وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
یہ تحریر میری نہیں ہے - یہ یہاں سے لی گئی ہے -
لنک
http://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
میں نے صرف پوچھا ہے کہ اس پر اہلحدیث کا منہج کیا ہے
لنک
http://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
میں نے صرف پوچھا ہے کہ اس پر اہلحدیث کا منہج کیا ہے
البانی کے نزدیک صحیح البخاری کی ١٥ روایات ضعیف ہیں
پہلی حدیث ٦٤٧٨ ہے
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْني ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ»
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ یعنی ابن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
البانی نے صحیح بخاری کی دو روایات کو الضعیفہ میں بیان کیا ہے ایک کو ح ١٢٩٩ میں بیان کرتے ہیں
إن العبد ليتكلم بالكلمة لا يلقي لها بالا يرفعه الله بها درجات
( 3/463 )
ضعيف اخرجه البخاري
( 6478 فتح )
قلت : و هذا إسناد ضعيف ، و له علتان
الأولى : سوء حفظ عبد الرحمن هذا مع كونه قد احتج به البخاري
یہ اسناد ضعیف ہیں اور اس میں علتیں ہیں اس میں عبدالرحمان کا خراب حافظہ ہے باوجود یہ کہ امام بخاری نے اس سے دلیل لی ہے
اسی طرح دوسری ح ٤٨٣٥ میں لکھتے ہیں
إن هاتين الصلاتين حولنا عن وقتهما في هذا المكان (يعني : المزدلفة) : المغرب والعشاء ، فلا يقدم الناس جمعاً حتى يعتموا ، وصلاة الفجر هذه الساعة ) .
ضعيف أخرجه البخاري
صحیح بخاری کی یہ حدیث ح ١٦٨٣ ہے
حدثنا عبد الله بن رجاء: حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال: خرجت مع عبد الله رضي الله عنه إلى مكة، ثم قدمنا جمعاً، فصلى الصلاتين، كل صلاة وحدها بأذان وإقامة، والعشاء بينهما، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، قائل يقول: طلع الفجر، وقائل يقول: لم يطلع الفجر، ثم قال … (فذكره) . ثم وقف حتى أسفر، ثم قال: لو أن أمير المؤمنين أفاض الآن أصاب السنة، فما أدري أقوله كان أسرع، أم دفع عثمان رضي الله عنه؟! فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يوم النحر.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (حج شروع کیا) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی
البانی الضعیفہ میں کہتے ہیں
قلت: وهذا الحديث – مع كونه في “الصحيح” -؛ ففي ثبوته عندي شك كبير،
البانی کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ یہ حدیث صحیح میں ہے میرے پاس ثبوت ہے اور مجھے اس حدیث پر شک ہے
البانی اس پر بحث کرتے ہیں اور ان کے مطابق صحیح البخاری کی یہ روایات الضعیفہ کا حصہ ہیں
اس طرح کل ١٥ روایات جو صحیح بخاری کی ہیں البانی ان کوالبانی کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ یہ حدیث صحیح میں ہے میرے پاس ثبوت ہے اور مجھے اس حدیث پر شک ہے
البانی اس پر بحث کرتے ہیں اور ان کے مطابق صحیح البخاری کی یہ روایات الضعیفہ کا حصہ ہیں
میں ضعیف قرار دیتے ہیں گویا کہ ان صحیح بخاری کی ١٥ روایات کے (أثرها السيئ في الأمة) امت پر برے اثرات ہوئے
.الضعيفة حديث رقم ) …. ( 1030من استطاع منكم أن يطيل غرته
.الضعيفة حديث رقم )…( 1052لما نـزل عليـه الـوحي يريـد أن يلقـي بنفـسه
.الضعيفة حديث رقم)..(1299إن العبد ليتكلم بالكلمة
. الضعيفة حديث رقم)…(3364إذا أعتق الرجل أمته
. الضعيفة حديث رقم)..(4226كان له فرس الظرب
. الضعيفة حديث رقم) (4835إن هاتين الصلاتين
. الضعيفة حديث رقم) (4839قضى في ابن الملاعنة
. الضعيفة حديث رقم)(4992نعم وأبيك لتنبأن
الضعيفة حديث رقم) (5036لا يسبغ عبد الوضوء
– الضعيفة حديث رقم)(6763ثلاثة أنا خصمهم
– الضعيفة حديث رقم)(6945بينما أنا قائم خرج رجل همل النعم
– الضعيفة حديث رقم)(6947إذا وسد الأمر فانتظر الساعة
– الضعيفة حديث رقم)(6949إن كان عندك ماء بات في شنة
– الضعيفة حديث رقم)(6950أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه
– الضعيفة حديث رقم) ( 6959لا عقوبة فـوق عـشر ضـربات
بعض کے بقول صحیح بخاری اصح الکتاب بعد کتاب الله ہے اور اس پر اجماع امت ہے
یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟
البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥ پر کہتے ہیں کہ کوئی معترض کہے
إن الألباني قد طعن في ” صحيح البخاري ” وضعف حديثه، فقد تبين لكل ذي بصيرة.الضعيفة حديث رقم)..(1299إن العبد ليتكلم بالكلمة
. الضعيفة حديث رقم)…(3364إذا أعتق الرجل أمته
. الضعيفة حديث رقم)..(4226كان له فرس الظرب
. الضعيفة حديث رقم) (4835إن هاتين الصلاتين
. الضعيفة حديث رقم) (4839قضى في ابن الملاعنة
. الضعيفة حديث رقم)(4992نعم وأبيك لتنبأن
الضعيفة حديث رقم) (5036لا يسبغ عبد الوضوء
– الضعيفة حديث رقم)(6763ثلاثة أنا خصمهم
– الضعيفة حديث رقم)(6945بينما أنا قائم خرج رجل همل النعم
– الضعيفة حديث رقم)(6947إذا وسد الأمر فانتظر الساعة
– الضعيفة حديث رقم)(6949إن كان عندك ماء بات في شنة
– الضعيفة حديث رقم)(6950أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه
– الضعيفة حديث رقم) ( 6959لا عقوبة فـوق عـشر ضـربات
بعض کے بقول صحیح بخاری اصح الکتاب بعد کتاب الله ہے اور اس پر اجماع امت ہے
یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟
البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥ پر کہتے ہیں کہ کوئی معترض کہے
أنني لم أحكم عقلي أورأيي كما يفعل أهل الأهواء قديما وحديثا، وإنما تمسكت
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.
بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق
زبیر علی زئی رحم الله کا ایک مضمون کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے جو محدث شمارہ ٣١٩ میں ٢٠٠٨ میں چھپا اس میں لکھتے ہیں
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.
بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق
زبیر علی زئی رحم الله کا ایک مضمون کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے جو محدث شمارہ ٣١٩ میں ٢٠٠٨ میں چھپا اس میں لکھتے ہیں
۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہو،کیونکہ حافظ دارقطنی رحمة اللہ علیہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ یاائمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقید صحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاائمہ سلف ہی میں سے بہت سے ائمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے جس پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماعِ محدثین کی مخالفت کر رہا ہے، کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہٰذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنج کرنا ہے اور ایسا دعویٰ مردود ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
ایک طرف شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں احادیث ضعیف بھی ہیں دوسری طرف زبیر علی زئی رحم الله ہیں جو کہتے ہیں ایسا دعوی مردود ہے
ایک طرف شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں احادیث ضعیف بھی ہیں دوسری طرف زبیر علی زئی رحم الله ہیں جو کہتے ہیں ایسا دعوی مردود ہے
Last edited: