• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکابرین دیوبند کا انداز تدریسِ حدیث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اکابرین دیوبند کا انداز تدریس

ماخوذ از
'' پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث '' ( ص نمبر 56 تا 65 )
مؤلف : مولانا إرشاد الحق أثری حفظہ اللہ تعالی
( کلام کا تفصیلی سیاق و سباق جاننے کےلیے تو اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں البتہ اتنا ذہن میں رکھیں کہ شیخ عبد الحق کا رحمہ اللہ کا رویہ حدیث کے ساتھ عام طور پر مقلدانہ تھا جبکہ شاہ ولی اللہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو تقلیدی مذاہب کی پابندی سے آزاد سمجھتے تھے ۔ از خضر حیات )
لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ شاہ صاحب کی اس کوشش کو نظر انداز کرکے اکابر علمائے دیوبند ( جو ابھی صرف حنفی تھے ) نے عموما وہی طریقہ اختیار کیا جو شیخ عبد الحق کا تھا ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جو حضرت میاں صاحب کےمعاصر بلکہ مخالفین میں سر فہرست تھے ۔ انہوں نے جو روش شمائم امدادیہ میں اختیار کی اسےکسی صورت محمود قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ جس کی تفصیل کا یہ موقعہ و محل نہیں ۔شیخ محمد اکرام مصنف سلسلہ کوثر نے ان کے انہی خصائل کی بنا پر صاف طور پر لکھا ہے کہ :​
'' قیاس کہتا ہےکہ آپ کی وجہ سے بعض ارباب دیوبند میں وہ اصلاحی جوش جو ولی اللہی مسلک کی تہ میں پنہاں ہے اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ جیسے بزرگوں کی زندگی میں خاص طور نمایاں تھأ کسی قدر کمزور پڑگیا ''​
( موج کوثر ص 197 مطبوعہ 1968 ء )​
ظلم کی انتہاء دیکھئے کہ حاجی صاحب موصوف ہی کے ایک رفیق مولانا رحمت اللہ کیرانوی جب 1857 ء کے ہنگامہ سے گھبرا کر مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے تو وہاں جاکر درس حدیث کو روکنے کے لیے کیا کیا کرتے رہے ؟ مولانا محمدحسین بٹالوی مرحوم کے الفاظ میں پڑھیئے لکھتے ہیں :​
'' ایک بزرگ شیخ محمد نامی حرم محترم میں حدیث پڑھایا کرتے تھے ۔ اس نے ان کو حکما اس سے ہٹادیا ۔ پھر وہ ایک مدت تک ایک حلوائی عبد اللہ نامی کی دکان کی ایک کوٹھڑی میں چھپ کر حدیث پڑھاتے رہے اس کو بھی اس نے جب مطلع ہوا بند کردیا ۔ ''ایک دفعہ حدیث کی کتاب '' سفر السعادۃ '' ( تصنیف علامہ مجد الدین صاحب قاموس ) مکہ مکرمہ میں آئی اور شائقین حدیث نے اس کی ترویج و اشاعت چاہی تو اس کو بھی اس نےجاری نہ ہونے دیا ۔ خاکسار نےمکہ مکرمہ مین چار مہینے رہ کر اکثر ان حالات کو ..... بچشم خود ملاحظہ کیا ہے ۔ صرف سنی سنائی باتوں کو بیان نہیں کردیا ۔ ''
( اشاعۃ السنۃ جلد 6 نمبر 10 ص 289 بحوالہ اہلحدیث اور سیاست ص 381 طبع دوم 1986 ء )​
لیجیے جناب بلد امین میں بلکہ عین حرم محترم میں حدیث کا درس بند کروایا جاتا ہے ۔ اور حدیث و سیرت کی کتاب سفر السعادۃ کی نشرواشاعت میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں ۔ یہی وہ بزرگ ہیں کہ جب میاں صاحب محدث دہلوی حج بیت اللہ شریف کے لئے تشریف لےگئے تو انہوں نے اپنے رفقاء سے مل کر انہیں گرفتار کرانے ، پریشان کرنے بلکہ قتل تک کے منصوبے بنائے ۔ حدیث کی اتباع میں زندگی گزارنے کا عزم رکھنے والوں کے ساتھ یہ انداز آخر کیوں اختیار کیا جاتا ہے ۔ حدیث کی تعلیم اور اس کی اشاعت میں روڑے کیوں اٹکائے جاتے ہیں ؟​
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا​
حضرت مولانا سید میاں نذیر حسین محد ث دہلوی کے انداز تعلیم وتدریس کا ہی نتیجہ تھا کہ چار و ناچار اکابر علمائے دیوبند کو بھی حدیث کی طرف توجہ دینا پڑھی ۔ ماہنامہ البلاغ کراچی کے حنفی مضمون نگار رقمطراز ہیں :​
'' آخری زمانہ میں حدیث کی تدریس و اشاعت سے ہندوستان میں اہل حدیث کا ایک فرقہ پیدا ہوگیا تھا جو آئمہ کی تقلید کی مخالفت کرتا تھا اس کی وجہ سےحنفی علماء میں بھی کتب حدیث کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور وہ فقہی مسائل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنے پر متوجہ ہوئے ..الخ
( البلاغ ص 25 ج 1 شمارہ 12 )​
مولانا عبد الحیی لکھنوی کے ہاں حدیث کی تعلیم کا انتظام تھا ۔ خود انہوں نے حدیث ہی کی بنا پر بیسیوں مسائل میں علمائے احناف سے ڈنکے کی چوٹ اختلاف کیا ۔(حاشیہ) مگر دیگر علماء احناف کو ان کا یہ انداز پسند نہ آیا تو فتوی داغ دیا گیا :​
'' إلا أن له بعض آراء شاذة لا تقبل في المذهب ''
کہ ان کی بعض آراء شاذ ہیں جو مذہب میں قابل قبول نہیں ۔​
ان کے برعکس انہی کے شاگرد رشید علامہ ظہیر احسن نیموی رحمہ اللہ نے جب اپنے استاذ سے اختلاف کرتے ہوئے علمائے احناف کی عمومی روش کو اختیا کیا تو علمائے احناف نے ان کی مساعی کو مولانا عبد الحیی کا کفارہ قرار دیا ۔​
( برہان ،دہلی جولائی 1951 ء ص 55 )​
حنفی مسلک کی تائید میں ان کی بے قراری قابل دید ہے چنانچہ مولانا موصوف کا ایک رسالہ '' رد السکین '' جو 1312ھ میں قومی پریس لکھنو سے طبع ہوا اس میں ایک اشتہار اور اعلان یوں رقم فرماتے ہیں :​
''یہ تو ظاہر ہے کہ حدیث میں پہلے بلوغ المرام یامشکوۃ شریف پڑھائی جاتی ہے ۔ اور ان کے مؤلف شافعی المذہب تھے ۔ ان کتابوں میں زیادہ وہی حدیثیں ہیں جو مذہب امام شافعی کی مؤید اور مذہب حنفی کے خلاف ہیں ۔ اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر معلم در پردہ غیر مقلد ہوتے ہیں ۔ بے چارے اکثر طلبہ یہ ابتدائی کتابیں پڑھ کر مذہب حنفی سے بد عقیدہ ہو جاتے ہیں ۔ پھر جب صحاح ستہ کی نوبت آتی ہے تو ان کے خیالات اور بھی بدل جاتے ہیں ۔ علماء حنفیہ نے کوئی ایسی کتاب قابل درس تالیف نہیں کی کہ جس میں مختلف کتب احادیث کی وہ حدیثیں ہوں جن سے مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہو ۔ پھر بے چارے طلباء ابتداء میں پڑھیں تو کیا ؟ اور ان کے عقائد درست رہیں تو کیونکر ؟ آخر بے چارے غیر مقلد نہ ہوں تو کیا ہوں ؟ فقیر نے انہی خیالات سے حدیث شریف میں آثار السنن کے نام سے ایک کتاب کی بنائے تالیف ڈالی ہے ۔ اور ارادہ ہے کہ کہ کتب متداولہ کے علاوہ عرب و عجم کی نایاب کتب احادیث سے حدیثیں انتخاب کرکے جمع کروں اور حاشیہ میں اسناد لکھ دوں ۔ ''
قارئین سے درخواست ہے کہ علامہ نیموی کی اس '' دل سوزی '' پر ذرا غور فرمائیں نتیجہ کیا ہے ؟​
1۔ بلوغ المرام او رمشکوۃ کے مصنفین شافعی المسلک ہیں اور ان میں زیادہ وہ حدیثیں ہیں جو مذہب حنفی کے خلاف ہیں ۔​
2۔ ان کو پڑھانے والے اکثر معلم غیر مقلد ہوتے ہیں ۔​
3۔ ان کتابوں کو پڑھ کر طلبہ '' مذہب حنفی سے بد عقیدہ '' ہو جاتے ہیں ۔​
4۔ صحاح ستہ پڑھنے سے تو ان کے خیالات اور بھی پختہ ہوجاتے ہیں ۔​
5۔ بالآخر وہ بے چارے غیر مقلد نہ ہوں تو اور اور کیا ہوں ؟​
6۔ عقائد درست رکھنے کے لیے میں نے آثار السنن حنفی مذہب کی تائید میں لکھ دی ہے ۔​
آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہی سوچئے کہ '' عقائد درست '' کرنے کےلئے جو آثار السنن لکھی گئی اس میں کون سے عقائد کے مسائل پر بحث کی گئی اور اپنے عقیدہ کے مطابق احادیث جمع کی گئیں ۔ وہ طہارت اور صرف نماز کے مسائل کے متعلق ہیں یا عقائد کے ؟ مشکوۃ پڑھنے سے طلبہ '' بد عقیدہ '' ہو جاتے ہیں تو بتلایا جائے کہ '' شافعی المسلک '' کیا ہوا ؟ انہی احادیث پر شافعی عمل کرلیں تو عقیدہ درست اور اگر نظریہ تقلید سے ہٹ کر ان پر عمل کرلیا جائے تو '' بد عقیدہ '' ہو جائیں ۔ آخر ظلم و ستم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
میں تو مصنف مشکوۃ کی کرامت ہی سمجھتاہوں کہ اس قدر ڈھول پیٹنے کے باوجود آج تک مشکوۃ داخل نصاب ہے ۔ اور اس کے برعکس آثار السنن یا اسی نوعیت کی دوسری کتابوں کو وہ پذیرائی نہیں ہوئی جو مشکوۃ اور بلوغ المرام کو حاصل ہے ۔ ان کے مصنفین نے جو کیا فرقہ واریت سے ہٹ کر نہایت اخلاص سےخدمت حدیث کے جذبہ سے کیا ۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے مگر علامہ نیموی اور ان ہی کی اتباع میں بعض دوسرے حنفی نے جو کیا اس سے فرقہ واریت کی کھلم کھلا بو آتی ہے ۔ '' ہماری حدیثیں اور تمہاری حدیثیں '' یہ تکرار اور انداز مشکوۃ یا بلوغ المرام میں قطعا نہیں ۔ ان سے ہر قاری اپنے لئے جواہرات منتخب کرلیتا ہے اسی لئے ان کو جو مقام ملا وہ فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے لکھی گئی کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکا ۔​
یہی انداز فکر عموما ارباب دبویند نے اپنایا ۔ انہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار سے کوئی اتفاق نہیں ۔ اگر ہے تو محض زبانی جمع خرچ دار العلوم دیوبند کی اساس ہی در اصل شاہ صاحب کے اثرات کو کم کرنے کے لئے رکھی گئی ۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا انور شاہ صاحب کاشمیری مرحوم کے فرزند ارجمند جناب مولانا انظر شاہ صاحب کاشمیری کا بیان ملاحظہ فرمائیں چنانچہ موصوف دار العلوم دیوبند میں درس حدیث کے عنوان کے تحت ایک ذیلی عنوان '' حنفیت اور اس کی تائید '' کے تحت لکھتے ہیں :​
'' دار العلوم دیوبند کے ایک نامور فاضل اور مجاہد جلیل مولانا عبید اللہ سندھی صاحب نے مسلک دار العلوم کا ایک مرتبہ تجزیہ کرتےہوئے یہ بھی فرمایا کہ دار العلوم کا اساسی مقصد حنفیت کی تائید ہے ۔ ےب تکلف عرض ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے درس سے یہ اہم مضمون اپنی مطلوبہ واقعیت کے ساتھ منصوص نہ ہو سکا تھا ۔ شاہ صاحب علیہ الرحمۃ حنفی نقطہ نظر سے ہم آہنگی کے باوجود کیونکہ خود اجتہاد کا دعوی رکھتے تھے اس لیے حنفیت کوحضرت شاہ صاحب کی غزارت علمی سےممکن و متوقع فائدہ نہیں پہنچ سکا ۔ لیکن اس کمی کی دار العلوم دیوبند نے بھر پور تکمیل کی ۔ حضرت نانوتوی حضرت گنگوہی اور حضرت شیخ الہند نےحنفیت کی تائید کے لئے اپنے درس و تصنیف میں بے مثال کام سر انجام دیا ۔ لیکن اس حقیقت کے اظہار میں بھی کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ سیدنا الامام کشمیری نے اپنی عبقریت خاص اسی مقصد شریف کے لئے اس طرح صرف فرمائی کہ بقول آپ کے '' میں نے حنفیت کو اس طرح مستحکم کردیا کہ اب ان شاء اللہ سوسال تک اس کی بنیادیں غیر متزلزل رہیں گی '' ( حاشیہ ) بلکہ حنفی مکتبہ فکر کی تائید میں جوکام خدا تعالی نے آپ سے لیا اس کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو اس حقیقت کے بیان میں کوئی تامل نہیں تھا کہ خدا تعالی نے مجھے اس عہد میں حنفیت کے استحکام کےلئے پیدا کیا ہے ... الخ''
( دار العلوم دیوبند نمبر ص 314 فروری ، مارچ 1976 ء )​
لیجیے جناب یہ ہے دار العلوم کے قیام کا اساسی مقصد ۔ اس کے بعد حضرات کی '' خدمت حدیث '' کا پس منظر مخفی نہیں رہتا ۔​
یادش بخیر '' خدمت حدیث '' کا یہ پس منظر نیا نہیں پراناہے ۔ علامہ علی قاری اپنی شرح مشکوۃ کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
'' فأحببت أن أذكر أدلتهم و أبين مسائلهم و أدفع عنهم مخالفتهم لئلا يتوهم العوام الذين ليس لهم معرفة بالأدلة الفقهية أن المسائل الحنفية تخالف الدلائل الحنيفية ''
( مرقاۃ ج 1 ص 3 )
'' کہ میں نے پسند کیا کہ امام صاحب کے دلائل ذکر کروں ان کے مسائل کی وضاحت کروں او رمخالفت کرنے والوں سے ان کا دفاع کروں تاکہ عوام جو فقہی دلائل سے بے خبر ہے اس وہم کا شکار نہ ہو جائیں کہ حنفی مسائل دلائل حنیفیۃ کے خلاف ہیں ۔ ''
گویا حدیث کی شروح حواشی کا اصل پس منظر حنفیت کی تائید و حمایت ہے دین حنیف کی خدمت نہیں ۔
علامہ رشید رضا مصر کے معروف عالم او رعلامہ جمال الدین افغانی کے تلمیذ خاص تھے ۔ 1912ء میں جب وہ ہندوستان تشریف لائے تو دار العلوم دیوبند میں بھی تشریف لے گئے ۔ انہوں نے وہاں کے طرز تدریس کے بارے میں میں بعض اساتذہ سے سوال کیا تو ادھر سے جواب ملا کہ یہاں درسی خصوصیت یہ ہے کہ جو حدیث نبوی بظاہر حنفی مذہب کے خلاف ہوتی ہے کوشش کی جاتی ہے کہ حنفی مذہب کو حدیث کے موافق بنایا جائے اور دونوں کے مابین تطبیق کی کوشش کی جائے ۔ علامہ رشید رضا رحمہ اللہ نے حیران ہو کر فرمایا '' وهل ذلك في كل حديث '' کیا ہر حدیث سے یہی معاملہ ہوتا ہے تو انہوں نے جوابا کہا '' نعم '' جی ہاں ۔ جس پر علامہ رشید خاموش نہ رہ سکے ۔ برجستہ فرمایا '' هل الحديث حنفي'' کیا حدیث بہی حنفی ہوگئی ہے ۔ یہ محض عصبیت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ۔
یہ ساری تفصیل نفحۃ العنبر میں دیکھی جاسکتی ہے جس سے دار العلوم دیوبند کی درسی خصوصیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے یہی وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف و اظہا رمولانا سید احمد رضا بجنوری نے بڑے فخر سے یوں کہا ہے ۔
'' تقریبا 30 سال تک احادیث و رجال کا مطالعہ فرما کر حنفی مذہب کی ترجیح و تقویت کا اتنا سامان اور مواد فراہم کردیا ہے کہ آپ سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی ''
( ملفوظات محدث کاشمیری ص 250 )
چند صفحات بعد حضرت کاشمیری رحمہ اللہ کے حوالہ سےلکھتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
'' میں نے حنیفہ کے لئے اس قدر سامان جمع کیا ہے کہ آج تک مجموعی طور سے بھی تمام سلف علماء احناف سے نہیں ہوسکا ۔ '' ( ایضا ص 259 )
علامہ کاشمیری نے اس بارے جس قدر کوششکی اس کا اندازہ اس سے لگا کیجیے کہ مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ
'' كان يوتر بركعة و كان يتكلم بين الركعتين والركعة ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے اور دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان کلام کرتے ۔
اس روایت سے وتر کی ایک رکعت ثابت ہوتی ہے جو احناف کےموقف کے خلاف ہے ۔ جس کے جواب میں کیا فرمایا گیا ؟ اس کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں البتہ یہ دیکھئے کہ اس کے جواب کی فکر کس قدر علامہ کاشمیری کو دامن گیر رہی ۔ فرماتے ہیں :
'' والحديث قوي والحنفية لم يتوجهوا إلى جوابه وهو مشكل وقد مكثت نحو أربع عشرة سة أتفكر فيه ثم سنح لي جواب يشفي و يكفي ''
( معارف السنن ص 264 ج 4 ، العرف الشذی )
'' حدیث قوی ہے احناف اس کے جواب کی طرف متوجہ نہیں ہوئے یہ مشکل حدیث ہے اور میں تقریبا چودہ سال اس کے بارے میں غور وفکر کرتا رہا پھر مجھے شافی و کافی جواب سوجھا ''
علامہ کاشمیری کی پریشانی ملاحظہ ہو کہ روایت قوی ہونے کے باوجود ابھی تک کسی حنفی نے اس کےجواب کی کوشش نہیں ۔ مذہب پر ظاہرا یہ مشکل ہے ۔ 14 سال اس کے جواب میں فکر مند رہے ۔ پھر کہیں جاکر اس کا جواب سوجھا ۔ اور اسی '' قوی '' حدیث سے جان چھوٹی ( حاشیہ ) .
حضرت مولانا محمد رسول خاں صاحب کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ علماء دیوبند کے ہاں وہ '' صاحب العلوم والعرفان حامی أساطين الموحدين ماحي أساطير الملحدين جامع الفيوض والبركات منبع العلوم والخيرات '' کے القاب سے یاد کئے جاتے تھے ۔ انہوں نے 1353 ء میں انجمن خدام الملت دیوبند کے سالانہ جلسہ میں وجوب تقلید پر جوکچھ فرمایا وہ رسالہ '' قاسم العلوم '' دیوبند میں طبع ہوا ۔ حضرت اس میں فرماتے ہیں :
'' اہل حدیث اور ہم اتنے امر میں شریک ہیں کہ وہ بھی قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں اور ہم بھی ۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہم حدیث اس وجہ سے پڑھتے ہیں کہ امام کے جن اقوال کا منشا ہمیں معلوم نہیں معلوم ہو جائے ۔ یعنی ہم فقہاء کے اقوال کی تائیدکے لئے حدیث کا استعمال کرتے ہیں ۔ ''
( قاسم العلوم ص 25 جلد 1 شمارہ 11 )
اس تقریر میں اور بھی بہت سی باتیں بڑی دلچسپ اور عبرتناک ہیں جن پر تبصرہ اسی دور میں مرحوم اخبار '' اہلحدیث '' امرتسری جمادی الاولی 1357ھ بمطابق 29 جولائی 1938ء میں اور '' تنظیم اہلحدیث '' روپڑ 27 رجب 1357 ھ بمطابق 23 دسمبر 1938 ء جلد 7 شمارہ 41 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ۔ ہمیں یہاں صرف یہی عرض کرنا ہے کہ دیوبند میں حدیث کی تعلیم و تدریس فقہ حنفی کی تائید کے لئے '' استعمال '' کی جاتی ہے ۔ گویا اصل بنیاد حدیث نہیں حنفی فقہ ہے ۔ حدیث صرف '' استعمال '' کے لئے تھی ۔
''إنالله وإنا إليه رجعون ''
اسی نوعيت كی اور بھی کئی باتیں پیش نظر ہیں مگر پوری تفصیل کا یہ موقعہ و محل نہیں ۔ ضرورت محسوس ہوئی تو ان شاء اللہ وہ بھی حوالہ قرطاس کردی جائیں گی ۔ مشتے از خروارے کے مصداق ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ جس سے مقصود صرف اس بات کی وضاحت ہے کہ عموما حنفی اکابر اور دار العلوم دیوبند کےحضرات حضرت شاہ ولی اللہ کے طریقہ تدریس و تعلیم سے متفق نہ ہوئے ۔ انہوں نے اعتدال کی راہ کی بجائے پھر سے تقلید و جمود کی بنیادوں کو مستحکم کیا ۔ حدیث کی تعلیم و تصنیف اورشروح و حواشی میں حنفیت کی ترویج و تائید اصل مقصد تھا ۔ جیسا کہ ہم ماہنامہ '' الرشید '' کے حوالہ سے نقل کر آئے ہیں ۔
انتہی
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیرا۔

علامہ رشید رضا مصر کے معروف عالم او رعلامہ جمال الدین افغانی کے تلمیذ خاص تھے ۔ 1912ء میں جب وہ ہندوستان تشریف لائے تو دار العلوم دیوبند میں بھی تشریف لے گئے ۔ انہوں نے وہاں کے طرز تدریس کے بارے میں میں بعض اساتذہ سے سوال کیا تو ادھر سے جواب ملا کہ یہاں درسی خصوصیت یہ ہے کہ جو حدیث نبوی بظاہر حنفی مذہب کے خلاف ہوتی ہے کوشش کی جاتی ہے کہ حنفی مذہب کو حدیث کے موافق بنایا جائے اور دونوں کے مابین تطبیق کی کوشش کی جائے ۔ علامہ رشید رضا رحمہ اللہ نے حیران ہو کر فرمایا '' وهل ذلك في كل حديث '' کیا ہر حدیث سے یہی معاملہ ہوتا ہے تو انہوں نے جوابا کہا '' نعم '' جی ہاں ۔ جس پر علامہ رشید خاموش نہ رہ سکے ۔ برجستہ فرمایا '' هل الحديث حنفي'' کیا حدیث بہی حنفی ہوگئی ہے ۔ یہ محض عصبیت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ۔
علامہ رشید کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ یہ اصول کرخی میں بیان کئے گئے اصولوں ہی پر تو عمل کر رہے ہیں، اس میں بھلا کیسی عصبیت۔!
اشماریہ
محمد یوسف
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
جزاک اللہ خیرا۔


علامہ رشید کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ یہ اصول کرخی میں بیان کئے گئے اصولوں ہی پر تو عمل کر رہے ہیں، اس میں بھلا کیسی عصبیت۔!
اشماریہ
محمد یوسف
جزاک اللہ خیرا۔


علامہ رشید کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ یہ اصول کرخی میں بیان کئے گئے اصولوں ہی پر تو عمل کر رہے ہیں، اس میں بھلا کیسی عصبیت۔!
اشماریہ
محمد یوسف
راجا صاحب
دوسرے عنوان پر جوبات ہورہی ہے اسکو ختم تو ہونے دیں۔
جب تک آپ اس معاملہ میں ایک کام کریں اصول کرخی کے صفحہ کی اسکرین یہاں ڈالیں اور اس کے متن اور شرح دونوں کا ترجمہ کردیں پھر اس پر بات کریں گے۔ ان شاء اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا۔


علامہ رشید کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ یہ اصول کرخی میں بیان کئے گئے اصولوں ہی پر تو عمل کر رہے ہیں، اس میں بھلا کیسی عصبیت۔!
اشماریہ
محمد یوسف

اگرچہ میں نے دوسرے مقام پر تفصیلا عرض کیا تھا کہ مذہب حنفی یا کسی بھی مذہب کی تائید میں احادیث میں تاویل یا تطبیق کیوں کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود خضر بھائی نے یہاں پوسٹ کی ہے تو شاید وہ مجھے غلطی پر سمجھتے ہوں گے یا پھر اس سے ان کا مقصد فقط علمی ہوگا۔ واللہ اعلم

خضر حیات بھائی یہ ارشاد الحق اثری صاحب کا مضمون ہے اور ہم ذاتی طور پر تو ان کو جانتے نہیں ہیں نہ ہی کوئی مقلد صرف ان کے مضمون کو قبول کر لے گا بغیر تصدیق کے تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسکینز بھی لگا دیں۔
ویسے اس میں بعض باتیں قابل اعتراض محسوس نہیں ہوتیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اگرچہ میں نے دوسرے مقام پر تفصیلا عرض کیا تھا کہ مذہب حنفی یا کسی بھی مذہب کی تائید میں احادیث میں تاویل یا تطبیق کیوں کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود خضر بھائی نے یہاں پوسٹ کی ہے تو شاید وہ مجھے غلطی پر سمجھتے ہوں گے یا پھر اس سے ان کا مقصد فقط علمی ہوگا۔ واللہ اعلم

خضر حیات بھائی یہ ارشاد الحق اثری صاحب کا مضمون ہے اور ہم ذاتی طور پر تو ان کو جانتے نہیں ہیں نہ ہی کوئی مقلد صرف ان کے مضمون کو قبول کر لے گا بغیر تصدیق کے تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسکینز بھی لگا دیں۔
ویسے اس میں بعض باتیں قابل اعتراض محسوس نہیں ہوتیں۔
ارشاد الحق اثری صاحب کی کتاب کے اسکینز یا جن کتابوں کے انہوں نے حوالےدیے ہیں ان کے اسکینز ؟
کوئی بھی ہوں مجھے اسکین لگانے کےحوالے سے نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں ۔ ہاں البتہ اثری صاحب کی مکمل کتاب اگر آپ چاہیں تو یہاں محدث مکتبہ میں موجود ہے ۔ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
پھر بھی آپ کو کسی حوالے میں غلطی یا خطاء محسوس ہوتی ہو آپ بتادیں ۔ اصل کتابوں سے دیکھ لیں گے ۔
آپ نے یہ اچھی بات کی ہے کہ بغیر تصدیق کے اثری صاحب کو نہیں مان سکتے ۔ تو اس طرح کے مضامین پیش کرنے کا مقصد منوانا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس سے ’’ تحقیق ‘‘ کی طرف دعوت مقصود ہوتی ہے ۔
یہ مضمون یہاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ کسی جگہ ایک بھائی نے یہ دعوی کیا تھا کہ مقلدین نے حدیث کی خدمت غیر مقلدین سے زیادہ کی ہے ۔ تو اس مضمون سے اس ’’ خدمت حدیث ‘‘ کی نوعیت و مقصدیت واضح کرنا تھا ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ارشاد الحق اثری صاحب کی کتاب کے اسکینز یا جن کتابوں کے انہوں نے حوالےدیے ہیں ان کے اسکینز ؟
کوئی بھی ہوں مجھے اسکین لگانے کےحوالے سے نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں ۔ ہاں البتہ اثری صاحب کی مکمل کتاب اگر آپ چاہیں تو یہاں محدث مکتبہ میں موجود ہے ۔ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔


مجھے بھی معلومات نہیں ہیں (ابتسامہ)
کتابوں کے اسکین نہیں بلکہ اثری صاحب نے جہاں سے لیے ہیں ان کے اسکین۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ حوالہ غلط یا جھوٹا ہوگا بلکہ بسا اوقات سیاق و سباق میں جو بات چل رہی ہوتی ہے اس کے لحاظ سےمکمل بات کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے ۔ اور ہمارے سامنے مخصوص حصہ آ جاتا ہے۔
اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ کسی بھی مسلک کا عالم ہو چاہے حنفی، اہل حدیث یا کوئی بھی۔ اس کی بات پیش کرنے سے پہلے بندہ سیاق و سباق کا جائزہ لے لے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو قائل کی طرف نسبت کر کے کہہ دے جیسے آپ نے یہاں پوسٹ کیا ہے۔ اگر اسکینز مل جاتے تو اچھا تھا۔

یہ مضمون یہاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ کسی جگہ ایک بھائی نے یہ دعوی کیا تھا کہ مقلدین نے حدیث کی خدمت غیر مقلدین سے زیادہ کی ہے ۔ تو اس مضمون سے اس '' خدمت حدیث '' کی نوعیت و مقصدیت واضح کرنا تھا ۔
ہمم ویسے انہوں نے غالبا تمام مقلدین کے اعتبار سے کہا تھا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
راجا صاحب
دوسرے عنوان پر جوبات ہورہی ہے اسکو ختم تو ہونے دیں۔
جب تک آپ اس معاملہ میں ایک کام کریں اصول کرخی کے صفحہ کی اسکرین یہاں ڈالیں اور اس کے متن اور شرح دونوں کا ترجمہ کردیں پھر اس پر بات کریں گے۔ ان شاء اللہ
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔


karkhi title.jpg
karkhi usul.jpg
 
Top