• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکثریت حق کی دلیل نہیں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا اکثریت حق کی دلیل ہے؟؟؟؟

قرآن کی روشنی میں مسلمانوں کی وہ جماعت جو صرف اور صرف قرآن اور صحیح احادیث پر عمل کرتی ہے وہ حق پر ہے

یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے

سورة هود ١٧

اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں

سورة يونس ٩٢

یہ) الله کا وعدہ (ہے) الله اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

سورة الروم ٦

یہ الله کا فضل ہے ہم پر بھی اور لوگوں پر بھی ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے

سورة يوسف ٣٨

بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں

سورة الأنعام ١١١

اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں (عہد کا نباہ) نہیں دیکھا۔ اور ان میں اکثروں کو (دیکھا تو) نافرمان ہی دیکھا

سورة الأعراف ١٠٢

اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں الله کا رستہ بھلا دیں گے

سورة الأنعام ١١٦

اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

سورة يوسف ٤٠
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
  1. ”عوام الناس کی اکثریت“ ایک الگ چیز ہے۔ اوپر قرآنی آیات میں اسی ”اکثریت“ کا ذکر ہے۔
  2. ”اصحاب علم کی اکثریت“ ایک دوسری شئے ہے۔ ہر شعبہ علم کے ماہرین میں اختلاف رائے ہوا کرتا ہے۔ تاہم اس شعبہ کے ماہرین کی بھاری اکثریت جس بات پر اتفاق کرلے، اسی کو مستند جانا جاتا ہے۔
  3. ”اسلامیات“ کے شعبہ میں بھی یہی ”قانون“ ایک استثنیٰ کے ساتھ موجود ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث کی صاف صاف اور واضح باتوں میں تو کسی اور ”صاحب علم“ کی رائے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تاہم جن باتوں پر امت میں اختلاف چلا آرہا ہے، اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ دور اول تا آج تلک کے علمائے دین (بشمول صحابہ کرام) کی واضح اکثریت کا کیا موقف رہا ہے۔ یہی ”اجماع امت“ ہے۔
  4. اگر ”اجماع امت“ کے موقف کو نظر انداز کردیا جائے تو پھر ہر فرقہ کے علماء اپنے اپنے موقف کو ہی درست قرار دیں گے۔ اور امت مسلمہ (عوام الناس) کبھی بھی حق کو نہیں پہچان سکے گی کہ کس فرقہ کا موقف حق پر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
یوسف بھائی ، اکثر لوگ اہل حدیث کو اقلیت ہونے کا کہتے ہیں۔
اور یہ کہ وہی فرقہ حق پر ہے ، جو اکثریت میں ہے۔یہ مشہور بات ہے!
جیسے کہ دلیل ہوتی ہے اکثر ممالک کی حنفی حکومتیں اور عوام۔۔۔۔
لیکن جب اسلام کا آغاز ہوا تب مسلمان تعداد میں کم تھے ، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک
ہے کہ قیامت کے قریب اسلام اور مسلمان اجنبی ہو جائیں ، اور سلامتی ہو اجنبیوں پر !!
یہ تھریڈ اور آیات ’’اسی‘‘ موضوع کے متعلق ہے کہ اکثریت حق کی دلیل نہیں۔واللہ اعلم!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یوسف بھائی ، اکثر لوگ اہل حدیث کو اقلیت ہونے کا کہتے ہیں۔
اور یہ کہ وہی فرقہ حق پر ہے ، جو اکثریت میں ہے۔یہ مشہور بات ہے!
جیسے کہ دلیل ہوتی ہے اکثر ممالک کی حنفی حکومتیں اور عوام۔۔۔۔
یہ تھریڈ اور آیات ’’اسی‘‘ موضوع کے متعلق ہیں کہ اکثریت حق کی دلیل نہیں۔واللہ اعلم!
لیکن اوپر جتنی بھی قرآنی آیات پیش کی گئی ہیں وہ ”عام انسانوں کی اکثریت“ سے متعلق ہیں۔ ان آیات میں ”مسلمانوں کی اکثریت“ کا بھی ذکر نہیں ہے چہ جائیکہ ”مسلمان علمائے کرام کی اکثریت“

میں فرقوں اور اس سے ”وابستہ“ عوام کی بات نہیں کر رہا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ”جو لوگ قرآن و حدیث کے عالم“ ہیں (واضح رہے کہ شیطان بھی قرآن و حدیث کا عالم ہے) وہ اگر کسی ایسے شرعی مسئلہ پر اختلاف کریں جس کا صاف صاف قرآن و حدیث میں ذکر نہ ہو تو ۔۔۔ مسلم عوام کس کی بات مانے۔ مسلم عوام کے پاس ”عقل“ تو موجود ہے، وہ دنیوی تعلیم سے بھی بہرہ ور ہے، لیکن قرآن و حدیث کے علم سے ناواقف ہے۔ ایسے میں ہر فرقہ کا عالم اسے ”اپنی اپنی بات“ سناتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ صرف ”میری ہی بات“ درست ہے۔ باقی سب کی غلط۔ اس پس منظر میں یہ بے چارہ کہاں جائے اور کس کی بات مانے۔ خود تو بوجوہ قرآن و حدیث کی تعلیم ھاصل نہیں کرسکتا یا کرسکا۔ اس مسئلہ کا کوئی حل ”اجماع امت“ کے سوا آپ کے پاس ہو تو ضرور بتلائیے۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
[QUOTE="یوسف ثانی, post: 186343, member: 588"تاہم جن باتوں پر امت میں اختلاف چلا آرہا ہے، اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ دور اول تا آج تلک کے علمائے دین (بشمول صحابہ کرام) کی واضح اکثریت کا کیا موقف رہا ہے۔ یہی ”اجماع امت“ ہے۔[/QUOTE]
اکثریت کی رائے اور اجماع میں فرق ہے۔ اجماع حجت ہے لیکن اکثریت کی رائے حجت نہیں ہے۔ اور اجماع ایک زمانے کے جمیع مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اکثریت کی رائے غلط ہی ہو گی۔ اکثریت کی رائے درست، راجح ہو سکتی ہے بلکہ انفرادی اجتہاد کے مقابلے میں اجتماعی اجتہاد سے بننے والی رائے میں صحت کا پہلو غالب ہوتا ہے لیکن اسے یقینی نہیں کہہ سکتے۔ یقینی صرف اجماع کی صورت ہو سکتا ہے۔ جزاکم اللہ
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
محترم ابو الحسن علوی صاحب : اجماع اور اکثریت کی رائے کے فرق کو خوب واضع کیا ہے ،اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے
ایک بات کی تھوڑی تشریح کر دیں ،آپ نے لکھا ہے کہ " اجماع ایک زمانے کے جمیع مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں " پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا جب کوئی عالم یہ دعویٰ کرے کہ اس مسئلہ پر اُمت کا اجماع ہے تو وہ اجماع صرف اس زمانے کے مجتہدین کا اجماع کہلائے گا یا اس سے پہلے کے کئی زمانوں کا اجماع بھی مرادہوگا؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جزاک اللہ محترم ابوالحسن علوی صاحب!
بالکل درست فرمایا۔ میرا مطلب بھی یہی تھا۔
تھوڑی سی مزید روشنی ڈال دیجئے کہ: ”جمیع مجتہدین“ کی شناخت کیسے کی جائے گی۔ اور وہ کون سی ”اتھارٹی“ ہوگی جو یہ طے کرے گی کہ فلاں ”جمیع مجتہدین“ میں سے ہے اور فلاں نہیں۔ اور کیا ” جمیع مجتہدین“ کا تعلق ہر فرقہ سے ہوسکتا ہے یا اس کا تعلق صرف ایک یا چند مسالک سے ہوگا۔
اصل میں یہ سوالات اُس ”عام آدمی“ کی طرف سے پوچھ رہا ہوں جو اگر نان مسلم ہے اور اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک ”احمدی عالم دین“ بھی مسلمان کرنا چاہتا ہے، شیعہ عالم دین بھی، سنی عالم دین بھی، بریلوی، دیوبندی، تبلیغی عالم دین بھی اور سلفی عالم دین بھی۔ ان سب کا ”دین“ الگ الگ ہے اور مسلمان ہونے کی خواہش رکھنے والا خود تو عالم دین نہیں ہے کہ ان سب میں تمیز کرکے ”علمائے حق“ کو پہچان سکے۔ یہی مخمصہ ایک عام مسلم کو بھی ہے۔ جو ان فرقوں کے باہمی تضادات سے پریشان ہے کہ کسے درست سمجھے اور کسے غلط۔ وہ کسی بھی فرقہ کے کسی بھی عالم سے مناظرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے پاس ”اجماع امت“ ہی وہ واحد پیمانہ ہوسکتا ہے، جس کے ذریعہ وہ حق کو شناخت کرسکے۔ لہٰذا ایک عام آدمی کی سہولت کے لئے بتا دیجئے کہ وہ ”اجماع“ کا کیسے اطلاق کرے کہ احمدی، رافضی، بریلوی، تبلیغی، جماعت اسلامی، دیوبندی وغیرہ وغیرہ کی دعوت دین کو ”اتمام حجت“ کے ساتھ ”رد“ کر کرکے حق تک پہنچ سکے۔
ممنون ہوں گا، اگر جواب دیتے ہوئے مجھ جیسے کم علم و کم عقل ”عوام الناس“ کی ذہنی سطح کا خیال رکھا جائے ۔ جزاک اللہ خیرا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
(خود کلامی)
”اجماع“ ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کی تفاصیل سے عام لوگ تو کجا عام مسلمان بھی واقف نہیں ہیں۔ جبکہ ”اکثریت“ ایک عام فہم لفظ ہے۔ جسے جاہل اور پڑھا لکھا،مسلم نان مسلم سب یکساں طور پر ”جانتے“ ہیں۔ ”متعلقہ ماہرین کی اکثریت“ سے بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ سب ہی یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی مرض کے علاج معالجہ میں اگر کوئی شدید اختلاف رونما ہو جائے تو میڈیکل کی ٹیکسٹ بک کی حدود و قیود میں جملہ کوالیفائیڈ اور مستند ”طبی ماہرین کی اکثریت کی رائے“ کو ”سند“ مانا جائے گا۔ ”تمام پڑھے لکھے یا عام لوگوں کی اکثریت“ کو نہیں۔

کیا ہم اسی تمثیل کو اس طرح نہیں بیان کرسکتے کہ: اسلامی معاملات میں اگر شدید اختلافات ہوں (جو کہ فی الواقع موجود ہیں) تو ہمیں قرآن و صحیح احادیث کے اندر رہتے ہوئے، دور رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ادوار خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ”تب سے اب تک“ کے جملہ فرقوں کے علمائے دین ( ”عالم دین“ کی شناخت ایک عام آدمی کے لئے نسبتاً آسان ہے، مجتہد کے مقابلہ میں) کی اکثریتی رائے کو ”درست“ مانا جائے۔ کیا ”اس راستے“ پر چل کر ہر فرد ”دین حق تک“ نہیں پہنچ سکتا (سوچنے والا آئی کون)
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
کیا ہم اسی تمثیل کو اس طرح نہیں بیان کرسکتے کہ: اسلامی معاملات میں اگر شدید اختلافات ہوں (جو کہ فی الواقع موجود ہیں) تو ہمیں قرآن و صحیح احادیث کے اندر رہتے ہوئے، دور رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ادوار خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ”تب سے اب تک“ کے جملہ فرقوں کے علمائے دین ( ”عالم دین“ کی شناخت ایک عام آدمی کے لئے نسبتاً آسان ہے، مجتہد کے مقابلہ میں) کی اکثریتی رائے کو ”درست“ مانا جائے۔ کیا ”اس راستے“ پر چل کر ہر فرد ”دین حق تک“ نہیں پہنچ سکتا (سوچنے والا آئی کون)
اس کا کیا کریں گے کہ کس عالم کے فلاں اختلافی مسئلہ میں درست (یا آخری) مؤقف ہے کیا؟ اول تو ان سب علماء کی اپنی تحریریں ہیں ہی نہیں۔ پھر جو ہیں بھی ، ان میں بھی کبھی نسبت مشکوک تو کبھی ایک ہی مسئلہ میں متعدد مؤقف کا مسئلہ۔ پھر گزشتہ ادوار کے علمائے کرام بھی خصوصا تقلید کے فروغ کے بعد سے اپنے اپنے مسلک کے لئے دلائل جمع کرتے رہے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ ۔
آپ کی ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر ابتدائی طور پر اتنا بھی کر لیا جائے کہ چاروں مشہور مسالک کے ائمہ مجتہدین میں سے اکثر جس مسئلہ پر متفق ہوں، اس کو اختیار کر لیا جائے اور اگر کہیں "ٹائی" پڑ جائے تو دلائل دیکھ لئے جائیں۔

عام آدمی کے لئے راستہ کوئی بھی ہو، آسان نہیں ہے۔ اجماع کی طرف جائیں گے تو لوگ دور حاضر ہی کے اکثریتی گروہ کو دیکھ کر سمجھیں گے شاید یہی لوگ شروع سے اکثریت میں رہے ہیں۔ کیونکہ آج تک ایسی کوئی تحقیق تو ہوئی ہی نہیں کہ ہر ہراختلافی مسئلہ میں تمام یا اکثر علمائے دین کا مسلک یا تحقیق جمع کی گئی ہو۔ اور نا یہ ممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔

میری رائے تو یہ ہے کہ اس ضمن میں عقیدہ کو اہمیت دی جائے۔ اور عوام الناس کو پہلے تو صحیح و غلط کے جانچنے کا معیار معلوم ہونا ضروری ہے، اور وہ ہے کتاب و سنت اور ان کی تشریح فقط فہم سلف صالحین ۔ اسی ابتدا سے اختلاف ہو جاتا ہے تو آگے بات بڑھتی ہی نہیں۔ پھر فروعی مسائل میں ہر شخص حسب استطاعت تحقیق ضرور کرے، لیکن ان مسائل میں دیانتدارانہ تحقیق کے بعد جو مسئلہ درست معلوم ہو، اسی پر عمل کر لے۔ عقیدہ درست ہوا اور فرع میں کمی کوتاہی رہ بھی گئی تو ان شاءاللہ کچھ حرج نہیں ہوگا۔
 
Top