• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر کفار نئے سال کی مبارکباد دیں تو اس کا جواب دینا چاہیے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اگر کفار نئے سال کی مبارکباد دیں تو اس کا جواب دینا چاہیے؟

جس وقت کفار مجھے نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے کہہ دیں: "نیا سال مبارک ہو" یا یہ کہیں کہ: "نیک تمناؤں کے ساتھ" تو کیا میں کفار کو یہ کہہ سکتا ہوں کہ "آپ کیلیے بھی یہی تمنا"؟

Published Date: 2016-12-30

الحمد للہ:

کفار کو کرسمس یا نئے سال کے جشن یا کسی بھی ان کے دینی تہوار کی مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں کی مبارکباد دیں تو ان کا جواب دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ تہوار ہماری شریعت میں جائز نہیں ہیں اور ان کی مبارکبادی کا جواب دینے سے ان کے اس غیر شرعی عمل کا اعتراف اور اقرار لازم آتا ہے، اس لیے مسلمان کو اپنے دین پر فخر کرنا چاہیے، شرعی احکامات پر عمل کو اپنے لیے اعزاز سمجھے، اور دوسروں کو دینِ الہی کی تبلیغ کرے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کرسمس پر کفار کو مبارکباد دینے کے متعلق پوچھا گیا کہ اگر وہ ہمیں کرسمس کی مبارکباد دیں تو ہم اس کا جواب کیسے دیں؟ کیا ہم کرسمس کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی تقریبات میں شرکت کر سکتے ہیں؟ اور اگر مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز غیر ارادی طور پر کر لے تو کیا اسے گناہ بھی ہو گا؟ کیونکہ اس نے یہ کام مجاملت ، شرما شرمی یا مروت یا اسی طرح کے دیگر اسباب کی وجہ سے کیا ہے، تو کیا ایسی صورت میں ان کی مشابہت کرنا جائز ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"سب علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرسمس یا کفار کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " أحكام أهل الذمة " میں نقل کیا ہے، آپ کہتے ہیں:

"کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: "آپکو عید مبارک ہو" یا کہنا "اس عید پر آپ خوش رہیں" وغیرہ، اس طرح کی مبارکباد دینے والا اگرچہ کفر سے تو بچ جائے گا لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقیناً اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے" ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

اس بنا پر کفار کو انکے مذہبی تہواروں میں مبارکباد دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کر دی ہے، -حرام اس لئے ہے کہ- اس میں انکے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کیلئے اس عمل پر اظہار رضا مندی بھی ، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کیلئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اظہار رضا مندی کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

(إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ)

ترجمہ: اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ)وہ اپنے بندوں کیلئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اسکا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔ [الزمر:7]

اسی طرح فرمایا:

(اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا)

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کر دیں، اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔ [المائدة:3]

لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپ کا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور ۔

اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اسکا جواب نہیں دینگے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر انکے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری مخلوق کیلئے نازل ہونے والے اسلام نے انکی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے، اور اسی بارے میں فرمایا:

(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ)

ترجمہ: اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کریگا ؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔[آل عمران:85]

چنانچہ ایک مسلمان کیلئے اس قسم کی تقاریب پر انکی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ انکی تقریب میں شامل ہونا اُنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کیلئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب( اقتضاء الصراط المستقيم، مخالفة أصحاب الجحيم ) میں کہتے ہیں:

"کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت سے باطل پر ہون کے باوجود ان کے دلوں میں مسرت پیدا ہوتی ہے، اور بسا اوقات ہو سکتا ہے کہ اسکی وجہ سے ااس فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے" انتہی

مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیا وہ گناہ گار ہے، چاہے اس نے مجاملت کرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے ، یا حیا کرتے ہوئے یا کسی بھی سبب سے کیا ہو، اسکے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلا وجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ کفار کیلیے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔

اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے۔

مجموع فتاوى و رسائل شیخ ابن عثیمین(3/369 )

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/69811
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ہمارے ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کرسمس مبارک میں کونسی برائی ہے ؟

یہ تو صرف عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر مبارک باد ہے اس سے بین المذاہب رواداری کا ماحول فروغ پائے گا۔

ان کی یہ بات بالکل ہی غیر منطقی ہے۔

جو مسلمان نصاری کو کرسمس مبارک کہتے ہیں ان سے سیدھا سا سوال ہے:

❓کیا نصاری کےنزدیک عیسی علیہ السلام مسلمانوں کے نظریے کے مطابق پیدا ہوئے؟

جواب لازم آئے گا کہ نہیں کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام بغیر والد کے الله کے حکم سے مریم علیھا السلام کے ہاں پیدا ہوئے جبکہ کرسمس منانے والوں کا کفریہ عقیدہ ہے کہ نعوذبالله مریم علیھا السلام الله کی بیوی ہیں اور عیسی علیہ السلام ان کے بیٹے جوکہ صریح کفر ہے۔

اب جب کوئی کرسچن مسلمانوں کے عقیدے ہی کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر کرسمس مبارک کہنا کہاں سے عیسائیت اور اسلام کے درمیان رواداری کو فروغ دے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر عید میلاد عیسی علیہ السلام جائز ہوتا تو پھر نبی کریم ﷺ اس کا حکم کرتےکیونکہ مسلمان عیسی علیہ السلام سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں بلکہ قرآن میں ان کی والدہ یعنی مریم علیھا السلام کے نام سے سورت ہے اور آل عمران میں بھی ان کا ذکر ہے بلکہ مختلف مقامات پر ان کا ذکر خیر ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق الله تعالی کیلئے بیٹا بنانا الله کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ لہذا یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کرسمس کا مطلب عیسی علیہ السلام کی بطور ابن الله ولادت ہوئی نعوذ بالله من ھذا الکفر۔ اب مسلمان کو کرسمس مبارک کہہ کر گالی دینے والوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئے اگرچہ اس کی نیت صاف ہو۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ایک کرسچن کے نزدیک عیسی علیہ السلام تین خداؤں میں سے ایک ہے اور بین المذاہب رواداری کی دھچکیاں یہی اڑ گئی۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ایک کرسچن کے نزدیک عیسی علیہ السلام کو پھانسی دی جاچکی ہے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک وہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور قربت قیامت نزول کریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔

اب یہ کہا جائے گا کہ نصاری بھی تو مسلمانوں کو عیدین پر مبارک باد کہتے ہیں تو کرسمس مبارک کہنا کونسا برا ہے۔

یہ بات بھی سرے سے غلط ہے کیونکہ کیا مسلمان عیدین پر الله یا اس کے کسی نبی یا کسی دین کے خلاف کام کرتے ہیں ؟

بلکہ روزے اور قربانیاں تو دیگر مذاہب میں بھی پائی گئی ہیں لہذا مسلمان پھر سے سنت ابراھیمی وغیرہ پر عمل کرکے بین المذاہب رواداری کا بہترین نمونہ پیش کررہے ہیں۔

-—•-—•-—​

نوٹ: یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے لہذا جو بات غلط ہو اس کو رد کریں اور صحیح موقف اپنائیں!

سید اعجاز شاہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نئے سال کی مبارکبادی پر علماء کے فتاویٰ


مرتب : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

جن معاملات میں آج مسلمانوں کا ایک طبقہ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اللہ تعالی کے دشمنوں اور یہود و نصاری کے طرز پر چل پڑا ہے ان میں سے ایک عید بھی ہے ، صورت حال یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے غیر قوموں کی مشابہت میں نئی نئی عیدیں ایجاد کرلی ہیں حتی کہ بہت سے لوگوں نے کافروں کی بہت سی عیدوں کو اپنے شہروں اور ملکوں میں منتقل کرلیا ہے ، جب کہ ان کافروں کی عیدیں ایسی ہوتی ہیں جو شرک و کفر پر مبنی اور بعض تو فحاشی و بے حیائی کا کھلا پیغام دیتی ہیں کیونکہ ہر عید اپنے منانے والوں کی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتی ہے جیسے بسنت کا میلہ ، عید عاشقاں اور نیا سال وغیرہ اور بدقسمتی یہ کہ بہت سے نام نہاد مسلمان کافروں کی عیدوں کی آمد پر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ اپنی شرعی عیدوں کی آمد پر اس خوشی کا اظہار نہیں کرتے ۔

خصوصی طور " نیاسال " یا عید رأس السنہ منانے کے لئے تو کچھ مسلمان اپنا شہر یا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور اس موقعہ سے پیش کئے جانے والے حیا سوز اور بے غیرتی سے بھرے پروگراموں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور بعض تو اپنے ساتھ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے جاتے ہیں ، کیونکہ یہ عید اصل میں یہود اور نصرانیوں کی عید ہے جو یورپ سے ہمارے اندر آئی ہے اور معلوم ہے کہ رقص و ساز ان کے یہاں فن ہے ، فحاشی و عریانی ان کی تہذیب ہے زناکاری و شراب نوشی ان کا کلچر ہے لہذا ان کی عیدوں میں بھی یہ چیزیں بہت واضح طور پر موجود رہتی ہیں ، بلکہ ان کی عیدوں میں فحاشی و عریانیت کی بعض ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جو انسانیت و اخلاق سے کوسوں دور ہوتی ہیں خاص کر عید عاشقاں اور نئے سال میں لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان سے پرہیز کرے ذیل میں علمائے امت کے بعض فتاوے نقل کئے جارہے ہیں تاکہ اللہ تعالی کا خوف رکھنے والے لوگ نصیحت و ہدایت حاصل کریں اور اس کے باوجود جو ہلاک ہونا چاہتا ہے وہ دلیل کی بنا پر یعنی حق پہچان کر ہلاک ہو ۔

مقصود الحسن فیضی ۔۔۔

[۱] خلیفہ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ کا فتوی

حضرت عطاء بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
عجمیوں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاو کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے ۔

حضرت ابان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کے دشمنوں [ کافروں ] کے تہواروں کے دن ان سے دور رہو ۔

{ السنن الکبری للبیھقی :9/234 – اقتضاء الصراط المستقیم :1/455-457 }

[۲] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام میں کافروں کی مشابہت کریں جو ان کے تہواروں [خصوصی ایام ] کے ساتھ خاص ہو ، کھانے میں ، نہ لباس میں ، نہ چراغاں کرنے میں ، نہ کاروبار اور دوسرے دنیاوی امور ترک کرنے میں اور نہ خلاف معمول کوئی کام کرنے میں ۔ اسی طرح اس موقع پر دعوت کرنا جائز نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی تحفہ و تحائف [ اس مناسبت سے ] پیش کئے جائیں گے ۔ اسی طرح کوئی ایسی چیز نہ بیچی جائے گی جس سے ان کی عید و تہوار میں ان کی مدد ہوسکے اور نہ ہی بچوں کو ان کے تہوار کے موقع پر کوئی ایسا کھیل کھیلنے دیا جائے گا جو کافروں کے تہواروں کے موقع پر کھیلے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی زیب و زینت کا اظہار کیا جائے گا ، خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کافروں کے تہواروں کو کسی شعیرہ کے ساتھ خاص کریں ، بلکہ وہ دن بھی مسلمانوں کے لئے عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے ۔

[۳] امام ذہبی کا فتوی :

امام ذہبی رحمہ اللہ نے کافروں کے تہواروں سے متعلق ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اور بڑے ہی سخت انداز میں کافروں کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی قسم کی شرکت سے روکا ہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

" اے مسلمان! اللہ نے تیرے اوپر واجب کیا ہے کہ رات و دن میں سترہ بار اللہ سے دعا کر کہ تجھے صراط مستقیم پر گامزن رکھے جو اس کے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے ، اور جن پر اس کا غضب نازل ہوا اور جو لوگ گمراہ ہوئے ایسے لوگوں کے راستے سے بچائے ، تو تیرے دل کو کیسے اچھا لگتا ہے کہ جن کی یہ صفت ہو اور وہ جہنم کا ایندھن ہوں تو ان کی مشابہت کرے ، اگر تجھے کہا جائے کہ کسی بڑھئی یا ہجڑے کی مشابہت کرے تو تو اس کام سے بدکے گا ، جب کہ تو اقلف [یعنی نصاری ] ، عید کے موقع پر صلیب [ کراس نشان ] کی پوجا کرنے والے کی مشابہت کررہا ہے ، اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنا رہا ہے ، انہیں خوشیوں میں شریک کررہا ہے ، ان کے لئے انڈے رنگ رہا ہے ، خوشبو خرید رہا ہے اور اپنے دشمن کی عید کے موقع پر ایسی خوشیاں منا رہا ہے جیسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عید منایا کرتا ہے ۔

تو سوچ کہ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ عمل تجھے کہاں لے جائے گا ؟

اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف لے جائے گا ، کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس کام میں اہل کتاب کی مخالفت پر ابھارا ہے جو ان کے لئے خاص ہے حتی کہ بال کی سفیدی جو مومن کے لئے نور ہے جس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے

"من شاب شیبۃ فی الاسلام کانت لہ نورا یوم القیامۃ "

جس شخص کے بال اسلام میں سفید ہوئے تو یہ بال قیامت کے دن اس کے لئے نور کا سبب بنیں گے ،

لیکن اہل کتاب کی مخالفت کے لئے ہمارے نبی نے ان بالوں پر خضاب لگانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : یہود خضاب نہیں لگاتے لہذا تم ان کی مخالفت کرو ۔

آگے مزید لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر وہ مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو غیر قوموں کی عیدوں میں حاضر ی سے روکے اور اسے اس انجان اور جھگڑا لو آدمی جیسا نہیں ہوجانا چاہئے کہ جب اسے کسی کام سے روکا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ " ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے " اور بہت سے بد کردار اور گمراہ لوگوں کو شیطان نے یہاں تک بہکا دیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں اور بد کرداروں کے تہواروں کا میلہ دیکھنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں اور اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں ، جب کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ :

" من کثر سواد قوم حشر معھم "

جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے قیامت کے دن اسے انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا " ۔

اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {المائدة:51} "

اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا " ۔

علماء کا کہنا ہے کہ کفار کے ساتھ مشابہت اور ان کی عیدوں میں حاضری ان سے محبت میں داخل ہے ، جب کہ مسلمانوں کے ملک میں کافروں کو اپنی عیدوں کو کھلے عام منانے کی اجازت نہیں ، پھر اگر مسلمان ان کے تہواروں میں شریک ہورہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کی عیدوں کے اعلان میں ان کی مدد کررہا ہے ، ایسا کرنا دین اسلام میں بدعت کے ایجاد کے مترادف ہے اور بڑا ہی ناپسندیدہ کام ہے ، اور ایسا صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑا ہی بد دین اور ناقص الایمان ہوگا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں داخل ہوگا :

" من تشبہ بقوم فھو منھم "

" جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے " ۔

[۴] سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :

س : بعض مسلمان نصاری کی عیدوں میں شریک ہوتے ہیں اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟

جواب : کسی مسلمان مرد و عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہود ونصاری یا کسی اور کافر قوم کی عید میں شریک ہو بلکہ ان پر اس سے دور رہنا واجب ہے اس لئے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس کا شمار انہیں کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غیر قوموں کی مشابہت اور ان کے اخلاق و عادات اپنانے سے منع فرمایا ہے لہذا مسلمان مرد ہو یا عورت ان پر واجب ہے ایسے کاموں سے پرہیز کریں ، اور ان کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے کہ کسی بھی چیز سے اس بارے میں مدد کریں ، اس لئے کہ یہ شریعت کے مخالف عیدیں ہیں ، لہذا نہ ان میں شریک ہونا جائز ہے نہ ان عیدوں کو منانے والوں کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہوگا اور نہ ہی چائے ، قہوہ برتن وغیرہ کسی چیز سے ان کی مدد جائز ہوگی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :

[وَتَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ العِقَابِ] {المائدة:2}

" نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالی سخت سز دینے والا ہے "

اور کافروں کی عیدوں میں شرک ہونا گناہ و ظلم و زیادتی کے کام پر ایک قسم کی ان کی مدد ہے ۔

{ مجموع فتاوی شیخ ابن باز :6/508 }
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم یونس بھائی
السلام علیکم
@محمد عامر یونس
نیا سال تو مذہبی تہوار یا عید نہیں ہے ۔
عیسوی سال کی ابتدا میں مسلمان ایک دوسرے کو مبارکباد دے سکتے ہیں؟

سوال: نئے عیسوی سال کی ابتدا میں مسلمان ایک دوسرے کو مبارکباد اور دعائیں دے سکتے ہیں؟ اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے اسے کوئی تہوار سمجھ کر نہیں دیتے۔

Published Date: 2015-12-22

الحمد للہ:

مسلمانوں کیلئے عیسوی سال کی ابتدا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، اور اسی طرح اس دن تہوار کی شکل میں جشن منانا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہر دو صورت میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور ہمیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے) ابو داود: (4031)

اس حدیث کو البانی نے " صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور ویسے بھی ہر سال اسی دن کے آنے پر مبارکباد دینا ہی اسے "عید" [سال کے بعد آنے والا تہوار] بنا دیتا ہے ، اور یہ بھی شریعت میں منع ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/177460
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بعض سالانہ تہواروں میں شرکت کرنے کا حکم


سوال: سالانہ تقریبات اور تہواروں میں شرکت کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

مثلاً: عالمی دن برائے خاندان، عالمی دن برائے معذورین، عالمی دن برائے عمر رسیدہ افراد، اور ایسے ہی مذہبی سالانہ تقریبات مثلاً: شبِ معراج، عید میلاد النبی، عید ہجرتِ نبوی وغیرہ، ان تہواروں میں خصوصی پمفلٹ تیار کرنا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کیلئے اسلامی دروس اور سیمینار منعقد کرناکیساہے؟

Published Date: 2014-12-27

الحمد للہ:

شریعت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ تہواروں کے یہ دن جنہیں ہر سال منایا جاتا ہے، یہ بدعتی تہواروں میں سے ہیں، یہ وہ خود ساختہ احکامات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو نئے [دینی] امور سے بچاؤ، کیونکہ [دین میں]ہر نئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے) احمد، ابو داود، ترمذی وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے۔

اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہر قوم کا تہوار ہوتا ہے، اور یہ [عید کا]دن ہمارا تہوار ہے) متفق علیہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم" میں موسمی تہواروں اور شرعی دلائل سے عاری خود ساختہ دنوں کی مذمت کے بارے میں مفصل گفتگوفرمائی ہے۔

اُن کے مطابق اِن خود ساختہ تہواروں میں دینی بگاڑ کے متعلق ہر شخص واقف نہیں ہے ، بلکہ اکثر لوگ ان بدعتی تہواروں کی خرابیوں سے نابلد ہیں، خصوصا ایسے تہوار جو شرعی عبادات سے متعلق ہوں ان سے پہنچنے والے نقصانات کا صرف انتہائی حاذق و حاضر دماغ لوگ ہی ادراک کر پاتے ہیں۔

تاہم لوگوں کو شرعی احکامات کے منفی اور مثبت پہلو معلوم نہ بھی ہوں تو بھی سب لوگوں کیلئے کتا ب و سنت کی اتباع لازمی ہے۔

اور جو کوئی شخص کسی دن خود ساختہ روزہ ، یا نماز کا اہتمام کرے، یا کھانا بنائے،یا کسی دن کو خاص کر کے اچھے لباس زیب تن کرے، یا گھر والوں کیلئے خوب کھانے پینے کا اہتمام کرے یا اسی طرح کے کچھ امور سر انجام دے، تو لازمی طور پر ان تمام امور کے پیچھے اُس کا یہ قلبی اعتقاد ضرور ہو گا کہ یہ دن دیگر ایام سے افضل ہے، دوسری صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے رہبر [پیر صاحب]کے دل میں اِس دن کے افضل ہونے کا نظریہ نہ ہوتا تو اس دن یا رات کو دیگر ایام پر ترجیح دینے کی بات ہی دل میں نہ اٹھتی، کیونکہ بلا وجہ کسی کو کسی پر ترجیح ناممکن ہے۔

لفظ ِعید کا اطلاق جگہ، وقت، اور لوگوں کے اجتماع پر ہوتا ہے، اور یہ تین عناصر ہی ہیں جن سےبدعات پیدا کی گئی ہیں۔

وقت سے متعلقہ بدعات کی تین قسمیں ہیں، اور ان اقسام میں کچھ کا تعلق کسی نہ کسی طور پر عمل یا مکان سے بھی ہے:

1- وہ ایام جن کی شریعت نے عظمت بیان ہی نہیں کی، اور نہ ہی سلف کے ہاں اُن ایام کی تعظیم کا ذکر ملتا ہے، اور نہ ہی ان میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا جو اس دن کی تعظیم کا موجب ہو۔

2- وہ ایام جن میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا جو کسی اور دن بھی وقوع پذیر ہو سکتا تھا، لیکن یہ واقعہ اس دن کی تعظیم کا موجب نہیں بنا(شرعی طور پر)، اور نہ ہی سلف نے اس دن کی تعظیم کی۔

چنانچہ جو شخص درج بالا ایام کی تعظیم کرتاہے تو گویا وہ عیسائیوں کی مشابہت کرتا ہے جو عیسی علیہ السلام کے متعلق رونما ہونے والے واقعات کے دنوں کو خوشی اور تہوار کا دن بناتے ہیں،اور یہود کی مشابہت بھی لازم آتی ہےکیونکہ وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں جبکہ شریعتِ اسلامیہ کی رو سےتہوار وہ ہے جس دن کو اللہ تعالی نے شرعی تہوار قرار دیا ،اور اسے منایا بھی شرعی طور پرہی جائے گا، بصورتِ دیگر دین میں ایسی چیز کا اضافہ جائزنہیں جو دین کا حصہ نہیں ہے۔

مثال کے طور پر بعض لوگ عیسائیوں کے کرسمس ڈے کے مقابلے میں یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے نام پر بدعات مناتے ہیں۔۔ کیونکہ یہ تمام [میلاد النبی سے متعلقہ بدعتی امور] سلف نے نہیں کیے، حالانکہ اس وقت بھی اس کے اسباب موجود تھے، اور اگر یہ کام اچھا ہوتا تو اس سے کوئی مانع بھی نہیں تھا[لیکن پھر بھی انہوں نے میلاد نہیں منایا جو اس کے غلط ہونے کی دلیل ہے]۔۔۔

3- ایسے ایام جو شرعی طور پر عظمت والے ہیں، مثلاً: یومِ عاشوراء، یوم عرفہ، عیدین کے دن وغیرہ، (جن کو شرعی طور پر منانا چاہیے تھا)لیکن خواہش پرستوں نےان میں بھی اپنے نظریات کے مطابق بعض اشیاء کو افضل جانتے ہوئے گڑھ لیا ، حالانکہ یہ غلط ہے، اس سے منع کیا گیا ہے، مثلاً: شیعوں نے عاشوراء کے دن کو یوم سوگ اور جھوٹی پیاس بجھانے کا دن بنا دیا، اس کے علاوہ اور بھی کافی امور اس دن کے بارے میں انہوں نے ایجاد کئے، حالانکہ یہ سارے کے سارے امور ان معامالات میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ اور اسکے رسول نے اجازت نہیں دی یہاں تک کہ سلف صالحین، اور اہل بیت نے بھی اسکی اجازت نہیں دی۔

کچھ اجتماعات جو اِن کے علاوہ ہفتہ وار، ماہانہ یا سالانہ منعقد کروائے جاتے ہیں تو اِن سے پانچ نمازوں، جمعہ، عیدین، اور حج کے اجتماعات کو زَچ پہنچتی ہے اور یہ ایک نئی بدعت ہے۔

اس کے بدعت کے متعلق قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ شرعی عبادات وقت کے ساتھ ساتھ بار بار آتی ہیں، اور ایک تہوار اور مذہبی شعار بن جاتی ہیں، اللہ تعالی نے ان تہواروں کی اتنی تعداد شریعت میں رکھی ہے جو لوگوں کیلئے کافی ہے، چنانچہ اگر ان شرعی اجتماعات کے مقابلے میں مزید اجتماعات منعقد کئے جائیں، تو یہ اللہ کی شریعت کا مقابلہ تصور کیا جائےگا، اور یہ بات بہت گراں ہے، اسکے کچھ نقصانات پہلے بیان کیے جا چکے ہیں، لیکن [یہ تمام باتیں اس وقت لازم نہیں آتیں] جب کوئی آدمی اکیلا اس چیز کا اہتمام کرے، یا کبھی کبھا ر کچھ لوگ مل کر کریں" اقتباس تلخیص کیساتھ مکمل ہوا

مندرجہ بالا کی بنا پر [آپ کے سوال کا جواب یہ ہے]کہ کسی مسلمان کیلئے ان دنوں میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے جن کا مسلسل سالانہ انعقاد کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کی عیدوں کی طرح ہے، جیسے کہ پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ گزر چکا ہے، اور اگر یہ اجتماعات ہر سال منعقد نہ ہوں، بلکہ وقفے وقفے سے منعقد کیے جائیں، اور ایک مسلمان کو ان اجتماعات میں لوگوں کےسامنے حق بات بیان کرنے کے مواقع ہوں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔.

ماخوذ از: "مسائل و رسائل" از محمد الحمود النجدی، صفحہ: 31

https://islamqa.info/ur/5219
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم بھائی
معذرت کے ساتھ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ نیا سال کوئی مذہبی تہوار ہے۔ اس طرح تو پھر 14 اگست بھی منانا حرام ہوگا۔ کیونکہ باربار پلٹ کر آتا ہے تو مبارک باد دی جاتی ہے دعائیں کی جاتیں ہیں۔ اسی طرح مدارس کے قیام کے بھی جشن منائے جاتے ہیں وہ بھی ناجائز اور حرام ہوئے۔ اگر غلط ہے تو سب غلط ہے کیا اپنا کیا پرایا ۔
اگر
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم بھائی
معذرت کے ساتھ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ نیا سال کوئی مذہبی تہوار ہے۔ اس طرح تو پھر 14 اگست بھی منانا حرام ہوگا۔ کیونکہ باربار پلٹ کر آتا ہے تو مبارک باد دی جاتی ہے دعائیں کی جاتیں ہیں۔ اسی طرح مدارس کے قیام کے بھی جشن منائے جاتے ہیں وہ بھی ناجائز اور حرام ہوئے۔ اگر غلط ہے تو سب غلط ہے کیا اپنا کیا پرایا ۔
اگر
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی سے اس سلسلے میں رہنمائی لے لیتے ہے
 
Top