محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الۗمَّۗ۱ۙ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۙالْحَيُّ الْقَيُّوْمُ۲ۭ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۳ۙ مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ۰ۥۭ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ۴
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی عبادت ونیاز کا مستحق نہیں ۔سارے سجدے اور تمام عبادتیں اسی کو زیبا ہیں، اس لیے کہ زندہ اور قیوم خدا وہی ہے ۔ اس کے سوا سب فنا کے گھاٹ اترنے والے ہیں۔ سب فانی اور حادث ہیں۔ سب احاطہ ٔ امکان کے اندر ہیں اور سب ایسے ہیں جو اس کی عبادت کرنا باعث فخر ومباہات سمجھتے ہیں۔ سب کا وظیفہء زندگی اس کی پرستش کرنا اور تسبیح وتقدیس کے مشغلوں میں مست رہنا ہے ۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ توراۃ وانجیل کے نزول کے بعد بھی روح انسانی تشنۂ فیض تھی اور ضرورت تھی کہ وہ حسب وعدہ ایک مکمل شریعت سے بہرہ ور ہو۔ یہ تشنگی اور ضرورت مسیح علیہ السلام کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ ''دیکھو دنیا کا سردار آتا ہے ۔'' اور یہ کہ '' میں بعض چیزیں تمھیں نہیں بتلاتا مگر وہ روح تمھیں سب کچھ بتائے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبیﷺ نازل کروں گا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنی ایک زبور میں اس سرخ وسفید شاہِ عرب کے انتظار میں غزل سراہیں۔ دانیال علیہ السلام حضورﷺ کو ایک مکاشفے میں دیکھتے ہیں اور یسعیاہ نبی علیہ السلام کی کتاب میں اس قدوسی کی تعریف ہے ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہے اور جس کی فتوحات روحانی سمندروں تک پھیل جائیںگی۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ میں مصدق ہوں ۔یعنی ان تمام وعدوں، امیدوں اور تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں۔تصدیق کا لفظ ان معنوں میں ادبیات عربی میں بکثرت مستعمل ہے ۔ ایک شاعر چند شاہسواروں کے متعلق کہتا ہے
الۗمَّۗ۱ۙ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۙالْحَيُّ الْقَيُّوْمُ۲ۭ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۳ۙ مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ۰ۥۭ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ۴
(شروع) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
آلٓمٓ (۱) اللہ ہی معبود ہے ۔ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ اور سب کا قائم رکھنے والا ہے۔۱؎ (۲) اس نے تجھ پرسچی کتاب نازل کی جو اگلی کتابوں کی تصدیق انصاف۔ جولوگ خدا کی آیتوں کے منکرہیں، انھیں سخت کرتی ہے۲؎ اور اس سے پہلے توریت اورانجیل نازل کی۔(۳)جولوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اتارا انصاف۔ جولوگ خدا عذاب ہوگا اور اللہ زبردست بدلہ لینے والا ہے۔(۴)
یہ سورۃ قرآن حکیم کی تیسری سورۃہے ۔ مدینہ میں ۹ھ میں نازل ہوئی۔ اس میں وفد نجران کے عقائد ومعترضات سے بحث کی ہے ۔ عام طورپر اس کے مخاطب عیسائی ہیں۔ٰال عمران
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی عبادت ونیاز کا مستحق نہیں ۔سارے سجدے اور تمام عبادتیں اسی کو زیبا ہیں، اس لیے کہ زندہ اور قیوم خدا وہی ہے ۔ اس کے سوا سب فنا کے گھاٹ اترنے والے ہیں۔ سب فانی اور حادث ہیں۔ سب احاطہ ٔ امکان کے اندر ہیں اور سب ایسے ہیں جو اس کی عبادت کرنا باعث فخر ومباہات سمجھتے ہیں۔ سب کا وظیفہء زندگی اس کی پرستش کرنا اور تسبیح وتقدیس کے مشغلوں میں مست رہنا ہے ۔
۲؎ نزول قرآن کے وقت متعدد صحائف موجود تھے۔جن کے متعلق خیال تھا کہ یہ الہامی ہیں۔ قرآن حکیم جب نازل ہوا ہے ، طبعاً یہ سوال اٹھاکہ قرآن کریم کی حیثیت کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ پہلی تمام کتابوں کا جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، مصدق ہے۔تصدیق کے دومعنی ہیں۔ ایک تویہ کہ جس قدر سچائیاں اور صداقتیں پہلے موجود ہیں۔قرآن حکیم ان کا بکمال وسعت قلبی اعتراف کرتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ توریت وانجیل کو بالکل تحریف وتصحیف سے مبرا مانتا ہے۔تصدیق صحیح اور درست کتاب کی ہے۔ نہ اغلاط وتحریفات کی۔ جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مواضع سے صاف ظاہر ہے۔ وہ باوجود تصدیق کے ان کے غلط عقائد پر انھیں متنبہ کرتا ہے اور سختی کے ساتھ ٹوکتا ہےاور برملا کہتا ہے کہ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللَّہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ یعنی جہاں تک پیغام کی روح اور مغز کا تعلق ہے وہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اسی وجہ سے ہرالہامی کتاب کا فرض ہے کہ اس روح ورائحہ کی تائید کرے۔قرآن مصدق ہے
دوسرے معنی یہ ہیں کہ توراۃ وانجیل کے نزول کے بعد بھی روح انسانی تشنۂ فیض تھی اور ضرورت تھی کہ وہ حسب وعدہ ایک مکمل شریعت سے بہرہ ور ہو۔ یہ تشنگی اور ضرورت مسیح علیہ السلام کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ ''دیکھو دنیا کا سردار آتا ہے ۔'' اور یہ کہ '' میں بعض چیزیں تمھیں نہیں بتلاتا مگر وہ روح تمھیں سب کچھ بتائے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبیﷺ نازل کروں گا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنی ایک زبور میں اس سرخ وسفید شاہِ عرب کے انتظار میں غزل سراہیں۔ دانیال علیہ السلام حضورﷺ کو ایک مکاشفے میں دیکھتے ہیں اور یسعیاہ نبی علیہ السلام کی کتاب میں اس قدوسی کی تعریف ہے ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہے اور جس کی فتوحات روحانی سمندروں تک پھیل جائیںگی۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ میں مصدق ہوں ۔یعنی ان تمام وعدوں، امیدوں اور تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں۔تصدیق کا لفظ ان معنوں میں ادبیات عربی میں بکثرت مستعمل ہے ۔ ایک شاعر چند شاہسواروں کے متعلق کہتا ہے
؎فوارس صدقت فیھم ظنونی
یعنی ان لوگوں نے میری تمام امیدوں کو پورا کردیا۔