- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
اکابرین دیوبند کا انداز تدریس
ماخوذ از
'' پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث '' ( ص نمبر 56 تا 65 )
مؤلف : مولانا إرشاد الحق أثری حفظہ اللہ تعالی
( کلام کا تفصیلی سیاق و سباق جاننے کےلیے تو اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں البتہ اتنا ذہن میں رکھیں کہ شیخ عبد الحق کا رحمہ اللہ کا رویہ حدیث کے ساتھ عام طور پر مقلدانہ تھا جبکہ شاہ ولی اللہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو تقلیدی مذاہب کی پابندی سے آزاد سمجھتے تھے ۔ از خضر حیات )
لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ شاہ صاحب کی اس کوشش کو نظر انداز کرکے اکابر علمائے دیوبند ( جو ابھی صرف حنفی تھے ) نے عموما وہی طریقہ اختیار کیا جو شیخ عبد الحق کا تھا ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جو حضرت میاں صاحب کےمعاصر بلکہ مخالفین میں سر فہرست تھے ۔ انہوں نے جو روش شمائم امدادیہ میں اختیار کی اسےکسی صورت محمود قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ جس کی تفصیل کا یہ موقعہ و محل نہیں ۔شیخ محمد اکرام مصنف سلسلہ کوثر نے ان کے انہی خصائل کی بنا پر صاف طور پر لکھا ہے کہ :
'' قیاس کہتا ہےکہ آپ کی وجہ سے بعض ارباب دیوبند میں وہ اصلاحی جوش جو ولی اللہی مسلک کی تہ میں پنہاں ہے اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ جیسے بزرگوں کی زندگی میں خاص طور نمایاں تھأ کسی قدر کمزور پڑگیا ''
( موج کوثر ص 197 مطبوعہ 1968 ء )
ظلم کی انتہاء دیکھئے کہ حاجی صاحب موصوف ہی کے ایک رفیق مولانا رحمت اللہ کیرانوی جب 1857 ء کے ہنگامہ سے گھبرا کر مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے تو وہاں جاکر درس حدیث کو روکنے کے لیے کیا کیا کرتے رہے ؟ مولانا محمدحسین بٹالوی مرحوم کے الفاظ میں پڑھیئے لکھتے ہیں :
'' ایک بزرگ شیخ محمد نامی حرم محترم میں حدیث پڑھایا کرتے تھے ۔ اس نے ان کو حکما اس سے ہٹادیا ۔ پھر وہ ایک مدت تک ایک حلوائی عبد اللہ نامی کی دکان کی ایک کوٹھڑی میں چھپ کر حدیث پڑھاتے رہے اس کو بھی اس نے جب مطلع ہوا بند کردیا ۔ ''ایک دفعہ حدیث کی کتاب '' سفر السعادۃ '' ( تصنیف علامہ مجد الدین صاحب قاموس ) مکہ مکرمہ میں آئی اور شائقین حدیث نے اس کی ترویج و اشاعت چاہی تو اس کو بھی اس نےجاری نہ ہونے دیا ۔ خاکسار نےمکہ مکرمہ مین چار مہینے رہ کر اکثر ان حالات کو ..... بچشم خود ملاحظہ کیا ہے ۔ صرف سنی سنائی باتوں کو بیان نہیں کردیا ۔ ''
( اشاعۃ السنۃ جلد 6 نمبر 10 ص 289 بحوالہ اہلحدیث اور سیاست ص 381 طبع دوم 1986 ء )
لیجیے جناب بلد امین میں بلکہ عین حرم محترم میں حدیث کا درس بند کروایا جاتا ہے ۔ اور حدیث و سیرت کی کتاب سفر السعادۃ کی نشرواشاعت میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں ۔ یہی وہ بزرگ ہیں کہ جب میاں صاحب محدث دہلوی حج بیت اللہ شریف کے لئے تشریف لےگئے تو انہوں نے اپنے رفقاء سے مل کر انہیں گرفتار کرانے ، پریشان کرنے بلکہ قتل تک کے منصوبے بنائے ۔ حدیث کی اتباع میں زندگی گزارنے کا عزم رکھنے والوں کے ساتھ یہ انداز آخر کیوں اختیار کیا جاتا ہے ۔ حدیث کی تعلیم اور اس کی اشاعت میں روڑے کیوں اٹکائے جاتے ہیں ؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
حضرت مولانا سید میاں نذیر حسین محد ث دہلوی کے انداز تعلیم وتدریس کا ہی نتیجہ تھا کہ چار و ناچار اکابر علمائے دیوبند کو بھی حدیث کی طرف توجہ دینا پڑھی ۔ ماہنامہ البلاغ کراچی کے حنفی مضمون نگار رقمطراز ہیں :
'' آخری زمانہ میں حدیث کی تدریس و اشاعت سے ہندوستان میں اہل حدیث کا ایک فرقہ پیدا ہوگیا تھا جو آئمہ کی تقلید کی مخالفت کرتا تھا اس کی وجہ سےحنفی علماء میں بھی کتب حدیث کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور وہ فقہی مسائل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنے پر متوجہ ہوئے ..الخ
( البلاغ ص 25 ج 1 شمارہ 12 )
مولانا عبد الحیی لکھنوی کے ہاں حدیث کی تعلیم کا انتظام تھا ۔ خود انہوں نے حدیث ہی کی بنا پر بیسیوں مسائل میں علمائے احناف سے ڈنکے کی چوٹ اختلاف کیا ۔(حاشیہ) مگر دیگر علماء احناف کو ان کا یہ انداز پسند نہ آیا تو فتوی داغ دیا گیا :
'' إلا أن له بعض آراء شاذة لا تقبل في المذهب ''
کہ ان کی بعض آراء شاذ ہیں جو مذہب میں قابل قبول نہیں ۔
ان کے برعکس انہی کے شاگرد رشید علامہ ظہیر احسن نیموی رحمہ اللہ نے جب اپنے استاذ سے اختلاف کرتے ہوئے علمائے احناف کی عمومی روش کو اختیا کیا تو علمائے احناف نے ان کی مساعی کو مولانا عبد الحیی کا کفارہ قرار دیا ۔
( برہان ،دہلی جولائی 1951 ء ص 55 )
حنفی مسلک کی تائید میں ان کی بے قراری قابل دید ہے چنانچہ مولانا موصوف کا ایک رسالہ '' رد السکین '' جو 1312ھ میں قومی پریس لکھنو سے طبع ہوا اس میں ایک اشتہار اور اعلان یوں رقم فرماتے ہیں :
''یہ تو ظاہر ہے کہ حدیث میں پہلے بلوغ المرام یامشکوۃ شریف پڑھائی جاتی ہے ۔ اور ان کے مؤلف شافعی المذہب تھے ۔ ان کتابوں میں زیادہ وہی حدیثیں ہیں جو مذہب امام شافعی کی مؤید اور مذہب حنفی کے خلاف ہیں ۔ اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر معلم در پردہ غیر مقلد ہوتے ہیں ۔ بے چارے اکثر طلبہ یہ ابتدائی کتابیں پڑھ کر مذہب حنفی سے بد عقیدہ ہو جاتے ہیں ۔ پھر جب صحاح ستہ کی نوبت آتی ہے تو ان کے خیالات اور بھی بدل جاتے ہیں ۔ علماء حنفیہ نے کوئی ایسی کتاب قابل درس تالیف نہیں کی کہ جس میں مختلف کتب احادیث کی وہ حدیثیں ہوں جن سے مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہو ۔ پھر بے چارے طلباء ابتداء میں پڑھیں تو کیا ؟ اور ان کے عقائد درست رہیں تو کیونکر ؟ آخر بے چارے غیر مقلد نہ ہوں تو کیا ہوں ؟ فقیر نے انہی خیالات سے حدیث شریف میں آثار السنن کے نام سے ایک کتاب کی بنائے تالیف ڈالی ہے ۔ اور ارادہ ہے کہ کہ کتب متداولہ کے علاوہ عرب و عجم کی نایاب کتب احادیث سے حدیثیں انتخاب کرکے جمع کروں اور حاشیہ میں اسناد لکھ دوں ۔ ''
قارئین سے درخواست ہے کہ علامہ نیموی کی اس '' دل سوزی '' پر ذرا غور فرمائیں نتیجہ کیا ہے ؟
1۔ بلوغ المرام او رمشکوۃ کے مصنفین شافعی المسلک ہیں اور ان میں زیادہ وہ حدیثیں ہیں جو مذہب حنفی کے خلاف ہیں ۔
2۔ ان کو پڑھانے والے اکثر معلم غیر مقلد ہوتے ہیں ۔
3۔ ان کتابوں کو پڑھ کر طلبہ '' مذہب حنفی سے بد عقیدہ '' ہو جاتے ہیں ۔
4۔ صحاح ستہ پڑھنے سے تو ان کے خیالات اور بھی پختہ ہوجاتے ہیں ۔
5۔ بالآخر وہ بے چارے غیر مقلد نہ ہوں تو اور اور کیا ہوں ؟
6۔ عقائد درست رکھنے کے لیے میں نے آثار السنن حنفی مذہب کی تائید میں لکھ دی ہے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہی سوچئے کہ '' عقائد درست '' کرنے کےلئے جو آثار السنن لکھی گئی اس میں کون سے عقائد کے مسائل پر بحث کی گئی اور اپنے عقیدہ کے مطابق احادیث جمع کی گئیں ۔ وہ طہارت اور صرف نماز کے مسائل کے متعلق ہیں یا عقائد کے ؟ مشکوۃ پڑھنے سے طلبہ '' بد عقیدہ '' ہو جاتے ہیں تو بتلایا جائے کہ '' شافعی المسلک '' کیا ہوا ؟ انہی احادیث پر شافعی عمل کرلیں تو عقیدہ درست اور اگر نظریہ تقلید سے ہٹ کر ان پر عمل کرلیا جائے تو '' بد عقیدہ '' ہو جائیں ۔ آخر ظلم و ستم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
میں تو مصنف مشکوۃ کی کرامت ہی سمجھتاہوں کہ اس قدر ڈھول پیٹنے کے باوجود آج تک مشکوۃ داخل نصاب ہے ۔ اور اس کے برعکس آثار السنن یا اسی نوعیت کی دوسری کتابوں کو وہ پذیرائی نہیں ہوئی جو مشکوۃ اور بلوغ المرام کو حاصل ہے ۔ ان کے مصنفین نے جو کیا فرقہ واریت سے ہٹ کر نہایت اخلاص سےخدمت حدیث کے جذبہ سے کیا ۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے مگر علامہ نیموی اور ان ہی کی اتباع میں بعض دوسرے حنفی نے جو کیا اس سے فرقہ واریت کی کھلم کھلا بو آتی ہے ۔ '' ہماری حدیثیں اور تمہاری حدیثیں '' یہ تکرار اور انداز مشکوۃ یا بلوغ المرام میں قطعا نہیں ۔ ان سے ہر قاری اپنے لئے جواہرات منتخب کرلیتا ہے اسی لئے ان کو جو مقام ملا وہ فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے لکھی گئی کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکا ۔
یہی انداز فکر عموما ارباب دبویند نے اپنایا ۔ انہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار سے کوئی اتفاق نہیں ۔ اگر ہے تو محض زبانی جمع خرچ دار العلوم دیوبند کی اساس ہی در اصل شاہ صاحب کے اثرات کو کم کرنے کے لئے رکھی گئی ۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا انور شاہ صاحب کاشمیری مرحوم کے فرزند ارجمند جناب مولانا انظر شاہ صاحب کاشمیری کا بیان ملاحظہ فرمائیں چنانچہ موصوف دار العلوم دیوبند میں درس حدیث کے عنوان کے تحت ایک ذیلی عنوان '' حنفیت اور اس کی تائید '' کے تحت لکھتے ہیں :
'' دار العلوم دیوبند کے ایک نامور فاضل اور مجاہد جلیل مولانا عبید اللہ سندھی صاحب نے مسلک دار العلوم کا ایک مرتبہ تجزیہ کرتےہوئے یہ بھی فرمایا کہ دار العلوم کا اساسی مقصد حنفیت کی تائید ہے ۔ ےب تکلف عرض ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے درس سے یہ اہم مضمون اپنی مطلوبہ واقعیت کے ساتھ منصوص نہ ہو سکا تھا ۔ شاہ صاحب علیہ الرحمۃ حنفی نقطہ نظر سے ہم آہنگی کے باوجود کیونکہ خود اجتہاد کا دعوی رکھتے تھے اس لیے حنفیت کوحضرت شاہ صاحب کی غزارت علمی سےممکن و متوقع فائدہ نہیں پہنچ سکا ۔ لیکن اس کمی کی دار العلوم دیوبند نے بھر پور تکمیل کی ۔ حضرت نانوتوی حضرت گنگوہی اور حضرت شیخ الہند نےحنفیت کی تائید کے لئے اپنے درس و تصنیف میں بے مثال کام سر انجام دیا ۔ لیکن اس حقیقت کے اظہار میں بھی کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ سیدنا الامام کشمیری نے اپنی عبقریت خاص اسی مقصد شریف کے لئے اس طرح صرف فرمائی کہ بقول آپ کے '' میں نے حنفیت کو اس طرح مستحکم کردیا کہ اب ان شاء اللہ سوسال تک اس کی بنیادیں غیر متزلزل رہیں گی '' ( حاشیہ ) بلکہ حنفی مکتبہ فکر کی تائید میں جوکام خدا تعالی نے آپ سے لیا اس کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو اس حقیقت کے بیان میں کوئی تامل نہیں تھا کہ خدا تعالی نے مجھے اس عہد میں حنفیت کے استحکام کےلئے پیدا کیا ہے ... الخ''
( دار العلوم دیوبند نمبر ص 314 فروری ، مارچ 1976 ء )
لیجیے جناب یہ ہے دار العلوم کے قیام کا اساسی مقصد ۔ اس کے بعد حضرات کی '' خدمت حدیث '' کا پس منظر مخفی نہیں رہتا ۔
یادش بخیر '' خدمت حدیث '' کا یہ پس منظر نیا نہیں پراناہے ۔ علامہ علی قاری اپنی شرح مشکوۃ کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :