• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كرليا كرو

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436




اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كرليا كرو

( النحل ٤٣)

ہمارے دوست احباب بڑے شدومد سے اس آیت کو تقلید کے جواز میں پیش کرتے ہیں حالانکہ اس آیت میں تقلید کا ارشاد تک موجود نہیں جس سے آئمہ کی تقلید ثابت ہوسکے۔۔۔ بلکہاس آیت میں تو یہ بتانا مقصود تھا کے تم جس جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہو محض اس لئے کے وہ بشر ہے اور تم اس کے مقام سے ناآشنا ہوتو اہل کتاب سے پوچھ لو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جتنے رسول آئے وہ سبھی بشر تھے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ مجھ صلی اللہ علیہ وسلم انہی سچے رسولوں میں سے ایک ہیں اب اس آیت کے مکمل الفاظ ملاحظہ کیجئے۔۔۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ

اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو (النحل ٤٣)۔۔۔

اس آیت کے سیاق وسباق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت کے مخاطب مشرکین ہیں اور اہل ذکر سے مراد اہل کتاب ہیں اس آیت میں ایک خاص اعتراض کے رفع کرنے میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جارہا ہے کیونکہ وہ صحائف انبیاء اور آسمانی کتابوں سے واقف تھے حالانکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے تو پھر ان سے سوال کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے علم کی بناء پر تمہیں بتادیں گے کہ رسول بشر ہی ہوتا ہے اور رسول کا بشر ہونا اس قدر واضح ہے کہ اہل کتاب سے بھی اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے اور پھر اس کی اگلی آیت میں تبلیغ کا حکم ہے۔۔۔

بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں
(النحل ٤٤)۔۔۔

اس آیت کے کے ابتدائی الفاظ کس قدر واضح ہیں کے اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ذمے اس کتاب کی تبلیغ ہے اور تبلیغ کن لوگوں کو کرنی ہے؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ کہ جن کی طرف یہ قرآن نازل کیا گیا ہہے تاکہ وہ غور فکر کریں اب دیکھئے پہلے ذکر کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور پھر مخاطبین کی طرف ہے۔۔۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور مخاطبین کی نسبت میں واضح فرق کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تبلیغ فرض ہے اور مخاطبین پر غوروفکر تو بھائی (مقلد) یہاں کسی ایک کی تخصیص کیسے ہوسکتی ہے جب کہ آپ خاص لوگوں کی طرف رسول بن کر نہیں آئے بلکہ تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجئے گئے ہیں اور تمام کو ہی غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے پھر یہ بات بھی مدنظر رکھیئے کے قرآنی اصطلاح میں ذکر وہ ہوگا جو اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہوا ہو جو اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل نہیں ہوا وہ قطعی ذکر نہیں ہوسکتا اور وہ عالم بھی عالم نہیں کہلائے گا جو ذکر سے واقف نہیں تو کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی کے قیاس کو دین بنا لیا جائے یہ بات اس آیت کے صریح خلاف ہوگی کے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی اور پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے کیونکہ علم وہ ہے جو اللہ رب عزت کی طرف سے ہو اور علماء وہ ہیں جو قیاسات کو چھوڑ کر کتاب وسنت کو اپناتے ہیں مقلد جاہل ہوتا ہے اور جاہل کو غور فکر کی حاجت ہی کیا لیکن اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ذکر کے ساتھ غوروفکر کو لازم قرار دیا ہے جو بھی مسلمان ہوگا اس کو کتاب کے مطابق غور خوض کرنا ہوگا لیکن مقلد تو صرف اپنے امام کی رائے کو ہی کافی سمجھتا ہے تو ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کے تقلید کے دعوے دار اس آیت سے عامی (جاہل) کے لئے علماء کی طرف رجوع کرنا لازمی قرار دیتے ہیں تو اس بات میں کوئی شک بھی کیا ہوسکتا ہے کہ جاہل نے تو آخر علماء کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے البتہ اس کے لئے غوروفکر کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ وہ صرف کسی عالم کی بات کو اس لئے قبول نہ کرے کہ یہ بات فلاں عالم کی ہے بلکہ وہ اس میں دیکھے کے عالم نے جو فتوٰی دیا ہے کیا وہ کتاب وسنت کے موافق ہے یا نہیں۔۔۔۔

اس بات سے یہ شبہ پیدا نہ ہوکے جو کسی مسئلہ میں خود تحقیق کرسکتا ہے کہ وہ مسئلہ کتاب وسنت کے موافق ہے یا نہیں اس کو کسی سے فتوٰی لینے کی ضرورت ہی کیا ہے تو اس شبہ کے رفع کرنے میں عرض یہ ہے ک عامی مفتی سے دلیل تو طلب کر سکتا ہے کہ بتائیے آپ نے جو فتوی دیا ہے اس کی کتاب وسنت میں کیا اصل ہے جب مفتی دلیل بیان کرے تو وہ تقلید نہ رہے گی کیونکہ تقلید میں دلیل کا وجود نہیں ہوتا۔۔۔

عزیز دوستوں!۔۔۔

یہاں پر میں سوال آپ سے کرتا ہوں کے کیا آپ وہ بننا چاہتے ہیں (جس کو دلیل کی ضرورت نہیں) یا قرآن کی آیت کی وجہ سے تحقیق کر کے متبع بننا چاہتے ہیں۔۔۔

اب ہم مقلدین سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں ہیں کہ آخر اس آیت میں اللہ تعالٰی نے تقلید شخصی کو کہاں واجب قرار دیا ہے؟؟؟۔۔۔ اگر اس آیت سے تقلید شخصی کو کوئی پہلو نکلتا بھی ہے تو آج تک ان الفاظ کو بیان کیوں نہیں کیا گیا تھا؟؟؟۔۔۔
بلکہ اس آیت سے یہی معلوم ہوا ہے کے اگر تم علم سے واقفیت نہیں رکھتے تو کسی اہل علم سے پوچھ لو تو اس میں کسی ایک کی تخصیص کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ تم فلاں شخص سے مسئلہ پوچھو اور اس کے فتوٰی پر عمل کرو اگر مقلدین کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہاں پر ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا اسلام میں اہل علم چار ہی ہوئے ہیں اور ان کے بعد علم کا دروازہ بند کردیا گیا؟؟؟۔۔۔ یا ان چاروں نے بعد میں آنے والوں کو قیامت تک کے لئے علمی ضرورت سے مستثٰنی کردیا؟؟؟۔۔۔ ظاہر کے کہ کوئی بھی مقلد اس کا جواب نہیں دے سکتا چنانچہ مسئلہ صاف ہوگیا کے اہل ذکر سے مراد ہر دور کے وہ علماء ہیں جو ذکر (کتاب وسنت) پر عمل پیرا ہوں۔۔۔

پھر اس آیت کریمہ میں وہ کونسا لفظ ہے جس کا معنی تقلید ہے؟؟؟۔۔۔ اگر کہیں کے اس میں سوال کا ذکر ہے تو ہم کہتے ہیں کے بھائی (مقلد) دنیا کی کسی لغات میں سوال کا معنی مقلد نہیں اگر ہے تو پیش کیا جائے؟؟؟۔۔۔ اگر سوال کے معنی تقلید ہیں تو قرآن میں کئی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا ہے کہ آپ فلاں سوال کریں تو کیا اس کا معنی ہوگا کے اے رسول تم بھی فلاں کی تقلید کرو (معاذ باللہ)۔۔۔

اگر آج کے مقلد مفتی فتوٰی دیتے وقت فقہ کی کتابوں سے متقدمین کی عبارت کو نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں تو کون سی چیز مانع ہے کہ وہ قرآن اور کُتب احادیث (جو وحی کے مبارک الفاظ ہیں) سے نقل کر کے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی بھی حاصل کریں اور ثواب بھی پائیں۔۔۔

المختصر یہ آیت کسی طریقہ سے بھی تقلید کو ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ تو تقلید کے خلاف ایسی واضح آیت ہے جس کا انکار طالب حق سے ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ بلکہ اس آیت نے تو تقلیدی ذہن رکھنے والے مقلدین کی بخیں اُدھیڑ دیں۔۔۔۔



 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
محترم اس آیت کے حوالے سے سلف سے تین طرح کی تفاسیر منقول ہیں پہلی یہ کہ اہل الذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری ہیں دوسری یہ کہ اہل الذکر سے مراد پوری امت مسلمہ ہے اور تیسری یہ کہ اہل الذکر سے مراد علمائے امت مسلمہ ہیں ۔دوسری بات یہ ہےکہ تقلید اور عدم تقلید کو آپ متطقی انداز میں بھی دیکھیں تو پھر بھی بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ یا تو مجتہد ہوں گے یا مقلد اب ظاہر بات ہے کہ ہر بندہ مجتہد تو نہیں ہو سکتا چناچہ اہل علم کی بات ماننا ہی پڑے گی۔بلکہ خود اہل علم تمام مسائل سے اگاہ نہیں ہوتے لہذا جہاں وہ ضروت محسوس کریں وہاں تقلید کریں گے لیکن اس باب میں یہ واضح رہے کہ تقلید شخصی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی بغیر دلیل کے کسی کی بات ماننی چاہیے۔البتہ اجتہاد صرف علمائے مجتہدین کا ہی کا م ہوگا۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
چناچہ اہل علم کی بات ماننا ہی پڑے گی۔
کیلانی صاحب اہل علم کی کونسی بات مانی جائے گی۔۔ جو قرآن وحدیث کے موافق ہو یا مخالف ؟ یا دونوں ؟ ۔۔۔ کیونکہ اہل علم جو ہیں؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
بھائی اہل علم کی وہ بات مانی جائے گی جو قرآن و حدیث کے موافق ہو لیکن اس سے یہ کب لازم آتا ہےکہ سوسائٹی کا ہر بندہ ہی مجتہد بن بیٹھے کو ئی مقلد نہ رہے؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
بھائی اہل علم کی وہ بات مانی جائے گی جو قرآن و حدیث کے موافق ہو لیکن اس سے یہ کب لازم آتا ہےکہ سوسائٹی کا ہر بندہ ہی مجتہد بن بیٹھے کو ئی مقلد نہ رہے؟
تو برادر یہ تقلید ہے ہی نہیں، اور نہ اس کو تقلید کہا جاسکتا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم اس آیت کے حوالے سے سلف سے تین طرح کی تفاسیر منقول ہیں پہلی یہ کہ اہل الذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری ہیں دوسری یہ کہ اہل الذکر سے مراد پوری امت مسلمہ ہے اور تیسری یہ کہ اہل الذکر سے مراد علمائے امت مسلمہ ہیں ۔دوسری بات یہ ہےکہ تقلید اور عدم تقلید کو آپ متطقی انداز میں بھی دیکھیں تو پھر بھی بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ یا تو مجتہد ہوں گے یا مقلد اب ظاہر بات ہے کہ ہر بندہ مجتہد تو نہیں ہو سکتا چناچہ اہل علم کی بات ماننا ہی پڑے گی۔بلکہ خود اہل علم تمام مسائل سے اگاہ نہیں ہوتے لہذا جہاں وہ ضروت محسوس کریں وہاں تقلید کریں گے لیکن اس باب میں یہ واضح رہے کہ تقلید شخصی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی بغیر دلیل کے کسی کی بات ماننی چاہیے۔البتہ اجتہاد صرف علمائے مجتہدین کا ہی کا م ہوگا۔
بھائی - اس سے تو ظاہر ہوتا ہے آئمہ اربع بھی کبھی نہ کبھی مقلد رہے ہوں گے - سوال ہےآخر وہ کس کے مقلد تھے ؟؟ کیوں کہ کوئی بھی انسان چاہے کتنا ہی بڑا مجتہد کیوں نہ ہو پیدائشی طور پر اہل علم نہیں ہو سکتا -
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
بھائی - اس سے تو ظاہر ہوتا ہے آئمہ اربع بھی کبھی نہ کبھی مقلد رہے ہوں گے - سوال ہےآخر وہ کس کے مقلد تھے ؟؟ کیوں کہ کوئی بھی انسان چاہے کتنا ہی بڑا مجتہد کیوں نہ ہو پیدائشی طور پر اہل علم نہیں ہو سکتا -
اس میں شک والی کونسی بات ہے جب کسی امام کو دلیل کا علم نہیں ہوتا تھا تو وہ دوسروں کی رائے کے پیچھے چلتے تھے ۔لیکن جب دلیل آجاتی تھی اپنے اجتہاد پر چلا کرتے تھے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میرا خیال ہے پھر اختلاف صرف لفظی ہی ہے۔تصوارت میں کو نزاع نہیں۔
جزاک اللہ خیرا۔۔ لیکن کیلانی صاحب ایسا معاشرہ/ماحول جہاں ایک لفظ سے اذہان میں کوئی مشابہہ مفہوم نکلتاہو۔ اور جو مشابہہ مفہوم نکل رہا ہے۔ وہ اختلافی بھی ہو، اور علماء صالحین اس کےخلاف کئی کئی کتب لکھ چکے ہوں۔ تو پھر اس لفظ کو استعمال کرنے سے گریز ہی بہتر ہے۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اس میں شک والی کونسی بات ہے جب کسی امام کو دلیل کا علم نہیں ہوتا تھا تو وہ دوسروں کی رائے کے پیچھے چلتے تھے ۔لیکن جب دلیل آجاتی تھی اپنے اجتہاد پر چلا کرتے تھے۔
یعنی جب تک لا علم ہو اس وقت تک کسی کی تقلید کرے -اور جب دلیل مل گئی تو تقلید چھوڑ دے ؟؟؟

لیکن میں نے آج تک ایسا کوئی حنفی نہیں دیکھا جس نے قرآن و سنّت سے دلیل ملنے کے بعد اپنے امام کی تقلید چھوڑ دی -اور خود اجتہاد کیا ہو
 
Top