• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل الحدیث اور اہل الرائے : ایک تقابلی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تیسرا فرق
اہل الرائے کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ کو بطور قانون نافذ کیا جا سکتا ہے اور دوسرے ائمہ مجتہدین یا اہل علم یا مذاہب ومسالک کے متبعین کو بذریعہ قانون سازی ایک متعین فقہ کا پابند یا جبری مقلد بنایا جا سکتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک کسی امام یا فقیہ کے اجتہادات یا فقہ کا بطور قانون نفاذ درست نہیں اور اصل نفاذ کتاب وسنت کا ہو گا جبکہ عدالتوں میں موجود اہل علم قاضی اور جج براہ راست کتاب وسنت کی روشنی میں فیصلے کریں گے۔

بعض تاریخی روایات میں ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ 'موطأ' کو کعبہ پر لٹکاکر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیتے ہیں تو امام مالک رحمہ اللہ نے اس سے انکار کر دیا۔ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''سمعت مالک ابن أنس یقول: شاورنی ھارون الرشید فی ثلاث فی أن یعلق المؤطا فی الکعبة ویحمل الناس علی ما فیہ...فقلت یا أمیر المؤمنین أما تعلیق المؤطا فی الکعبة فن أصحاب رسول اﷲۖ اختلفوا فی الفروع فافترقوا فی الآفاق وکل عند نفسہ مصیب...فقال : وفقک اﷲ یا أبا عبد اللہ.'' (حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیائ:٦ ٣٣٢)
''میں نے امام مالک سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ مجھ سے خلیفہ ہارون الرشید نے تین چیزوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ 'مؤطا' کو بیت اللہ پر لٹکا کر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیا جائے...امام مالک نے کہا : اے امیر المؤمنین! جہاں تک 'مؤطا' کو بیت اللہ پر لٹکانے کا معاملہ ہے تو اللہ کے رسول کے صحابہ میں فروعات دین میں اختلاف ہوا پس وہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور ان میں سے ہر ایک اپنی رائے کو صحیح سمجھتا تھا (لہٰذا ان صحابہ کے متبعین کے درمیان بھی اسی بنیاد پر اختلاف ہوا ہے)...اس پرخلیفہ نے کہا : اے ابو عبد اللہ! اللہ تجھے اور علم کی توفیق دے۔ ''
اس کے برعکس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے تھی کہ کم علم رکھنے والا مجتہد زیادہ علم رکھنے والے مجتہد کے اجتہاد کا پابند ہے یعنی دوسرے الفاظ میں زیادہ علم رکھنے والا مجتہد کے اجتہادات کا کم علم رکھنے والے مجتہدین کو پابند بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں :
'' ھل للمجتھد أن یقضی برأی مجتھد آخر أفقہ منہ ؟ قال أبو حنیفة لہ القضاء بہ وقال الصاحبان لیس لہ القضاء بہ ومرجع الخلاف ھو أن کون أحد المجتھدین أفقہ من غیرہ ھل یصلح مرجحاً؟ عند أبی حنیفة یصلح لأن اجتھادہ أقرب الی الصواب وعند الصاحبین لا یصلح مرجحاً لأن کون العالم أفقہ من غیرہ لیس من جنس الدلیل الذی یستند لیہ فی استنباط الحکم.'' (الفقہ الاسلامی وأدلتہ:٨ ٨٨)
''کیا مجتہد قاضی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرے؟ امام ابو حنیفہ کے مطابق قاضی مجتہد کو اپنے سے بڑے فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے جبکہ صاحبین کے نزدیک اس کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا قاضی کے لیے جائز نہیں ہے۔ وجہ اختلاف یہ ہے کہ کیا دو مجتہدین میں ایک کا زیادہ فقیہ ہونا کوئی راجح دلیل ہے؟ امام أبو حنیفہ کے ہاں یہ ایک راجح دلیل ہے کیونکہ اس کا اجتہاد' صحت سے زیادہ قریب ہو گا۔ جبکہ صاحبین کے نزدیک یہ راجح دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک عالم کا دوسرے سے زیادہ فقیہ ہونا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کی طرف استنباط احکام میں رجوع کیا جائے۔''

فقہ حنفی کی بنیاد پر سلطنت عثمانیہ میں 'مجلة الأحکام العدلیة' کے نام سے دیوانی قانون نافذ کیا گیا۔ مصر میں بھی تقریباً ١٩٢٠ء تک حنفی قانون کے مطابق فیصلے ہوتے رہے لیکن بعد ازاں کچھ مصری سلفی اہل علم کی کاوشوں سے قانون سازی میں دوسری فقہوں سے بھی استفادہ کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں :
''اس کے علاوہ حکومت مصر نے حنفی مذہب کے مطابق شخصی حالات کے شرعی احکام(یعنی عائلی قوانین) کی تدوین کاکام محمد قدری پاشا مرحوم کے سپرد کیا' چناچہ انہوں نے ٦٤٧ دفعات کی ایک کتاب مرتب کی جس میں نکاح' طلاق' اولاد' نابالغ کی سرپرستی' حجر(روکنا)' ہبہ' وصیت اور میراث کے مسائل درج کیے اور وہ مصر اور دوسرے اسلامی ملکوں کی شرعی عدالتوں میں مستند قرار پائی۔''(فلسفہ شریعت اسلام : ص١١٠۔ ١١١)

مفتی سید عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں:
''قانون ترتیب محاکم شرعیہ ١٩١٠ء کی دفعہ ٢٨٠ کے مطابق امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے راجح ترین اقوال پر عمل کیا جاتا تھا لیکن قانون ٢٥ (١٩٢٠ء)میں قاضی کو اختیار دیا گیا کہ وہ نفقہ عدت مفقود وغیرہ معین مسائل میں امام مالک اور اما م شافعی رحمہما اللہ کے اقوال پر بھی عمل کرنے کا مجاز ہے۔''(قوانین اسلامی ممالک : ص٧٦)

پاکستان میں بھی حنفی اہل علم فقہ حنفی کے نفاذ کو درست اور جائز سمجھتے ہیں جبکہ اہل الحدیث اس کے خلاف ہیں اور کتاب وسنت کے نفاذ کے دعویدار ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں چونکہ اہل الحدیث کے متبعین کا غلبہ ہے لہٰذا شروع ہی سے اسلامی قانون تحریری صورت میں نافذ نہیں رہا بلکہ قاضیوں کویہ ہدایت تھی کہ وہ پیش آنے والے مقدمات میں براہ راست قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:
''ان اسباب کی بنا پر سعودی عرب کے علماء کرام نے تدوین کو ناپسندیدہ قرار دیا اور جب ١٩٢٤ء ۔ ١٩٢٥ء میں مملکت سعودی عرب کا قیام عمل میں آیا تو ان کے اس مشورہ یا رائے کے نتیجہ میں یہ طے کیا گیا کہ اسلامی احکام و قوانین کو غیر مرتب ہی رہنے دیا جائے اور جس طرح سے انگلستان میں کامن لاء نافذ ہوتا ہے' کم و بیش اسی طرح سے اسلامی شریعت کو بدستور نافذ العمل رکھاجائے۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک سعودی علماء کی یہی رائے رہی ہے اور اسی پر وہ عمل درآمد کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آج بھی مملکت سعودی عرب میں وہ تمام قوانین غیر مدون ہیں جو وہاں کی عام عدالتوں کے دائرہ اختیارمیں ہیں' مثلاً تمام عائلی قوانین' حدود و تعزیرات کے تمام احکام اور ایسے ہی دوسرے متعدد قوانین پر ضابطہ بندی کے بغیر ہی عمل درآمد ہوتاہے۔''(علم اصول فقہ ایک تعارف : جلد3 ، ص 155 )
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چوتھا فرق
اہل الحدیث اجتہادات ائمہ یا فقہ کو دائمی حیثیت نہیں دیتے ہیں جبکہ اہل الرائے نے ائمہ کے اجتہادات یا فقہ کو دائمی حیثیت دی ہے اور قیامت تک کے لیے ان کی پیروی کو ایک انتظامی مسئلہ کے طور پر بطور تقلید شخصی لازم قرار دیا ہے۔ اہل الحدیث کے نزدیک دوام صرف شریوت اسلامیہ کی نصوص کو حاصل ہے اور ائمہ کے اجتہادات عارضی اور وقتی طور پر درپیش مسائل کے حل کے لیے ہوتے ہیں جیسا کہ قاضی کا اجتہاد کسی متعین مسئلہ میں وقتی طور رفع نزاع کے لیے ہوتا ہے نہ کہ قیامت تک کے قاضیوں کے لیے قانون کا درجہ رکھتا ہے۔

لہٰذا ہر دور میں ہر ملک کے اہل علم کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں سلف صالحین کے منہج استنباط پر رہتے ہوئے اپنے اپنے فقہ الواقع کے مطابق اجتہاد کریں گے اور عوام الناس اپنے ان ممالک کے معاصر اہل علم کے اجتہادات کی اتباع کریں گے۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور ١٦٣ھ میں جب دوسری بار حج کے لیے گیا تو اس نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا:
'' انی عزمت أن آمر بکتباک ھذا الذی وضعتہ یعنی المؤطا فینسخ منہ نسخ ثم أبعث الی کل مصر من أمصار المسلمین منھا نسخة وآمرھم أن یعملوا بما فیھا ولا یتعدونہ لی غیرہ و یدعوا ما سوی ذلک من ھذا العلم المحدث فانی رأیت أھل العلم رواة أھل المدینة و علمھم فقلت: یا أمیر المؤمنین لا تفعل ھذا فان الناس قد سبقت الیھم أقاویل وسمعوا أحادیث ورددوا روایات وأخذ کل قوم مما سبق الیھم وعملوا بہ و دانوا بہ من اختلاف الناس وغیرھم وأن ردھم عما اعتقدوا شدید فندع الناس وما ھم علیہ وما اختار أھل کل بلد منھم لأنفسھم فقال : لعمری لو طاوعتنی علی ذلک لأمرت بہ.'' (تکملة الطبقات الکبری : ص٤٤٠)
''میں نے یہ پختہ عزم کر لیا ہے کہ میں آپ کی کتاب مؤطا کے نسخے تیار کرواؤں اور پھر تمام بلاد اسلامیہ میں سے ہر ایک شہر میں ایک نسخہ بھجوا دوں اور عوام کو یہ حکم جاری کر وں کہ اس پر عمل کریں جو اس میں ہے۔ اس کے غیر کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس بیان کردہ علم کے علاوہ کو چھوڑدیں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمام اہل علم اہل مدینہ ہی سے علم آگے نقل کررہے ہیں۔ اس پر اما م مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا:اے امیر المؤمنین! ایسا نہ کریں کیونکہ لوگوں نے مختلف مسائل میں مختلف اقوال کو اختیار کیا ہے' وہ بعض احادیث کوقبول کرتے ہیں تو بعض کو رد کرتے ہیں۔ ہر شہر کے رہنے والے' جو ان کے پاس پچھلوں سے علم چلا آرہا ہے' اس کو حاصل کرتے ہیں' اس پر عمل کرتے ہیں اور علماء کے اختلافات میں سے اس کواپنے لیے بطور مذہب اختیار کرتے ہیں۔ جس چیز کے دین ہونے کا وہ اعتقاد رکھتے ہیں' انہیں اس سے لوٹانا ایک سخت بات ہو گی۔ پس ہمیں لوگوں کوان کے حال اور جس پر وہ عمل کرتے ہیں اور جس کو انہوں نے علماء کے اختلافات میں سے اپنے لیے اختیار کیاہے' پرچھوڑ دینا چاہیے۔ اس پر خلیفہ منصور نے کہا : میری عمر کی قسم! اگر آپ میری بات مان لیتے تو میں اس کے مطابق حکم جاری کر دیتا۔''

جبکہ پہلے بھی یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک کم علم رکھنے والے مجتہدین زیادہ علم رکھنے والے مجتہد کی رائے کے پابند ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
'' ھل للمجتھد أن یقضی برأی مجتھد آخر أفقہ منہ ؟ قال أبو حنیفة لہ القضاء بہ وقال الصاحبان لیس لہ القضاء بہ ومرجع الخلاف ھو أن کون أحد المجتھدین أفقہ من غیرہ ھل یصلح مرجحاً؟ عند أبی حنیفة یصلح لأن اجتھادہ أقرب الی الصواب وعند الصاحبین لا یصلح مرجحاً لأن کون العالم أفقہ من غیرہ لیس من جنس الدلیل الذی یستند الیہ فی استنباط الحکم.'' (الفقہ الاسلامی وأدلتہ: جلد 8، ص 88 )
''کیا مجتہد قاضی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرے؟ امام ابو حنیفہ کے مطابق قاضی مجتہد کو اپنے سے بڑے فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے جبکہ صاحبین کے نزدیک اس کی رائے کے مطابق فیصلہ کرناقاضی کے لیے جائز نہیں ہے۔ وجہ اختلاف یہ ہے کہ کیا دو مجتہدین میں ایک کا زیادہ فقیہ ہونا کوئی راجح دلیل ہے ؟ امام أبو حنیفہ کے ہاں یہ ایک راجح دلیل ہے کیونکہ اس کا اجتہاد' صحت سے زیادہ قریب ہو گا۔ جبکہ صاحبین کے نزدیک یہ راجح دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک عالم کا دوسرے سے زیادہ فقیہ ہونا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کی طرف استنباط احکام میں رجوع کیا جائے۔''

حنفیہ میں عملاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے فتوی پر عمل ہے اور اصحاب ابی حنیفہ رحمہ اللہ کے بعد کے دور کے حنفی اہل علم وفضل اپنے متقدمین کی تقلید سے باہر نہیں نکلتے ہیں اور ان کی تقلید کو اپنے لیے لازم قرار دیتے ہیں بلکہ بقیہ ائمہ مجتہدین کی تقلید کے بالمقابل بھی اپنے امام کی تقلید پر تاکید ، اصرار اور زیادہ زور دیتے ہیں۔ 'فتاوی عالمگیریہ' میں ہے۔
'' حنفی ارتحل الی مذھب الشافعی رحمہ اللہ تعالی یعزر.'' (الفتاوی الھندیة' کتاب الحدود' باب فصل فی التعزیر)
'' جب کوئی حنفی مذہب شافعی اختیار کر لے تو اسے تعزیر جاری کی جائے گی۔''

اہل الرائے کے خاتمہ المحققین امام ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''والحاصل أن أبا حنیفة النعمان من أعظم معجزات المصطفی بعد القرآن وحسبک من مناقبہ ما قال قولاً الا أخذ بہ مام من الأئمة الأعلام وقد جعل اللہ الحکم لأصحابہ وأتباعہ من زمنہ الی ھذہ الأیام الی أن یحکم بمذھبہ عیسی علیہ السلام.'' (رد المحتار علی در المختار المعروف بالفتاوی الشامیة : جلد 1، ص 142)
'' حاصل کلام یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قرآن مجید کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ ہیں۔ امام صاحب کے مناقب کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ آپ کا کوئی قول بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کے مطابق ائمہ اعلام میں کسی نے فتوی نہ دیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے امام صاحب کو اپنے زمانہ سے لے کر آج کے دن تک اپنے اصحاب اور متبعین پر 'حَکَم' بنایا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے اور وہ بھی امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب پر فتوی جاری کریں گے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پانچواں فرق
اہل الرائے قرآن کے عمومات کو قطعی الدلالة سمجھتے ہیں اور اخبار آحاد یعنی احادیث مبارکہ سے ان کی تخصیص، تقیید یا ان پر اضافے کے قائل نہیں ہیں جبکہ اہل الحدیث اخبار آحاد یعنی احادیث صحیحہ کے ذریعے کتاب اللہ کے عمومات کی تخصیص، تقیید اور اس پر اضافے کو جائز سمجھتے ہیں۔ شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' فقہاء الرائے اور فقہاء السنة کے مابین یہی نقطہ اختلاف ہے کہ فقہاء الرائے عمومات قرآن کو ان کے عموم پر رہنے دیتے ہیں اور احادیث آحاد سے ان کی تخصیص نہیں کرتے، اور فقہاء السنة جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنے 'الرسالة' اور 'کتاب الأم' میں ذکر کرتے ہیں، اخبار آحاد تک کو قرآن کی مبین قرار دیتے ہیں اور ایسی احادیث سے قرآن کے عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید، مجمل کی تفصیل اور مبہم کی توضیح جائز سمجھتے ہیں۔ وہ اخبار آحاد کو قرآن کے مقابلہ میں بے کار نہیں سجھتے۔''(حیات امام ابو حنفیہ:ص٤٠١، مترجم غلام احمد حریری، المکتبہ السلفیہ، لاہور)

محدثین عظام نے ہم تک پہنچنے کے اعتبار سے حدیث کی دو قسمیں بیان کی ہیں ؛ ایک خبر متواتر اور دوسری اخبار آحاد۔ خبر متواتر وہ ہے جسے ایک بہت بڑی تعداد روایت کرے اور امام ابن صلاح رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی تقریباً ایک ہی مثال ملتی ہے۔ جبکہ خبر واحد وہ روایت ہے جسے ہر طبقہ میں ایک، یا دو یا تین راوی نقل کریں اور حدیث کا سارا ذخیرہ، اخبار آحاد ہی ہے لہٰذا اگر اخبار آحاد کو حدیث کا نام دیا جائے تو بالکل بجا ہے۔

اہل الرائے کا حدیث کو عموم قرآن کی تفسیر نہ بنانا اس وجہ سے بھی تھا کہ کوفہ ا س دور میں وضع حدیث کا مرکز تھا۔ خوارج و شیعہ کا فتنہ اسی شہر سے اٹھا تھا اور ان دونوں فرقوں نے اپنے مذاہب و افکار کی تائید میں احادیث وضع کی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ عراق کے فقہائے اہل سنت نے حدیث کے قبولیت کے ایسے سخت معیارات مقرر کیے کہ جن پر بہت کم احادیث پوری اترتی تھیں۔ اتنے سخت معیارات مقرر کرنا اس دور و حالات کی ایک مجبوری بھی تھی کیونکہ احادیث نقل تو ہو رہی تھیں لیکن ان کی تحقیق کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا صحیح' ضعیف اور موضوع روایات آپس میں خلط ملط تھیں۔ اہل حجاز چونکہ اس فن کے متخصصین تھے اور انہیں عراق جیسے حالات بھی درپیش نہ تھے، لہٰذا نہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد احادیث و آثار پر رکھی اور قرآن کی تفسیر حدیث و سنت سے کی۔ جبکہ اہل عراق نے اپنے خارجی ماحول کے اثرات کے تحت احادیث و آثار کی قبولیت میں شدت احتیاط کو اختیار کیا اور قیاس و رائے کو اپنے مذہب کی بنیاد بنایا۔ أستاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' ولأن العراق منبع الشیعة و مقر الخوارج ودار الفتنة وقد شاع فیھا الوضع والکذب علی رسول اﷲۖ اشترط علماؤھا فی قبول الحدیث شروطاً لا یسلم معھا الا القلیل فذا ضممت ھذا الی أنھم بمروی نزلاء العراق من الصحابة علمت أن کان ما عندھم من الأحادیث التی یعول علیھا فی نظرھم قلیل فلا مندوحة لھم حینئذ من استعمال الرأی.''(تاریخ الفقہ الاسلامی : ص٧٤)
''چونکہ عراق کو شیعہ و خوارج کے مستقر ومقام اور فتنے کے گھر کی حیثیت حاصل رہی ہے لہذا اس علاقے میں وضع حدیث اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بہت زیادہ پھیل گیا تھا۔ پس عراقی علمائے اہل سنت نے حدیث کی قبولیت کے لیے ایسی شرائط مقرر کی کہ جن پر بہت تھوڑی روایات پوری اترتی تھیں۔ اس کے ساتھ جب آپ یہ بات بھی ملا لیتے ہیں کہ ان کے پاس صرف وہی احادیث تھیں جو عراق میں سکونت اختیار کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کو پہنچی تھیں تو آپ اس نتیجے تک خود ہی پہنچ جائیں گے کہ جو احادیث ان کے ہاں قابل اعتمادتھیں' وہ تعداد میں بہت ہی کم تھیں۔ پس ان حالات میں رائے و قیاس کے استعمال سے ان کے لیے کوئی مفر(چھٹکارا) نہیں تھا۔ ''

اہل الحدیث' حجاز کے علاقے میں چھائے ہوئے تھے جبکہ اہل الرائے کو عراق میں علمی غلبہ حاصل تھا۔ ڈاکٹر تاج عروسی لکھتے ہیں:
'' فبدأت العراق تنافس المدینة علی زعامة الفقہ وحصلت مناظرات بین العراقیین والحجازیین أی (الکوفیین والمدنیین) واستمر ذلک الی أواخر أیام بنی أمیة و وصل الأمر بینھم فی بعض الأحیان الی تبادل التھم وکانت أقواھا من قبل الحجازیین حیت اتھموا العراقیین بالزندقة و وضع الحدیث وکانوا یقولون یخرج الحدیث من عندنا شبرا فیعود فی العراق ذراعاً وقالوا لا نأخذ بحدیث العراقیین اذا لم یکن لہ أصلاًعندنا...فرمی الحجازیون العراقیین بنبذ السنة واتباع الرأی کما رمی العراقیون الحجازیین بالجمود وعدم استعمال الرأی.''(الفقہ الاسلامی فی میزان التاریخ: ص١١٩)
''پس اہل عراق میں علم فقہ کی امامت کے حوالے سے اہل مدینہ سے مقابلہ کی فضا پیدا ہو گئی اوراہل کوفہ و اہل مدینہ کے مابین مناظرے شروع ہوگئے۔ یہ صورت حال بنو امیہ کے آخری ایام تک جاری رہی اور بعض اوقات تو یہ مناظرے ایک دوسرے پر الزامات تک بھی پہنچ جاتے تھے۔ اہل حجاز کی طرف سے سب سے قوی اعتراض اہل کوفہ پر یہ تھا کہ انہوں نے اہل عراق کو زندیقیت اور وضع حدیث جیسے الزامات سے متہم کیا اور وہ یہ کہتے تھے ہمارے(یعنی اہل مدینہ کے) پاس سے ایک بالشت برابرحدیث نکلتی ہے اور عراق میں جا کر وہ ایک بازو کے برابر ہو جاتی ہے۔وہ یہ بھی کہتے تھے ہم عراقیوں کی روایت اس وقت تک قبول نہ کریں گے جب تک کہ ہمارے پاس اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو...اسی طرح اہل حجاز نے اہل عراق پر سنت کو ترک کرنے اور رائے کے پیچھے پڑ جانے کا الزام بھی لگایاجیسا کہ اہل عرا ق نے اہل حجاز کو جمود اور رائے و قیاس کے عدم استعمال کا طعنہ دیا۔''

اہل الرائے نے قرآن کے عمومات کی حدیث کے ذریعے تشریح وتوضیح کیوں نہ کی یا دوسرے الفاظ میں حدیث کو قرآن کے عموم کی تفسیر کیوں نہ مانا، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخ عاصم الحداد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''امام ابو حنفیہ اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں عراق بدعات' خواہشات پر مبنی باطل نظریات اور سیاسی و کلامی فرقوں کے مابین سخت کش مکش کی آماجگاہ بناہوا تھا اور اس میں جھوٹ زوروں پر تھاحتی کہ رسول اللہ کی احادیث بھی اس سے محفوظ نہ رہی تھیں اور ان حدیث کی چھان پھٹک کرنا' ان کے راویوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی سندوں پر غور و فکر کر کے صحیح احادیث کو ضعیف اور موضوع احادیث سے الگ کرناکوئی آسان کام نہ تھا۔ اس لیے ان حضرات اپنا زیادہ تر اعتماد قرآن پر رکھاجو قطعی الثبوت تھا اور اس کے ظواہر و عمومات پر انہوں نے کوئی پابندی نہ لگائی۔ اس کے بعد انہوں نے اخبار آحاد کو۔ جو انہیں ملی۔ قرآن پر پیش کیا اگر انہیں اس کے خلاف نہ پایا تو انہیں قبول کر لیا اور ان پر اپنے مسائل کی بنیاد رکھی' بغیر اس کے کہ وہ ان کی سندوں پربھی غور کرتے اور ان کے راویوں کے حالات بھی معلوم کرتے۔ یہ کام یقینا انہوں نے احتیاط اور تقوی کے پہلو سے انجام دیا' مبادا کہ وہ اللہ کے رسول کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کر دیں جو قرآن کے خلاف ہو۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کی محنتوں کو درجہ قبولیت بخشے کہ وہ ان حالات میں یہی کر سکتے تھے اور یہی انہوں نے کیا۔ وہ معذور تھے اور ان کے اجتہادکا انہیں یقینا اجر ملے گا۔ اگر صحیح ہوا تو دہرا اجراور اگر غلط ہوا تو اکہرا اجر۔'' (اصول فقہ پر ایک نظر : ص٦٠۔٦١)

لیکن شیخ عاصم الحداد رحمہ اللہ نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ متقدمین حنفیہ تو اس بارے معذور تھے اور ان کا عذر قابل قبول ہے لیکن متاخرین حنفیہ کے پاس کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
'' لیکن ان کے جو پیروکار بعد میں آئے (چوتھی اور پانچویں صدی ہجری) اور انہوں نے ان سے منقول فروعی مسائل سے فقہ کے اصول نکالے، انہوں نے اگرچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کی سخت محنت کی بدولت تمام احادیث کو جمع شدہ پایا بلکہ یہ بھی پایا کہ ان کے راویوں کے حالات کتابوں میں درج کر دیے گئے تھے اور صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے الگ کر کے بیان کر دیا گیا تھا، انہوں نے محدثین کی ان کاوشوں کی کوئی قدر نہیں کی۔ بجائے اس کے کہ وہ ان کی روشنی میں اپنے بڑوں کی معذوری میں کی جانے والی کتاہیوں کی تلافی کرتے ، انہوں نے ان منقول فروعی مسائل کو ''نصوص'' کا درجہ دیا اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں میں سے اگر کسی چیز کو ان سے متصادم پایا تو اسے ایسی شکل دے دی کہ وہ ان سے متصادم نہ رہے۔ ظاہر کہ ایسی صورت حال میں اگر ان کے بہت سے اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی چھان پھٹک کے ساتھ منقول صحیح احادیث کے خلاف پڑیں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔ لیکن اپنے اس اصول پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے ایسی بہت سی احادیث کو رد کیا ہے۔'' (اصول فقہ پر ایک نظر : ص٦٠۔٦١)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چھٹا فرق
اہل الرائے کے نزدیک قاضی کا فیصلہ ظاہرا اور باطنا دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یعنی قاضی کا فیصلہ یا اجتہاد حرام کو حلال بنا دیتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک قاضی کا فیصلہ ظاہرا تو نافذ ہوتا ہے لیکن باطنا نافذ نہیں ہوتا ہے۔ مثلا ایک شخص نے کسی اجنبی عورت کے بارے عدالت میں یہ دعوی دائر کر دیا کہ اس سے میرا نکاح ہوا تھا اور اس نکاح کے بارے دو جھوٹے گواہ بھی پیش کر دیے۔ قاضی نے گواہوں کے بیان کا اعتبار کرتے ہوئے اس شخص کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ اب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس شخص کے لیے اس عورت سے استمتاع جائز ہے اور قاضی کے اس فیصلہ سے وہ اجنبی عورت اس شخص کے لیے حلال ہو جاتی ہے جبکہ اہل الحدیث کےنزدیک قاضی کا یہ فیصلہ ظاہرا تو نافذ ہو گا لیکن اس شخص کے لیے اس عورت سے استمتاع شرعا جائز نہیں ہے اور وہ عورت تاحال اس شخص کے لیے حرام ہے۔ اگر وہ اس سے تعلق قائم کرے گا تو زانی شمار ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ صاحبین کا اس مسئلہ میں وہی قول ہے جو اہل الحدیث کا ہے۔ مذہب حنفی میں راجح قول تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا شمار ہوتا ہے لیکن مفتی بہ قول صاحبین کا ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں :
قال جمهور العلماء: قضاء القاضي ينفذ ظاهراً لا باطناً؛ لأنا مأمورون باتباع الظاهر، والله يتولى السرائر، فلا يحل هذا الحكم حراماً ولا يحرم حلالاً، فلو حكم بشهادة شاهدين ظاهرهما العدالة لم يحصل بحكمه الحل باطناً، سواء في المال وغيره، لقوله صلّى الله عليه وسلم : «إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض، فأقضي له بنحو مما أسمع، فمن قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذه، فإنما أقطع له قطعة من النار» متفق عليه وقال أبو حنيفة: إذا حكم الحاكم بعقد أو فسخ أو طلاق، نفذ حكمه ظاهراً وباطناً؛ لأن مهمته القضاء بالحق، وأما الحديث فهو في قضية لا بينة فيها. وعلى هذا إذا ادعى رجل على امرأة أنه تزوجها، فأنكرت، فأقام على زواجها شاهدي زور، فقضى القاضي بالنكاح بينهما، وهما يعلمان أنه لا نكاح بينهما، حل للرجل وطؤها، وحل لها التمكين عند أبي حنيفة، خلافاً للجمهور. ومثله لو قضى بالطلاق فرق بينهما عنده، وإن كان الرجل منكراً. ويقاس عليه البيع ونحوه. والخلاصة: إن القاضي في قول أبي حنيفة ينفذ قضاؤه ظاهراً وباطناً حيث كان المحل قابلاً لذلك كالعقود والفسوخ، والقاضي غير عالم بزور الشهود. وهذا القول وإن كان هو الأوجه في مذهب الحنفية، إلا أن المفتى به عندهم هو قول الصاحبين الموافق لبقية الأئمة، وهو أن قضاء القاضي ينفذ ظاهراً فقط لا باطناً، أي ليس الحلال عند الله هو ما قضى به القاضي، بل ما وافق الحق۔
جمہور اہل علم کا قول ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہرا نافذ ہوتا ہے نہ کہ باطنا کیونکہ ہمیں ظاہر کی اتباع کا حکم ہے اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پس قاضی کا فیصلہ کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا ہے۔ پس اگر قاضی نے دو ایسے گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جو بظاہر عادل تھے تو اس سے باطنا بھی وہ فیصلہ جائز نہیں ہو جاتا ہے، چاہے مال کا مسئلہ ہو یا کوئی اور ہو، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ تم میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو، اور تم میں سے بعض دوسروں سے زیادہ چرب زبان ہوتے ہیں، پس اگر میں اس کی چرب زبانی کو سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور اسے اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دے دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں تو اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں گا۔‘‘ یہ متفق علیہ روایت ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ قاضی یا حاکم کا عقد، فسخ اور طلاق کے بارے فیصلہ ظاہرا و باطنا دونوں اعتبار سے نافذ ہو گا کیونکہ اس کا اصل کام حق کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اور جہاں تک اس روایت کا معاملہ ہے تو یہ ایسے مسئلہ کے بارے ہے کہ جس میں گواہی موجود نہ ہو۔ پس اگر کسی شخص نے کسی عورت کے بارے دعوی کیا کہ وہ میری منکوحہ ہے اور اس عورت نے اس کی منکوحہ ہونے سے انکار کر دیا تو اس شخص نے اس پر دو جھوٹے گواہ پیش کر دیے اور قاضی نے اس شخص کے حق میں فیصلہ کر دیا جبکہ وہ شخص اور عورت دونوں جانتے ہیں کہ ان کا نکاح نہیں تھا تو وہ عورت اس شخص کے لیے حلال ہو جائے گی اور یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے جبکہ جمہور کا موقف اس کے خلاف ہے۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر عورت، طلاق کا دعوی کر دے اور اس پر دو جھوٹے گواہ پیش کر دے اور قاضی اس کے مطابق فیصلہ کر دے تو اس سے طلاق باطنا بھی نافذ ہو جائے گی۔ اور اسی طرح کا موقف ان کا بیع کے بارے بھی ہے۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق قاضی کا فیصلہ ظاہرا و باطنا نافذ ہو گا جبکہ محل اس فیصلے کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور قاضی کو ان گواہوں کے جھوٹ کا علم نہ ہو۔ یہ قول اگرچہ مذہب حنفی میں راجح قول شمار ہوتا ہے لیکن مفتی بہ قول صاحبین کا ہے جو جمہور اہل علم کے موافق ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہرا تو نافذ ہوتا ہے لیکن باطنا نافذ نہیں ہوتا ہے۔ یعنی قاضی جس کے مطابق فیصلہ کر دے تو وہ اللہ کے ہاں بھی حلال نہیں ہو جاتا ہے بلکہ اللہ کے ہاں حلال وہی ہے جو حق کے مطابق ہے۔‘‘
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ساتواں فرق
تقلید کا معنی ''قبول قول الغیر من غیر معرفة دلیلہ'' ہے یعنی کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر قبول کرنا ہے جبکہ اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی کے قول کی دلیل معلوم کرنے کے بعد اس کی پیروی کرنا ہے۔ پہلی صورت میں اصل اعتماد عالم دین پر ہوتا ہے لہذا اس میں مسئلہ پوچھتے وقت اس کی دلیل معلوم نہیں کی جاتی ہے جبکہ دوسری صورت میں اصل مقصود نصوص ہوتی ہیں لہذا نصوص کی اتباع کے لیے عالم دین کوایک ذریعہ اور وسیلہ بنایا جاتاہے۔

متقدمین اہل الرائے اور اہل الحدیث کا اس پر اتفاق تھا کہ عامی کے لیے تقلید جائز نہیں ہے بلکہ وہ اہل علم کی اتباع کرے گا جبکہ متاخرین میں اس بارے اختلاف نمایاں ہے۔ متاخرین اہل لرائے کے نزدیک عامی کے لیے تقلید واجب ہے جبکہ اہل الحدیث کی اکثریت عامی کے لیے اتباع کی تو قائل ہے لیکن تقلید کو ناجائز قرار دیتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے:
'' لا یحل لأحد أن یأخذ بقولنا ما لم یعلم من أین أخذناہ۔''(رسم المفتی : ص ٢٩، ٣٢)
'' کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ہمارے قول کو اختیار کرے یہاں تک اسے یہ معلوم ہو جائے کہ ہم نے یہ قول کہاں سے لیا ہے۔''
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
'' مثل الذی یطلب العلم بلاحجة کمثل حاطب لیل یحمل حزمة حطب وفیہ أفعی تلدغہ وھو لا یدری ذکرہ البیھقی۔'' (اعلام الموقعین،جلد٢، ص٢٠٠، دار الجیل، بیروت)
'' امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جو شخص بلا دلیل کے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی مثال اس لکڑہارے کی سی ہے جو لکڑیوں کا بنڈل اٹھائے ہوئے ہو اور اس میں سانپ ہو جو اس کو ڈس لے۔''
امام احمد رحمہ اللہ کے بارے مروی ہے:
'' وقد فرق المام أحمد رحمہ اللہ بین التقلید والاتباع، فقال ابوداؤد: سمعتہ یقول الاتباع أن یتبع الرجل ما جاء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعن أصحابہ ثم ھو من بعد فی التابعین مخیر وقال أیضا لاتقلدنی ولاتقلد مالکا ولا الثوری ولا الأوزاعی وخذ من حیث أخذوا۔'' (اعلام الموقعین، جلد٢، ص ٢٠١)
'' امام احمد رحمہ اللہ نے تقلید اور اتباع میں فرق کیا ہے۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ اتباع یہ ہے کہ کوئی شخص اس کی اتباع کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب ہو۔ اس کے بعد تابعین کی اتباع میں اسے اختیار ہے۔ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ میری تقلید نہ کرو اور نہ ہی مالک، ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی تقلید کرو اور وہاں سے حاصل کرو جہاں انہوں نے حاصل کیا ہے۔''
امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے بارے مروی ہے:
'' وقال بشر بن الولید قال أبو یوسف لا یحل لأحد أن یقول مقالتنا حتی یعلم من أین قلنا۔'' (أیضا)
'' بشر بن ولید نے کہا ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ہمارے فتوی کو لے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ ہم نے وہ فتوی کہاں سے بیان کیا ہے۔''

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ( متوفی ٤٦٣ھ) لکھتے ہیں:
'' وقال ابو عبداللہ بن خویز منداد البصری المالکی : التقلید معناہ فی الشرع: الرجوع الی قول لا حجة لقائلہ علیہ، وذلک ممنوع منہ فی الشریعة ، والاتباع ما ثبت علیہ حجة ۔وقال فی موضع آخر من کتابہ کل من اتبعت قولہ من غیر أن یجب علیک قولہ لدلیل یوجب ذلک، فأنت مقلدہ ،والتقلید فی دین اللہ غیر صحیح، وکل من أوجب علیک الدلیل اتباع قولہ، فأنت متبعہ والاتباع فی الدین مسوغ والتقلید ممنوع۔'' (جامع بیان العلم وفضلہ، باب فاسد التقلید ونفیہ والفرق بین التقلید والاتباع، جلد٢، ص ٢٢٠، مؤسسة الریان، دار ابن حزم)
ابو عبد اللہ بن خویز منداد مالکی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تقلید کا شریعت میں معنی ہے کسی قائل کے قول کی طرف بلا دلیل رجوع کرنا اور یہ شریعت اسلامیہ میں ممنوع ہے۔ اور اتباع سے مراد ہے کہ جس کی دلیل موجود ہو۔ اپنی کتاب میں ایک اور مقام پر انہوں نے کہا ہے کہ جس کے قول کی بھی آپ نے پیروی کی ہو جبکہ اس کے قول کی پیروی کسی دلیل کی وجہ سے آپ پر واجب نہ ہو رہی ہو تو آپ اس کے مقلد ہیں اور اللہ کے دین میں تقلید کرنا صحیح نہیں ہے اور اگر دلیل کی وجہ سے آپ پر کسی کی پیروی واجب ہو تو یہ اتباع ہے اور آپ اس کے متبع ہیں اور دین میں اتباع جائز ہے جبکہ تقلید ممنوع ہے۔''
امام ابن حزم رحمہ اللہ(متوفی ٤٥٦ھ) فرماتے ہیں:
'' فالقتلید کلہ حرام فی جمیع الشرائع أولھا عن آخرھا، من التوحید والنبوة والقدر والایمان والوعید والمامة والمفاضلة وجمیع العبادات والأحکام. فان قال قائل فما وجہ قولہ تعالی فاسألوا أھل الذکر ان کنتم لا تعلمون؟ قیل لہ وباللہ التوفیق انہ تعالی أمرنا أن نسأل أھل العلم عما حکم بہ اللہ تعالی فی ھذہ المسألة وماروی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیھا، ولم یأمرنا أن نسألھم عن شریعة جدیدة یحدثونھا لنا من آرائھم ، وقد بین ذلک علیہ السلام بقولہ فلیبلغ الشاھد الغائب۔'' (الاحکام فی أصول الأحکام، جلد٦، ص٢٩٥۔٢٩٦، دار الحدیث ، القاھرة)
'' تقلید، اول تا آخر، تمام شریعتوں میں حرام رہی ہے، چاہے توحید کے مسائل میں ہو یا ایمانیات میں، نبوت و رسالت میں ہو یا تقدیر کے باب میں، وعید میں ہو یا امامت وفضیلت دینے میں ، عبادات میں یا احکام میں۔ پس اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ(اگر تقلید حرام ہے تو) اللہ کے اس فرمان کا مطلب کیا ہے کہ اہل ذکر سے پوچھ لو، اگر تمہیں علم نہ ہو۔ اس شخص کو یہ جواب دیا جائے گا کہ اللہ تعالی نے ہمیں اہل علم سے سوال کرنے کے بارے حکم دیا ہے کہ ہم اہل علم سے یہ سوال کریں کہ اس مسئلہ کے بارے اللہ کا کوئی حکم موجود ہے یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے۔ اللہ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا ہے کہ ہم ان اہل علم سے کسی ایسی نئی شریعت کے بارے سوال کریں کہ جسے اپنی آراء سے وضع کر کے ہمیں پکڑا دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ تم میں سے موجود ، غائب کو پہنچا دے۔(یعنی کسی مسئلہ میں اہل علم سے سوال کا مطلب اس مسئلہ کے بارے کتاب وسنت کی کسی دلیل کا پوچھنا ہے۔''

برصغیر پاک وہند میں معاصر جماعت اہل حدیث کے بارے یہ غلط فہمی عام پائی ہے کہ وہ عامی سے بھی اجتہاد کے متقاضی ہیں، جس کے سبب سے بعض حضرات انہیں اور متجددین کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اہل حدیث اہل علم، غیر مقلدین اور اہل حدیث میں فرق کرتے ہیں اور اسی سبب سے اپنے لیے محض غیر مقلد کی اصطلاح کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اہل حدیث ہونے کے لیے صرف عدم تقلید لازم نہیں ہے بلکہ سلف صالحین اور خیر القرون کے اہل الحدیث سے اپنا عقیدہ وفکر، منہج استدلال وغیرہ لینا اور ان سے اتصال سند بھی لازم ہے۔ معاصر اہل حدیث اہل علم، عامة الناس کے لیے علماء کی اتباع کے وجوب کے قائل ہیں جبکہ علماء کے لیے ترجیحی اجتہاد کے قائل ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حاصل بحث
حاصل بحث یہ ہے کہ اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تاریخ بہت پرانی ہے اور امت مسلمہ میں اجتہاد واستنباط کے باب میں دو مستقل مناہج فکر تاحال قائم ہیں۔ آج بھی ہم ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے فتاوی کا ایک تقابلی مطالعہ کریں تو یہ فر ق واضح طور نظر آتا ہے کہ مقدم الذکر کے ہاں محدود نصوص نقل کرتے ہوئے تفقہ و استنباط کا پہلو غالب ہے جبکہ موخر الذکر کے ہاں کسی مسئلہ کی بنیاد عموماً احادیث وآثار کی کثرت بیان پر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شیخ بن باز اور شیخ صالح العثیمین رحمہما اللہ کے بیان نصوص اور نکتہ رسی دونوں ہی کثرت سے موجود ہیں۔

ہر دور میں بعض اہل علم ایسے بھی رہے ہیں کہ جنہوں نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کے منہج کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کی شاگردی کے بعد امام محمد رحمہ اللہ سے تفقہ کی تعلیم حاصل کی اور امام محمد رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کے بعد حدیث وآثار کے لیے امام مالک رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی۔ اگرچہ امام محمد رحمہ اللہ سے استفادہ کے باوجود امام شافعی رحمہ اللہ پر اہل الحدیث کا منہج غالب رہا اور امام مالک رحمہ اللہ سے کسب فیض کے بعد بھی امام محمد رحمہ اللہ پر اہل الرائے کا منہج چھایا رہا۔

ہماری رائے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان دونوں مناہج کو کمال درجے میں جمع کیا ہے کہ جس کا شاہکار 'مجموع الفتاوی' ہے۔ امام صاحب ایک طرف تو اہل الحدیث کے منہج پر چلتے ہوئے حدیث وسنت کے بالمقابل کسی امام کی تقلید کو حرا م قرار دیا تو دوسری طرف اہل الرائے کے منہج پر بڑھتے ہوئے قیاس وعلت کے باب میں حکمت کا تصور دے کر قیاس کو جمود سے نکال کر ہر زمانہ کے لیے ایک حرکی تصور بنا دیا۔ ایسے فقہا کہ جنہوں نے ان دونوں مناہج کو جمع کیا ہو، انہیں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے 'فقہائے محدثین' کا لقب دیا ہے اور اپنی تحریروں میں ان کی اتباع کا مشورہ دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اہل الحدیث کے منہج میں تشدد کی وجہ سے اگر امام داود اور امام ابن حزم ظاہری رحمہا اللہ وغیرہ کی صورت میں ظاہریت نے جنم لیا تو اہل الرائے کے منہج میں غلو نے تقلیدی جمود کو فروغ دیا۔ اہل الحدیث اپنے فتاوی کو ظاہریت کے اثرات سے اسی صورت خالی کر سکتے ہیں کہ جب وہ اہل الرائے جیسی نکتہ رسی کے قائل ہوں اور اہل الرائے اپنے آپ کو اسی صورت تقلیدی جمود سے نکال سکتے ہیں جبکہ وہ اہل الحدیث کی طرح حدیث وسنت میں مہارت پیدا کریں اور اپنے ائمہ کے اجتہادات کو عارضی حیثیت دیتے ہوئے ان کے منہج پر ہر دور میں اپنے علم وفضل کی روشنی میں عوام الناس کی قدیم وجدید مسائل میں رہنمائی کرتے رہیں۔

معاملات کے باب میں فقہ اسلامی کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں فتاوی تو نقل ہو گئے ہیں لیکن وہ فقہ الواقع نقل نہیں ہوا کہ جس واقعہ یا حادثہ یا وقوعہ کے بارے کسی امام نے اپنی رائے دی تھی لہٰذا امام کا جواب تو فقہ کی کتب میں منقول ہے لیکن سوال منقول نہیں ہے۔ ایسے حالات میں اس امر کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس قسم کی کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے اہل الرائے اور اہل الحدیث کے علمی و فقہی ذخیرہ کا ایک تقابلی موازنہ کرتے ہوئے ان میں راجح و مرجوح اقوال کا تعین کیا جائے۔ یعنی جس طرح فقہ حنفی میں ایک ہی فقہ میں مروی مختلف اقوال میں جمع وترجیح قائم کرنے کے لیے 'اصحاب ترجیح' ہوتے ہیں تو اسی طرح اہل الحدیث اور اہل الرائے سے مروی فقہی اقوال میں بھی جمع و ترجیح قائم کرنے کے لیے دونوں مناہج اجتہاد سے متعلق معتدل اہل علم پر مشتمل فقہی اکیڈمیاں ہونی چاہئیں جو ظاہریت اور فقہی جمود کے مابین مسلک اعتدال کی نمائندہ بن سکتی ہیں ۔

نوٹ : اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں مکمل ہو گیا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top