• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے نفس کے خلاف جہاد

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اپنے نفس کے خلاف جہاد

اَلْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہٗ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ(ابن ماجہ)
اس حدیث شریف میں مجاہدہ نفس کو جہاد سے تعبیر فرمایا بلکہ اس سے ایک درجہ بڑھ کر فرمایا کہ مجاہد تو وہی ہوتا ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے یعنی اصل اور اعلیٰ درجہ کا جہاد جہاد بالنفس ہے نہ کہ قتال لہٰذا صرف قتال کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دینا درست نہیں ہے۔

جواب نمبر ا:

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اصلی اور حقیقی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ڈالے رکھے۔ یعنی جہاد تب جہاد ہوگا جب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا کیلئے ہو اگر کسی اور مقصد کیلئے قتال کیا گیا مثلاً قومیت، عصبیت، وطنیت، ریا یا شہرت کی خاطر ہو تو یہ ہرگز جہاد نہیں ہوگا۔

گویا اس حدیث شریف میں اصل قید فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہ ہے جس کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص غنیمت کیلئے لڑتا ہے دوسرا شہرت اور ریاکاری کیلئے تیسرا اپنی بہادری دکھانے کیلئے لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں لڑنے والا کون شمار ہوگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیلِ اللّٰہ (مشکوٰۃ)
کہ جو شخص اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو تو صرف وہی اللہ کے راستہ میں لڑنے والا شمار ہوگا۔

جواب نمبر ۲:


اور اگر حدیث شریف کا مطلب یہ لیا جائے جو عام طور پر لیا جاتا ہے یعنی کامل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے تو آپ غور فرمائیں کہ جس طرح ایک مجاہد اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کرتا ہے۔ کہ گھر سے بے گھر ہونا ، والدین، اولاد، اعزہ و اقارب سے دوری ، بیوی کی جدائی، مال و دولت کی قربانی ، بلکہ اپنی اولاد کو میدان ِجہاد میں ڈال کر موت کے منہ کے سامنے کر دینا اور سخت گرمیوں ، سخت سردیوں میں حالتِ جنگ کے خوف میں نمازوں کا اہتمام، گھروں سے بے گھر ہوکر اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے حدود شریعت کا خیال کرنا، اپنی سب سے قیمتی چیز جان کو خطرات میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش کرنا کیا اس کی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے؟ تو نفس کے خلاف جہاد بھی تو مجاہد سب سے بڑھ کر کرتا ہے۔

یہ انجمادِ لہو باعثِ فساد ہی ہے
جہادِ نفس کا مطلب بھی تو جہاد ہی ہے

جواب نمبر ۳:

اور اگر حدیث شریف کا مطلب یہ لیا جائے کہ اصل اور کامل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے یعنی میدانِ جنگ گرم ہو مسلمانوں کی عزتوں، مال، جان، ماؤں بہنوں کی عصمت و ناموس کو خطرہ لاحق ہو، اور مسلمانوں کو حضرت کے خون کی ضرورت ہو اور حضرت پسینہ دینے سے بھی گریز کرتے ہوں، شریعت میدان میں آنے کا تقاضا کرے اور حضرت اپنے حجرہ کا دروازہ کھولنے پر بھی آمادہ نہ ہوں کہ ہم نفس کی اصلاح میں مصروف ہیں۔

تو غور کیجئے، انصاف کیجئے ، سچ بتائیے اور فیصلہ کریں کیا یہ نفسِ امّارہ کی شرارت ہے یا نفس مطمئنہ کی عبادت ، خدا پرستی ہے یا خواہش پرستی، تو یہ کتنا بڑا ابلیس لعین کا دھوکہ ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے ۔ آمین

جواب نمبر ۴:

اگر کوئی شخص ارکان ِایمان کا بھی اقرار نہ کرے اور یہ کہے کہ مومن ہونے کیلئے اللہ تعالیٰ کی ذات ، رسالت محمد ﷺ، ملائکہ ، قیامت، تقدیر، عذاب ِ قبر پر عقیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ کامل مومن تو وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں اور دلیل کے طور پر یہ حدیث شریف پیش کرے :
وَالْمُوْمِنُ مَنْ اَمِنَہٗ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِہِمْ
کامل مومن تو وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں۔


یا کوئی شخص کلمہ طیبہ کا بھی اقرار نہ کرے اور یہ کہے کہ مسلمان ہونے کیلئے ارکان اسلام پر عقیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ کامل مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں اور بطور دلیل کے یہ حدیث شریف پیش کرے:
اَلْمُسْلِمْ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ
کامل مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں۔


یا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے اپنا وطن چھوڑنے والوں کی اہمیت و فضیلت کا انکار شروع کردے اور یہ کہے کہ اصل مہاجر تو وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے اور دلیل کے طور پر یہ حدیث شریف پیش کرے:
وَالْمُہَاجِرُمَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ
اصل مہاجر تو وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے۔


تو آپ ایسے بدعقیدہ اور بے دین لوگوں کیلئے کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ عقائد ِصحیحہ کے ساتھ ساتھ مومن کو چاہئے کہ حقوق العباد کا خیال بھی کرے جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی کرنے والے مسلمانوں کو حقوق العباد کی رعایت سے غافل نہ ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنا وطن اور ملک چھوڑنے والوں کو گناہ بھی چھوڑنے چاہئیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرنے والے کو بھی حدود شریعت کی رعایت کرنی چاہئے۔

مکمل حدیث شریف یوں ہے جو کہ بطور برکت اور فائدہ کے لکھی جاتی ہے :

عَنْ فُضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍؓ قاَلَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ حَّجَۃِ الْوِدَاْعِ اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِالْمُوْمِنِ مَنْ اَمِنَہٗ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِہِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ وَالْمُجَاہِدِ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہٗ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ وَالْمُہَاجِرِمَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالْذُّنُوْبَ۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن)

فائدہ جلیلہ: (جہاد بالنفس کی حقیقت اور ایک مغالطہ)


جہاد بالنفس کا معنی یہ ہے کہ اپنے نفس اور جان کو لے کر میدانِ جنگ میں کود پڑنا ہے جس طرح جہاد بالمال کا معنی ہے اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا۔

دیکھئے آیت :
اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ (سورۃ انفال ، آیت نمبر۷۲)

اور حدیث شریف:
اَلْقَتْلٰی ثَلٰثَۃٌ مُوْمِنٌ جَاہَدَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ

قرآن وسنت میں جہاں بھی جہاد بالنفس اور جہاد بالمال آیا ہے وہاں یہ معنی ہی مراد ہے۔ مگر آج کل جہاد بالنفس کا معنی عام طور پر یہ لیا جارہا ہے کہ نفس کے خلاف جہاد کرو، نفس کی خواہشات کے خلاف جہاد کرو مگر یہ تشریح جہاد بالمال کی کیوں نہیں کی جاتی۔

اے کاش جدید دور کا کوئی دانشور اس فلسفہ پر بھی روشنی ڈالے۔
 
Top