- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
من کنت مولا فھوا علی مولا۔
اب اس حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار ارشاد فرمایا۔۔۔
ھذا منی وانا منہ، ھذا منی وانا منہ
یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، یہ مجھ سے ہے میں اس سے ہوں۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ٢٤٧٢
جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔۔۔
یہ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں اُن رضی اللہ عنہ سے۔۔۔
تو کیا یہ صحابی اہلبیت میں شمار ہونگے؟؟؟۔۔۔
اس حدیث شریف میں وارد ارشاد پیغمبر ﷺ
((ھذا منی وانا منہ، ھذا منی وانا منہ
یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، یہ مجھ سے ہے میں اس سے ہوں۔))
کا مطلب یہ ہے کہ :
یہ صحابی مجھ سے گہرا تعلق رکھتا ہے ،یہ اسی راہ کا راہی ہے جو میری راہ ہے ، یہ میرے ہی طریقہ پر کاربند ہے ؛
قرآن و حدیث میں اس جملہ کا یہی مفہوم اور مطلب مقصود ہے :
اس جملہ اور صیغہ کلام سے اس صحابی کا اہل بیت النبی ﷺ سے ہونا ثابت نہیں ہوتا ، کیونکہ
مثلاً عرب کے مشہور قبیلہ الاشعری کے متعلق فرمایا :
عن أبي موسى، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الأشعريين إذا أرملوا في الغزو، أو قل طعام عيالهم بالمدينة جمعوا ما كان عندهم في ثوب واحد، ثم اقتسموه بينهم في إناء واحد بالسوية، فهم مني وأنا منهم»
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا یا مدینہ (کے قیام) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔( صحیح بخاری ۲۴۸۶ )
یعنی وہ لوگ میری ہی راہ اور طریقہ پر ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی شرح میں امام حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
قوله فهم مني وأنا منهم أي هم متصلون بي وتسمى من هذه الاتصالية كقوله لست من دد وقيل المراد فعلوا فعلي في هذه المواساة وقال النووي معناه المبالغة في اتحاد طريقهما واتفاقهما في طاعة الله تعالى وفي الحديث فضيلة عظيمة للأشعريين قبيلة أبي موسى (فتح الباری )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیحین کی ایک طویل حدیث کے آخر میں ارشاد ہے :
« أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»
» اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں ۔ « فمن رغب عن سنتي فليس مني » میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
یعنی جس نے میری سنت سے منہ موڑا ،وہ میری راہ پر نہیں ، اسکا مجھ سچا تعلق نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سیدنا ابراہیم کی ایک دعاء اللہ رب العزت نے یوں بیان کی ہے کہ :
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ﴿35﴾ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴿36﴾ سورہ ابراہیم
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] [ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو] جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنادے، اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناه دے۔۔ (35) اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راه سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والاہے۔۔ (36)
یعنی میرے دین پر کاربند ہی میری ملت کا فرد ہے اگر میری اتباع نہیں کرے گا تو اس کا مجھ سے تعلق نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔