lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
بحارالانوار --- باقر مجلسی ---
تیسری داستان : ایک دفع میرے پاس ایک عورت آئی جو اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا ذکر کر رہی تھی کہ خاندان سادات کے سید حسین صدر آج سے بیس سال قبل مجھ سے متعہ کیا کرتے تھے اور جب میں حاملہ ہو گئی تو سید صاحب نے اپنی ہوس پوری کر کہ مجھے چھوڑ دیا - میرے ہاں اس حمل سے بچی پیدا ہوئی - عورت نے قسم کھا کر کہا کہ میری وہ بیٹی بھی سید صاحب کے نطفے سے حاملہ ہو گئی - لیکن مجھے اس کا علم نہ تھا - بعدازاں جب میری بیٹی جوان ہو گئی اور شادی کے قریب پہنچی تو مجھے علم ہوا کہ وہ تو حاملہ ہے - میں نے اس سے حمل کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ سید صاحب نے اس سے متعہ کیا تھا لہٰذا وہ حملہ ہو گئی - یہ سن کر ماں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی - اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ وہ سید تو تیرا باپ ہے اور تمام قصہ که سنایا - کتنی عجیب بات ہے کہ ایک درندہ صفت سید ایک عورت سے منہ کالا کرتا رہا اور بعد میں اپنے ہی نطفے سے پیدا ہونے والی بیٹی سے بھی شب باشی سے گریز نہ کیا -
اس قسم کے بیشمار واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور بہت دفع ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی عورت کے ساتھ متعہ کرتا ہے اور اس کے بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت تو اس کی بہیں تھی - اور ایک شخص بیشمار دفع اپنے باپ کی بیوی (ماں) سے متعہ کر بیٹھا - ایران میں اس نوع کے لاتعداد واقعات پیش آتے ہیں جن کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے -
(کشف الاسرار ، السید حسین الموسوی ، صفحہ ٤٨ ، ٤٩ ، عالم نجف - عراق)
فرمان الہی ہے کہ:
ترجمہ : اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ الله ان کو اپنے فضل سے غنی کردے-
(سورة النور:٣٣)
لہٰذا جس شخص کو تنگدستی کی وجہ سے شرعی نکاح کا موقع نہ ملے اس پر لازم ہے کہ وہ پاکدامنی اختیار کرے حتی کہ الله اس کو اپنا فضل خاص عطا فرمائے اور شادی کی کوئی صورت نکل آئے - سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متعہ جائز ہوتا تو الله غیر شادی شدہ شخص کو پاکدامنی اور انتظار کاحکم کیوں ارشاد فرماتا حتی کہ آسانی کا کوئی راستہ نکل آئے؟ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الله اس شخص کو متعہ کی ہدایت جاری فرماتا کہ شہوت کی آگ میں جلنے کی بجائے وہ متعہ کر کہ اس کو بجھا سکتا ہے -
الله کا فرمان ہے کہ:
ترجمہ : اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور الله تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور الله بخشنے والا مہربان ہے -
(سورة النساء:٢٥)
مندرجہ بالا آیت میں الله ارشاد فرما رہا ہے کہ جو لوگ عدم استطاعت کی وجہ سے آزاد عورت سے شادی نہیں کر سکتے وہ لونڈی سے نکاح کر لیں اور جو لوگ لونڈی بھی نہ پاتے ہوں ان کو صبر سے کام لینا چاہئے - سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متعہ جائز ہوتا تو الله شخص کی ضرور رہنمائی فرماتا اور لونڈی کے میسر نہ آنے کی صورت میں صبر کی تلقین نہ فرماتا -
عبد الله بن سنان قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: لا تدنس نفسك بها -
ترجمہ : عبدالله بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبدالله سے متعہ کے بارے میں سوال کیا - انہوں نے فرمایا: اپنے نفس کو اس سے آلودہ نہ کرنا -
(بحارالانوار ، ١٠٠ / ٣١٨)
عبدالله کے اس قول میں اس بات کی صداقت ہے کہ متعہ نفس کو آلودہ کر دیتا ہے - اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متعہ حلال ہوتا تو عبدالله اس پر یہ حکم کیوں لگاتے؟ حتی کہ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے حرام ہونے کی بھی صراحت کر دی -
(وسائل الشیعة)
اپنے نفس کو متعہ سے آلودہ مت کرو / باپ کا بیٹی سے متعہ
تیسری داستان : ایک دفع میرے پاس ایک عورت آئی جو اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا ذکر کر رہی تھی کہ خاندان سادات کے سید حسین صدر آج سے بیس سال قبل مجھ سے متعہ کیا کرتے تھے اور جب میں حاملہ ہو گئی تو سید صاحب نے اپنی ہوس پوری کر کہ مجھے چھوڑ دیا - میرے ہاں اس حمل سے بچی پیدا ہوئی - عورت نے قسم کھا کر کہا کہ میری وہ بیٹی بھی سید صاحب کے نطفے سے حاملہ ہو گئی - لیکن مجھے اس کا علم نہ تھا - بعدازاں جب میری بیٹی جوان ہو گئی اور شادی کے قریب پہنچی تو مجھے علم ہوا کہ وہ تو حاملہ ہے - میں نے اس سے حمل کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ سید صاحب نے اس سے متعہ کیا تھا لہٰذا وہ حملہ ہو گئی - یہ سن کر ماں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی - اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ وہ سید تو تیرا باپ ہے اور تمام قصہ که سنایا - کتنی عجیب بات ہے کہ ایک درندہ صفت سید ایک عورت سے منہ کالا کرتا رہا اور بعد میں اپنے ہی نطفے سے پیدا ہونے والی بیٹی سے بھی شب باشی سے گریز نہ کیا -
اس قسم کے بیشمار واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور بہت دفع ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی عورت کے ساتھ متعہ کرتا ہے اور اس کے بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت تو اس کی بہیں تھی - اور ایک شخص بیشمار دفع اپنے باپ کی بیوی (ماں) سے متعہ کر بیٹھا - ایران میں اس نوع کے لاتعداد واقعات پیش آتے ہیں جن کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے -
(کشف الاسرار ، السید حسین الموسوی ، صفحہ ٤٨ ، ٤٩ ، عالم نجف - عراق)
فرمان الہی ہے کہ:
ترجمہ : اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ الله ان کو اپنے فضل سے غنی کردے-
(سورة النور:٣٣)
لہٰذا جس شخص کو تنگدستی کی وجہ سے شرعی نکاح کا موقع نہ ملے اس پر لازم ہے کہ وہ پاکدامنی اختیار کرے حتی کہ الله اس کو اپنا فضل خاص عطا فرمائے اور شادی کی کوئی صورت نکل آئے - سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متعہ جائز ہوتا تو الله غیر شادی شدہ شخص کو پاکدامنی اور انتظار کاحکم کیوں ارشاد فرماتا حتی کہ آسانی کا کوئی راستہ نکل آئے؟ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الله اس شخص کو متعہ کی ہدایت جاری فرماتا کہ شہوت کی آگ میں جلنے کی بجائے وہ متعہ کر کہ اس کو بجھا سکتا ہے -
الله کا فرمان ہے کہ:
ترجمہ : اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور الله تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور الله بخشنے والا مہربان ہے -
(سورة النساء:٢٥)
مندرجہ بالا آیت میں الله ارشاد فرما رہا ہے کہ جو لوگ عدم استطاعت کی وجہ سے آزاد عورت سے شادی نہیں کر سکتے وہ لونڈی سے نکاح کر لیں اور جو لوگ لونڈی بھی نہ پاتے ہوں ان کو صبر سے کام لینا چاہئے - سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متعہ جائز ہوتا تو الله شخص کی ضرور رہنمائی فرماتا اور لونڈی کے میسر نہ آنے کی صورت میں صبر کی تلقین نہ فرماتا -
عبد الله بن سنان قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: لا تدنس نفسك بها -
ترجمہ : عبدالله بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبدالله سے متعہ کے بارے میں سوال کیا - انہوں نے فرمایا: اپنے نفس کو اس سے آلودہ نہ کرنا -
(بحارالانوار ، ١٠٠ / ٣١٨)
عبدالله کے اس قول میں اس بات کی صداقت ہے کہ متعہ نفس کو آلودہ کر دیتا ہے - اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متعہ حلال ہوتا تو عبدالله اس پر یہ حکم کیوں لگاتے؟ حتی کہ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے حرام ہونے کی بھی صراحت کر دی -
(وسائل الشیعة)