ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاق
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا ہمارے معاشرے کابہت نازک اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے لیکن ہم اس سلسلہ میں بہت لاپروا واقع ہوتے ہیں ،اس کی نزاکت کااندازہ درج ذیل حدیث سے بخوبی لگایا جاسکتاہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جب آپ کو اس کی اطلاع دی گئی تو غضبناک ہوکر کھڑے ہوئے اورفرمایا:" کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟[1]
بہرحال کتاب وسنت کے مطابق ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ،حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دو سالہ عہد حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:" لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جلدی کی ہےجس میں انہیں سہولت دی گئی تھی،انہوں نے اس کے بعد تینوں کو نافذ کردینے کاحکم دیا۔[2]
اسی طرح حضرت ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دےدی تھیں،پھر اس پر وہ نادم وپشیمان ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ تینوں طلاقیں ایک ہی ہیں۔"[3]
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:"تم ام رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رجوع کرلو۔"انہوں نے عرض کیا:میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں۔آپ نے فرمایا:"مجھے اس بات کا علم ہے تم اس سے رجوع کرلو۔"[4]
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث طلاق ثلاثہ کے متعلق فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کی دوسری کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔[5]
درج بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے،عدالت کےروبرو پہلی طلاق کو ہی پیش کردیا گیا لہذا اس کی کوئی الگ حیثیت نہیں ہے، اس طلاق پر چار سال کاعرصہ بیت چکا ہے اور مطلقہ کی عدت ختم ہوچکی ہے،عدت کے اختتام پر نکاح بھی ختم ہوجاتاہے لہذا تجدید نکاح سے صلح ہوسکے گی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزوٰجَهُنَّ إِذا تَرٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورةالبقرة
"اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو تم ان کے شوہروں سے نکاح میں رکاوٹ نہ بنو بشرط یہ کہ وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں۔"
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رجع طلاق ے بعد اگرعدت ختم ہوجائے تو تجدید نکاح سے صلح ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے چار باتوں کا ہونا ضروری ہے:
1۔عورت تجدید نکاح پر رضا مند ہو،اس پر اس سلسلہ میں کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔
2۔عورت کے سرپرست کی اجازت حاصل ہو کیونکہ اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
3۔ازسر نو حق مہر کیاجائے۔
4۔گواہوں کی تعین بھی ضروری ہے۔
بہرحال ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوگی ،دوران عدت نئے نکاح کے بغیر ہی رجوع ممکن ہے ،البتہ عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح سے صلح ہوسکے گی۔(واللہ اعلم)
[1] ۔سنن النسائی:الطلاق:3430۔
[2] ۔صحیح مسلم الطلاق:1472۔
[3] ۔مسند امام احمد،265،ج1۔
[4] ۔ابوداود الطلاق:2196۔
[5] ۔فتح الباری :45،ج9۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد3۔صفحہ نمبر 344