آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اس طرح کی گفتگو کےبعدجو بات سامنے آئی تھی وہ یہ کہ "مجھے مشرقی لڑکی رہنے دو "
یعنی یہ مشرقی لڑکیوں کی خاصیت ہے کہ وہ مردوں کے آگے بولنا یا عرف عام میں ’’برابری‘‘ کو پسند نہیں کرتیں ۔۔
معاشرتی حقائق سے منہ پھیرنا بھی ناممکن ہے ۔ویسے بھی بعد کی توتکار اور منفی رویوں سے بہتر ہے کہ پہلے ہی مثبت انداز میں سوچ لیا جائے ۔۔اسلام میں دونوں کو حقوق حاصل ہیں۔
اگراسلام میں لڑکی کی صفت" الْوَدُود " ہے تو مرد کے لئے بھی حسنِ اخلاق کا درس ہے ۔۔
اب اگر کوئی بھی فریق حق تلفی کرتاہے یا اپنے رعب میں رہتا ہے تو اسے بدلہ دینا پڑے گا ۔۔ہم بجائے دوسروں کی دیکھا دیکھی( کہ وہ نہیں کرتی ،کرتا ) حقوق سے نظریں چرانے کے کم ازکم اپنے فرائض تو انجام دیں۔۔
ہم
” نکاح “ کو محض ایک
” معاشرتی رسم “ کے طور پہ لیتے ہیں۔
” نکاح “ کے بعد ہم خود غیر اسلامی طریقے پر زندگی گزارتے ہیں اور جب کوئی مسئلہ اٹھتا ہے تو اس کو
” اسلامی منہج “ پر حل کرنے کے در پہ ہو جاتے ہیں۔ مرد و عورت دونوں اپنے
” فرائض “ سے تو جان بوجھ کر آنکھیں بند کر کے دستبردار ہونے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب اپنے
” حقوق “ کی باری آتی ہے تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں اور اسکو ہر حال میں حاصل کرنے لے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ میں سمجھتا ہوں یہی اصل
” فساد “ کی جڑ ہے۔ جب ہم دوہرے معیار کو اپنائے ہوئے ہوں تو کس بناء پر ہم اللہ تعالٰی سے یہ توقع رکھیں کہ وہ ہماری مدد کرے ؟