ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
عن ابن عباس، عن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنهم ـ
أنه قال لما مات عبد الله بن أبى ابن سلول دعي له
رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه،
فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبت إليه
فقلت يا رسول الله، أتصلي على ابن أبى وقد قال يوم كذا وكذا كذا وكذا ـ
أعدد عليه قوله ـ
فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال " أخر عني يا عمر".
فلما أكثرت عليه قال " إني خيرت فاخترت،
لو أعلم أني إن زدت على السبعين فغفر له لزدت عليها".
قال فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم
ثم انصرف، فلم يمكث إلا يسيرا حتى نزلت الآيتان من {براءة}
{ولا تصل على أحد منهم مات أبدا} إلى {وهم فاسقون}
قال فعجبت بعد من جرأتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ،
والله ورسوله أعلم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان فرمایا
سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا
کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے
تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا
یا رسول اللہ!
آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں
حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور
فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے
اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔
لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا
تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے
میں نے نماز پڑھانی پسند کی
اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ
اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی
تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد
آپ پر سورئہ براءة کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔
“ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔ ”
آیت وہم فاسقون تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑا ہو‘
ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیں مانا
اور مرے بھی تونا فرمان رہ کر۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور
اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔
حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ہر مصلحت کو ) زیادہ جانتے ہیں۔
تشریح : عبداللہ بن ابی مدینہ کا مشہور ترین منافق تھا۔
جو عمر بھر اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور
اس نے ہرنازک موقع پر مسلمانوں کو اور اسلام کو دھوکا دیا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین تھے۔
انتقال کے وقت اس کے لڑکے کی درخواست پر جو سچا مسلمان تھا‘
آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور یاد دلایا کہ
فلاں فلاں مواقع پر اس نے ایسے ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی فطری محبت وشفقت کی بنا پراس پر نماز پڑھی۔
اس کے بعد وضاحت کے ساتھ ارشاد باری نازل ہوا کہ
وَلاَ تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنہُم مَّاتَ اَبَدًا ( التوبہ: 84 )
یعنی کسی منافق کی آپ کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے
کہ کاش میں اس دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی جرات نہ کرتا۔
بہرحال اللہ پاک نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
کی رائے کی موافقت فرمائی
اور منافقین اور مشرکین کے بارے میں
کھلے لفظوں میں جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔
آج کل نفاق اعتقادی کا علم نا ممکن ہے۔ کیونکہ وحی والہام کا سلسلہ بند ہے۔
لہٰذا کسی کلمہ گو مسلمان کو جو بظاہر ارکان اسلام کا پابند ہو‘
اعتقادی منافق نہیں کہا جاسکتا۔ اور
عملی منافق فاسق کے درجہ میں ہے۔
جس پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
صحیح بخاری کتاب الجنائز
باب : منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا اور مشرکوں کے لیے طلب مغفرت کرنا ناپسند ہے
حدیث نمبر : 1366 (ترجمہ و تشریح مولانا داؤد راز رحمہ اللہ)
أنه قال لما مات عبد الله بن أبى ابن سلول دعي له
رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه،
فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبت إليه
فقلت يا رسول الله، أتصلي على ابن أبى وقد قال يوم كذا وكذا كذا وكذا ـ
أعدد عليه قوله ـ
فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال " أخر عني يا عمر".
فلما أكثرت عليه قال " إني خيرت فاخترت،
لو أعلم أني إن زدت على السبعين فغفر له لزدت عليها".
قال فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم
ثم انصرف، فلم يمكث إلا يسيرا حتى نزلت الآيتان من {براءة}
{ولا تصل على أحد منهم مات أبدا} إلى {وهم فاسقون}
قال فعجبت بعد من جرأتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ،
والله ورسوله أعلم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان فرمایا
سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا
کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے
تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا
یا رسول اللہ!
آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں
حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور
فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے
اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔
لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا
تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے
میں نے نماز پڑھانی پسند کی
اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ
اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی
تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد
آپ پر سورئہ براءة کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔
“ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔ ”
آیت وہم فاسقون تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑا ہو‘
ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیں مانا
اور مرے بھی تونا فرمان رہ کر۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور
اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔
حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ہر مصلحت کو ) زیادہ جانتے ہیں۔
تشریح : عبداللہ بن ابی مدینہ کا مشہور ترین منافق تھا۔
جو عمر بھر اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور
اس نے ہرنازک موقع پر مسلمانوں کو اور اسلام کو دھوکا دیا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین تھے۔
انتقال کے وقت اس کے لڑکے کی درخواست پر جو سچا مسلمان تھا‘
آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور یاد دلایا کہ
فلاں فلاں مواقع پر اس نے ایسے ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی فطری محبت وشفقت کی بنا پراس پر نماز پڑھی۔
اس کے بعد وضاحت کے ساتھ ارشاد باری نازل ہوا کہ
وَلاَ تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنہُم مَّاتَ اَبَدًا ( التوبہ: 84 )
یعنی کسی منافق کی آپ کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے
کہ کاش میں اس دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی جرات نہ کرتا۔
بہرحال اللہ پاک نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
کی رائے کی موافقت فرمائی
اور منافقین اور مشرکین کے بارے میں
کھلے لفظوں میں جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔
آج کل نفاق اعتقادی کا علم نا ممکن ہے۔ کیونکہ وحی والہام کا سلسلہ بند ہے۔
لہٰذا کسی کلمہ گو مسلمان کو جو بظاہر ارکان اسلام کا پابند ہو‘
اعتقادی منافق نہیں کہا جاسکتا۔ اور
عملی منافق فاسق کے درجہ میں ہے۔
جس پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
صحیح بخاری کتاب الجنائز
باب : منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا اور مشرکوں کے لیے طلب مغفرت کرنا ناپسند ہے
حدیث نمبر : 1366 (ترجمہ و تشریح مولانا داؤد راز رحمہ اللہ)