- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
تیسرا فرق
اہل الرائے کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ کو بطور قانون نافذ کیا جا سکتا ہے اور دوسرے ائمہ مجتہدین یا اہل علم یا مذاہب ومسالک کے متبعین کو بذریعہ قانون سازی ایک متعین فقہ کا پابند یا جبری مقلد بنایا جا سکتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک کسی امام یا فقیہ کے اجتہادات یا فقہ کا بطور قانون نفاذ درست نہیں اور اصل نفاذ کتاب وسنت کا ہو گا جبکہ عدالتوں میں موجود اہل علم قاضی اور جج براہ راست کتاب وسنت کی روشنی میں فیصلے کریں گے۔
بعض تاریخی روایات میں ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ 'موطأ' کو کعبہ پر لٹکاکر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیتے ہیں تو امام مالک رحمہ اللہ نے اس سے انکار کر دیا۔ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقہ حنفی کی بنیاد پر سلطنت عثمانیہ میں 'مجلة الأحکام العدلیة' کے نام سے دیوانی قانون نافذ کیا گیا۔ مصر میں بھی تقریباً ١٩٢٠ء تک حنفی قانون کے مطابق فیصلے ہوتے رہے لیکن بعد ازاں کچھ مصری سلفی اہل علم کی کاوشوں سے قانون سازی میں دوسری فقہوں سے بھی استفادہ کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں :
مفتی سید عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں:
پاکستان میں بھی حنفی اہل علم فقہ حنفی کے نفاذ کو درست اور جائز سمجھتے ہیں جبکہ اہل الحدیث اس کے خلاف ہیں اور کتاب وسنت کے نفاذ کے دعویدار ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں چونکہ اہل الحدیث کے متبعین کا غلبہ ہے لہٰذا شروع ہی سے اسلامی قانون تحریری صورت میں نافذ نہیں رہا بلکہ قاضیوں کویہ ہدایت تھی کہ وہ پیش آنے والے مقدمات میں براہ راست قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:
اہل الرائے کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ کو بطور قانون نافذ کیا جا سکتا ہے اور دوسرے ائمہ مجتہدین یا اہل علم یا مذاہب ومسالک کے متبعین کو بذریعہ قانون سازی ایک متعین فقہ کا پابند یا جبری مقلد بنایا جا سکتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک کسی امام یا فقیہ کے اجتہادات یا فقہ کا بطور قانون نفاذ درست نہیں اور اصل نفاذ کتاب وسنت کا ہو گا جبکہ عدالتوں میں موجود اہل علم قاضی اور جج براہ راست کتاب وسنت کی روشنی میں فیصلے کریں گے۔
بعض تاریخی روایات میں ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ 'موطأ' کو کعبہ پر لٹکاکر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیتے ہیں تو امام مالک رحمہ اللہ نے اس سے انکار کر دیا۔ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''سمعت مالک ابن أنس یقول: شاورنی ھارون الرشید فی ثلاث فی أن یعلق المؤطا فی الکعبة ویحمل الناس علی ما فیہ...فقلت یا أمیر المؤمنین أما تعلیق المؤطا فی الکعبة فن أصحاب رسول اﷲۖ اختلفوا فی الفروع فافترقوا فی الآفاق وکل عند نفسہ مصیب...فقال : وفقک اﷲ یا أبا عبد اللہ.'' (حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیائ:٦ ٣٣٢)
اس کے برعکس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے تھی کہ کم علم رکھنے والا مجتہد زیادہ علم رکھنے والے مجتہد کے اجتہاد کا پابند ہے یعنی دوسرے الفاظ میں زیادہ علم رکھنے والا مجتہد کے اجتہادات کا کم علم رکھنے والے مجتہدین کو پابند بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں :''میں نے امام مالک سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ مجھ سے خلیفہ ہارون الرشید نے تین چیزوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ 'مؤطا' کو بیت اللہ پر لٹکا کر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیا جائے...امام مالک نے کہا : اے امیر المؤمنین! جہاں تک 'مؤطا' کو بیت اللہ پر لٹکانے کا معاملہ ہے تو اللہ کے رسول کے صحابہ میں فروعات دین میں اختلاف ہوا پس وہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور ان میں سے ہر ایک اپنی رائے کو صحیح سمجھتا تھا (لہٰذا ان صحابہ کے متبعین کے درمیان بھی اسی بنیاد پر اختلاف ہوا ہے)...اس پرخلیفہ نے کہا : اے ابو عبد اللہ! اللہ تجھے اور علم کی توفیق دے۔ ''
'' ھل للمجتھد أن یقضی برأی مجتھد آخر أفقہ منہ ؟ قال أبو حنیفة لہ القضاء بہ وقال الصاحبان لیس لہ القضاء بہ ومرجع الخلاف ھو أن کون أحد المجتھدین أفقہ من غیرہ ھل یصلح مرجحاً؟ عند أبی حنیفة یصلح لأن اجتھادہ أقرب الی الصواب وعند الصاحبین لا یصلح مرجحاً لأن کون العالم أفقہ من غیرہ لیس من جنس الدلیل الذی یستند لیہ فی استنباط الحکم.'' (الفقہ الاسلامی وأدلتہ:٨ ٨٨)
''کیا مجتہد قاضی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرے؟ امام ابو حنیفہ کے مطابق قاضی مجتہد کو اپنے سے بڑے فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے جبکہ صاحبین کے نزدیک اس کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا قاضی کے لیے جائز نہیں ہے۔ وجہ اختلاف یہ ہے کہ کیا دو مجتہدین میں ایک کا زیادہ فقیہ ہونا کوئی راجح دلیل ہے؟ امام أبو حنیفہ کے ہاں یہ ایک راجح دلیل ہے کیونکہ اس کا اجتہاد' صحت سے زیادہ قریب ہو گا۔ جبکہ صاحبین کے نزدیک یہ راجح دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک عالم کا دوسرے سے زیادہ فقیہ ہونا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کی طرف استنباط احکام میں رجوع کیا جائے۔''
فقہ حنفی کی بنیاد پر سلطنت عثمانیہ میں 'مجلة الأحکام العدلیة' کے نام سے دیوانی قانون نافذ کیا گیا۔ مصر میں بھی تقریباً ١٩٢٠ء تک حنفی قانون کے مطابق فیصلے ہوتے رہے لیکن بعد ازاں کچھ مصری سلفی اہل علم کی کاوشوں سے قانون سازی میں دوسری فقہوں سے بھی استفادہ کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں :
''اس کے علاوہ حکومت مصر نے حنفی مذہب کے مطابق شخصی حالات کے شرعی احکام(یعنی عائلی قوانین) کی تدوین کاکام محمد قدری پاشا مرحوم کے سپرد کیا' چناچہ انہوں نے ٦٤٧ دفعات کی ایک کتاب مرتب کی جس میں نکاح' طلاق' اولاد' نابالغ کی سرپرستی' حجر(روکنا)' ہبہ' وصیت اور میراث کے مسائل درج کیے اور وہ مصر اور دوسرے اسلامی ملکوں کی شرعی عدالتوں میں مستند قرار پائی۔''(فلسفہ شریعت اسلام : ص١١٠۔ ١١١)
مفتی سید عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں:
''قانون ترتیب محاکم شرعیہ ١٩١٠ء کی دفعہ ٢٨٠ کے مطابق امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے راجح ترین اقوال پر عمل کیا جاتا تھا لیکن قانون ٢٥ (١٩٢٠ء)میں قاضی کو اختیار دیا گیا کہ وہ نفقہ عدت مفقود وغیرہ معین مسائل میں امام مالک اور اما م شافعی رحمہما اللہ کے اقوال پر بھی عمل کرنے کا مجاز ہے۔''(قوانین اسلامی ممالک : ص٧٦)
پاکستان میں بھی حنفی اہل علم فقہ حنفی کے نفاذ کو درست اور جائز سمجھتے ہیں جبکہ اہل الحدیث اس کے خلاف ہیں اور کتاب وسنت کے نفاذ کے دعویدار ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں چونکہ اہل الحدیث کے متبعین کا غلبہ ہے لہٰذا شروع ہی سے اسلامی قانون تحریری صورت میں نافذ نہیں رہا بلکہ قاضیوں کویہ ہدایت تھی کہ وہ پیش آنے والے مقدمات میں براہ راست قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:
''ان اسباب کی بنا پر سعودی عرب کے علماء کرام نے تدوین کو ناپسندیدہ قرار دیا اور جب ١٩٢٤ء ۔ ١٩٢٥ء میں مملکت سعودی عرب کا قیام عمل میں آیا تو ان کے اس مشورہ یا رائے کے نتیجہ میں یہ طے کیا گیا کہ اسلامی احکام و قوانین کو غیر مرتب ہی رہنے دیا جائے اور جس طرح سے انگلستان میں کامن لاء نافذ ہوتا ہے' کم و بیش اسی طرح سے اسلامی شریعت کو بدستور نافذ العمل رکھاجائے۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک سعودی علماء کی یہی رائے رہی ہے اور اسی پر وہ عمل درآمد کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آج بھی مملکت سعودی عرب میں وہ تمام قوانین غیر مدون ہیں جو وہاں کی عام عدالتوں کے دائرہ اختیارمیں ہیں' مثلاً تمام عائلی قوانین' حدود و تعزیرات کے تمام احکام اور ایسے ہی دوسرے متعدد قوانین پر ضابطہ بندی کے بغیر ہی عمل درآمد ہوتاہے۔''(علم اصول فقہ ایک تعارف : جلد3 ، ص 155 )