• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اک خطرناک گھاٹی "مسئلہ تکفیر"

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
فضیلۃ العلامہ الشیخ محمد بن صالح العثمین ﷬​

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

حمد و ثناءکے بعد!

کسی پر کفر کا یا فسق کا حکم لگانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے، کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا احکام شرعیہ میں سے ہے، جس کا مرجع قرآن و سنت ہے، لہذ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے- کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کسی کو کافر یا فاسق نہیں کہا جاسکتا-
جو مسلمان ظاہری طور پر عادل ہو، اس کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اسے اس وقت تک عادل اور مسلمان ہی سمجھا جائے گا، جب تک کسی شرعی دلیل سے اس کے اسلام اور عدالت کی نفی ثابت نہ ہو جائے- جب نفی ثابت ہوجائے گی تو پھر اسے کافر اور فاسق قرار دینے میں چشم پوشی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس سے دو ممنوع کام لازم آتے ہیں-
ایسے شخص پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے ،جس کے بارے میں یہ حکم کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اللہ تعالی کے ذمہ جھوٹ لازم آئے گا، اور اس شخص پر بھی جھوٹ لازم آئے گا جس پر یہ حکم لگایا گیا ہے، وہ اس حکم کا مستحق نہیں، تو لگانے والا خود اس میں واقع ہوجائے گا-
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما"
جب ایک آدمی دوسرے کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتاہے-(صحیح بخاری 6104و مسلم 111)
مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں:
ان کان کما قال والا رجعت علیہ"
جس پر حکم لگایا گیا ہے، اگر وہ اس کا مستحق ہے ، تو ٹھیک ہے ورنہ حکم لگانے والا خود کافر ہوجائے گا-
صحیح مسلم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
ومن دعا رجلا بالکفر او قال عدواللہ ولیس کذلک الاحار علیہ"
جس نے کسی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہ کر بلایا، مگر وہ ایسا نہیں ہے تو یہ حکم لگانے والے پر لوٹ جائے گا-(صحیح مسلم 112)

کسی مسلمان پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے پہلےدو چيزوں میں غور و فکر کرلینا ضروری ہے-

٭ 1- کتاب و سنت سے ثابت ہو کہ قول یا فعل کفر یا فسق کا موجب ہے-
٭2- خاص قائل یا فاعل پر یہ حکم لگ سکتا ہو، اس کے حکم میں کفر و فسق کی شرائط ہوں اور موانع موجود نہ ہو-
سب سے اہم شرط یہ ہے کہ وہ شخص جانتا ہو کہ اس کی مخالفت کرنے سے وہ کافر یا فاسق ہوجائے گا
ارشاد باری تعالی ہے :
"حق واضح ہوجانے کے بعد وہ شخص رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کی مخالف راہ اپنائے گا، تو ہم اسے اسی راہ پر چلا کر جہنم میں داخل کردیتے ہیں، جوکہ بہت برا ٹھکانہ ہے-" (النساء 115)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
" اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اس وقت تک گمراہ نہیں کرتا جب تک ان چيزوں کو واضح نہ کرے، جن سے بچنا ان کے لیے ضروری ہے، اللہ تعالی ہر چيز کو جانتا ہے، آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے، وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اس کے علاوہ تمہارا کوئی دوست و مددگار نہیں- (التوبہ 116،115)
اس لیے علماء کہتے ہیں:
لا یکفر جاحد الفرائض اذا کان حدیث عھد باسلام حتی یبین لہ"
(فرائض کا منکر نو مسلم شخص اس وقت تک کافر نہیں، تا آنکہ اسے بتایا جائے کہ یہ کام فرض ہے اور اس کا منکر کافر ہے-)

جب کوئی آدمی بلا ارادہ کفر یا فسق کے کام میں واقع ہوجائے تو اسے کافر یا فاسق نہیں کہا جائے گا، اس کی چند صورتیں ہیں:
٭1- یہ کہ اسے کفر و فسق پر مجبور کیا جائے، وہ اسے مجبوری کی حالت میں کرے، اطمینان قلب حاصل نہ ہو، تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا-
ارشاد باری تعالی ہے کہ:
" جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کیا، علاوہ اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہے، اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن جس شخص نے کفر کو شرح صدر سےقبول کرلیا، اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے-" (النحل:106)
٭2- یہ کہ زیادہ خوشی، غم یا خوف کی وجہ سے عقل و فکر جواب دے جائے-
جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جب آدمی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس شخص کی نسبت زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی اونٹنی پر سفر کرتے ہوئے صحرا میں پہنچا، تو وہاں اس کی اونٹنی کھانے پینے کے سامان سمیت بھاگ گئی، وہ ناامید ہوکر درخت کے سائے میں لیٹ گیا، کہ اچانک وہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی تھی، اس نے اس کی مہار کو پکڑا اورفرط خوشی سے کہنے لگا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، شدت فرحت کی وجہ سے اس سے غلطی ہوگئی-صحیح مسلم:2747

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒکہتے ہیں:
" درست یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے جس نے حق تک پہنچنے کے لیے اجتہاد کیا اور اس نے خطا کھائی تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس کی خطا معاف ہے ، مگر جس شخص نے حق واضح ہونے کے بعد جان بوجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، اور مومنوں کی مخالف راہ اپنائی، وہ کافر ہے اور جو شخص خواہشات کی اتباع میں حق تک نہ پہنچ سکا اور غیر علم کی بات کردی، وہ نافرمان اور گناہگار ہے- کبھی تو ایسا شخص فاسق ہوتا ہے اور کبھی اس کی نیکیاں برائیوں پر غالب آجاتی ہیں-" (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:12/180
نیز ابن تیمیہ ﷬ کہتے ہیں کہ:
" میرے ہم نشیں اس بات کو جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس سے سختی کے ساتھ روکتا رہا ہوں کہ کسی خاص آدمی کو کفر و فسق یا گناہ کی طرف منسوب کیا جائے، البتہ جس شخص کے خلاف شرعی دلیل معلوم ہوجائے، جس کا مخالف کبھی تو کافر ہوتا ہے، کبھی فاسق و گناہگار ہوتا ہے، میں اقراری ہوں کہ اللہ تعالی نے اس امت کی سب خطاؤں کو معاف کردیا ہے، خواہ وہ قولی مسائل میں ہوں یا عملی مسائل میں، سلف کے درمیان ان مسائل میں اختلاف رہا ہے – مگر ان میں کسی نے بھی دوسرے کو اس اختلاف کی وجہ سے کافر، فاسق یا گناہگار نہیں کہا تھا- (چند مثالیں ذکر کرنے کےبعد کہا) میں نے واضح کیا ہے کہ سلف صالحین اور آئمہ سے جو یہ منقول ہے، کہ فلاں فلاں کام کرنے والا کافر ہے، تو یہ بات حق ہے ، مگر مطلق اور معین میں فرق کرنا واجب ہے- (یعنی وہ یہ کہتے تھے کہ جو یہ کام کرے وہ کافر ہے یا فاسق یا عاصی ہے، کسی خاص شخص کے بارے میں یہ بات نہیں کہتے تھے-")
تکفیر ایک وعید ہے، اگرچہ کہنے والے کی بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تکذیب ہوتی ہو، کیونکہ ایسا کہنے والا نو مسلم بھی ہوسکتا ہے اور کبھی دیہاتی بھی ہوسکتا ہے، ایسے شخص کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جاسکتا، جب تک اس کے خلاف حجت قائم نہ ہو، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس شخص نے (تکفیر یا تفسیق کے بارے) یہ نصوص سنی نہیں ہوتیں، یا اس کے ہاں یہ نصوص پا یئہ ثبوت تک نہیں پہنچتیں یا اس کے ہاں اس کے معارض یا مخالف کوئی دلیل موجود ہوتی ہے، جس کی بنا پر وہ ان کی تاویل ضروری سمجھتا ہے، اگرچہ وہ خطاکار ہی کیوں نہ ہو، میں ہمیشہ صحیح بخاری و مسلم کی اس حدیث کو ذکر کرتا ہوں، جس میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ:
جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پیس دو اور راکھ سمندر میں اڑادو، قسم ہے! اگر اللہ نے مجھ پر قابو پالیا، تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ دنیا والوں میں سے کسی کو بھی ایسا عذاب نہ دے گا- ورثاء نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالی نے اس سے پوچھا: تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا تیرے ڈر کی بنا پر ایسا کیا ہے تو اللہ تعالی نے اسے معاف کردیا-" (صحیح بخاری: 7506، صحیح مسلم: 2756)

اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک تھا، بلکہ اس کا عقیدہ تھا کہ میں ریزہ ریزہ ہوجاؤں گا تو اللہ مجھے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا، اس بات کے کفر ہونے میں مسلمانوں کا اتفاق ہے ، لیکن وہ جاہل تھا، وہ نہیں جانتا تھا کہ اس سے کفر لازم آتا ہے مگر چونکہ وہ مومن تھا، اللہ کے عذاب سے ڈرتا تھا، چنانچہ اللہ نے اسے معاف کردیا، وہ مؤول مجتہد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا شوق رکھتا ہے، اس سے بھی زیادہ مغفرت کا مستحق ہے-" مجموع الفتاوی لابن تیمیہ 3/229
اس تحقیق کے بعد قول اور قائل، فعل اور فاعل کے درمیاں تمیز کی جائے گی، ہر قول و فعل کفر و فسق کا سبب نہیں بنتا کہ اس کے قائل یا فاعل پر کفر و فسق کا حکم لگادیا جائے-
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷬مزید کہتے ہیں:
" قاعدہ یہ ہے کہ جو بات کتاب و سنت اور اجماع کی روشنی میں کفر ثابت ہوجائے، اسے کفر ہی کہا جائے گا، جیسا کہ اس پر شرعی دلائل موجود ہیں، ایمان ان احکام میں سے ہے جو اللہ اور رسول سے سیکھے گئے ہیں، لوگ اپنی خواہشات کے ساتھ اس کے بارے میں حکم صادر نہیں کرسکتے، یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسی بات کہنے پر کسی شخص کو کافر کہ دیا جائے، یہاں تک کہ اس کے حق میں تکفیر کی شرائط ثابت ہوجائيں اور تکفیر کے موانع ختم ہوجائيں، مثلا! کسی شخص نے نومسلم ہونے کی وجہ سے یا بدوی ہونے کی وجہ سے شراب یا سود کو حلال کہ دیا، تو وہ کافر نہیں- یا اس نے کوئی عجیب بات سنی اور یہ سمجھا کہ یہ قرآن و حدیث میں سے نہیں ہے، جیسا کہ بعض سلف نے کچھ چيزوں کا انکار کیا، یہاں تک کہ تائب ہوگیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے:
" تاکہ رسول بھیجنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی دلیل نہ بچے-"(النساء 165)
نیز اللہ نے اس امت سے خطا و نسیان کو معاف کردیا ہے-" مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:35/165
خلاصہ

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات کوئی قول یا فعل موجب کفر و فسق ہوتا ہے مگر اسے ادا کرنے والا کافر یا فاسق نہیں ہوتا، یا تو اس لیے کہ اس میں تکفیر و تفسیق کی شرط معلوم نہیں یا پھر اس لیے کہ کوئی شرعی مانع موجود ہے- جس پر حق واضح ہوگیا، مگر وہ اپنے عقیدے کی بنا پر یا کسی امام و پیشوا کی اتباع و پیروی یا دنیا پرستی کی وجہ سے اس کی مخالفت پر ڈٹ گیا تو اس مخالفت کی وجہ سے وہ کفر و فسق کا مستحق ہوگیا-
ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ عقیدہ و عمل کو کتاب و سنت کے مطابق بنائے، انہیں اپنا پیشوا سمجھے اور انہی سے نور ہدایت حاصل کرے، کتاب و سنت کا راستہ اختیار کرے،کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے، جسے اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"یہی میرا سیدھا راستہ ہے، تم اس کی پیروی کرو، دیگر راہوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹادیں گی، یہ تمہیں اللہ کا حکم ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ-" (الانعام:153)
مومن کو ان لوگوں سے بچنا چاہیے جو اپنے عقیدہ و عمل کی بنیاد کسی خاص مذہب پر رکھتے ہیں، پھر جب دیکھتے ہیں کہ کتاب و سنت کی نصوص ان کے مذہب کے خلاف ہیں تو ان نصوص کو باطل تاویلات سے اپنے مذہب کی طرف پھیردیتے ہیں، وہ کتاب و سنت کی پیروی نہیں کرتے، بلکہ ان کو اپنا پیروکار بنالیتے ہیں- یہ خواہش پرستوں کا طریقہ ہے نہ کہ ہدایت پرستوں کا اور اللہ تعالی نے اس طریقے کی مذمت بیان کی ہے-
ارشاد باری تعالی ہے :
"اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور ان کا درمیانی نظام بگڑ جاتا ، بلکہ ہم تو ان کے پاس ذکر لائے ہیں اور وہ اس ذکر سے منہ موڑتے ہیں-"(المؤمنون:17)
اس بارے میں لوگوں کے مختلف مسئلوں میں غور و فکر کرنے والا آدمی بڑے بڑے عجائبات دیکھتا ہے، اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہدایت مانگنے، حق پر ثابت رہنے اور گمراہی سے پناہ مانگنے میں وہ اللہ تعالی کا انتہائی محتاج ہے، جو شخص خود کو رب کا محتاج سمجھ کر اور اللہ کو غنی سمجھ کر صدق دل کے ساتھ اللہ تعالی سے سوال کرے تو اللہ تعالی اس کے سوال کو ضرور پورا کردیں گے-
ارشاد باری تعالی ہے:
"جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو بتادیں کہ میں قریب ہوں، ہر ایک کی پکار کو قبول کرتا ہوں، انہیں چاہیے کہ میرے احکامات قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائيں، تاکہ وہ ہدایت پائيں-" (البقرہ:186)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی پیروی کرنے اور باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ہدایت یافتہ اور نیک لوگوں میں شامل فرمائے، ہدایت کےبعد ہمارے دلوں کو کجروی سے بچائے، ہم پر اپنی رحمت نازل فرمائے، تعریف اللہ کی جس کے فضل سے ہی نیک کام مکمل ہوتے ہیں اور درود و سلام ہوں نبی رحمت پر جنہوں نے امت کو اللہ کی راہ دکھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل، اصحاب اور ان کے پیروکاروں پر رحمتیں ہوں-
اقتباس: ماہنامہ صراۃ مستقیم جولائی2009 برطانیہ

کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاونلوڈ کیجئے::: اک خطرناک گھاٹی "مسئلہ تکفیر"
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا بھائی!
بہت ہی خوبصورت شیئرنگ!
اللہ تعالیٰ ہمارے ان علمائے کرام﷭ کو وہ بہترین جزاء دیں جس کے مستحق ہیں، ان کی قبروں کو وسیع اور منور فرما دیں۔
اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
آمین یا رب العالمین۔۔
بس میں بھی آخر میں ایک ہی بات کروں گا۔۔
جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا تھا:
ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔

یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین !

اللہ آپ سب ہم سب راضی ہو!!!!!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
کسی مسلمان پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے پہلےدو چيزوں میں غور و فکر کرلینا ضروری ہے-
٭ 1- کتاب و سنت سے ثابت ہو کہ قول یا فعل کفر یا فسق کا موجب ہے-
٭2- خاص قائل یا فاعل پر یہ حکم لگ سکتا ہو، اس کے حکم میں کفر و فسق کی شرائط ہوں اور موانع موجود نہ ہو-
سب سے اہم شرط یہ ہے کہ وہ شخص جانتا ہو کہ اس کی مخالفت کرنے سے وہ کافر یا فاسق ہوجائے گا
محترم بھائی کا مضمون بڑا اچھا ہے اللہ جزا دے البتہ ایک بات پر اشکال ہے کہ جو انھوں نے سب سے اہم شرط مطلقا لکھی ہے وہ میرے نزدیک ٹھیک نہیں
محترم بھائی نے لکھا ہے کہ کفریہ عمل یا قول کا مرتکب جانتا ہو کہ اس کے ارتکاب سے وہ کافر ہو جائے گا تو پھر وہ کافر ہو گا
لیکن میرے نزدیک مطلقا خالی ایسی شرط لگانا ہی غلط ہے چہ جائے کہ اسکو سب سے اہم شرط قرار دے دیا جائے
محترم بھائی میرے خیال میں غامدی یہ نظریہ رکھتا ہے کہ جو جانتے بوجھتے کسی چیز کا انکار کرے صرف وہی کافر ہے حالانکہ اہل سنت اسکو کفر کی ایک قسم یعنی کفر جحود میں لیتے ہیں جبکہ کفر جہالت وغیرہ بھی قسمیں کرتے ہیں واللہ اعلم
پس کسی خاص حالت کے لئے یہ شرط ہو تو علیحدہ بات ہے مثلا نو مسلم کا معاملہ وغیرہ مطلقا یہ شرط لگانا ٹھیک نہیں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
محترم بھائی کا مضمون بڑا اچھا ہے اللہ جزا دے البتہ ایک بات پر اشکال ہے کہ جو انھوں نے سب سے اہم شرط مطلقا لکھی ہے وہ میرے نزدیک ٹھیک نہیں
محترم بھائی نے لکھا ہے کہ کفریہ عمل یا قول کا مرتکب جانتا ہو کہ اس کے ارتکاب سے وہ کافر ہو جائے گا تو پھر وہ کافر ہو گا
لیکن میرے نزدیک مطلقا خالی ایسی شرط لگانا ہی غلط ہے چہ جائے کہ اسکو سب سے اہم شرط قرار دے دیا جائے
محترم بھائی میرے خیال میں غامدی یہ نظریہ رکھتا ہے کہ جو جانتے بوجھتے کسی چیز کا انکار کرے صرف وہی کافر ہے حالانکہ اہل سنت اسکو کفر کی ایک قسم یعنی کفر جحود میں لیتے ہیں جبکہ کفر جہالت وغیرہ بھی قسمیں کرتے ہیں واللہ اعلم
پس کسی خاص حالت کے لئے یہ شرط ہو تو علیحدہ بات ہے مثلا نو مسلم کا معاملہ وغیرہ مطلقا یہ شرط لگانا ٹھیک نہیں
جزاک اللہ خیرا
مجھے بھی اس مضمون میں یہی بات قابل اعتراض لگی جس کی آپ نے نشاندہی فرمائی۔ میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔
 
Top