتے وقت ہمیشہ ایک لکھنے والے کے یہاں تعمیری پہلو غالب ہونا چاہیے اور اس کی نگاہ ہمیشہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ اس کی تحریر سے قوم وملت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ قوم کو پانی کی ضرورت ہے اورہم اسے چائے پیش کر رہے ہیں؟ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ہم پانی کی انتظامی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ایک کثیر تعداد میں احباب کی تحریروں کا یہی حال ہے۔ کوئی ناسمجھ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدے( جس میں عبرت کم اور خودنمائی وشہرت پسندی زیادہ ہوتی ہے) نشر کر رہا ہے، کوئی بے سروپیر کی پھسپھسی غزلیں اور معاشقوں کی کہانیاں لکھ رہا ہے، کوئی نظمیں لکھ لکھ کر اپنے لطیف احساسات اور عشقیہ مزاج کی ترجمانی کر رہا ہے توکوئی اپنا حال دل نظم ونثر کے حوالے کرکے سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا ہے۔ ایسی تحریروں کو دیکھ کر بارہا یہ خیال آتا ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ پوری ملت حالت جنگ میں ہے ان دیوانوں کو کچھ اور نہیں ملتا۔ اگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کچھ صلاحیت دی ہے تو پھر تعمیری پہلو مد نظر کیوں نہیں ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسب مصلحت بسا اوقات کاتب کوئی تحریر کسی خاص یا محدود حلقے کے لیے بھی لکھتا ہے، یہ اچھی بات ہے اور اسے غلط نہیں کہا جاسکتا۔ مگر ایک کامیاب کاتب کی اصل ترکیز قوم کی عام حاجت اور ایک باشعور صاحب قلم کی نگاہ ملت کی معاصر ضرورت پر ہوتی ہے۔ اور یہ تو بڑے ظلم اور ناانصافی کی بات ہوگی کہ لکھنے والا کسی محدود یا مخصوص حلقے کے لیے تو لکھے مگر قوم کی عام اور معاصر ضرورت سے یکسر چشم پوشی کرے یا اس کی توجہ اِدھر کم اور اُدھر زیادہ ہو۔
اسی طرح ضرورت میں بھی اولویات پر نگاہ ہونی چاہیے۔ بسا اوقات ایک قوم کی متعدد ضروریات ہوتی ہیں، ایسی حالت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اہم ضروریات کیا ہیں اور زیادہ عنایت کا مستحق کون سا موضوع ہے۔ اسی اعتبار سے موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے۔ موضوع چاہے دینی ہو یا علمی، سیاسی ہو یا سماجی، ثقافتی ہو یا تہذیبی وتمدنی اگر تعمیری پہلو ذہن سے اوجھل ہے تو یاد رکھئے ایک لکھنے والا اپنے دل کی تسکین تو کر سکتا ہے مگر قوم وملت کو صحیح معنوں میں فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
البتہ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ لکھنے والا بہت باشعور اور مثقف ہو، حالات حاضرہ پر اس کی نگاہ ہو، قوم وملت کے دینی، ملی، ثقافتی، اجتماعی، سیاسی اور دیگر حالات سے واقف ہو نیز مختلف مجالات اور متنوع قومی وملی، ملکی وغیر ملکی حالات، ضروریات اورحاجات سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان میں موازنہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، یا کم از کم ایک مقبول حد تک ان میں موازنہ کر سکتا ہو۔ عین ممکن ہے کہ کاتب کا کوئی خاص مجال ہو۔ وہاں بھی اسے قوم کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے اور تعمیری پہلو کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے۔ اب اگر اس کا مجال ایسا ہے جو قوم کے معاصرانہ اہم ضروریات وحاجات سے میل نہیں کھاتا تو اسے اس کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے!
کسی بھی موضوع پر لکھتے وقت ایک کاتب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تعصب سے بالا تر ہو کر پوری موضوعیت کے ساتھ ایک منصف وجج کی طرح لکھے اور حقیقت پسندی کے ساتھ زیر تحریر موضوع کا حق ادا کرے۔ اس کا تبصرہ، اس کا تجزیہ، اس کے احکام وقرارات، ذاتی سوچ اور شخصی میلان کے ترجمان ہونے کے بجائے دلائل وقرائن اور شواہد وادلہ کے تابع ہوں۔ اس کا قلم مصلحت پسندی ومفاد پرستی کے آگے سجدہ ریز ہونے کے بجائے حق کا مساند ہو۔ اس کے قلم کی سیاہی مجاملت، چاپلوسی اور مصلحت کوشی کے بجائے حق کےرنگ پانی سے مرکب ہو۔ اور اس کا مقصد حق کی نشر واشاعت ، اس کا ساتھ اور اس کا تعاون ہو۔ یہ عیب کی بات نہیں کہ ایک شخص نہ لکھے مگر یہ بہت بڑے عیب کی بات ہوگی کہ قلم جیسی عظیم شیء صراط مستقیم سے بھٹک کر کسی مصلحت کے آگے اوندھے منہ گر پڑے!
موضوعیت کے ساتھ ساتھ امانت بہت بڑی چیزہے۔ عموماً لکھنے والا کسی نہ کسی سے استفادہ کرتا ہے، کسی کی تحریر سے کچھ اہم باتیں نقل کرتا ہے، یا اس کے بعض افکار پر اپنے مضمون یا مقالے کی بنیاد رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک کاتب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے، احالہ دے اور مصدر ومرجع بیان کرے۔ عموماًچھوٹے مضامین میں مقالات وبحوث کی طرح احالے کا رواج اور اس کی گنجائش نہیں ہوتی مگر ایک امین کاتب بڑی زیرکی اور خوش اسلوبی سے کبھی صراحتاً کبھی اشارتاً اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتا ہے مگر زیادہ چالاک اور ہوشیار کُتّاب ایسی جگہوں سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے یہ ان کی ذاتی معلومات یا شخصی افکار کے جواہر ہیں جو انھوں نے قاری کے لیے قید تحریر کیے ہیں۔
کسی بھی تحریر کی ایک اہم خصوصیت صاحب تحریر کی شخصیت ہے جو اس کی تحریر سے جھلکتی اور چھلکتی ہے۔ اس کی یہ شخصیت موضوع کے حسن انتخاب، معلومات کی تنظیم وترتیب، مختلف افکار کو یکجا کرنے کے سلیقے، الفاظ وتراکیب کی فصاحت وبلاغت، تحریر کی علمیت اور اس کی گہرائی وگیرائی، موضوع کا بہترین معالجہ، اس کے بے لاگ اور سدید تبصروں نیز اس کے دقیق تجزیوں اور ان مخصوص آراء وافکار سے ظاہر ہوتی ہے جنھیں وہ دوران تحریر اپنے مضمون میں جا بجا انتہائی زیرکی اورذکاوت سے اس طرح جگہ دیتا ہے کہ قاری کو ان سے نہ کاتب کی انانیت اور خودنمائی کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے متکبرانہ مزاج کی بدبو آتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات موضوع کی علمیت اور اس کی گہرائی ہی صاحب تحریر کی شخصیت کی بھر پور ترجمانی کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایک کامیاب کاتب کی شخصیت اس کی تحریروں میں اس طرح رچی بسی ہوتی ہے کہ اہل ذوق مجرد تحریر سے اس کے لکھنے والے کو جان لیتے ہیں اور تحریر کا اسلوب نیز اس کا رنگ وڈھنگ خود ہی بولنے لگتا ہے کہ میں فلاں کے قلم سے نکلی ہوں۔
مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض ناسمجھ یا کم سمجھ حضرات اپنی تحریروں میں نہ صرف ’’میں‘‘ اور’’ ہم‘‘ کی بھر مار کرکے اس کی رونق اور وقار کو داؤ پر لگا دیتے ہیں بلکہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسی کو وہ اپنی تحریروں میں اپنی شخصیت کے ظہور کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ یہ چیز نہ صرف مضمون کو بدنما کردیتی ہے بلکہ صاحب تحریر کے تعلق سے بھی قاری کے ذہن میں عموماً ایک غلط تاثر پیدا کر دیتی ہے جو بدقسمتی سےاس کی تحریر اور پھر اس کی ذات سے تنفر کا سبب بنتا ہے اور بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ ایسے حضرات عموماً اپنی علمیت، طرز تحریر، تبصروں وتجزیوں اور دیگر مثبت امور کے ذریعے تو مضمون پر اپنی چھاپ نہیں چھوڑ سکتے مگر ان کا تو تو میں میں اور تم تم ہم ہم ان کی تحریر میں جابجا نظر آئے گا بلکہ وہی نظر آتا ہے اور باقی چیزیں اسی میں میں کے گرد وغبار میں چھپ کر رہ جاتی ہیں۔ اور بلا شبہ یہ چیز قاری کو تحریر کی طرف مائل کرنے کے بجائے اس سے مزید متنفر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ایسے ہم اور میں والے حضرات ایک قسم کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی اکثر تحریریں میں اور ہم سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ اور اس طرح مضمون نہ صرف اپنی ایک اہم خصوصیت تواضع وانکساری ومتانت وسنجیدگی سے خالی ہوجاتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بھونڈے انداز کو اپنا کر صاحب تحریر خود اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریرپر آری چلا دیتا ہے۔
بلا شبہ بعض اوقات ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ کی ایک لذت ہوتی ہے اور ایسا مقام آجاتا ہے جب میں اور ہم کے علاوہ کچھ جمتا ہی نہیں مگر پہلی بات تو یہ کہ اس کا ایک محدود دائرہ اور خاص محل ومقام ہوتا ہے جسے اہل فن وبصیرت ہی خوب جانتے اور اس کو استعمال کرتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس مقام پر پہنچ کر یہ اسلوب صاحب تقریر وتحریر کی زبان وقلم سے اچھا لگتا ہے وہ ایک بہت ہی خاص مقام ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا بلکہ عمر کا ایک بیش قیمت حصہ اس پرخار وپرمشقت وادی کی خاک چھاننے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ پھر جب ایک شخص علم وثقافت اور شخصیت کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو چاہے وہ ہم کہے یا میں، تو کہے یا تم، اس کے منہ سے سب اچھا لگتا ہے۔ مگر یہی طرز اسلوب جب وہ شخص استعمال کرتا ہے جس کا علم وثقافت اور قدرت تحریر اس اسلوب سے میل نہیں کھاتی تو پھر یہی چیز اس کے لیے عیب اور اس کی تحریر کے لیے بدنما داغ بن جاتی ہے۔
چنانچہ قدماء اور معاصرین میں بہت سے ایسے علماء اور لکھنے والے موجود ہیں جن کی زبان وقلم سے میں اور ہم بہت ہی اچھا لگتا ہے اور اس کی ایک لذت وچاشنی ہوتی ہے بلکہ ایک اچھی تعداد ان علماء فضلاء اور اصحاب قلم کی ہے جن سے میں اور ہم ہی اچھا لگتا ہے۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے بہت سارے ایسےحضرات بھی موجود ہیں کہ جب وہ اپنی تحریروں میں یہ لب ولہجہ اور طرز اسلوب اختیار کرتے ہیں تو ان کے علمی وثقافتی بونے پن کی وجہ سے یہ بہت ہی بھدا اور بد نما لگتا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں،سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالیں، کثیر تعداد میں ایسے لوگ مل جائیں گے جن کی تحریریں ان کے اس اسلوب کی بنا پر خود ان کا منہ چڑاتی اور ان کے تعلق سے غلط تاثر پیدا کرتی نظر آئیں گی مگر خود نمائی کا شوق، ہر جگہ نظر آنے کا جنون، بلا سبب کبر، خوش فہمی اور مغالطہ انھیں اس سے اجتناب کی توفیق نہیں دیتا۔
تحریر کی ایک اہم خصوصیت اس کی آفاقیت اور عام افادیت ہوتی ہے۔ جو تحریر جتنی آفاقی ہوگی اس کا فائدہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا اور جس قدر تحریر آفاقیت کی صفت سے آراستہ وپیراستہ ہوگی اسی قدر اس کو دوام حاصل ہوگا۔ اور اسی طرح جس قدر وہ اس اہم صفت سے خالی ہوگی اسی قدر اس کی عمر مختصر ہوگی۔ بعض مضامین ومقالات کا موضوع بذات خود آفاقی ہوتا ہے جو قوم وملت کے لیے ہر دور اور زمانے میں مفید ہوتا ہے مگر بعض موضوعات وقتی ہوتے ہیں جن پر ایک کاتب وقت وحالات کی ضرورت کے پیش نظر قلم اٹھاتا ہے۔ ایسے وقت میں اس کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اسے جہاں تک ہو سکے آفاقی بنانے کی کوشش کرے تاکہ اس کی یہ تحریر اخبار کی طرح نہ ہو جائے جس کو پڑھ کر قاری اس سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے بلکہ اپنی بات کو حتی الامکان ماضی سے جوڑے، حاضر پر تبصرہ کرتے وقت مستقبل کے بارے میں اندازے قائم کرے اور پوری کوشش ہو کہ اس کی وہ تحریر حالات حاضرہ کا تجزیہ وتحلیل کرتے وقت ماضی ومستقبل سے اس طرح مربوط ہوجائے کہ اس کو ایک آفاقی حیثیت حاصل ہو جائے اور وہ سمٹ کر اخبار کی شکل نہ اختیار کرنے پائےبلکہ اس کا فائدہ عام ہو اور لوگ اس سے بعد میں بھی فائدہ اٹھا سکیں۔
اس کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب قلم چاہتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے خلاف مشرق وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں ہورہے فارسی اور مجوسی سازشوں سے پردہ اٹھائے اور اس وقت ایران جس طرح عالم اسلام کو رافضیت کے نرغے میں لینے کے لیے یہود نصاریٰ تعاون سے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے اس کی نقاب کشائی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی بات قرن اول ہی سے رافضیوں کی اسلام دشمنی سے شروع کرے اور مختلف ادوار میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے سیاہ کارناموں کو مختصر انداز میں اجاگر کرتے ہوئے موجودہ دور کا مفصل جائزہ لے، اس کا تجزیہ کرے، تحلیل کرے اور اس روشنی میں مستقبل کے لیے اندازے قائم کرے۔ ایسا کرنے سے اس کی تحریر زمان ومکان کی قید سے بلند ہوکر ایک آفاقی شکل اختیار کر جائے گی اور اس کا فائدہ دیر پا ہوگا۔ بلکہ اس طرح ایک کاتب اپنی تحریر کو ایک لمبی عمر دینے میں کامیاب ہوجائے گا اور ایک اخبار کی طرح وہ محض وقتی ہونے سے بچ جائے گی۔
الفاظ کی شگفتگی، تعبیر کی برجستگی اور محکم مضبوط نیز پختہ تراکیب تحریر میں جان ڈالتی اور اس کو بارونق اور عمدہ بناتی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صحیح معانی کے لیے صحیح الفاظ کا انتخاب انتہائی اہم ہوتا ہے۔لہٰذا ایک کاتب کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کے انتخاب میں دقیق اور ہوشیار ہو، تراکیب کی تراش خراش میں ماہر ہو۔ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ایک زبان پر ایک کاتب کی قدرت الفاظ ومعانی تک ہی محدود نہ ہو بلکہ جس زبان میں لکھتا ہے اس کے عام اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت کی باریکیاں بھی ایک حد تک جانتا ہو تاکہ لکھتے وقت درست الفاظ وتراکیب کے انتخاب کے ساتھ ساتھ تشبیہات واستعاروں نیز دیگر فنی خصوصیات سے بھی اپنی تعبیر کو چار چاند لگائے اور قاری کو کوئی بات مختلف انداز میں سمجھانے میں اسے دشواری نہ ہو۔ بسا اوقات کاتب کی زبان پر قدرت ہی قاری کو اس کی تحریر پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے اوربارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی کاتب کے افکار ونظریات بلکہ اس کی ذات تک سے اختلاف ہونے کے باوجود آدمی اس کی تحریر کو پڑھتا اور اس سے لطف اندوز ہوتا اور فائدہ اٹھاتا ہے کیونکہ اس کی مسحور کن تعبیر قاری کو نہ چاہتے ہوئے بھی کھینچ لے جاتی ہےاور پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ البتہ کسی زبان پر قدرت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے اس زبان کی ادبیات کا مسلسل مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اس کے اصول وقواعد پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے اور اس کی باریکیوں کو دقت نظر سے دیکھنا اور سمجھنا پڑھتا ہے۔ چنانچہ جسے کسی زبان میں لکھنے کا شوق ہے تو اسے پہلے اس زبان کو گہرائی سے پڑھنے اور سمجھنے کا شوق ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم ہیں۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی زبان میں آپ لکھنا بھی چاہیں اور اس کی نزاکت، فصاحت، بلاغت، اصول وضوابط اور ادبیات سے آپ کو دلچسپی نہ ہو!
اسی ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ کاتب جس موضوع پر لکھنا چاہتا ہے اسے اس موضوع کا اچھی طرح احاطہ وادراک ہونا چاہیے، اس سے متعلق اس کی معلومات وسیع اور گہری ہونی چاہیے۔ جس موضوع پر کاتب لکھنا چاہتا اور اس کا اپنی تحریر میں مناقشہ کرنا چاہتا ہے اس پر اس کا مطالعہ بہت اچھا ہونا چاہیے۔ اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک صفحہ لکھنے کے لیے کم از کم دس صفحہ پڑھنا چاہیے اور اگر کوئی ایک صفحہ لکھنا چاہتا ہے تو پہلے متعلقہ موضوع پر کم از کم دس صفحہ پڑھے بلکہ بعض اہل فن تو بہت آگے بڑھ کر یہاں تک کہتے ہیں کہ پہلے سو صفحہ پڑھیے پھر ایک صفحہ لکھیے۔ مقصد سب کا یہی ہے کہ کاتب جس موضوع پر بھی لکھنا چاہے پہلے اس پر اچھی طرح مطالعہ کرے، اس کو سمجھے اور جب موضوع کا اچھی طرح احاطہ ہوجائے تب اس پر قلم اٹھائے۔
ایک اہم چیز جس پر لکھتے وقت ایک کاتب کو دھیان دینا چاہیے وہ بے جا تکرار سے اجتناب اور بے محل ونامناسب استطراد (خلط مبحث)سے گریز ہے۔ یہ دونوں عادتیں قاری کو کاتب سے متنفر کردیتی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کاتب کو یہ دونوں عادتیں لگ جاتی ہیں پھر آسانی سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ اور پھر وہ چاہے کتنا بھی اچھا لکھے لوگ دھیرے دھیرے اس کی تحریر سے اکتا کر اسے پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں، خاص طور سے باذوق قارئین کی نازک طبیعت تو اس بار گراں کو بمشکل ہی برداشت کر پاتی ہے۔
تنقیدی تحریروں کی کچھ اضافی خصوصیات اور بعض دیگر شروط وضوابط ہوتے ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں البتہ تنقید کرتے وقت طعن وتشنیع اور تجریح وتشریح سے ایک سلیم نفس کاتب کو ضرور بچنا چاہیے اور نقد کرتے وقت پورا زور یا اصل ترکیز تحریر اور فکر پر ہونی چاہیے نہ کہ صاحب تحریر اور صاحب فکر پر اور بعض نادر وشاذ حالتوں کے علاوہ ناقد کو نقد شدہ تحریر کے مالک کی ذات تک پہنچنے سے گریز کرنا چاہیے۔ باقی امانت وموضوعیت، انصاف اور دیگر اہم اخلاقیات کا ذکر اوپر گزر چکا ہے جو ایک ناقد کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ نقد میں اخلاص ومقصدیت بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ پوری تحریر حقیقی معنوں میں انہی کی اسیر بن کر رہ جاتی ہے اور باذوق قاری عموماً جان لیتا ہے کہ ناقد اپنے اس نقد میں کتنا مثبت،تعمیری ذہن اور اخلاص کا حامل ہے۔
ایک تحریر کا ذوہدف اور بامقصد ہونا بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ اگر تحریر ہدف اور مقصدیت سے خالی ہو تو بالکل بے روح ہوجاتی ہے۔ ہدف کا مطلب کوئی بھی ہدف نہیںکیونکہ اہداف بھی متنوع ومتعدد ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے خود نمائی، شہرت طلبی، مادہ کی حصولیابی جیسی پست چیزیں بھی ہدف ہو سکتی ہیں۔ ہدف کا مطلب اعلیٰ ہدف ہے۔ ایک صاحب تحریر کا ہدف بہت بلند اور اونچا ہونا چاہیے جسے وہ قوم وملت کی ضرورت وحاجت کو دیکھ کر بنائے اور اپنی مثبت تحریر سے اس اعلیٰ ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ جس قدر ہدف بلند اور مثبت وتعمیری ہوگا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی توفیق بھی شامل حال ہوگی۔ اور جس قدر ہدف پست اور رذیل ہوگا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دوری اور شیطان کی معاونت شامل ہوگی۔
ہدف پر گفتگو کرتے وقت دل میں ایک خلش سی ہوتی ہے اور لکھنے کے سلسلے میں احباب کی جو مختلف قسمیں ہیں ان کو دیکھ کر کبھی خوشی تو اکثر تعجب وافسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ علم ہے، صلاحیت بھی ہے اور کسی موضوع پر جب کھلتے ہیں تو موتی بکھیردیتے ہیں، جب مناقشہ کرتے ہیں تو مخاطبین کو حیران کردیتے ہیں مگر اسی چیز کو لکھ کر نشر کرنےکے لیے کہہ دیا جائے تو بات ٹل جاتی ہے اور پھر ٹلتی جاتی ہے۔ پتہ نہیں کون سی چیز ہوتی ہے جو انھیں ان بیش قیمت معلومات کو لوگوں تک پہنچانے سے روکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ زبان پر انھیں قدرت حاصل نہیں ہوتی مگر شاید حسن توفیق سے محروم ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی احباب ہیں جو باصلاحیت بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں مگر وہ چیزیں زیادہ لکھتے ہیں جو بے فائدہ یا کم فائدہ ہیں، جس میں ان کا اپنا مادی فائدہ زیادہ ہوتا ہے، بھلے ہی قوم وملت کا اس سے کم فائدہ ہو یا فائدہ ہی نہ ہو۔ کیونکہ یہاں بھی ذات مقدم ہوتی ہے اور مفاد پرستی اور مصلحت کوشی خیر کے راستے میں آڑے آجاتی ہے۔ چنانچہ ایسے موضوعات پر وہ سو سو صفحات لکھ ڈالیں گے جس کو پڑھنے والے دو چار دس ہوں اور پھر وہ تحریر کسی آفس یا کسی لائبریری کی زینت بن کر گرد آلو ہو کر رہ جائے مگر ان موضوعات پر چار صفحہ بھی لکھنے کی زحمت نہیں کریں گے جس سے فائدہ اٹھانے والے سینکڑوں اور ہزاروں ہیں بلکہ جن موضوعات پر لوگ عمدہ تحریروں کے بھوکے اور منتظر ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ان کا بظاہر کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا اور فوراً ان کو کچھ ملنے کی امید نہیں ہوتی ہے۔ ایسے حضرات فرمان الٰہی: (والآخرۃ خیر وأبقی) کو یا تو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر جو زیادہ ہٹ دھرم اور ڈھیٹ ہوتے ہیں وہ اس کی کوئی بے جا تاویل کرکے اپنے بے فائدہ یا کم فائدہ عمل ہی کو زبردستی آخرت کے لیے بیش بہا ذخیرہ بنا کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔
اسی قبیل کے وہ حضرات بھی ہیں جو دن بھر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اپنے ذہن کا کچرا اور دل کا کوڑا کرکٹ تو ڈالتے رہتے ہیں مگر انھیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ قوم وملت کی ضرورت کے پیش نظر بھی کوئی معیاری پیغام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ کوئی فسق وفجور والی غزلیں لکھ رہا ہے تو کوئی عشقیہ روداد بیان کر رہاہے، کوئی ناجائز محبت کےلطیف معانی اپنے تجربات سمیت نظم میں ڈھال رہا ہے تو کوئی خوش فہم اور فریب خوردہ اپنے کسی ذاتی واقعے، قصے یا تجربے کو ایسے بیان کر رہا ہے جیسے کسی علامۃ الزمان یا کسی صحابی یا نبی کا واقعہ بیان کر رہا ہو جس کا حرف حرف درس وعبرت سے پر اور قاری کے دنیا وآخرت کے لیے بیش بہا ذخیرہ ہو، کوئی بزعم خویش حکمت کے موتی بکھیر رہا ہے تو کوئی فریب خوردہ علم ودانش کے جواہر لٹا رہا ہے۔ اور چونکہ خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ بیش بہا ذخیرہ علم ودانش پوری دنیا تک پہنچ جائے اس لیے اس کو نشر کرنے کی خاطر ہر طرح کے اسٹیشنوں کا استعمال کیا جاتا ہے، ایسے مواقع پر بھی جو دیگر خاص مقاصد کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ایسے کج فہموں کی ایسی تحریریں ایسی جگہوں پر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ریوڑی بیچنے والا ڈھیٹ شخص زبردستی اپنا ٹھیلا کسی عطر فروش کی صاف ستھری دکان میں گھساکر بیٹھ گیا ہو، اور بضد ہو کہ وہ اپنی ریوڑیاں بھی یہاں فروخت کرے گا۔ اب بھلا عطر فروشی کے لیے کھولی گئی ایک دکان اور ریوڑی میں کونسا تعلق اور کون سی مناسبت ہے۔ مگر ضد ہے کہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ یہ دکان بھی ہماری ریوڑیوں کی جائے نمائش بنے۔
ایسے حضرات پوری ڈھٹائی سے دواخانے میں بیٹھ کر اپنی ردی فروخت کرنے سے نہیں شرماتے۔ ایسے لوگوں کی تحریریں اور مختلف مواقع سے ان کی تشہیر دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ یہ حضرات کس دنیا میں جیتے ہیں؟ کیا کبھی کسی باصلاحیت شخص سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ؟ یا ان کےتکبر کی رداء اتنی دبیز اور عقل پر پڑا پردہ اتنا موٹا ہے کہ خود ہی کو عقل کل سمجھتے ہیں؟
درحقیقت ایسے حضرات ایک طرح کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی اس طرح کی احمقانہ حرکات سے اپنے نفس متعالیہ کی تسکین کا سامان کرتے ہیں!۔ بلاشبہ یہ نہ صرف اس امت کا بہت بڑا المیہ ہے بلکہ بہت سارے اہل علم وبا صلاحیت افراد کے یہاں اولیات کی تعیین میں نااہلی، مقصدیت وتعمیری سوچ کی کمی اور عدم توازن کا کھلا ثبوت بھی ہے۔
آخر وقت کی نبض کو دیکھتے ہوئے اسی سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی مفید اور بہترین معلومات نشر کرکے اسے اپنے لیے ذخیرہ آخرت بھی تو بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ بہت سارے احباب کرتے ہیں، پھر کم عقلی کا مظاہرہ کرکے اور پھیکم پھاک مچاکر اپنے قد کو مزید چھوٹا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
افسوس کہ بہت کم ہی ایسے احباب نظر آتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ لکھنے کی صلاحیت بھی دیتا ہے اور اس کی توفیق بھی، انھیں اولیات کی ترتیب کا صحیح فن بھی قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے اور ذوہدف وتعمیری گفتگو کا سلیقہ بھی، ان کی تحریروں سے نہ صرف قوم وملت مستفید ہوتی ہے بلکہ ان کا یہ عمل ان کے نامہ اعمال میں حسنات کی شکل میں جمع ہوتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام لوگوں کو اپنے حسن توفیق سے نوازے، دل کو مختلف بیماریوں سے پاک کرے، کوتاہیوں کو در گزر کرے اور ہمیں انہی لوگوں میں سے بنائے جن کے اعمال میں توفیق اٰالٰہی شامل حال ہوتی ہےاور جو اپنے اعمال و اہداف کی تعیین کرتے وقت قوم وملت کے سود وزیاں پر نگاہ رکھتے ہیں تاکہ لا قدّر اللہ خود ہمارے اعمال اور ہماری تحریریں ہی روز قیامت ہمارا محاسبہ نہ کرنے لگیں۔ آمین!n
بشکریہ : دی فری لانسر ممبئی
http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=983
تحریر : وسیم المحمدی
-----------------------
پڑھنا لکھنا بہت مبارک اور عمدہ عمل ہے،اس سے ذہن کی تربیت اور فکر کی نشو نما ہوتی ہے، فکر کا چشمہ رواں دواں رہتا ہے اور اس کے سوتے خشک ہونے کے بجائے اپنا بہاؤ مزید تیزی سے جاری وساری رکھتے ہیں۔ لکھنا بہت جلیل القدر اور عظیم عمل ہے،اس سے انسان بذات خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی مستفید کرتا ہے۔
ویسے تو قلم کی اہمیت ہر زمانے میں مسلم رہی ہے اور لکھنے والوں کی اہمیت وعظمت کو ہر دور میں تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ کی کثرت اور ترسیل معلومات کے متعدد طریقوں نے اس کی اہمیت وافادیت کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیا ہے کیونکہ ہر آدمی اس لیے لکھتا ہے کہ اس کی تحریر کو پڑھا جائے، لہٰذا اس کی تحریر جتنی زیادہ پڑھی جائے گی اس کا یہ ہدف احسن طریقے سے پورا ہوگا۔ ظاہر ہے انٹرنیٹ کی لا محدود دنیا اور سوشل میڈیا کے متعدد ذرائع نے یہ چیز اتنی آسان اور تیز کر دی ہے کہ چند ساعتوں میں آدمی اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ جہاں اس سہولت نے ایک لکھنے والے کو حوصلہ بخشا ہے وہیں اس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ بڑھا دی ہیں،اور قلم کے تئیں اس کو مزید سنجیدہ اور ذمہ دار بنا دیا ہے۔ کیونکہ جس تحریر کو کل سو دوسو اور ہزار لوگ پڑھتے، اس سے فائدہ اٹھاتے اور اس کو تنقیدی نگاہ سے پرکھتے تھےاب اس کو ہزاروں اور لاکھوں لوگ پڑھتے اور پرکھتے ہیں۔ پھر قلم بذات خود ایک بہت بڑی امانت ہے جو صاحب قلم کے گردن میں پڑی ہوتی ہے اور اس سے بخوبی عہدہ بر ہونا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں صحافت اور میڈیا کی اکثریت یرغمال بن کر رہ گئی ہے اور اکثر ذرائع ابلاغ اور قلم کار ایک مخصوص فکر کے تابع ہوتے ہیں، چاہے وہ حکومت اور سرکاری سطح کی بات ہو،یا ذاتی وانفرادی سوچ، اس سے باہر نکل کر لکھنا اور لوگوں کو صحیح معلومات فراہم کرنا بہت ہی مشکل سےانجام پاتا ہے۔ اور بدقسمتی سے بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی تعمیری مقصد کو لے کر، ذاتیت سے پرے ہوکر اور شہرت طلبی، ریا کاری، خود پسندی، مجاملت وچاپلوسی،بے جا مدح سرائی نیز تنقید برائے تنقید وتجریح کے مکروہ حصار سے نکل کر لوگوں کو معلومات فراہم کرنے یا اپنی عمدہ آراء کو دوسروں تک پہنچانے کی قابل ستائش کوشش کرتے ہیں اور جب سے سوشل میڈیا میں فیس بک، واٹساپ، ٹیلیگرام اور میسینجر نیز بعض دیگر ذرائع کا بازار گرم ہوا ہے تب سے تو ہر آدمی معلومات کے موتی بکھیرنے اور اپنے اقوال زریں نشر کرنے میں اس طرح لگا ہوا ہے کہ اس کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ قلم کتنی بڑی امانت ہے اور اس کی یہ تحریر مع اس کی نیت کے اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ریکارڈ ہوتی اور فرمان الٰہی : (وکل صغیر وکبیر مستطر) کے ضمن میں آتی ہے۔ اور جو وقت وہ اپنی خامہ فرسائی میں صرف کر رہا ہے وہ اس کے عمر کا بیش قیمت حصہ ہے جو لوٹ کر آنے والا نہیں!
بعض لوگوں کو لکھنے کی لت ہوتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بیماری ہوتی ہے۔ جو پایا لکھ دیا، جہاں پایا لکھ دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ دل ودماغ کا سارا کوڑا کرکٹ اٹھا کر سب کے سامنے رکھ دیا ہے کہ لیجیے برداشت کیجیے۔ علم میں رسوخ نہیں، شعور میں پختگی نہیں، مگر لکھنے کا جنون اتنا کہ جو بھی دل میں کھٹکا اسے لکھنے کے لیے بے تاب۔ ایسے لوگوں کو شاید یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ وہ علم کے موتی بکھیر رہے ہیں یا افکار عالیہ کی نشر واشاعت کر رہے ہیں جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنے اس جذبے کی (جس کے پیچھے عموماً خود نمائی، شہرت طلبی،بے جا تعریف پسندی جیسی مختلف نیتیں پنہاں ہوتی ہیں) تسکین کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ مشق کے لیے ایک ڈائری یا دفتر بنا لیں اور ایک معقول حد تک ابتدا میں اسی کو مشق ستم بنائیں۔ اور جب دھیرے دھیرے تحریر میں پختگی آجائے، علم میں رسوخ ہوجائے، گفتگو کا سلیقہ سیکھ لیں اور معتمد ومجرب نیز کہنہ مشق اصحاب اس کی تصدیق کردیں تو اسے نشر کریں۔
اسی لیے اپنی تحریر کے تئیں ایک اچھے کاتب کا مخلص ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس اخلاص کے کئی پہلو اور مختلف جوانب ہوتے ہیں اور ان میں ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں کاتب جو کچھ لکھ رہا ہے وہ اس کے دل کی وہ آواز ہے جو وہ قارئین تک پہنچانا چاہتا ہے؟ اور کیا صحیح معنوں میں اس کی اس تحریر کی لوگوں کو اس وقت ضرورت ہے؟ اسی طرح کیا اس کی تحریر علمی ثقافتی معاصرانہ ضرورت اور معیاری اسلوب کے اس درجہ تک پہنچ رہی ہے کہ اسے وہ نشر کرے؟ کوئی بھی کاتب اگر اپنے اور اپنی تحریر کے تئیں مخلص ہو کر یہ بات سوچے تو بآسانی وہ صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔ مگر اکثر اوقات خودنمائی کی عادت اور شہرت طلبی نیز اپنے ہی جیسے یا اپنے سے کم تر لوگوں کی واہ واہی کی شہوت اسے اندھا کر دیتی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی یہ تحریریں لوگوں میں اس کا مقام ومرتبہ بڑھا رہی ہیں جبکہ ایسے عجلت پسند حضرات خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ذکر خیر اور حسن سمعت پر کلہاڑا چلا دیتے ہیں۔ اور اگر بعد میں وہ عمدہ تحریریں بھی پیش کریں تو اہل علم اس کو نظر انداز کردیتے ہیں اور پڑھنے سے گریز کرتے ہیںکیونکہ کاتب کا ایک تصور ان کے دلوں میں اس کی ابتدائی تحریروں سے ہی بیٹھ جاتا ہے جو پھر مشکل سے ہی نکلتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے انسان اپنی تحریروں سے پہچانا جاتا ہے پھر اس کی تحریریں اس سے پہچانی جاتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی کاتب کی شروعات بہت زوردار اور بہترین ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی ابتدائی تحریروں سے پہچان لیا جائے اور پھر اس کی تحریروں کا وہ خود تعارف بنے۔ اسی طرح وہ تحریریں اس کی شخصیت کا غماز بھی ہوتی ہیں اور عموماً کسی کی شخصیت کے تئیں پہلا تصور ہی اصل ہوتا ہے، اس لیے ہر لکھنے والے کو قاری کے سامنے اپنا بہترین تصور پیش کرنا چاہیے۔
لکھتے وقت ہمیشہ ایک لکھنے والے کے یہاں تعمیری پہلو غالب ہونا چاہیے اور اس کی نگاہ ہمیشہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ اس کی تحریر سے قوم وملت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ قوم کو پانی کی ضرورت ہے اورہم اسے چائے پیش کر رہے ہیں؟ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ہم پانی کی انتظامی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ایک کثیر تعداد میں احباب کی تحریروں کا یہی حال ہے۔ کوئی ناسمجھ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدے( جس میں عبرت کم اور خودنمائی وشہرت پسندی زیادہ ہوتی ہے) نشر کر رہا ہے، کوئی بے سروپیر کی پھسپھسی غزلیں اور معاشقوں کی کہانیاں لکھ رہا ہے، کوئی نظمیں لکھ لکھ کر اپنے لطیف احساسات اور عشقیہ مزاج کی ترجمانی کر رہا ہے توکوئی اپنا حال دل نظم ونثر کے حوالے کرکے سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا ہے۔ ایسی تحریروں کو دیکھ کر بارہا یہ خیال آتا ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ پوری ملت حالت جنگ میں ہے ان دیوانوں کو کچھ اور نہیں ملتا۔ اگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کچھ صلاحیت دی ہے تو پھر تعمیری پہلو مد نظر کیوں نہیں ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسب مصلحت بسا اوقات کاتب کوئی تحریر کسی خاص یا محدود حلقے کے لیے بھی لکھتا ہے، یہ اچھی بات ہے اور اسے غلط نہیں کہا جاسکتا۔ مگر ایک کامیاب کاتب کی اصل ترکیز قوم کی عام حاجت اور ایک باشعور صاحب قلم کی نگاہ ملت کی معاصر ضرورت پر ہوتی ہے۔ اور یہ تو بڑے ظلم اور ناانصافی کی بات ہوگی کہ لکھنے والا کسی محدود یا مخصوص حلقے کے لیے تو لکھے مگر قوم کی عام اور معاصر ضرورت سے یکسر چشم پوشی کرے یا اس کی توجہ اِدھر کم اور اُدھر زیادہ ہو۔
اسی طرح ضرورت میں بھی اولویات پر نگاہ ہونی چاہیے۔ بسا اوقات ایک قوم کی متعدد ضروریات ہوتی ہیں، ایسی حالت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اہم ضروریات کیا ہیں اور زیادہ عنایت کا مستحق کون سا موضوع ہے۔ اسی اعتبار سے موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے۔ موضوع چاہے دینی ہو یا علمی، سیاسی ہو یا سماجی، ثقافتی ہو یا تہذیبی وتمدنی اگر تعمیری پہلو ذہن سے اوجھل ہے تو یاد رکھئے ایک لکھنے والا اپنے دل کی تسکین تو کر سکتا ہے مگر قوم وملت کو صحیح معنوں میں فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
البتہ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ لکھنے والا بہت باشعور اور مثقف ہو، حالات حاضرہ پر اس کی نگاہ ہو، قوم وملت کے دینی، ملی، ثقافتی، اجتماعی، سیاسی اور دیگر حالات سے واقف ہو نیز مختلف مجالات اور متنوع قومی وملی، ملکی وغیر ملکی حالات، ضروریات اورحاجات سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان میں موازنہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، یا کم از کم ایک مقبول حد تک ان میں موازنہ کر سکتا ہو۔ عین ممکن ہے کہ کاتب کا کوئی خاص مجال ہو۔ وہاں بھی اسے قوم کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے اور تعمیری پہلو کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے۔ اب اگر اس کا مجال ایسا ہے جو قوم کے معاصرانہ اہم ضروریات وحاجات سے میل نہیں کھاتا تو اسے اس کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے!
کسی بھی موضوع پر لکھتے وقت ایک کاتب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تعصب سے بالا تر ہو کر پوری موضوعیت کے ساتھ ایک منصف وجج کی طرح لکھے اور حقیقت پسندی کے ساتھ زیر تحریر موضوع کا حق ادا کرے۔ اس کا تبصرہ، اس کا تجزیہ، اس کے احکام وقرارات، ذاتی سوچ اور شخصی میلان کے ترجمان ہونے کے بجائے دلائل وقرائن اور شواہد وادلہ کے تابع ہوں۔ اس کا قلم مصلحت پسندی ومفاد پرستی کے آگے سجدہ ریز ہونے کے بجائے حق کا مساند ہو۔ اس کے قلم کی سیاہی مجاملت، چاپلوسی اور مصلحت کوشی کے بجائے حق کےرنگ پانی سے مرکب ہو۔ اور اس کا مقصد حق کی نشر واشاعت ، اس کا ساتھ اور اس کا تعاون ہو۔ یہ عیب کی بات نہیں کہ ایک شخص نہ لکھے مگر یہ بہت بڑے عیب کی بات ہوگی کہ قلم جیسی عظیم شیء صراط مستقیم سے بھٹک کر کسی مصلحت کے آگے اوندھے منہ گر پڑے!
موضوعیت کے ساتھ ساتھ امانت بہت بڑی چیزہے۔ عموماً لکھنے والا کسی نہ کسی سے استفادہ کرتا ہے، کسی کی تحریر سے کچھ اہم باتیں نقل کرتا ہے، یا اس کے بعض افکار پر اپنے مضمون یا مقالے کی بنیاد رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک کاتب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے، احالہ دے اور مصدر ومرجع بیان کرے۔ عموماًچھوٹے مضامین میں مقالات وبحوث کی طرح احالے کا رواج اور اس کی گنجائش نہیں ہوتی مگر ایک امین کاتب بڑی زیرکی اور خوش اسلوبی سے کبھی صراحتاً کبھی اشارتاً اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتا ہے مگر زیادہ چالاک اور ہوشیار کُتّاب ایسی جگہوں سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے یہ ان کی ذاتی معلومات یا شخصی افکار کے جواہر ہیں جو انھوں نے قاری کے لیے قید تحریر کیے ہیں۔
کسی بھی تحریر کی ایک اہم خصوصیت صاحب تحریر کی شخصیت ہے جو اس کی تحریر سے جھلکتی اور چھلکتی ہے۔ اس کی یہ شخصیت موضوع کے حسن انتخاب، معلومات کی تنظیم وترتیب، مختلف افکار کو یکجا کرنے کے سلیقے، الفاظ وتراکیب کی فصاحت وبلاغت، تحریر کی علمیت اور اس کی گہرائی وگیرائی، موضوع کا بہترین معالجہ، اس کے بے لاگ اور سدید تبصروں نیز اس کے دقیق تجزیوں اور ان مخصوص آراء وافکار سے ظاہر ہوتی ہے جنھیں وہ دوران تحریر اپنے مضمون میں جا بجا انتہائی زیرکی اورذکاوت سے اس طرح جگہ دیتا ہے کہ قاری کو ان سے نہ کاتب کی انانیت اور خودنمائی کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے متکبرانہ مزاج کی بدبو آتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات موضوع کی علمیت اور اس کی گہرائی ہی صاحب تحریر کی شخصیت کی بھر پور ترجمانی کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایک کامیاب کاتب کی شخصیت اس کی تحریروں میں اس طرح رچی بسی ہوتی ہے کہ اہل ذوق مجرد تحریر سے اس کے لکھنے والے کو جان لیتے ہیں اور تحریر کا اسلوب نیز اس کا رنگ وڈھنگ خود ہی بولنے لگتا ہے کہ میں فلاں کے قلم سے نکلی ہوں۔
مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض ناسمجھ یا کم سمجھ حضرات اپنی تحریروں میں نہ صرف ’’میں‘‘ اور’’ ہم‘‘ کی بھر مار کرکے اس کی رونق اور وقار کو داؤ پر لگا دیتے ہیں بلکہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسی کو وہ اپنی تحریروں میں اپنی شخصیت کے ظہور کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ یہ چیز نہ صرف مضمون کو بدنما کردیتی ہے بلکہ صاحب تحریر کے تعلق سے بھی قاری کے ذہن میں عموماً ایک غلط تاثر پیدا کر دیتی ہے جو بدقسمتی سےاس کی تحریر اور پھر اس کی ذات سے تنفر کا سبب بنتا ہے اور بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ ایسے حضرات عموماً اپنی علمیت، طرز تحریر، تبصروں وتجزیوں اور دیگر مثبت امور کے ذریعے تو مضمون پر اپنی چھاپ نہیں چھوڑ سکتے مگر ان کا تو تو میں میں اور تم تم ہم ہم ان کی تحریر میں جابجا نظر آئے گا بلکہ وہی نظر آتا ہے اور باقی چیزیں اسی میں میں کے گرد وغبار میں چھپ کر رہ جاتی ہیں۔ اور بلا شبہ یہ چیز قاری کو تحریر کی طرف مائل کرنے کے بجائے اس سے مزید متنفر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ایسے ہم اور میں والے حضرات ایک قسم کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی اکثر تحریریں میں اور ہم سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ اور اس طرح مضمون نہ صرف اپنی ایک اہم خصوصیت تواضع وانکساری ومتانت وسنجیدگی سے خالی ہوجاتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بھونڈے انداز کو اپنا کر صاحب تحریر خود اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریرپر آری چلا دیتا ہے۔
بلا شبہ بعض اوقات ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ کی ایک لذت ہوتی ہے اور ایسا مقام آجاتا ہے جب میں اور ہم کے علاوہ کچھ جمتا ہی نہیں مگر پہلی بات تو یہ کہ اس کا ایک محدود دائرہ اور خاص محل ومقام ہوتا ہے جسے اہل فن وبصیرت ہی خوب جانتے اور اس کو استعمال کرتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس مقام پر پہنچ کر یہ اسلوب صاحب تقریر وتحریر کی زبان وقلم سے اچھا لگتا ہے وہ ایک بہت ہی خاص مقام ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا بلکہ عمر کا ایک بیش قیمت حصہ اس پرخار وپرمشقت وادی کی خاک چھاننے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ پھر جب ایک شخص علم وثقافت اور شخصیت کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو چاہے وہ ہم کہے یا میں، تو کہے یا تم، اس کے منہ سے سب اچھا لگتا ہے۔ مگر یہی طرز اسلوب جب وہ شخص استعمال کرتا ہے جس کا علم وثقافت اور قدرت تحریر اس اسلوب سے میل نہیں کھاتی تو پھر یہی چیز اس کے لیے عیب اور اس کی تحریر کے لیے بدنما داغ بن جاتی ہے۔
چنانچہ قدماء اور معاصرین میں بہت سے ایسے علماء اور لکھنے والے موجود ہیں جن کی زبان وقلم سے میں اور ہم بہت ہی اچھا لگتا ہے اور اس کی ایک لذت وچاشنی ہوتی ہے بلکہ ایک اچھی تعداد ان علماء فضلاء اور اصحاب قلم کی ہے جن سے میں اور ہم ہی اچھا لگتا ہے۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے بہت سارے ایسےحضرات بھی موجود ہیں کہ جب وہ اپنی تحریروں میں یہ لب ولہجہ اور طرز اسلوب اختیار کرتے ہیں تو ان کے علمی وثقافتی بونے پن کی وجہ سے یہ بہت ہی بھدا اور بد نما لگتا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں،سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالیں، کثیر تعداد میں ایسے لوگ مل جائیں گے جن کی تحریریں ان کے اس اسلوب کی بنا پر خود ان کا منہ چڑاتی اور ان کے تعلق سے غلط تاثر پیدا کرتی نظر آئیں گی مگر خود نمائی کا شوق، ہر جگہ نظر آنے کا جنون، بلا سبب کبر، خوش فہمی اور مغالطہ انھیں اس سے اجتناب کی توفیق نہیں دیتا۔
تحریر کی ایک اہم خصوصیت اس کی آفاقیت اور عام افادیت ہوتی ہے۔ جو تحریر جتنی آفاقی ہوگی اس کا فائدہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا اور جس قدر تحریر آفاقیت کی صفت سے آراستہ وپیراستہ ہوگی اسی قدر اس کو دوام حاصل ہوگا۔ اور اسی طرح جس قدر وہ اس اہم صفت سے خالی ہوگی اسی قدر اس کی عمر مختصر ہوگی۔ بعض مضامین ومقالات کا موضوع بذات خود آفاقی ہوتا ہے جو قوم وملت کے لیے ہر دور اور زمانے میں مفید ہوتا ہے مگر بعض موضوعات وقتی ہوتے ہیں جن پر ایک کاتب وقت وحالات کی ضرورت کے پیش نظر قلم اٹھاتا ہے۔ ایسے وقت میں اس کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اسے جہاں تک ہو سکے آفاقی بنانے کی کوشش کرے تاکہ اس کی یہ تحریر اخبار کی طرح نہ ہو جائے جس کو پڑھ کر قاری اس سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے بلکہ اپنی بات کو حتی الامکان ماضی سے جوڑے، حاضر پر تبصرہ کرتے وقت مستقبل کے بارے میں اندازے قائم کرے اور پوری کوشش ہو کہ اس کی وہ تحریر حالات حاضرہ کا تجزیہ وتحلیل کرتے وقت ماضی ومستقبل سے اس طرح مربوط ہوجائے کہ اس کو ایک آفاقی حیثیت حاصل ہو جائے اور وہ سمٹ کر اخبار کی شکل نہ اختیار کرنے پائےبلکہ اس کا فائدہ عام ہو اور لوگ اس سے بعد میں بھی فائدہ اٹھا سکیں۔
اس کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب قلم چاہتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے خلاف مشرق وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں ہورہے فارسی اور مجوسی سازشوں سے پردہ اٹھائے اور اس وقت ایران جس طرح عالم اسلام کو رافضیت کے نرغے میں لینے کے لیے یہود نصاریٰ تعاون سے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے اس کی نقاب کشائی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی بات قرن اول ہی سے رافضیوں کی اسلام دشمنی سے شروع کرے اور مختلف ادوار میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے سیاہ کارناموں کو مختصر انداز میں اجاگر کرتے ہوئے موجودہ دور کا مفصل جائزہ لے، اس کا تجزیہ کرے، تحلیل کرے اور اس روشنی میں مستقبل کے لیے اندازے قائم کرے۔ ایسا کرنے سے اس کی تحریر زمان ومکان کی قید سے بلند ہوکر ایک آفاقی شکل اختیار کر جائے گی اور اس کا فائدہ دیر پا ہوگا۔ بلکہ اس طرح ایک کاتب اپنی تحریر کو ایک لمبی عمر دینے میں کامیاب ہوجائے گا اور ایک اخبار کی طرح وہ محض وقتی ہونے سے بچ جائے گی۔
الفاظ کی شگفتگی، تعبیر کی برجستگی اور محکم مضبوط نیز پختہ تراکیب تحریر میں جان ڈالتی اور اس کو بارونق اور عمدہ بناتی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صحیح معانی کے لیے صحیح الفاظ کا انتخاب انتہائی اہم ہوتا ہے۔لہٰذا ایک کاتب کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کے انتخاب میں دقیق اور ہوشیار ہو، تراکیب کی تراش خراش میں ماہر ہو۔ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ایک زبان پر ایک کاتب کی قدرت الفاظ ومعانی تک ہی محدود نہ ہو بلکہ جس زبان میں لکھتا ہے اس کے عام اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت کی باریکیاں بھی ایک حد تک جانتا ہو تاکہ لکھتے وقت درست الفاظ وتراکیب کے انتخاب کے ساتھ ساتھ تشبیہات واستعاروں نیز دیگر فنی خصوصیات سے بھی اپنی تعبیر کو چار چاند لگائے اور قاری کو کوئی بات مختلف انداز میں سمجھانے میں اسے دشواری نہ ہو۔ بسا اوقات کاتب کی زبان پر قدرت ہی قاری کو اس کی تحریر پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے اوربارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی کاتب کے افکار ونظریات بلکہ اس کی ذات تک سے اختلاف ہونے کے باوجود آدمی اس کی تحریر کو پڑھتا اور اس سے لطف اندوز ہوتا اور فائدہ اٹھاتا ہے کیونکہ اس کی مسحور کن تعبیر قاری کو نہ چاہتے ہوئے بھی کھینچ لے جاتی ہےاور پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ البتہ کسی زبان پر قدرت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے اس زبان کی ادبیات کا مسلسل مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اس کے اصول وقواعد پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے اور اس کی باریکیوں کو دقت نظر سے دیکھنا اور سمجھنا پڑھتا ہے۔ چنانچہ جسے کسی زبان میں لکھنے کا شوق ہے تو اسے پہلے اس زبان کو گہرائی سے پڑھنے اور سمجھنے کا شوق ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم ہیں۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی زبان میں آپ لکھنا بھی چاہیں اور اس کی نزاکت، فصاحت، بلاغت، اصول وضوابط اور ادبیات سے آپ کو دلچسپی نہ ہو!
اسی ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ کاتب جس موضوع پر لکھنا چاہتا ہے اسے اس موضوع کا اچھی طرح احاطہ وادراک ہونا چاہیے، اس سے متعلق اس کی معلومات وسیع اور گہری ہونی چاہیے۔ جس موضوع پر کاتب لکھنا چاہتا اور اس کا اپنی تحریر میں مناقشہ کرنا چاہتا ہے اس پر اس کا مطالعہ بہت اچھا ہونا چاہیے۔ اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک صفحہ لکھنے کے لیے کم از کم دس صفحہ پڑھنا چاہیے اور اگر کوئی ایک صفحہ لکھنا چاہتا ہے تو پہلے متعلقہ موضوع پر کم از کم دس صفحہ پڑھے بلکہ بعض اہل فن تو بہت آگے بڑھ کر یہاں تک کہتے ہیں کہ پہلے سو صفحہ پڑھیے پھر ایک صفحہ لکھیے۔ مقصد سب کا یہی ہے کہ کاتب جس موضوع پر بھی لکھنا چاہے پہلے اس پر اچھی طرح مطالعہ کرے، اس کو سمجھے اور جب موضوع کا اچھی طرح احاطہ ہوجائے تب اس پر قلم اٹھائے۔
ایک اہم چیز جس پر لکھتے وقت ایک کاتب کو دھیان دینا چاہیے وہ بے جا تکرار سے اجتناب اور بے محل ونامناسب استطراد (خلط مبحث)سے گریز ہے۔ یہ دونوں عادتیں قاری کو کاتب سے متنفر کردیتی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کاتب کو یہ دونوں عادتیں لگ جاتی ہیں پھر آسانی سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ اور پھر وہ چاہے کتنا بھی اچھا لکھے لوگ دھیرے دھیرے اس کی تحریر سے اکتا کر اسے پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں، خاص طور سے باذوق قارئین کی نازک طبیعت تو اس بار گراں کو بمشکل ہی برداشت کر پاتی ہے۔
تنقیدی تحریروں کی کچھ اضافی خصوصیات اور بعض دیگر شروط وضوابط ہوتے ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں البتہ تنقید کرتے وقت طعن وتشنیع اور تجریح وتشریح سے ایک سلیم نفس کاتب کو ضرور بچنا چاہیے اور نقد کرتے وقت پورا زور یا اصل ترکیز تحریر اور فکر پر ہونی چاہیے نہ کہ صاحب تحریر اور صاحب فکر پر اور بعض نادر وشاذ حالتوں کے علاوہ ناقد کو نقد شدہ تحریر کے مالک کی ذات تک پہنچنے سے گریز کرنا چاہیے۔ باقی امانت وموضوعیت، انصاف اور دیگر اہم اخلاقیات کا ذکر اوپر گزر چکا ہے جو ایک ناقد کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ نقد میں اخلاص ومقصدیت بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ پوری تحریر حقیقی معنوں میں انہی کی اسیر بن کر رہ جاتی ہے اور باذوق قاری عموماً جان لیتا ہے کہ ناقد اپنے اس نقد میں کتنا مثبت،تعمیری ذہن اور اخلاص کا حامل ہے۔
ایک تحریر کا ذوہدف اور بامقصد ہونا بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ اگر تحریر ہدف اور مقصدیت سے خالی ہو تو بالکل بے روح ہوجاتی ہے۔ ہدف کا مطلب کوئی بھی ہدف نہیںکیونکہ اہداف بھی متنوع ومتعدد ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے خود نمائی، شہرت طلبی، مادہ کی حصولیابی جیسی پست چیزیں بھی ہدف ہو سکتی ہیں۔ ہدف کا مطلب اعلیٰ ہدف ہے۔ ایک صاحب تحریر کا ہدف بہت بلند اور اونچا ہونا چاہیے جسے وہ قوم وملت کی ضرورت وحاجت کو دیکھ کر بنائے اور اپنی مثبت تحریر سے اس اعلیٰ ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ جس قدر ہدف بلند اور مثبت وتعمیری ہوگا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی توفیق بھی شامل حال ہوگی۔ اور جس قدر ہدف پست اور رذیل ہوگا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دوری اور شیطان کی معاونت شامل ہوگی۔
ہدف پر گفتگو کرتے وقت دل میں ایک خلش سی ہوتی ہے اور لکھنے کے سلسلے میں احباب کی جو مختلف قسمیں ہیں ان کو دیکھ کر کبھی خوشی تو اکثر تعجب وافسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ علم ہے، صلاحیت بھی ہے اور کسی موضوع پر جب کھلتے ہیں تو موتی بکھیردیتے ہیں، جب مناقشہ کرتے ہیں تو مخاطبین کو حیران کردیتے ہیں مگر اسی چیز کو لکھ کر نشر کرنےکے لیے کہہ دیا جائے تو بات ٹل جاتی ہے اور پھر ٹلتی جاتی ہے۔ پتہ نہیں کون سی چیز ہوتی ہے جو انھیں ان بیش قیمت معلومات کو لوگوں تک پہنچانے سے روکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ زبان پر انھیں قدرت حاصل نہیں ہوتی مگر شاید حسن توفیق سے محروم ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی احباب ہیں جو باصلاحیت بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں مگر وہ چیزیں زیادہ لکھتے ہیں جو بے فائدہ یا کم فائدہ ہیں، جس میں ان کا اپنا مادی فائدہ زیادہ ہوتا ہے، بھلے ہی قوم وملت کا اس سے کم فائدہ ہو یا فائدہ ہی نہ ہو۔ کیونکہ یہاں بھی ذات مقدم ہوتی ہے اور مفاد پرستی اور مصلحت کوشی خیر کے راستے میں آڑے آجاتی ہے۔ چنانچہ ایسے موضوعات پر وہ سو سو صفحات لکھ ڈالیں گے جس کو پڑھنے والے دو چار دس ہوں اور پھر وہ تحریر کسی آفس یا کسی لائبریری کی زینت بن کر گرد آلو ہو کر رہ جائے مگر ان موضوعات پر چار صفحہ بھی لکھنے کی زحمت نہیں کریں گے جس سے فائدہ اٹھانے والے سینکڑوں اور ہزاروں ہیں بلکہ جن موضوعات پر لوگ عمدہ تحریروں کے بھوکے اور منتظر ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ان کا بظاہر کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا اور فوراً ان کو کچھ ملنے کی امید نہیں ہوتی ہے۔ ایسے حضرات فرمان الٰہی: (والآخرۃ خیر وأبقی) کو یا تو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر جو زیادہ ہٹ دھرم اور ڈھیٹ ہوتے ہیں وہ اس کی کوئی بے جا تاویل کرکے اپنے بے فائدہ یا کم فائدہ عمل ہی کو زبردستی آخرت کے لیے بیش بہا ذخیرہ بنا کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔
اسی قبیل کے وہ حضرات بھی ہیں جو دن بھر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اپنے ذہن کا کچرا اور دل کا کوڑا کرکٹ تو ڈالتے رہتے ہیں مگر انھیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ قوم وملت کی ضرورت کے پیش نظر بھی کوئی معیاری پیغام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ کوئی فسق وفجور والی غزلیں لکھ رہا ہے تو کوئی عشقیہ روداد بیان کر رہاہے، کوئی ناجائز محبت کےلطیف معانی اپنے تجربات سمیت نظم میں ڈھال رہا ہے تو کوئی خوش فہم اور فریب خوردہ اپنے کسی ذاتی واقعے، قصے یا تجربے کو ایسے بیان کر رہا ہے جیسے کسی علامۃ الزمان یا کسی صحابی یا نبی کا واقعہ بیان کر رہا ہو جس کا حرف حرف درس وعبرت سے پر اور قاری کے دنیا وآخرت کے لیے بیش بہا ذخیرہ ہو، کوئی بزعم خویش حکمت کے موتی بکھیر رہا ہے تو کوئی فریب خوردہ علم ودانش کے جواہر لٹا رہا ہے۔ اور چونکہ خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ بیش بہا ذخیرہ علم ودانش پوری دنیا تک پہنچ جائے اس لیے اس کو نشر کرنے کی خاطر ہر طرح کے اسٹیشنوں کا استعمال کیا جاتا ہے، ایسے مواقع پر بھی جو دیگر خاص مقاصد کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ایسے کج فہموں کی ایسی تحریریں ایسی جگہوں پر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ریوڑی بیچنے والا ڈھیٹ شخص زبردستی اپنا ٹھیلا کسی عطر فروش کی صاف ستھری دکان میں گھساکر بیٹھ گیا ہو، اور بضد ہو کہ وہ اپنی ریوڑیاں بھی یہاں فروخت کرے گا۔ اب بھلا عطر فروشی کے لیے کھولی گئی ایک دکان اور ریوڑی میں کونسا تعلق اور کون سی مناسبت ہے۔ مگر ضد ہے کہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ یہ دکان بھی ہماری ریوڑیوں کی جائے نمائش بنے۔
ایسے حضرات پوری ڈھٹائی سے دواخانے میں بیٹھ کر اپنی ردی فروخت کرنے سے نہیں شرماتے۔ ایسے لوگوں کی تحریریں اور مختلف مواقع سے ان کی تشہیر دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ یہ حضرات کس دنیا میں جیتے ہیں؟ کیا کبھی کسی باصلاحیت شخص سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ؟ یا ان کےتکبر کی رداء اتنی دبیز اور عقل پر پڑا پردہ اتنا موٹا ہے کہ خود ہی کو عقل کل سمجھتے ہیں؟
درحقیقت ایسے حضرات ایک طرح کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی اس طرح کی احمقانہ حرکات سے اپنے نفس متعالیہ کی تسکین کا سامان کرتے ہیں!۔ بلاشبہ یہ نہ صرف اس امت کا بہت بڑا المیہ ہے بلکہ بہت سارے اہل علم وبا صلاحیت افراد کے یہاں اولیات کی تعیین میں نااہلی، مقصدیت وتعمیری سوچ کی کمی اور عدم توازن کا کھلا ثبوت بھی ہے۔
آخر وقت کی نبض کو دیکھتے ہوئے اسی سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی مفید اور بہترین معلومات نشر کرکے اسے اپنے لیے ذخیرہ آخرت بھی تو بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ بہت سارے احباب کرتے ہیں، پھر کم عقلی کا مظاہرہ کرکے اور پھیکم پھاک مچاکر اپنے قد کو مزید چھوٹا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
افسوس کہ بہت کم ہی ایسے احباب نظر آتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ لکھنے کی صلاحیت بھی دیتا ہے اور اس کی توفیق بھی، انھیں اولیات کی ترتیب کا صحیح فن بھی قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے اور ذوہدف وتعمیری گفتگو کا سلیقہ بھی، ان کی تحریروں سے نہ صرف قوم وملت مستفید ہوتی ہے بلکہ ان کا یہ عمل ان کے نامہ اعمال میں حسنات کی شکل میں جمع ہوتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام لوگوں کو اپنے حسن توفیق سے نوازے، دل کو مختلف بیماریوں سے پاک کرے، کوتاہیوں کو در گزر کرے اور ہمیں انہی لوگوں میں سے بنائے جن کے اعمال میں توفیق اٰالٰہی شامل حال ہوتی ہےاور جو اپنے اعمال و اہداف کی تعیین کرتے وقت قوم وملت کے سود وزیاں پر نگاہ رکھتے ہیں تاکہ لا قدّر اللہ خود ہمارے اعمال اور ہماری تحریریں ہی روز قیامت ہمارا محاسبہ نہ کرنے لگیں۔ آمین!n
بشکریہ : دی فری لانسر ممبئی
http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=983