کیا ہم اسی تمثیل کو اس طرح نہیں بیان کرسکتے کہ: اسلامی معاملات میں اگر شدید اختلافات ہوں (جو کہ فی الواقع موجود ہیں) تو ہمیں قرآن و صحیح احادیث کے اندر رہتے ہوئے، دور رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ادوار خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ”تب سے اب تک“ کے جملہ فرقوں کے علمائے دین ( ”عالم دین“ کی شناخت ایک عام آدمی کے لئے نسبتاً آسان ہے، مجتہد کے مقابلہ میں) کی اکثریتی رائے کو ”درست“ مانا جائے۔ کیا ”اس راستے“ پر چل کر ہر فرد ”دین حق تک“ نہیں پہنچ سکتا (سوچنے والا آئی کون)
اس کا کیا کریں گے کہ کس عالم کے فلاں اختلافی مسئلہ میں درست (یا آخری) مؤقف ہے کیا؟ اول تو ان سب علماء کی اپنی تحریریں ہیں ہی نہیں۔ پھر جو ہیں بھی ، ان میں بھی کبھی نسبت مشکوک تو کبھی ایک ہی مسئلہ میں متعدد مؤقف کا مسئلہ۔ پھر گزشتہ ادوار کے علمائے کرام بھی خصوصا تقلید کے فروغ کے بعد سے اپنے اپنے مسلک کے لئے دلائل جمع کرتے رہے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ ۔
آپ کی ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر ابتدائی طور پر اتنا بھی کر لیا جائے کہ چاروں مشہور مسالک کے ائمہ مجتہدین میں سے اکثر جس مسئلہ پر متفق ہوں، اس کو اختیار کر لیا جائے اور اگر کہیں "ٹائی" پڑ جائے تو دلائل دیکھ لئے جائیں۔
عام آدمی کے لئے راستہ کوئی بھی ہو، آسان نہیں ہے۔ اجماع کی طرف جائیں گے تو لوگ دور حاضر ہی کے اکثریتی گروہ کو دیکھ کر سمجھیں گے شاید یہی لوگ شروع سے اکثریت میں رہے ہیں۔ کیونکہ آج تک ایسی کوئی تحقیق تو ہوئی ہی نہیں کہ ہر ہراختلافی مسئلہ میں تمام یا اکثر علمائے دین کا مسلک یا تحقیق جمع کی گئی ہو۔ اور نا یہ ممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔
میری رائے تو یہ ہے کہ اس ضمن میں عقیدہ کو اہمیت دی جائے۔ اور عوام الناس کو پہلے تو صحیح و غلط کے جانچنے کا معیار معلوم ہونا ضروری ہے، اور وہ ہے کتاب و سنت اور ان کی تشریح فقط فہم سلف صالحین ۔ اسی ابتدا سے اختلاف ہو جاتا ہے تو آگے بات بڑھتی ہی نہیں۔ پھر فروعی مسائل میں ہر شخص حسب استطاعت تحقیق ضرور کرے، لیکن ان مسائل میں دیانتدارانہ تحقیق کے بعد جو مسئلہ درست معلوم ہو، اسی پر عمل کر لے۔ عقیدہ درست ہوا اور فرع میں کمی کوتاہی رہ بھی گئی تو ان شاءاللہ کچھ حرج نہیں ہوگا۔