sheikh fam
رکن
- شمولیت
- اپریل 16، 2016
- پیغامات
- 39
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 53
اپنی دوست کی والدہ کو امی کہنا صحیح ہے ؟؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہاپنی دوست کی والدہ کو امی کہنا صحیح ہے ؟؟
بہت بہت شکریہالسلام علیکم ورحمۃ اللہ
اپنے والدین کے علاوہ کسی اور اپنا ابا اور امی نہیں کہنا چاہیئے ،
اَلَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕــهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ ۭاِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَهُمْ ۭ وَاِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ )
ترجمہ :
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں، وہ ان کی (فی الواقع) مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا تھا اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ ایک ناپسندیدہ اور جھوٹی بات ہے۔ اور اللہ یقینا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
تشریح:
اس آیت کریمہ میں ظہار کا شرعی حکم بیان ہوا ہے ،
" ظہار " یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہہ دے کہ تو میرے لیے ماں کی ظہر یعنی پشت جیسی ہے عربوں میں یہ رواج Custom چلا آرہا تھا کہ جو شخص یہ الفاظ کہہ دیتا اس کی بیوی اس پر تاعمر حرام ہوتی اور اسے وہ طلاق مغلظہ قرار دیتے۔
ظَہْر (پشت) کا لفظ سواری کے معنی میں ہے جسے وہ کنایہ کے طور پر استعمال کرتے۔
٣۔۔ یعنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ اس کی ماں تو وہی ہے جس نے اسے جنا۔
٤۔۔ بیوی کو ماں قرار دینا سخت ناپسندیدہ بات بھی ہے اور جھوٹ بھی۔ ناپسندیدہ اس لیے کہ یہ ایک غیر معقول بات ہے اور عورت کی دل آزاری کا باعث بھی۔ اور جھوٹ اس لیے کہ یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔
٥۔۔ یعنی جو شخص بیوی کو اپنے اوپر حرام قرار دینے کے گناہ کا مرتکب ہوا وہ اللہ سے معافی اور مغفرت طلب کرے کہ اللہ معاف کرنے والا مغفرت فرمانے والا ہے۔
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں تو اس سے وہ ان کی حقیقی مائیں نہیں بن جاتیں کہ ان کے لئے وہ ماؤں کی طرح حرام ہوں بلکہ ان کی حقیقی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ۔ بلا شبہ یہ لوگ ایک جھوٹی اور نامعقول بات کہتے ہیں ۔ پس جس عورت نے ان کو جنا نہیں وہ ان پر ماں کی طرح حرام کیسے ہوسکتی ہے ۔
اس میں محل استدلال یہی جملہ ہے کہ حقیقی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے جنم دیا ،دوسری عورتیں مائیں نہیں بن سکتیں ، لہذا انہیں (امی ، والدہ ) نہیں کہنا چاہیئے ، بلکہ
خالہ ، پھوپھی وغیرہ کہہ کر مخاطب کیا جاسکتاہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سورۃ الاحزاب میں فرمایا :
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ۭ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا Ĉ
ترجمہ :
ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپوں (کے نام) کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ اور کوئی بات تم بھول چوک کی بنا پر کہہ دو تو اس میں تم پر کوئی گرفت نہیں، مگر جو دل کے ارادہ سے کہو (اس پر ضرورگرفت ہوگی۔ ) اللہ تعالیٰ یقینا معاف کرنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔
شرح :
مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ لکھتے ہیں :
[٥] یعنی اگر کوئی کسی کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہہ دے یا کسی کا احترام ملحوظ رکھ کر کسی بزرگ کو باپ یا بزرگ عورت کو ماں کہہ دے یا محض اخلاقاً یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ حرج اس وقت واقع ہوتا ہے کہ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی کہے تو حقیقی بیٹے یا بیٹی جیسے فرائض ' حقوق بھی اپنے اوپر لازم کرلے۔
[٦] اپنے آپ کو کسی دوسرے فرد یا قوم کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جس طرح عام مومنوں کو حکم ہے کہ وہ کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کریں کسی دوسرے کی طرف نہ کریں۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود بھی اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا کسی قوم کی طرف منسوب نہ کرے۔ چناچہ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : '' جس نے دوسرے شخص کو جان بوجھ کر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہوگیا اور جو شخص اپنے تئیں دوسری قوم کا بتائے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے '' (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب نسبۃ الیمن الی اسمٰعیل)
ہمارے ملک میں سید بننے کا یا کسی اونچی ذات سے نسبت قائم کرنے کا عام رواج ہے۔ ایسے حضرات اس حدیث کے آئینے میں اپنا انجام دیکھ سکتے ہیں۔
[٧] اس کا ایک مطلب تو ہے کہ اس سلسلہ میں تم سے جو پہلے لغزشیں اور غلطیاں ہوچکی ہیں اللہ انھیں معاف کرنے والا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر تم نادانستہ کوئی ایسی بات کہہ دو یا بھول چوک کہہ دو تو ایسی خطائیں بھی اللہ معاف کرنے والا ہے۔ (تیسیرالقرآن )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہاں کسی بڑے کو چچا ماموں یا خالہ ، پھوپھی وغیرہ کہہ کر مخاطب کیا جاسکتاہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
وعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ فَقَالَ : ( يَا خَالُ ، قُلْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ . قَالَ : خَالٌ أَمْ عَمٌّ ؟! قَالَ : بَلْ خَالٌ . قَالَ : وَخَيْرٌ لِي أَنْ أَقُولَهَا ؟! قَالَ : نَعَمْ ) رواه أحمد (13414) وقال الألباني في أحكام الجنائز : إسناده صحيح على شرط مسلم .
یعنی سیدنا انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك انصارى شخص كى عيادت كے ليے تشريف لائے تو فرمايا:
" اے ماموں كہو: لا الہ الا اللہ، وہ كہنا لگا: ماموں يا چچا ؟ انہوں نے كہا بلكہ ماموں ، ميرے ليے يہ كہنا بہتر ہے ؟! انہوں نے كہا جى ہاں "
مسند احمد حديث نمبر ( 13414 ) علامہ البانى رحمہ اللہ احكام الجنائز ميں كہتے ہيں: اس كى سند صحيح اور مسلم كى شرط پر ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔