• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل الحدیث اور اہل الرائے : ایک تقابلی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اہل الرائے اور اہل الحدیث : ایک تقابلی مطالعہ

تاریخ کسی بھی قوم یا ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور اثاثہ ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کی تاریخ دین اسلام کا ایک قیمتی ورثہ ہے۔ ہر دور میں اہل علم نے تاریخ اسلام کے متنوع پہلوؤں کو نکھارا ہے اور متفر ق موضوعات پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ تاریخ کے ذیلی شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ 'فقہ اسلامی' کی تاریخ کا بھی ہے۔ متقدمین میں تو اس عنوان سے کوئی مستقل کتاب ہمیں نہیں ملتی ہے، اگرچہ متفرق کتب تاریخ و اسمائے رجال اور کتب فِرَق واحادیث وغیرہ میں کہیں کہیں یہ ابحاث موجود ہیں لیکن متاخرین میں سے کئی ایک اہل علم نے اس موضوع پر مستقل تصنیفات مرتب کی ہیں۔

شروع شروع میں عقیدہ اور فقہ کا علم ایک ہی تھا اور عقیدہ کے مضمون کو 'فقہ اکبر' جبکہ فقہ اسلامی کے مضمون کو 'فقہ اصغر' کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کی عقیدہ اہل سنت پر معروف کتاب کا نام بھی 'فقہ اکبر' ہی ہے۔ بعد ازاں عقیدہ ، علم فقہ سے علیحدہ ایک مستقل مضمون کی صورت میں مدون ہو گیا۔ ملت اسلامیہ میں کچھ گروہی تقسیم عقیدہ کی بنیاد پر ہوئی ہے جبکہ کچھ مسالک فقہ اسلامی کی بنیاد پر معروف ہوئے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
علم العقائد میں گروہی تقسیم
عقیدہ کی بنیاد پر جو تقسیم ہوئی ہے اس میں دو گروہ معروف ہیں:

اہل سنت
سلف صالحین صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور محدثین عظام اور ان کے متبعین کی جماعت مراد ہیں۔ اور یہ جماعت ایک ہی ہے جسے ہم سلفیہ یا اثریہ کے نام سے جانتے ہیں۔

اہل بدعت
جو سلف صالحین کے منہج پر نہیں ہیں۔ ان میں جہمیہ، معتزلہ، مجسمہ، مؤولہ، اشاعرہ، ماتریدیہ ، قدریہ،جبریہ ، خوارج، مرجئہ، روافض اور اہل تشیع وغیرہ شامل ہیں۔

عقیدہ میں اہل سنت والجماعت کی اصطلاح کے تین مفاہیم
اہل سنت والجماعت کی اصطلاح عقائد کے باب میں تین قسم کے پس منظر میں استعمال ہوئی ہے:

سلف صالحین
اس پس منظر میں اس سے مراد صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور فقہائے محدثین کی جماعت ہے۔ اس جماعت کو سلف صالحین کے نام کی نسبت سے سلفیہ اور آثار واحادیث سے تعلق کی بنیاد پر اثریہ بھی کہتے ہیں۔ ائمہ اربعہ وغیرہ میں عقیدہ کے باب میں اختلافات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہذا اہل الحدیث یعنی اہل حجاز اور اہل الرائے یعنی اہل کوفہ دونوں عقیدہ کے اعتبار سے سلفی ہیں جیسا کہ ہم اپنے ایک مضمون ' کیاتوحید اسماوصفات میں ائمہ اربعہ مفوضہ ہیں' میں بیان کر چکے ہیں جبکہ متاخرین حنفیہ کی اکثریت عقیدہ میں ماتریدی، معتزلی، اشعری یا صوفی ہیں۔

فرقہ ناجیہ کے طور پر
اس پس منظر میں اس سے مراد سلفیہ اور غیر متعصب مجتہد مخطی اشاعرہ، ماتریدیہ ہیں۔ شوافع اور مالکیہ کی اکثریت اشاعرہ ہے جبکہ حنفیہ کی اکثریت ماتریدیہ ہے جبکہ ائمہ اربعہ، متقدمین حنفیہ، حنابلہ اور فقہائے محدثین کی جماعت سلفیہ کہلاتی ہے جو سلف صالحین، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے عقیدہ پر ہے۔ سلفیہ عقائد کے باب میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کی تاویلات کو اجتہادی خطا شمار کرتے ہیں اور مجتہد مخطی بھی عند اللہ ماجور ہے بشرطیکہ وہ اپنے اجتہاد میں مخلص ہو جیسا کہ امام الحرمین امام جوینی، امام ابن حجر، امام نووی، امام غزالی، علامہ ابن جوزی، امام سیوطی، امام قرطبی، قاضی ابن عطیہ، امام دارقطنی، امام حاکم، خطیب بغدادی، امام ابن الصلاح، امام سخاوی، امام بیہقی، امام منذری، شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا سلطان محمد جلالپوری، مولانا حنیف ندوی رحمہم اللہ وغیرہ کی مثال ہے۔ لہٰذا اشاعرہ اور ماتریدیہ کے اجتہادات کے خطا ہونے کے باوجود انہیں فرقہ ناجیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

اہل تشیع کے بالمقابل
اس پس منظر میں اس سے مراد معتزلہ، مرجئہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور سلفیہ وغیرہ سب ہوتے ہیں۔

پس اہل سنت والجماعت سے مراد سے صحابہ، تابعین ،تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور محدثین عظام کی جماعت کا عقیدہ ہے جبکہ اہل بدعت میں جہمیہ، معتزلہ، مجسمہ، مؤولہ، قدریہ، جبریہ، اشاعرہ، ماتریدیہ، خوارج، مرجئہ، روافض اور اہل تشیع وغیرہ شامل ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
فقہ اسلامی میں گروہی تقسیم
عقائد کی طرح فقہ اسلامی کے باب میں میں بھی تین طرح کی تقسیم سامنے آئی:

1- اہل الحدیث
اہل الحدیث سے مراد امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام داؤد ظاہری، امام ابن حزم، امام بخاری اور دیگرمحدثین عظام رحمہم اللہ کی جماعت ہے اور برصغیر پاک وہند میں تقلیدی جمود کے خلاف اٹھنے والی اہل حدیث کی تحریک بھی اسی منہج کا تتمہ ہے۔ اہل الحدیث کی یہ جماعت مزید تین حصوں میں تقسیم ہو گئی:

اصحاب الحدیث
وہ اہل علم جن پر علم حدیث کا غلبہ تھا اور حدیث ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ حدیث کی حفاظت اور فروغ میں کھپایا۔ حدیث کے بالمقابل علم فقہ یا تدوین فقہ میں ان کی خدمات نسبتا کم ہیں۔ اس کی مثال امام احمد، امام مسلم، امام نسائی رحمہم اللہ وغیرہ کی جماعت ہے۔

فقہاے محدثین
ان سے مراد وہ اہل علم ہیں جو حدیث و فقہ دونوں میں امامت کے درجہ پر فائز ہوئے جیسا کہ امام مالک، امام شافعی، امام بخاری، امام ابن حجر اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ کی مثالیں ہیں۔

اہل الظاہر
اس سے مراد امام داؤد ظاہری، امام ابن حزم رحمہما اللہ اور ان کے متبعین ہیں جو قیاس کے منکر ہیں اور ظاہر نصوص سے استدلال کے قائل ہیں۔

2- اہل الرائے
اہل الرائے سے مراد وہ اہل علم ہیں جنہوں نے رائے اور قیاس کو اپنا میدان بنایا۔ یہ اہل علم حدیث میں کمزور تھے لہذا نہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد ظاہر قرآن، قیاس اور رائے پر رکھی۔ ان سے مراد اہل کوفہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد قاضی ابو یوسف ، امام محمد، امام زفر رحمہم اللہ وغیرہ ہیں اور معاصر حنفی انہی کا ایک تتمہ ہیں۔

اہل الرائے اور ان کے متبعین نے فقہ حنفی کی صورت میں اپنی علمی آراء کو مدون کیا جبکہ اہل الحدیث کا علمی ذخیرہ فقہ مالکی، فقہ شافعی، فقہ حنبلی، فقہ ظاہری اور فقہائے محدثین کی علمی آراء کی صورت میں مرتب ومدون ہوا اور تا حال اس میں فتاوی اہل حدیث یا فتاوی اصحاب الحدیث وغیرہ جیسے ناموں سے اضافہ ہو رہا ہے۔

3- اہل بدعت
اس سے مراد اباضی اور جعفری فقہ وغیرہ ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
علامہ ابن خلدون کی رائے
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ اس فقہی تقسیم کے بارے لکھتے ہیں:

'' وانقسم الفقہ فیھم الی طریقتین ؛ طریقة أھل الرأی والقیاس، وھم أھل العراق، وطریقة أھل الحدیث، وھم أھل الحجاز، وکان الحدیث قلیلا فی أھل العراق کما قدمناہ، فاستکثروا من القیاس ومھروا فیہ، فلذلک قیل أھل الرأی، ومقدم جماعتھم الذی استقر المذھب فیہ وفی أصحابہ أبو حنیفة، وامام أھل الحجاز مالک بن أنس والشافعی من بعدہ. ثم أنکر القیاس طائفة من العلماء وأبطلوا العمل بہ، وھم الظاھریة. وجعلوا مدارک الشرع کلھا منحصرة فی النصوص والجماع وردوا القیاس الجلی والعلة المنصوصة الی النص، لأن النص علی العلة نص علی الحکم فی جمیع محالھا. وکان امام ھذا المذھب داؤد بن علی وابنہ وأصحابھما. وکانت ھذہ المذاھب الثلاثة ھی مذاھب الجمھور المشتھرة بین الأمة. وشذ أھل البیت بمذاھب ابتدعوھا وفقہ انفردوا بہ، وبنوا علی مذھبھم فی تناول بعض الصحابة بالقدح، وعلی قولھم بعصمة الأئمة ورفع الخلاف عن أقوالھم، وھی کلھا أصول واھیة. وشذ بمثل ذلک الخوارج.'' (مقدمہ ابن خلدون،الفصل السابع، علم الفقہ وما یتبعہ من الفرائض)
''پس فقہ اسلامی ان میں دو مناہج میں منقسم ہو گئی۔ ایک اہل الرائے اور اہل قیاس کا طریق کاکہلایا اور یہ اہل عراق تھے اور دوسرا اہل الحدیث کا منہج قرار پایا اور یہ اہل حجاز تھے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اہل عراق میں حدیث کم تھی، پس انہوں نے بہت زیادہ قیاس سے کام لیا اور اس میں مہارت حاصل کی، اسی لیے وہ اہل الرائے کہلائے۔ اور ان کے بانی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس مذہب کی بنیاد رکھی۔ جبکہ اہل حجاز کے امام ، امام مالک اور ان کے بعد امام شافعی رحمہما اللہ ہیں۔ اس کے بعد کچھ ایسے اہل علم آئے کہ جنہوں نے قیاس کا رد کیا اور اس کی بنیاد پر فتوی جاری کرنے کو باطل قرار دیا اور یہ اہل الظاہر کہلائے۔ انہوں نے کل شریعت کو نصوص کتاب وسنت اور اجماع میں منحصر قرار دیا اور قیاس جلی اور منصوص علل کا بھی رد کیا کیونکہ ان کے نزدیک کسی نص میں علت کو مان لینے کا مطلب ہر قسم کے محل میں علت کو حکم شرعی پر نص قرار دینے کے مترادف ہے۔ اس مذہب کے امام، امام داؤد بن علی، ان کے بیٹے اور ان کے ساتھی ہیں۔امت اسلامیہ میں جمہور کے یہی تین معروف مذاہب ہیں (یعنی اہل الحدیث مالکی و شافعی اور اہل الرائے یعنی حنفی اور اہل الظاہر یعنی ظاہریہ)۔ اس کے بالمقابل اہل بیت والوں نے شاذ مذاہب کی بنیاد رکھی اور اپنی رائے میں تفرد اختیار کیا۔ اور انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد میں یہ بات شامل رکھی کہ صحابہ کی ایک جماعت سے رائے لیناان کے نزدیک قابل عیب ہے اور انہوں نے اپنے ائمہ کو معصوم قرار دیااور اپنے ائمہ کے اقوال کو رفع اختلاف کا اصول قرار دیا اور یہ سب کے سب اصول بے کار ہیں۔ اسی طرح خوارج نے شاذ مذہب کی بنیاد رکھی۔''

علامہ ابوبکر شہرستانی کی رائے
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے قیاس وغیرہ کی مخالفت کی وجہ سے اہل الظاہر کو اہل الحدیث میں شامل نہیں کیا ہے بلکہ ایک مستقل تیسرا مکتبہ فکر شمار کیا ہے جبکہ ابو بکر شہرستانی رحمہ اللہ نے اہل الظاہر کو بھی اہل الحدیث کا ہی ایک ذیلی مکتبہ فکر شمار کیا ہے۔ ابو بکر شہرستانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

'' ثم المجتھدون من أئمة الأمة محصورون فی صنفین لایعدوان الی ثالث ؛ أصحاب الحدیث وأصحاب الرأی. أصحاب الحدیث ؛ وھم أھل الحجاز ھم أصحاب مالک بن أنس وأصحاب محمد بن دریس الشافعی وأصحاب سفیان الثوری وأصحاب أحمد بن حنبل وأصحاب داؤد بن علی بن محمد الأصفھانی وانما سموا أصحاب الحدیث لأن عنیاتھم بتحصیل الأحادیث ونقل الأخبار وبناء الأحکام علی النصوص ولایرجعون الی القیاس الجلی والخفی ما وجدوا خبرا أو أثرا...أصحاب الرأی ؛ وھم أھل العراق ھم أصحاب أبی حنیفة النعمان بن ثابت، ومن أصحابہ ؛ محمد الحسن وأبو یوسف یعقوب بن براھیم بن محمد القاضی وزفر بن الھذیل والحسن بن زیاد اللؤلؤی وابن سماعة وعافیة القاضی وأبو مطیع البلخی وبشر المریسی وانما سموا أصحاب الرأی لأن أکثر عنایتھم بتحصیل وجہ القیاس والمعنی المستنبط من الأحکام وبناء الحوادث علیھا وربما یقدمون القیاس الجلی علی آحاد الأخبار.'' (الملل والنحل : جلد 1، ص 206)
'' امت مسلمہ کے مجتہدین دو قسم پر ہیں اوران کے علاوہ کوئی تیسری قسم نہیں ہے اور یہ اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے ہیں۔ اصحاب الحدیث سے مراد اہل حجاز ہیں جن میں امام مالک بن انس، امام محمد بن ادریس شافعی، سفیان ثوری اور ان کے اصحاب، امام احمد بن حنبل، امام داؤد بن علی اصفہانی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں اصحاب الحدیث کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ حدیث کو حاصل کرنے اور اسے نقل کرنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص پر فتاوی کی بنیاد رکھتے ہیں اور اگر کوئی روایت یا اثر موجود ہو تو اس کی موجودگی میں کسی قیاس جلی یا خفی کے قائل نہیں ہیں...دوسری قسم اصحاب الرائے کی ہے اور یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب امام محمد ، قاضی ابو یوسف، امام زفر، حسن بن زیاد ، ابن سماعہ، عافیہ القاضی، ابو مطیع بلخی اور بشر المریسی رحمہم اللہ وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی توجہ قیاس اور احکام شرعیہ سے مستنبط معنی ومفہوم اور اس کا جدید حوادث پر اطلاق وغیرہ میں صرف کی ہے اور اس وجہ سے بھی ان کو اہل الرائے کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ حضرات قیاس جلی کو اخبار آحاد پر ترجیح بھی دے جاتے ہیں۔''

ڈاکٹر ناصر بن عقیل طریفی نے بھی اہل الظاہر کو اہل الحدیث میں ہی شمار کیا ہے۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی، الدکتور ناصر بن عقیل بن جاسر الطریفی، ص ٧٩، مکتبة التوبة، الریاض،١٩٩٧ء)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
غیر مروجہ فقہی مکاتب فکر
اہل الرائے کے مستقل مکتبہ کے بانی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ(٨٠۔١٥٠ھ) ہیں اور ان سے پھر فقہ حنفی کا سلسلہ جاری و ساری ہو۔ جبکہ اہل الحدیث کے مکتبہ فکر کے بانی امام مالک رحمہ اللہ (٩٦۔١٧٩ھ) ہیں اور ان کے بعدامام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد امام شافعی (١٥٠۔٢٠٤ھ) اور ان کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ(١٦٤۔٢٤١ھ) نے اس مکتبہ فکر کی متنوع جہات کی بنیاد رکھی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بعدان کے شاگرد امام ابو داؤد ( ٢٠٢۔٢٧٥ھ)اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے شاگرد امام ترمذی رحمہ اللہ(٢٠٩۔٢٧٩ھ) نے محدثین عظام کے طور پر محدثین کی آراء کو متعارف کروایا۔

دوسری طرف امیر المومنین فی الحدیث علی بن مدینی رحمہ اللہ (١٦١۔ ٢٣٤ھ) کے شاگرد امام بخاری رحمہ اللہ(١٩٤ھ۔٢٥٦ھ)نے بھی محدثین عظام کے فقہی ذخیرہ میں بیش قیمت آراء کا اضافہ کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد داؤد بن علی ظاہری (٢٠١۔٢٧٠ھ) نے فقہ ظاہری کی بنیاد رکھی جسے امام ابن حزم رحمہ اللہ(٣٨٤۔٤٥٦ھ) نے ایک مستقل فقہی مکتب فکر کی صورت دی۔ اگرچہ اہل الظاہر اور اہل الحدیث میں منہج کا بنیادی فرق تو موجودہے لیکن اہل الرائے کے بالمقابل ان کا شمار اہل الحدیث ہی سے نکلی ہوئی ایک ذیلی قسم کے طور پر ہوتا ہے۔

یہ واضح رہے کہ اہل سنت والجماعت کی فقہوں میں تقریباً ١٣ کے قریب فقہوں کا تذکرہ ہمیں متقدمین سلف صالحین کی کتب میں ملتا ہے جن میں سے اہل الرائے کی فقہ یعنی فقہ حنفی اور اہل الحدیث کی فقہیں مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری اور محدثین عظام کی فقہ تاحال باقی ہیں اور ان کے متبعین کثیر تعداد میں دنیا میں موجود ہیں۔ استاذ علی السایس لکھتے ہیں :

'' والذی یعنینا بوجہ خاص أن نقول : ان ھذا العصر نجب فیہ ثلاثة عشر مجتھدا دونت مذاھبھم واعترف لھم جمھور الاسلامی بالمامة والزعامة الفقھیة وأصبحوا ھم القدوة والقادة فسفیان بن عیینة بمکة ومالک بن أنس بالمدینة والحسن البصری بالبصرة وأبو حنیفة وسفیان الثوری بالکوفة والأوزاعی بالشام والشافعی واللیث بن سعد بمصر واسحاق بن راھویہ بنیسابور وأبو ثور وأحمد وداؤد الظاھری وابن جریر ببغداد ومن ھذہ المذاھب ما عمر الی یومنا ھذا ومنھا ماقضی علیہ بالفناء...وأھم مراکز التشریع فی ھذا العصر: بغداد والکوفة والبصرة والمدینة ومکة ومصر ودمشق ومرو ونیسابور والقیروان وقرطبة.''(تاریخ الفقہ الاسلامی : ص٨١۔٨٢)
'' جس بات کا ہم بطور خاص ذکر کرناچاہتے ہیں' وہ یہ ہے کہ اس دور میں تقریباً 13 مجتہدین مطلق موجود تھے جنہوں نے اپنے مذاہب کو مدون کیا اور جمہور امت مسلمہ نے علم فقہ میں ان کی امامت و پیشوائی کا اعتراف کیاہے اور یہ علماء امت کے لیے ایک ماڈل اور پیشوابن گئے تھے۔ ان فقہاء میں سے سفیان بن عیینہ مکہ میں' مالک بن انس مدینہ میں' حسن بصری بصرہ میں' ابوحنیفہ اورسفیان ثوری کوفہ میں' اوزاعی شام میں' شافعی اور لیث بن سعد مصر میں' اسحاق بن راہویہ نیشاپور میں' أبو ثور' أحمد ' داؤد ظاہری اور ابن جریر رحمہم اللہ بغداد میں تھے۔ ان فقہی مذاہب میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آج تک چلے آ رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو وقت کے ساتھ ناپید ہو چکے ہیں...اس عرصے میں اسلامی فقہ کے اہم مراکز بغداد' کوفہ' بصرہ' مدینہ' مکہ' مصر' دمشق' مرو' نیشاپور' قیروان اور قرطبہ تھے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تاریخ
فقہ اسلامی کے باب میں اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ مختلف صحابہ کے مزاج تھے جو بعد ازاں مستقبل میں اس تقسیم کی بنیاد بنے ہیں۔ خلافت راشدہ ہی کے دوران بعض فقہائے صحابہ بڑے بڑے اسلامی شہروں میں پھیل گئے اور انہوں نے وہاں علمی مجالس اورتعلیمی حلقے قائم کیے۔ ان صحابہ سے استفادہ کرنے والے تابعین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور انہی تابعین نے ان صحابہ کی وفات کے بعد ان شہروں میں افتا و تدریس کی مسند کو سنبھالا۔ ذیل میں ہم اس دور کے معروف اسلامی شہروں کے مفتی و فقہائے صحابہ و تابعین کا ایک اجمالی تعارف نقل کر رہے ہیں:

فقہائے مدینہ
مدینہ میں جو فقہا صحابہ افتا و اجتہاد کے میدان میں معروف تھے' ان میں حضرت عائشہ' حضرت عبد اللہ بن عمر' حضرت زید بن ثابت اور حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ ان صحابہ کے علمی حلقوں سے پیاس بجھانے والے تابعین کی جماعت بہت بڑی ہے۔ ڈاکٹر تاج عبد الرحمن عروسی لکھتے ہیں :

وقد تخرج علی أیدی ھؤلاء عدد من التابعین وعلی رأسھم سعید بن المسیب المخزومی رحمہ اﷲ أحد الفقھاء السبعة الذین نشروا الفقہ والفتوی والعلم والحدیث وکان من أعبرالناس للرؤیا وأعلمھم بأنساب وکان یفتی والصحابة متوافرون توفی رحمہ اﷲ سنة ٩٣ھ .وعروة بن زبیر رحمہ اﷲ وأبوبکر بن عبد الرحمن المخزومی رحمہ اﷲ وخارجہ بن زید بن ثابت والقاسم بن محمد بن أبی بکر وسلیمان بن یسار وعبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبة بن مسعود وعلی بن الحسین بن علی المعروف بزین العابدین وسالم بن عبد اﷲ بن عمر ونافع مولی ابن عمر وأبان بن عثمان وأبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف وجاء ت بعد ھذہ الطبقة طبقة أخری منھا : أبو بکر محمد بن عمرو بن حزم وعبد اﷲ بن عثمان بن عفان وابنا محمد بن الحنفیة ومحمد بن مسلم بن شھاب الزھری وجعفر بن محمد بن علی بن الحسین المعروف بالباقر وربیعة المعروف بربیعة الرأی وانتھت ریاسة ھذہ المدرسة الی المام مالک رحمہ اﷲ.''(الفقہ الاسلامی فی میزان التاریخ : ص١١٣۔ ١١٤)
''ان صحابہ سے تابعین کی ایک بڑی تعداد نے علم حاصل کیا' جن میں سعید بن مسیبب سب سے زیادہ نمایاں ہیں اور اُن فقہائے سبعہ میں سے ہیں' جنہوں نے فقہ' فتوی' علم اور حدیث کے میدان میں اہم خدمات سر انجام دیں۔ یہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوابوں کی تعبیر اور انساب کا علم رکھنے والے تھے۔ انہوں نے صحابہ کے زمانے میں ہی فتوی دینا شروع کر دیا تھا۔ ان کی وفات ٩٣ھ میں ہوئی۔ اسی طرح عروہ بن زبیر' أبوبکربن عبد الرحمن مخزومی' خارجہ بن زید بن ثابت' قاسم بن محمدبن أبی بکر' سلیمان بن یسار' عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود' علی بن حسین بن علی زین العابدین' سالم بن عبد اللہ بن عمر' نافع مولی ابن عمر' ابان بن عثمان اور أبو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہم اللہ بھی ان معروف تابعین میں سے ہیں جنہیں مذکورہ بالا صحابہ سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ اس طبقہ فقہاء کے بعد ایک اور طبقہ آیا' جن میں سے أبوبکر محمد بن عمروبن حزم' عبد اللہ بن عثمان بن عفان' محمد بن حنفیہ کے دونوں بیٹے' محمد بن مسلم بن شہاب زہری' جعفر بن محمد بن علی بن حسین الباقر اور ربیعہ رائی رحمہم اللہ نمایاں ہیں۔ اس شہر کے علماء و فقہاء کی قیادت بالآخر امام مالک رحمہ اللہ کو منتقل ہوگئی۔ ''

فقہائے کوفہ
حرمین سے نکلنے والے صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے کوفہ میں بھی سکونت اختیارکی۔ ان ہجرت کرنے والوں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود' حضرت أبو موسی أشعری' حضرت سعد بن أبی وقاص' حضرت عمار بن یاسر' حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہم وغیرہ نمایاں صحابہ ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں جب مختلف صحابہ کو متفرق اسلامی شہروں کی طرف بھیجا تواس ہجرت کے مرحلے میں بہت سے صحابہ کوفہ بھی منتقل ہوئے۔ مؤرخین کے ایک قول کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سانحہ شہادت تک تقریباً تین صد صحابہ کوفہ منتقل ہو چکے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا۔ جس وجہ سے یہ شہرصحابہ کی پہلے کی نسبت اور زیادہ توجہ کا مرکز بنا۔ علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن مسعودکو حضرت عمر رضی اللہ عنہمانے اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے لیے ایک معلم خصوصی کے طور پر بھیجا تھا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مکتبہ فکر سے مستفید ہونے والے فقہاء و علماء کے بارے ڈاکٹر تاج عبد الرحمن عروسی لکھتے ہیں :

''من أشھرھم: علقمة بن قیس النخعی والأسود بن یزید النخعی وأبو میسرة عمرو بن شراحیل الھمدانی ومسروق بن الأجدع الھمدانی وشریح بن الحارث الکنندی ثم جاء ت الطبقة الثانیة بعد ھؤلاء أمثال حماد بن أبی سلیمان ومنصور بن المعتمر السلمی والمغیرة بن مقسم الضبی وسلیمان بن مھران الأعمش وسعید بن جبیر وانتھت ریاسة ھذہ المدرسة الی ابن أبی لیلی وابن شبرمة وشریک القاضی وأبی حنیفة رحمھم اللہ جمیعاً.'' (الفقہ الاسلامی فی میزان التاریخ : ص١١٤)
''اس مکتبہ فکر کے معروف فقہا میں علقمہ بن قیس نخعی' أسود بن یزید نخعی' أبو میسرة عمرو بن شراحیل ہمدانی' مسروق بن أجدع ہمدانی اورشریح بن حارث کندی شامل ہیں۔ ان فقہاء کے بعد دوسرا طبقہ آیا' جن میں حماد بن أبی سلیمان' منصور بن معتمرسلمی' مغیرہ بن مقسم الضبی اور سلیمان بن مہران الأعمش اورسعید بن جبیر نمایاں ہیں' یہاں تک کہ اس مدرسہ فکر کی انتہاء ابن ابی لیلی' ابن شبرمہ' شریک القاضی اور ابوحنیفہ پر ہوئی۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اہل الرائے اور اہل الحدیث کی ابتدا
استاذ محمد علی السایس نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کی بنیاد ابراہیم نخعی اور سعید بن مسیب رحمہما اللہ کو بنایا ہے۔ استاذ محمد علی السایس اہل الحدیث کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :

'' کان من علماء ھذا العصر الوقافون عند النصوص والآثار لا یحیدون عنھا ولا یلجأون الی الرأی الا عند الضرورة القصوی وھم أھل الحجاز وعلی رأسھم سعید بن المسیب اذ رآی ھو وأصحابہ أن أھل الحرمین الشریفین أثبت الناس فی الحدیث والفقہ فأکب علی ما بأیدیھم من الآثار یحفظہ فجمع فتاوی أبی بکر وعمر وعثمان وأحکامھم وفتاوی علی قبل الخلافة وعائشة وابن عباس وابن عمر وزید بن ثابت وأبی ھریرة وقضایا قضاہ المدینة وحفظ من ذلک شیئاً کثیرا ورأی أنہ بعد ھذا فی غنیة عن استعمال الرأی.''(تاریخ الفقہ الاسلامی :ص٧٣)
''اس دور کے علماء میں ایک طبقہ ان فقہاء کا تھا جو نصوص و آثار پر ممکن حد تک وقف کرتے تھے اور ان سے کسی صورت انحراف نہ کرتے تھے اور رائے و قیاس کی طرف انتہائی ضرورت کے وقت ہی متوجہ ہوتے تھے۔ یہ طبقہ اہل حجاز کے علماء کاتھا۔ ان کے سربراہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ تھے۔ سعید بن مسیب اور ان کے اصحاب کا کہنا یہ تھا کہ اہل حرمین حدیث اور فقہ دونوں کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ پس اہل حرمین کے پاس جوآثار تھے' وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے ان کو یاد کیا۔ پس انہوں نے حضرت أبوبکر' حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاوی اور ان کے احکام کو جمع کیا۔ انہوں نے حضرت عائشہ' حضرت عبد اللہ بن عباس' حضرت عبد اللہ بن عمر' حضرت زید بن ثابت' حضرت أبوہریرة اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے خلافت سے پہلے کے فتاوی کو بھی جمع کیا۔ انہوں نے مدینہ کے قاضیوں کے فیصلے جمع بھی کیے اور ان میں سے اکثر کو یاد بھی کیا۔ اور ان کی رائے یہ تھی کہ اس سب کچھ کے بعد وہ رائے کے استعمال سے مستغنی تھے۔ ''
جبکہ دوسری طرف اہل الرائے کے بارے میں لکھتے ہیں:

''وکانت طائفة أخری...وأولئک أھل العراق وعلی رأسھم براہیم النخعی کان ھذا الفریق من الفقہاء یری أن أحکام الشرع معقولة المعنی مشتملة علی مصالح راجعة الی العباد وأنھا بنیت علی أصول محکمة وعلل ضابطة لتلک الحکم فکانوا یبحثون عن تلک العلل والحکم التی شرعت الأحکام لأجلھا ویجعلون الحکم دائرا معھا وجودا وعدماً وربما رددوا بعض الأحادیث لمخالفتھا لھذہ العلل ولا سیما اذا وجدوا لھا معارضاً أما الفریق الأول فکان یبحث عن النصوص أکثر من بحثہ عن العلل لا فیما لم یجد فیہ أثرا.''(تاریخ الفقہ الاسلامی : ص٧٤)
''دوسری طرف ایک اور گروہ تھا...اور یہ اہل عراق تھے' جن کے رہنما ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تھے۔ فقہاء کے اس گروہ کی رائے یہ تھی کہ شرعی احکام معقول المعنی اور ایسی مصالح پر مشتمل ہوتے ہیں جو بندوں کی طرف لوٹتی ہیں اور ان احکام کی بنیاد محکم اصولوں اورمنضبط علل پر رکھی گئی ہے۔ پس یہ علماء ان علل کو تلاش کرتے تھے اور ان حکمتوں کا کھوج لگاتے تھے جن کے لیے یہ احکامات دیے گئے ہیں۔ یہ علماء ان علل و حِکَم کے ساتھ حکم شرعی کے وجود و عدم وجود کو مربوط کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ علماء ان احادیث کا بھی ردکر دیتے تھے جو ان علل کے خلاف ہوتی تھیں' خاص طور پر جبکہ وہ احادیث ان علل و حِکَم کے مخالف بھی ہوں۔ جبکہ اہل الحدیث علل کی تلاش کی بجائے نصوص (احادیث و آثار) کو تلاش کرتے تھے الا یہ کہ کسی مسئلے میں بالکل ہی کوئی نص موجود نہ ہو۔''
امام مالک رحمہ اللہ سے مروی ایک اثر سے بھی اس رائے کی تائید ہوتی ہے۔ ربیعہ بن أبی عبد الرحمن فروخ(متوفی ١٣٦ھ) فقہائے اہل مدینہ میں سے تھے۔ انہوں نے اہل عراق سے بھی فقہ کی تعلیم حاصل کی اور ان کے مزاج میں روایت کی نسبت' رائے کا پہلو غالب تھا۔اسی وجہ سے اہل زمانہ میں ربیعہ رائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا ایک واقعہ بعض مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے' جس سے اس زمانے میں اہل الحدیث اور اہل الرائے کے منہجی اختلاف کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :

'' وحدثنی یحی عن مالک عن ربیعة بن أبی عبد الرحمن أنہ قال سألت سعید بن المسیب کم فی اصبع المرأة فقال عشر من الابل فقلت کم فی اصبعین قال عشرون من الابل فقلت کم فی ثلاث فقال ثلاثون من الابل فقلت کم فی أربع قال عشرون من الابل فقلت حین عظم جرحھا واشتدت مصیبتھا نقص عقلھا فقال سعید أعراقی أنت فقلت بل عالم متثبت أو جاھل متعلم فقال سعید ھی السنة یا ابن أخی.'' (مؤطا امام مالک' کتاب العقول' باب ما جاء فی عقل الأصابع۔ ٢ ٨٦٠)
''ہمیں یحی نے مالک سے' انہوں نے ربیعہ بن أبی عبد الرحمن سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سعید بن مسیب ے سوال کیا کہ عورت کی ایک انگلی میں کتنی دیت ہے توانہوں نے کہا: دس اونٹ' میں نے پھر سوال کیا : دو انگلیوں میں کتنی دیت ہو گی تو انہوں نے کہا : بیس اونٹ' میں نے پھر سوال کیا : تین انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا : تیس اونٹ' میں نے پھر سوال کیا : چار انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا : بیس اونٹ' میں نے کہا : جب عورت کازخم بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ ہوگئی تو اس کی دیت کم ہو گئی۔ اس پر سعید بن مسیب نے کہا : کیا توعراقی ہے؟ تو میں نے کہا : میں یا تو ایک ایسا عالم ہوں جو تحقیق کرنا چاہتاہے یا ایک ایسا جاہل ہوں جو علم کا طلب گار ہے۔ اس پر سعید بن مسیب نے کہا : یہ سنت ہے میرے بھتیجے !۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اہل الرائے اور اہل الحدیث کے مناہج میں فرق
اہل الرائے اور اہل الحدیث میں فکر ونظر اور منہج استدلال کے کئی ایک بنیادی و جوہری فرق موجود ہیں جن کا ہم ذیل میں تذکرہ کر رہے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پہلا فرق
اہل الحدیث اور اہل الرائے میں ایک بنیادی فرق اجتہاد کرنے کے وقت کے بارے ہے کہ اجتہاد کب ہو گا۔ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد و قیاس ضرورت اور اضطرار کی حالت میں ہو گا جبکہ اہل الرائے کے نزدیک اجتہاد و قیاس ہر حال میں ہو گا اور یہ ایک مستقل شی ہے، البتہ وہ اتنا فرق کر لیتے ہیں کہ ضرورت کے وقت اجتہاد و قیاس فرض ہے اور اگرضرورت نہ ہو تو مستحب ہے۔ اسی طرح اہل الحدیث کے نزدیک قیاس خبر واحد اور حدیث صحیح کی عدم موجودگی میں ہو گا جبکہ اہل الرائے کے نزدیک اخبار آحاد اور احادیث صحیحہ کی موجودگی میں بھی قیاس ہو سکتا ہے۔ ابو بکر شہرستانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' ثم المجتھدون من أئمة الأمة محصورون فی صنفین لایعدوان الی ثالث ؛ أصحاب الحدیث وأصحاب الرأی. أصحاب الحدیث ؛ وھم أھل الحجاز ھم أصحاب مالک بن أنس وأصحاب محمد بن دریس الشافعی وأصحاب سفیان الثوری وأصحاب أحمد بن حنبل وأصحاب داؤد بن علی بن محمد الأصفھانی وانما سموا أصحاب الحدیث لأن عنیاتھم بتحصیل الأحادیث ونقل الأخبار وبناء الأحکام علی النصوص ولایرجعون الی القیاس الجلی والخفی ما وجدوا خبرا أو أثرا...أصحاب الرأی ؛ وھم أھل العراق ھم أصحاب أبی حنیفة النعمان بن ثابت، ومن أصحابہ ؛ محمد الحسن وأبو یوسف یعقوب بن براھیم بن محمد القاضی وزفر بن الھذیل والحسن بن زیاد اللؤلؤی وابن سماعة وعافیة القاضی وأبو مطیع البلخی وبشر المریسی وانما سموا أصحاب الرأی لأن أکثر عنایتھم بتحصیل وجہ القیاس والمعنی المستنبط من الأحکام وبناء الحوادث علیھا وربما یقدمون القیاس الجلی علی آحاد الأخبار.'' (الملل والنحل : جلد 1، ص 206)
'' امت مسلمہ کے مجتہدین دو قسم پر ہیں اوران کے علاوہ کوئی تیسری قسم نہیں ہے اور یہ اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے ہیں۔ اصحاب الحدیث سے مراد اہل حجاز ہیں جن میں امام مالک بن انس، امام محمد بن ادریس شافعی، سفیان ثوری اور ان کے اصحاب، امام احمد بن حنبل، امام داؤد بن علی اصفہانی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں اصحاب الحدیث کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ حدیث کو حاصل کرنے اور اسے نقل کرنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص پر فتاوی کی بنیاد رکھتے ہیں اور اگر کوئی روایت یا اثر موجود ہو تو اس کی موجودگی میں کسی قیاس جلی یا خفی کے قائل نہیں ہیں...دوسری قسم اصحاب الرائے کی ہے اور یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب امام محمد ، قاضی ابو یوسف، امام زفر، حسن بن زیاد ، ابن سماعہ، عافیہ القاضی، ابو مطیع بلخی اور بشر المریسی رحمہم اللہ وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی توجہ قیاس اور احکام شرعیہ سے مستنبط معنی ومفہوم اور اس کا جدید حوادث پر اطلاق وغیرہ میں صرف کی ہے اور اس وجہ سے بھی ان کو اہل الرائے کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ حضرات قیاس جلی کو اخبار آحاد پر ترجیح بھی دے جاتے ہیں۔''

امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''یصار الی الاجتھاد والی القیاس عند الضرورة. وھذا ھو الواجب علی کل مسلم اذ اجتھاد الرأی انما یباح للمضطر کما تباح لہ المیتة والدم عند الضرورة (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر رَّحِیْم ) وکذلک القیاس انما یصار الیہ عند الضرورة. قال الامام أحمد: سألت الشافعی عن القیاس فقال : عند الضرورة. ذکرہ البیھقی فی مدخلہ.''(اعلام الموقعین : جلد 2 ، ص 284 )
'' اجتہاد اور قیاس ضرورت کے وقت ہوگا اور یہی بات ہر مسلما ن پر واجب ہے کیونکہ رائے کا اجتہاد مضطر کے لیے مباح ہے جیسا کہ اس کے لیے ضرورت کے وقت مردار اور خون مباح ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : پس جو بھی مجبور کر دیا گیا اس حال میں کہ وہ نہ تو زیادتی کرنے والاہو اور نہ ہی حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے'بے شک اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اسی طرح قیا س بھی ضرورت کے وقت ہو گا۔ امام احمدرحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے قیاس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا :ضرورت کے وقت ہو گا۔ اس اثر کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے 'مدخل' میں بیان کیا ہے ۔''

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''ونحکم بالاجماع ثم القیاس وھو أضعف من ھذا ولکنھا منزلة ضرورة.'' (الرسالة :ص ٥٩٩۔٦٠٠)
''اور ہم اجماع کے ذریعے حکم لگاتے ہیں پھر قیاس کرتے ہیں اورقیاس' اجماع کی نسبت کمزوردلیل ہے لیکن یہ ضرورت کی جگہ ہو گا۔''
یہ واضح رہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک قیاس کا اور اجتہاد ایک ہی شی ہیں۔

شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' چناچہ اہل اثر صرف اضطرار کی صورت میں رائے کو اختیار کرتے تھے جیسے ایک مسلمان اضطرار کی صورت میں سور کا گوشت کھا لے۔ ''(آثار امام شافعی : ص١٤١، مترجم سید رئیس احمد جعفری، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
''اختلاف کا مبنی صرف یہ ہے کہ اہل حدیث 'رائے' سے احتراز کرتے تھے لیکن روایت رسول سے نہیں۔ 'رائے' کو حدیث کی عدم موجودگی میں اضطراری طور پر ہی قبول کرتے تھے۔ بخلاف ازیں اہل الرائے، روایت حدیث سے اجتناب برتتے مگر فتوی دینے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ وہ اس کے نتائج گوارا کرتے تھے ، ہاں فتوی دینے کے بعد حدیث صحیح مل جاتی تو رجوع کر لیا کرتے تھے۔''(حیات حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ:ص ١٥٧)

یہی وجہ ہے کہ اہل الرائے اجتہاد واستنباط میں اپنی رائے کا استعمال بہت زیادہ کرتے تھے کیونکہ احادیث وآثار کا ذخیرہ ان کے پاس بہت کم تھا۔ اس کے برعکس اہل الحدیث اپنی رائے کا اظہار بہت کم کرتے تھے اور کسی سوال کے جواب میں ممکن حد تک کوشش کرتے تھے کہ کسی روایت یا صحابی کے اثر یا صحابی کے فتوی یا تابعی کے قول کو نقل کر دیں۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' قال ابن مھدی : سأل رجل مالکا عن مسألة وذکر أنہ أرسل فیھا من مسیرة ستة أشھر من المغرب، فقال لہ أخبر الذی أرسلک أن لا علم لی بھا. قال ومن یعلمھا؟ قال من علمہ اللہ. وسألہ رجل عن مسألة استودعہ ایاھا أھل المغرب فقال ماأدری ما بتلینا بھذہ المسألة فی بلدنا ولا سمعنا أحدا من أشیاخنا تکلم بھا ولکن تعود. فلما کان من الغد جا ء ہ وقد حمل ثقلہ علی بغلة یقودھا فقال مسألتی فقال ما أدری ما ھی. فقال الرجل یا أباعبد اللہ ترکت خلفی من یقول لیس علی وجہ الأرض أعلم منک. فقال مالک غیر مستوحش : ذا رجعت فأخبرھم أنی لا أحسن.'' (ترتیب المدارک، باب تحریہ فی العلم والفتیا والحدیث وورعہ فیہ وانصافہ)
'' ابن مہدی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ایک شخص نے امام مالک رحمہ اللہ سے کسی مسئلہ کے بارے سوال کیا اور امام صاحب سے کہا کہ اس مسئلہ کے بارے جاننے کے لیے مغرب سے یہاں تک چھ ماہ کاسفر کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس شخص سے کہا : جس نے تجھے میرے پاس بھیجا ہے، اسے جا کر کہہ دے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ اس شخص نے دوبارہ سوال کیا کہ پھر کس کے پاس اس کا علم ہے؟۔ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا : جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دیا ہے۔ اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ سے ایک شخص نے کسی مسئلہ کے بارے سوال کیا اور اسے اہل مغرب نے امام مالک کے پاس وہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا تھا۔ امام صاحب نے اسے کہا : مجھے اس مسئلہ کا علم نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ ہمارے شہر میں کبھی پیش آیا ہے اور نہ ہی ہم نے اپنے کسی استاذ سے سنا ہے کہ انہوں نے اس بارے کوئی کلام کیا ہو، پس تم واپس لوٹ جاؤ۔ پس اگلے دن جب وہ شخص واپس جانے کے لیے روانہ ہوا اور اس نے اپنے خچر پر اپنا سامان لادا ہوا تھا تو پھر یہ کہنے لگا : امام صاحب میرے مسئلہ کا کیا جواب ہے؟ تو امام صاحب نے کہا : مجھے نہیں معلوم۔ اس شخص نے کہا : امام صاحب میں اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو چھوڑا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اس زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس شخص کو بغیر کسی وحشت کے جواب دیا : جب تم ان لوگوں کے پاس واپس جائے تو انہیں کہہ دینا کہ میں بہترین عالم دین نہیں ہو۔''

اسی طرح قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' قال ابن القاسم : سمعت مالکا یقول انی لأفکر فی مسئلة منذ بضع عشرة سنة فما اتفق الی فیھا رأی الی الآن...قال ابن عبد الحکم : کان مالک اذا سئل عن المسألة قال للسائل انصرف حتی أنظر فیھا، فینصرف ویتردد فیھا...قال الھیثم ابن جبیل : شھدت مالکا سئل عن ثمان وأربعین مسألة، فقال فی اثنین وثلاثین لا أدری...وقال خالد بن خراش قدمت من العراق علی مالک بأربعین مسألة فما أجابنی منھا لا فی خمس...قال ابن وھب کان مالک : یقول فی أکثر مسائل ما یسأل عنہ لا أدری...قال ابن وھب : سألت مالکا فی ثلاثین ألف مسألة نوازل فی عمرہ ، فقال فی ثلثھا أو شطرھا أو ماشاء اللہ منھا لا أحسن، ولا أدری.'' (أیضا)
'' ابن القاسم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ وہ فرما رہے تھے کہ میں نے اس مسئلہ میں دس سے زیادہ سال غور وفکر کیا ہے لیکن ابھی تک کسی رائے تک نہیں پہنچ پایا ہوں... ابن عبد الحکم رحمہ اللہ کہا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے جب کسی مسئلہ کے بارے سوال کیا جاتا تھا تو وہ سائل سے کہتے تھے کہ واپس چلا جا اور میں اس میں غور کروں گا، پس وہ واپس چلاجاتا اور امام مالک رحمہ اللہ اس میں غور وفکر کرتے تھے...ہشیم بن جبیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں امام مالک رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا جبکہ ان سے ٤٨ مسائل پوچھے گئے اور انہوں نے ٣٢ مسائل کے بارے کہا کہ میں نہیں جانتا...خالد بن خراش رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ میں عراق سے امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ٤٠ مسائل لے کر آیا لیکن انہوں نے مجھے صرف ٥ مسائل کا جواب دیا...ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ اکثر مسائل جو ان سے پوچھے جاتے تھے، ان میں کہتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم...ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں امام مالک رحمہ اللہ سے ان کی زندگی میں تقریبا تیس ہزار مسائل کے بارے سوال کیا لیکن انہوں نے مجھے ان تمام مسائل میں سے ایک تہائی یا نصف یا جتنا اللہ نے چاہا، کے بارے جواب دیا۔''

شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اہل الحدیث کے بارے لکھتے ہیں:
''اعلم أنہ کان من العلماء فی عصر سعید بن المسیب وابراھیم والزھری، وفی عصر مالک وسفیان، وبعد ذلک، قوم یکرھون الخوص بالرأی، ویھابون الفتیا والاستنباط لا لضرورة لا یجدون منھا بدا، وکان أکبر ھمھم روایة حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.''(حجة اللہ البالغة : ص٣١١،دار الکتب الحدیثة، القاھرة)
'' جان لو ! سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، ابن شہاب زہری کے زمانہ اور امام مالک اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کے زمانہ میں بھی اور ان کے بعد بھی اہل علم کی ایک جماعت ایسی تھی جو رائے میں غوروخوض کو ناپسند جانتی تھی اور فتوی دینے اور نصوص سے استنباط سے ڈرتے تھے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضرورت ہوتی کہ جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا تو فتوی دیتے تھے۔ اور ان اہل علم کا اکثر کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو نقل کرنا تھا۔''

ایک اور مقام پر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اہل الرائے کے بارے لکھتے ہیں:
'' وکان ازاء ھؤلاء فی عصر مالک وسفیان، وبعدھم قوم لا یکرھون المسائل، ولا یھابون الفتیا ویقولون: علی الفقہ بناء الدین، فلا بد من شاعتہ ، ویھابون راویة حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والرفع لیہ.''(حجة اللہ البالغة: ص٣١٩)
'' ان کے بالمقابل امام مالک اور سفیان ثوری رحمہما اللہ کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی اہل علم کی ایک جماعت ایسی تھی جو سوالات کو ناپسند نہیں کرتے تھے اور نہ ہی فتوی دینے سے ڈرتے تھے اور کہتے تھے کہ دین کی بنیا د فقہ ہے لہٰذا اس کی نشر واشاعت لازم ہے لیکن یہ حضرات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نقل کرنے اور ان کی آپ کی طرف نسبت کرنے سے ڈرتے تھے۔''
لیکن چوتھی صدی ہجری میں جب تقلیدی جمود اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو پھر اہل الرائے کے متبعین نے اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے نام پر اپنی رائے کے اظہار میں شدت احتیاط کا منہج اختیار کر لیا۔ دوسری طرف اہل الحدیث کے متبعین میں ہمیں ایسے اہل علم کی کثیر تعداد ملتی ہے جو اہل الحدیث کے منہج پر اجتہاد کرتے ہوئے اور اپنے متبوع ائمہ سے بعض مسائل میں اختلاف کرتے ہوئے ان کے فقہی وعلمی ورثہ میں نمایاں اضافہ کرتے رہے مثلاً امام ابن عبد البر، قاضی ابن رشد، امام نووی، امام ابن حجر، امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ ۔

(جاری ہے)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دوسرا فرق
اہل الحدیث کے نزدیک جب تک کوئی مسئلہ پیش نہ آیا ہے تو اس کے بارے اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے یعنی تفریع مسائل یا مفروضات میں کسی رائے کا اظہار کرنا درست نہیں کیونکہ اجتہاد ضرورت کے تحت مباح ہے لہذا جب تک ضرورت اور اضطرارکی حالت نہ ہو گی تو اجتہاد بھی نہ ہوگا جبکہ اہل الرائے کے نزدیک مستقبل کے پیش آمدہ مسائل بلکہ مفروضہ مسائل میں بھی اجتہاد جائز اور مستحسن امر ہے۔ اسی طرح اہل الرائے تفریع مسائل کے بھی قائل ہیں یعنی ایک سوال سے سوال در سوال نکالتے ہوئے اس کا جواب دیتے چلے جانا۔

یہی وجہ ہے کہ اہل الحدیث تو تفریع مسائل یا مفروضات کا جواب دینا بالکل بھی پسند نہیں فرماتے تھے جبکہ اہل الرائے نے فرضی مسائل میں تفریع کے ذریعے 'فقہ تقدیری' کے نام سے ایک علمی ذخیرہ اور ورثہ چھوڑا ہے۔ اہل الرائے نے جن مفروضہ مسائل میں اجتہاد کیا ہے وہ بعض اوقات تو ممکنات میں سے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ناممکنات میں سے مثلا اگر مرد کے دودھ اتر آئے اور وہ کسی بچے کو پلا دے تو اس سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟وغیرہ ذلک۔ (الفتاوی الھندیة، کتاب الرضاع ؛ فتح القدیرشرح الھدایة، کتاب الرضاع ؛ الجوھرة النیرة،کتاب الرضاع )

امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد اسد بن الفرات رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تحصیل علم کے لیے امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام رحمہ اللہ کے دیگر شاگرد مثلا ً ابن القاسم اور ابن وہب رحمہما اللہ انہیں اس پر اکساتے تھے کہ وہ امام مالک رحمہ اللہ سے سوال در سوال کریں۔ چونکہ امام مالک رحمہ اللہ کا رعب و دبدبہ اس قدر تھا کہ پرانے شاگردوں کو ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام دار الہجرة رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند جانتے ہیں لہذا انہوں نے ایک نیا شاگرد ہونے کی وجہ سے اسد بن فرات رحمہ اللہ کے ذریعے امام دار الہجرة سے سوالات کروائے۔ اسد بن الفرات رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' وکان ابن القاسم وغیرہ یحملنی أن أسأل مالکا، فاذا أجابنی قالوا لی قل لہ فان کان کذا وکذا، فضاق علی یوما وقال ھذا سلسلة بنت سلسلة، ان کان کذا کان کذا، ان أردت فعلیک بالعراق.'' (ترتیب المدارک وتقریب المسالک ، باب من أھل أفریقیة أسد بن الفرات بن سنان)
''ابن القاسم رحمہ اللہ وغیرہ مجھے اس بات پر اکساتے تھے کہ میں امام صاحب سے سوالات کروں۔ پس جب امام مالک رحمہ اللہ مجھے میرے کسی سوال کا جواب دے دیتے تو یہ صاحبان مجھے کہتے کہ امام صاحب سے سوال کرو کہ اگر ایسا ایسا ہو تو پھر کیا حکم ہے۔ پس امام مالک رحمہ اللہ ایک دن میرے اس قسم کے سوال در سوال سے تنگ آ گئے اور کہا کہ اگر ایسا ہو یا ایسا ہو تو یہ تو سلسلہ در سلسلہ ہے۔ اگر تجھے اس طرح کے سوالات کے جوابات چاہئیں تو اہل عراق کے پاس چلا جا۔''

ڈاکٹر مصطفی السباعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' فقد سأل مالکا رحمہ اللہ بعض تلامیذہ یوما عن حکم مسألة فأجابہ، فقال تلمیذہ ؛ أرأیت لو کان کذا؟ فغضب مالک وقال : ھل أنت من الأرأیتیین؟ ھل أنت قادم من العراق؟.'' (السنة ومکانتھا فی التشریع السلامی : ص ٤٤٠، المکتب الاسلامی، ٢٠٠٠ء)
'' امام مالک رحمہ اللہ سے ان کے بعض شاگردوں نے ایک دن کسی مسئلہ کے بارے سوال کیا تو امام صاحب نے اس کا جواب دیا۔ اس پر ان کے ایک شاگرد نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو پھر آپ کی کیا رائے ہے؟۔ اس پر امام مالک رحمہ اللہ غصہ ہو گئے اور فرمانے لگے کیا تو 'أرأیتیین' یعنی 'أرأیت' کہنے والوں میں سے ہے؟ کیا تو عراق سے آیا ہے؟۔''

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے:
'' وکان الامام أحمد کثیرا اذا سئل عن شیء من المسائل المحدثة المتولدات التی لا تقع یقول دعونا من ھذہ المسائل المحدثة.'' (جامع العلوم الحکم : ص٩٤، دار المعرفہ، بیروت)
'' امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب سوال در سوال سے پیدا کردہ مسائل کے بارے اکثر وبیشترسوال کیا جاتا جو ابھی واقع نہ ہوئے ہوتے تھے تو امام صاحب اس کے جواب میں فرماتے تھے کہ ہمیں ایسے پیدا کردہ مسائل سے دور ہی رکھو۔''

شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' چناچہ یہ اہل اثر نہ تفریع مسائل کرتے تھے (اور) نہ ان مسائل کے لیے استخراج احکام، جو درحقیقت واقع نہ ہوئے ہوں۔ اس کے برعکس اہل الرائے کا اصول یہ تھا کہ وہ کثرت سے رائے کی بنیاد پر فتوی دینے کے عادی تھے، جب تک زیر غور مسئلہ پر حدیث صحیح ان کے علم میں نہ آ جائے۔ یہ صرف مسائل واقعہ کے سلسلہ میں استخراج احکام کی دراست پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان مسائل پر جو واقعہ نہ ہوئے ہوں، ایک مفروضہ کی حیثیت سے غور کر کے اپنی رائے سے احکام وضع کر لیتے تھے۔'' (آثار امام شافعی : ص١٤١، مترجم سید رئیس احمد جعفری، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور)

شیخ مناع القطان اور شیخ عمر سلیمان الأشقرنے بھی اس فرق کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ (تاریخ التشریع السلامی، شیخ مناع القطان،ص ٢٩١،مکتبہ وہبة، ٢٠٠١ء) (تاریخ الفقہ السلامی، الدکتور عمر سلیمان الأشقر،ص٨٢، مکتبة الفلاح، الکویت، ١٩٨٢ء)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top