• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپریل فول منانے پر تنبیہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اپریل فول منانے پر تنبیہ

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
ترجمہ:طارق علی بروہی
سوال:
سائل پوچھتا ہے کہ کیا مذاق میں جھوٹ بولنا جائز ہے؟
جواب:
جھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں چاہے مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں۔ کیونکہ یہ تو ان مذموم اخلاق میں سے ہے جن سے سوائے منافق کے کوئی متصف نہیں ہوتا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم کچھ لوگوں کو اس جھوٹ جیسے گناہ کو بھی دو اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے سنتے ہیں۔
1۔سفید جھوٹ
2۔سیاہ جھوٹ
یعنی اگر جھوٹ بولنے سے کوئی نقصان ہو جیسے کسی کا ناجائز مال کھانا یا زیادتی کرنا وغیرہ تو اسے وہ سیاہ جھوٹ کا نام دیتے ہیں، اور اگر اس میں ایسی باتیں نہ ہوں تو اسے وہ سفید جھوٹ کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت یہ تقسیم باطل ہے۔ کیونکہ جھوٹ کل کا کل سیاہ ہی ہے۔ البتہ جس قدر اس کے نتیجے میں نقصان وضرر بڑھتا ہو اسی قدر اس کی سیاہی میں اضافہ ہوگا۔ اس موقع مناسبت کے لحاظ سے میں اپنے بعض کم عقل مسلمان بھائیوں کو اپریل فول منانے سے خبردار کرنا چاہوں گا جو اسی جھوٹ کی قبیل سے ہے۔ کہ جسے انہوں نے یہود، نصاری، مجوس یا دیگر کفار سے مستعار لیا ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل برائیاں اور محظورات پائے جاتے ہیں:
اول:
اس کی شناعت تو اس لئے بھی دوچند ہے کہ نہ صرف اس کی بنیاد جھوٹ پر ہے اور جھوٹ شرعا ًحرام ہے ، بلکہ
دوم:
ساتھ ہی ساتھ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے جو کہ حرام ہے۔ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
’’ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ‘‘ ([1]) (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد جید ہیں اور اس کا کم از کم حکم بھی حرمت کا ہے اگرچہ اس حدیث کا ظاہر تو مشابہت اختیار کرنے والے کے کفر پر دلالت کرتا ہے۔
سوم:
اور ان دو برائیوں کے علاوہ بھی اس میں مزید برائی یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کی اس کے دشمن کے سامنے تذلیل ہے کیونکہ یہ بات انسانی طبیعت کے لحاظ سے ایک حقیقت ہے کہ جو شخص کسی کی تقلید ونقالی اختیار کرتا ہے تو نتیجتاً جس کی تقلید کی جارہی ہے وہ اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے اور یہ تصور رکھتا ہے کہ میں اس سے اعلی وافضل ہوں۔ اور یہ مقلد پست وکمزور ہے اسی لئے تو وہ میری تقلید ومشابہت اختیار کررہا ہے۔ لہذا یہ ایک مومن کی توہین وذلت ہے کہ وہ کافروں کے سامنے نیچ،کم تر، ذلیل اور اس کے تابع ہوجائے۔
چہارم:
اس خبیث جھوٹ (اپریل فول) میں غالباً لوگوں کا مال باطل طور پر کھایا جاتا ہے یا مسلمان کو ڈرایا اور خوفزدہ کیا جاتا ہے۔
کبھی ایسا کرتے ہیں کہ گھر والوں کو فون کرکے کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں کل پارٹی ہے بہت لوگ آرہے ہیں تو بہت سا کھانا گوشت وغیرہ پکالیتے ہیں۔ یا پھر ایسی خبردیتے ہیں کہ جس سے کوئی خوفزدہ ہوجائے یا گھبرا جائے جیسے کہتے ہیں کہ آپ کے سرپرست کا کار حادثہ ہوگیا ہے یا اس جیسی دوسری باتیں جواس حالت کے علاوہ بھی جائز نہیں ہیں ۔ اس لئے ایک مسلمان کو چاہیےکہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے اور اپنے دین کے ذریعہ عزت دار، غالب، فخر کرنے والا اور اسے پسند کرنے والا بنے تاکہ یہ کافروں کے دلوں میں ہیبت کا باعث بنے اور وہ اس کا احترام کریں۔
اور میں ضمانت دیتا ہوں ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کے دین کے ذریعہ عزت کا خواہاں ہو کہ وہ لوگوں کے نزدیک بھی عزیز ہی رہے گااور اس کے برعکس جو اس دین کے دشمنوں کے سامنے ذلت اختیار کرے گا تو وہ اللہ تعالی کے یہاں ذلیل سے ذلیل تر ہوتا چلا جائے گا اور ساتھ ہی خود ان دین کے دشمنوں کے نزدیک بھی۔ اسی لئے اے مسلمان کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ تمہارا ان کافروں کی متابعت کرنا اور ان کے اخلاق اپنانا تمہیں ان کے نزدیک کوئی عزت کا رتبہ دلا دےگا۔ نہیں، بلکہ یہ تو تمہیں ان کی نظر میں غایت درجہ ذلت وپستی میں دھکیل دے گا۔
کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اگر ابھی کوئی آپ کے افعال میں آپ کی پیروی شروع کردے تو آپ اپنے آپ میں فخر محسوس کریں گے اور یہ محسوس کریں گے کہ آپ کا پیروکار آپ کے آگے کمتری وذلت اختیار کررہا ہے کہ وہ آپ کا مقلد بن گیا۔ اور یہ بات تو بالکل بشری فطرت کے اعتبار سے ایک حقیقت ہے۔ اس لئے جب بھی ہمارے دشمن ہمیں دیکھیں گے کہ ہم اپنے دین کے ذریعہ قوی، عزت دار وغالب ہیں اور ہمیں ان کی کوئی پرواہ نہیں اور ان سے ہم کوئی معاملہ نہیں کرتے سوائے جس کا شریعت الہی تقاضہ کرتی ہے۔ و ہ شریعت جو بعثت نبویﷺ کے بعد سے تمام عالم کے لئے شریعت ہے۔
’’ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا‘‘ (الاعراف: 158)
کہو اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا رسول ہوں
اور نبی اکرمﷺسے یہ حدیث ثابت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
’’ والذي نفسي بيده لا يسمع بي يهوديٌ ولا نصرانيٌ ثم لا يؤمن بما جئت به إلا كان من أهل النار ‘‘ ([2])
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بھی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو میں لے کر آیا ہوں تو وہ جہنمیوں میں سے ہے
جب یہ اہل کتاب کا معاملہ ہے جو کتاب کا علم رکھنے والے ہیں تو پھر دوسرے کافروں کے بارے میں آپ کا یہ مقلدانہ رویہ کیا شمار ہوگا۔ جو کوئی بھی محمﷺ کے بارے میں سنے مگر آپﷺ کی اتباع اختیار نہ کرے تو وہ جہنمی ہے، جب معاملہ ایسا ہے تو ہم مسلمانوں کا کیا حال ہوگا کہ اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہیں اور غیروں کی نقالی کرتے ہیں۔ جبکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جو مکالمہ ہرقل روم کے بادشاہ جو کافر تھا اور ابوسفیانؓ کے درمیان ہوا تھا اورابوسفیان چاہتے تھے کہ نبی اکرمﷺ کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہیں اور خود بادشاہ کو بھی خوشی ہوتی اگر وہ اس صالح نبیﷺ کے بارے میں کوئی کذب بیانی کرجاتا مگر اس ڈر سے کہ انہیں پکڑ لیا جائے گا نہ بول سکے۔ جب ایک کافر کو جھوٹ بولنے میں اتنا خوف ہے تو پھر اے مومن تمہارا کیا حال ہے کہ جھوٹ بولتے ہو! اللہ تعالی ہی نیکی کی توفیق دینے والا ہے۔

(فتاوی نور علی الدرب: متفرقہ، شیخ کی آفیشل ویب سائٹ آرٹیکل 9039 سے لیا گیا)​

حوالہ جات:
[1] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831
[2] صحیح مسلم 155 اور مسند احمد 27420 میں ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے
’’ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ‘‘
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے، اس امت میں سے کوئی بھی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سن لے پھر وہ اس حال میں مرے کہ جو کچھ مجھ پر نازل ہوا اس پر ایمان نہ لایا تھا، تو وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (ط ع)
[video=youtube;ClZsqAYAgA0]http://www.youtube.com/watch?v=ClZsqAYAgA0&feature=youtu.be[/video]​
 
Top