کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
اگر زینب زندہ ہوتی
ہم تھوڑی دیر کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ زینب زندہ ہے ۔
وہ کوڑےدان کے پاس بے ہوش پڑی ملی تھی۔ اسے بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا، اور یوں اس کی جان بچ گئی۔ چند ہفتوں بعد جب وہ چلنے کے قابل ہوئی تو عدالت نے اسے طلب کر لیا گیا اور اس سے اس دعوی کے متعلق پوچھا گیا جو اس کی بے ہوشی کے دوران کیا گیا تھا۔ زیر نظر کاروائی شریعی عدالت کی ہے جو فقہ اسلامی کی روشنی میں انصاف فراہم کرتی ہے ۔
قاضی: تمھارے والد نے رپورٹ لکھوائی ہے، کہ تمھارے ساتھ زنا کیا گیا ہے۔
زینب: جی، مجھے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
قاضی: کیا عمر ہے تمھاری؟
زینب: سات سال
قاضی: وکیل صاحب، آپ کو معلوم ہے بچے کا دعوی شریعت اسلامی میں معتبر نہیں۔ وہ عاقل و بالغ نہیں، کیا آپ اس کے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے ہیں.
(التشریع الجنائی 397:2)
وکیل: جی ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ یہ ہے۔ اس پر دو “عاقل ،بالغ، مرد ڈاکٹروں” نے سائن کر کے لکھا ہے کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
قاضی: کس شخص نے تمھارے ساتھ زنا کیا ہے؟
پولیس: جی ہم نے cctv کی مدد سے اس درندے کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور اس نے اقرار جرم بھی کر لیا ہے۔
قاضی: مجرم پیش ہو اور عدالت کے سامنے بتائے کیا وہ زنا کا اقرار کرتا ہے؟
مجرم: نہیں، میں اقرار نہیں کرتا.
پولیس افسر: کیمرے سے اس کے کپڑوں ، بالوں، قد سب کی شناخت ہوگئی ہے۔ دیکھیں ویڈیو. میں نظر آ رہا ہے یہی ہے جو ہاتھ پکڑ کر لے جا رہا ہے۔
قاضی: حدود کے کیس میں گواہی کا معیار متعین ہے، لگتا ہے وکیل صاحب آپ شریعت اسلامی اور فقہ اسلامی سے واقف نہیں ہیں۔
زنا کے معاملے میں ضروری ہے کہ عینی گواہوں کہ تعداد چار ہو۔ اور یاد رہے گواہ مسلمان ہونا چاہیے ۔کسی غیر مسلم اور مشرک کی گواہی معتبر نہیں۔
(المغنی176/10)
وکیل: آپ جو فرما رہے ہیں ایسا ہی ہو گا، لیکن جی یہ زنا رضامندی کے ساتھ نہیں ہوا، یہ تو زنا بالجبر ہے۔ یعنی زبردستی زنا کیا گیا ہے اور یہ بچی کے ساتھ کیا گیا ہے اس معصوم بچی کے ساتھ۔
قاضی: فقہ اسلامی کی روشنی میں زنا بالجبر، زنا کے علاوہ کوئی الگ جرم نہیں ہے۔ زنا زنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے جبرا ہو یا مشاورت سے۔ جو ان سے ہو یا عجوزہ سے۔ البتہ اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ زینب بی بی مالکی فقہ کی پیرو ہیں اور چار مسلمان عاقل بالغ مردوں نے اس شخص کو زبردستی زینب کو اپنا گھر میں لے جاتے دیکھا ہے تو “جنسی استمتاع کے عوض” مہر کی رقم کے جتنا معاوضہ مجرم سے دلوایا جا سکتا ہے، حد پھر بھی جاری نہیں ہو گی، کیونکہ مردوں کی گواہی زینب کو لے جانے کی ہے، زنا ہوتے ہوئے انھوں نے نہیں دیکھا۔
(المدونۃ 322/5)۔
وکیل: کیا آپ نے ٹی وی دیکھا ہے؟ اس معصوم پھول جیسی بچی سے ہمدردی میں پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا ہے، لوگ انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں، ہمیں آپ سے انصاف کی توقع ہے ۔
قاضی: اگر زینب حنفی ہے تو مجرم کے انکار کے بعد چار گواہوں نے اگر اسے اٹھا کر لے جاتے ہوئے بھی دیکھا ہو تو “جنسی استمتاع کے عوض” حق مہر جتنا معاوضہ ملنا نا ممکن ہے۔ اس صورت میں حد بھی جاری نہیں ہو سکتی
(سرخسی، المبسوط، 61/9)
حد جاری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ چار گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ انھوں نے مجرم کو زینب کے ساتھ زنا کرتے ہوئے پورے یقین سے دیکھا ہے اور وہ ہوش و حواس ، قطعیت اور پورے اذعان سے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ وکیل صاحب ان چار میں سے اگر دو یہ بھی کہہ دیں کہ زنا جبرا ہوا ہے، تو زینب سزا سے بچ جائے گئی اور مجرم پر حد نافذ ہوسکے گی۔
المغنی(185/10)
وکیل : زینب کو سزا سے کیا مطلب؟ زینب تو بے چاری وہ بچی ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جبرا زیادتی کی گئی ۔
قاضی: زینب اگر یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی تو وکیل صاحب اسے قذف کی سزا ہو سکتی ہے۔ ہم آپ کو رعایت دے کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ آپ اگر چار گواہ لے آئیں ۔اور ان میں سے دو بھی یہ کہہ دیں کہ زنا جبرا کیا گیا تھا تو زینب سزا سے بچ جائے گی۔ اور مجرم کو سزا مل جائے ۔ لیکن زینب کو قذف سزا سے بچانے کے لیے بھی دو لوگوں کو جبرا زنا کی گواہی دینا ہوگی۔
لہذا چار گواہ ہوں گے تو مجرم کو سزا ہو گی ورنہ شریعی حد نافذ نہیں کی جا سکتی ۔
(الاستذکار 146/7)
زینب کے والد : اگر ہم چار گواہ پیش ک ردیں تو پھر کیا عدالت اس مجرم کو سزا دے دے گی اور زینب کو انصاف مل جائے گا؟ اس مجرم کو عبرت ناک سزا مل سکے گی ۔
کیا سزا ہوگی اسلامی قانون و فقہ کے تحت قاضی صاحب ؟
قاضی: کیا مجرم شادی شدہ ہے؟
پولیس افسر: جی نہیں
قاضی: پھر سو کوڑے کی سزا دی جائے گی ۔
(سورہ نور، آیت 2)
پولیس: ہم نے چار گواہ تلاش کر لیے ہیں۔
قاضی : عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
فیصلہ :
“میڈیکل رپورٹ پر دو مرد مسلمان ڈاکٹرز کی تصدیق اور چار عاقل بالغ مسلمان مردوں کی عینی گواہی کے بعد فقہ اسلامی اور شریعت اسلامی کی روشنی میں زینب کے ساتھ زنا کے مجرم کو
“سو کوڑے ” مارنے کی سزا سنائی جاتی ہے، ان شرائط کے ساتھ کہ کوڑے اتنے سخت نہ ہوں کہ مجرم کو زخمی کر دیں یا جلد اکھڑ جائے بلکہ متوسط ہوں اور ان میں گراہ بھی نہ لگی ہوئی ہو۔ کوڑے مختلف اعضاء پر مارے جائیں گے کیونکہ ایک عضو پر مستقل مارنا باعث ہلاکت ہو سکتا ہے، کوڑوں کا مقصد محض زجر ہے، مجرم کی شرم گاہ اور چہرے پر بھی کوڑے نہیں ماریں جائیں گے
(ہدایہ کتاب الحدود فصل فی کیفیۃ الحدود و اقامۃ) ۔
مجرم کو ایک ہفتے میں سو کوڑے کی سزا پوری ہو جانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
زینب کی طبیعت بحال ہو گی، وہ اب تین ماہ بعد اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلی تو اس نے دیکھا، گلی کی کونے میں کھڑا ایک شخص اس کی طرف نظریں جما کر زیر لب مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
تحریر: محمد حسن الیاس،
(یہ شائد جاوید غامدی کے داماد ہیں)
جاری ہے