• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت سے تعلقات کی شرعی حیثیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل بدعت سے تعلقات کی شرعی حیثیت

حافظ عمران ایوب​
بدعت کا معنی و مفہوم اور تقسیم
بدعت کا لغوی معنی ہے کسی ایسی ایجاد جس کی نظیر پہلے موجود نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’بدیع‘ بھی اسی سے ہے کہ’پہلی مرتبہ بنانے والا‘۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
{بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ} [البقرۃ:۱۱۷] ’’اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے والاہے۔‘‘
قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں بھی لفظ ’بدع‘ کا یہی مفہوم ذکر ہواہے۔ملاحظہ فرمائیے:
{قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ} [الأحقاف:۹]
’’(اے پیغمرﷺ!)کہہ دیجئے کہ میں کوئی پہلا رسول نہیں ہوں۔‘‘
شرعاً بدعت سے مراد ہر وہ کام ہے جس کی اصل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو اور اسے اجر کی نیت سے بجالایا جائے۔چنانچہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ
’’ کُلُّ مُحْدَثةٍ بِدْعَةٌ ‘‘ [سنن أبوداؤد:۴۶۰۷]
’’دین میں ہر نیاایجاد کردہ کام بدعت ہے۔‘‘
اور فرمایا کہ
’’ مَنْ أحْدَثَ فِیْ أمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ‘‘ [صحیح البخاري:۲۶۹۷]
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جواس میں نہیں تھا وہ مردود ہے۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’بدعت دین میں ایجاد کردہ اس طریقے کا نام ہے جس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو۔ ‘‘[الاعتصام:۱؍۳۷]
شیخ ابن باز فرماتے ہیں کہ
شریعت میں بدعت لوگوں کی ایجاد کردہ ہراس عبادت کا نام ہے جس کی اصل نہ قرآن میں ہو، نہ سنت میں اورنہ ہی خلفاے راشدین کے عمل میں۔ [مجموع فتاویٰ ابن باز:۲؍۸۳۷]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہاں یہ بات واضح رہے کہ بدعت کامفہوم سمجھنے کے لیے اس کی دینی و دنیاوی اعتبار سے تقسیم بھی ضروری ہے، کیونکہ شرعاً صرف وہ بدعت مذموم ہے جس کا تعلق دین اور عبادت سے ہو اور اگر بدعت دنیوی امور سے متعلق ہو تو پھر وہ قابل مذمت نہیں،بالفاظ دیگر ہر وہ نیا کام گمراہی ہے جس کا تعلق دین (جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج وغیرہ)سے ہو اور اگر نیا کام دنیاوی امور (جیسے جدیداسلحہ جات، ہوائی جہاز، گاڑیاں، ٹرینیں اور کمپیوٹر وغیرہ) سے متعلق ہوتو پھر مباح و جائز ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ ’’عبادات میں اصل حرمت ہے اور معاملات میں اصل اباحت ہے۔‘‘
علاوہ ازیں نبی کریمﷺ کا یہ فرمان بھی دنیاوی اِیجادات کے مباح ہونے کا بین ثبوت ہے:
’’ أنْتُمْ أعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ ‘‘[صحیح مسلم:۲۳۶۳]
’’تم اپنے دنیاوی معاملات سے زیادہ واقف ہو۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [اقتضاء الصراط المستقیم:۲؍۵۸۲] شیخ ابن باز [مجموع فتاوی ابن باز:۲؍۸۳۷] اور سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی [ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ:رقم الفتوی:۲۵۷۷] نے بھی اسی رائے کااظہار کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم
بدعت کی درج بالا تقسیم کے علاوہ کچھ حضرات نے بدعت کی یہ تقسیم بھی کی ہے کہ ایک بدعت حسنہ ہوتی ہے جس پرعمل جائز ہے اوردوسری بدعت سیئہ ہوتی ہے جس پر عمل جائز نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ اس کے برعکس ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین میں ہربدعت گمراہی ہے اور کوئی بھی بدعت حسنہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ فرمان نبویﷺ ہے کہ :
’’ کُلُّ بِدْعَة ضَلَالة ‘‘ ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [سنن أبوداؤد:۴۶۰۷]
حضرت ابن مسعود﷜ نے فرمایا ہے کہ
’’ اتبعوا ولاتبدعوا فقد کفیتم وکل بدعة ضلالة‘‘ [المعجم الکبیر للطبرانی:۹؍۱۵۴]
’’سنت کی اتباع کرو اور نئی چیزیں ایجاد نہ کرو، یقیناً تمہیں کفایت کی گئی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
حضرت ابن عمر﷜ کا یہ قول بھی اس سلسلے میں ہے کہ
’’ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالةٌ وَإنْ رَآھَا النَّاسُ حَسَنَةً ‘‘ [تلخیص أحکام الجنائز للألبانی: ص۸۴]
’’ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ[فتاویٰ الشاطبي :ص؍۱۸۰]اور حافظ ابن حجرؒ رحمہ اللہ[فتح الباري:۱۳؍۲۵۴]نے بھی یہی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ کا مفہوم یہی ہے کہ کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی ۔
شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں کہ جس نے بدعت کی یہ تقسیم کی ہے ’’بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ‘‘ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تمام بدعات سیئہ ہی ہوتی ہیں۔ [ظاھرۃ التبدیع:ص۴۲]
معلوم ہوا کہ بدعت کی یہ تقسیم باطل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت کی قباحت و مذمت
دین اسلام میں بدعت کو گمراہی کہا گیا ہے اور جوشخص اس گمراہی میں مبتلا ہوجاتاہے وہ درحقیقت بہت سی قباحتوں میں مبتلا ہوجاتاہے۔ جن میں سے چندایک کابیان حسب ذیل ہے:
1۔بدعت اعمال کے ضیاع کا سبب ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے کہ
’’ مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أمْرٍنَا ھَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ ‘‘[صحیح البخاري:۲۶۹۷]
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا کام ایجاد کیاجو اس میں نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ
’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ‘‘[صحیح مسلم :۱۷۱۸]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
2۔بدعت اللہ کی لعنت کا سبب ہے۔ چنانچہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ
’’ مَنْ أَحْدَثَ فِیْھَا حَدْثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَةٌ اﷲِ وَالْمَلَائِکَة وَالنَّاسِ أجْمَعِیْنَ‘‘[صحیح البخاري:۷۳۰۶]
’’جس نے یہاں (یعنی مدینہ میں) کوئی بدعت جاری کی اس پراللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔‘‘
3۔بدعت جاری کرنے والے پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بھی بوجھ ہوگا جو اس کی بدعت پرعمل کریں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ
’’جس شخص نے لوگوں کو ہدایت کی طرف دعوت دی اسے ان تمام لوگوں کے برابراجر ملے گا جنہوں نے اس ہدایت پرعمل کیا اور ہدایت پر عمل کرنے والوں کااپنا اجر بھی کم نہیں ہوگا اور جس نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پران تمام لوگوں کابھی گناہ ہوگا جنہوں نے اس کی گمراہی پرعمل کیا اور گمراہی پر عمل کرنے والوں کااپنا گناہ بھی کم نہیں ہوگا۔‘‘ [صحیح مسلم :۲۶۷۴]
4۔بدعتی لوگ حوضِ کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے۔ حضرت ابن مسعود﷢سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
’’میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے، پھر انھیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گاکہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجادکرلی تھیں۔‘‘ [صحیح البخاري:۶۵۷۶]
5۔بدعتی کی توبہ قبول نہیں کی جاتی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ کسی بھی بدعتی کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں فرماتے جب تک وہ اپنی بدعت چھوڑ نہ دے۔‘‘ [صحیح الترغیب والترہیب:۵۴]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت سے پرہیز کاحکم
بدعت کی درج بالا قباحتوں کی وجہ سے ہی نبی اکرمﷺ نے اس سے بچنے کا حکم دیاہے، فرمایا کہ
’’ إِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الاُمُوْرِ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَة وَکُلُّ بِدْعةٍ ضَلَالة‘‘[سنن أبوداؤد:۴۶۰۷]
’’نئے نئے ایجاد کردہ کاموں سے بچو کیونکہ دین میں ایجاد کردہ ہرنیا کام بدعت ہے اور یہ بدعت گمراہی ہے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبل﷜ نے فرمایا ہے کہ
نئی ایجاد کردہ بدعات سے بچو کیونکہ نئی ایجاد کردہ ہربدعت گمراہی ہے۔ [سنن الدارمي:۶۷]
اور امام احمدؒ نے فرمایا ہے کہ
بدعات کو ترک کرنا ہمارے ہاںسنت کااصول ہے۔ [شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ:۱؍۱۷۶]
معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر بدعات سے بچنا واجب ہے لہٰذا ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ خود بھی ان سے بچے، اپنے گھر والوں کوبھی بچائے اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے عوام الناس کو بھی ان سے بچانے کی پوری کوشش کرے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل بدعت سے بچنا اور دور رہنا
دین اسلام میں جہاں بدعت سے بچنے کا حکم دیاگیاہے وہاں اہل بدعت سے بھی دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، کیونکہ ان کی دوستی، تعلقات اور محبت ان کی بدعات میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
{ وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ آیَاتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَإمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ} [الانعام :۶۸]
’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تویادآنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں امام شوکانی رح نے فرمایاہے کہ
اس میں ایسے شخص کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے جواہل بدعت کی مجالس میں شرکت کی اجازت دیتاہے۔ حالانکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں کہ اپنی گمراہی کی خواہشات اور فاسد بدعات کے مقابلے میں کتاب و سنت کو بھی رد کردیتے ہیں … ایسے لوگوں کی مجالس میں شرکت کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ انھیں بدعات سے روکا جائے اوراگر یہ ممکن نہ ہوتو بہتر یہی ہے کہ ان کی مجالس ترک کردی جائیں۔[فتح القدیر: ۲؍۱۲۲]
بہت سے آئمہ و فقہاء نے اپنی اپنی کتب میں اہل بدعت سے بچنے اور ان سے دور رہنے کے بارے میں عنوانات قائم کئے ہیں جیسا کہ امام ابوداؤدؒ نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ
’’ باب مجانبة أھل الأھواء و بغضھم ‘‘[سنن أبوداؤد]
’’خواہش پرست لوگوں سے بچنے اور ان سے نفرت کرنے کا بیان۔‘‘
امام منذری رحمہ اللہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے:
’’ الترھیب من حب الاشرار وأھل البدع لأن المرء مع من أحب ‘‘[الترغیب والترہیب]
’’برے لوگوں اوراہل بدعت کی محبت سے ڈرانا کیونکہ آدمی اس کے ساتھ ہوتاہے جس سے محبت کرتاہے۔‘‘
اور امام نووی رح نے یہ عنوان قائم کیا ہے :
’’ باب التبری من أھل البدع والمعاصی‘‘ ’’اہل بدعت اورنافرمانوں سے بیزاری کا بیان۔‘‘ [الأذکار، ص۳۲۳]
علاوہ ازیں آئمہ سلف کابھی یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کواہل بدعت سے بچنے اور ان سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ چنانچہ قاضی ابویعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ اہل بدعت سے قطع تعلقی پر صحابہ و تابعین کااجماع ہے۔‘‘[ھجرالمبتدع:ص:۳۲]
فضیل بن عیاض رح نے فرمایا ہے کہ
بدعتی کے ساتھ بیٹھنے والے سے بھی بچو اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا مضبوط قلعہ ہو۔[الحلمیۃ :۸؍۲۰۳]
اور امام ابن قدامہ ؒ کا بیان ہے کہ
اہل بدعت کی مجالس اختیارکرنے، ان کی کتب کا مطالعہ کرنے اور ان کا کلام سننے سے ہمیشہ سلف صالحین منع کرتے رہے ہیں۔ [الآداب الشرعیۃ لابن مفلح:۱؍۲۶۳]
یقینًا آئمہ سلف کی درج بالا نصیحتوں پرعمل کرنے میں ہی خیر ہے اور جو ان پر عمل نہیں کرتا خدشہ ہے کہ کہیں اس کا خاتمہ بُرانہ ہوجائے۔ جیساکہ امام ذہبی رح نے ابن الریوندی زندیق کے متعلق نقل فرمایا ہے کہ
وہ شیعہ اور ملحد حضرات سے بہت میل جول رکھتا تھا اور جب اسے روکا جاتا تو کہتا کہ میں تو صرف ان کے اقوال جاننا چاہتا ہوں لیکن پھر کیا ہوا کہ بالآخر وہ خود بھی ملحد و زندیق ہوگیا اور دین اور اہل دین سے دور ہوگیا۔ [سیراعلام النبلائ:۱۴؍۵۹]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعتی سے قطع تعلقی میں اعتقادی اور عملی بدعت کا لحاظ
یہاں پہلے یہ وضاحت مناسب ہے کہ اعتقادی بدعات وہ ہوتی ہیں جن کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔ ان کا تعلق عموماً عقائد اور اصول دین سے ہوتا ہے اور عملی بدعات کامرتکب کافر تو نہیں ہوتا البتہ نافرمان ہوجاتاہے اور ان کاتعلق عموماً اعمال اور فروعی مسائل سے ہوتا ہے۔
اہل بدعت سے قطع تعلقی کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اصل میں شرعی عذر کے بغیر کسی بھی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی حرام ہے جیساکہ
اس سلسلے میں نبیﷺ کاواضح فرمان موجود ہے۔ [صحیح البخاري:۶۰۷۷]
البتہ سلف صالحین اور جمہورآئمہ نے عقائد میں بدعات جاری کرنے کو قطع تعلقی کے لیے جائز سبب قرار دیاہے اور کہا ہے کہ
ایسے بدعتیوں سے قطع تعلقی واجب ہے جو اپنی بدعت ظاہر کرتے ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔[ الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ :۲؍۲۴۵۹]
معلوم ہوا کہ اعتقادی بدعات کے مرتکبین سے قطع تعلقی واجب ہے۔ باقی رہے وہ لوگ جو عملی بدعات میں گرفتار ہیں تو ان سے قطع تعلقی میں مصلحت کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے گا یعنی اگر ان سے قطع تعلقی میں مصلحت ہو تو انھیں چھوڑ دینا ہی زیادہ بہتر ہے اور اگر ان سے قطع تعلقی میں مصلحت نہ ہو بلکہ ان کے مزیدبدعات اور گناہوں میں مبتلاہونے کا خدشہ ہو تو پھر انھیں نہ چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ شیخ ابن عثیمین نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔ [مجموع فتاوی ابن عثیمین:۲؍۲۹۴]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعتی کی حمایت سے بچنا
اہل بدعت کی حمایت سے بھی پرہیز کرناچاہیے کیونکہ ایساکرنے سے انسان اللہ کی لعنت کا مستحق بن جاتاہے۔ جیساکہ حضرت علی ؓ کابیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی۔‘‘ [صحیح مسلم :۱۹۷۸]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعتی کے پیچھے نماز کاحکم
بدعتی امام اگر اعتقادی بدعات کامرتکب ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز درست نہیں اور اگر عملی بدعات کا مرتکب ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز درست ہے مگر اس کے پیچھے بھی نماز پڑھنا اس وقت مکروہ ہوجاتا ہے جب کسی متبع سنت امام کے پیچھے نماز پڑھنا ممکن ہو۔
امام بخاری رح نے اپنی الجامع الصحیح میں یہ عنوان قائم کیا ہے کہ’’باب امامة المفتون والمبتدع‘‘ ’’باغی اور بدعتی کی امامت کابیان‘‘ اس کے بعد حضرت حسن بصری رح کایہ قول نقل فرمایا ہے کہ
’’ صل و علیہ بدعتہ‘‘ ’’تم اس کے پیچھے نماز پڑھ لو اس کی بدعت اس کے سر رہے گی۔‘‘ [صحیح البخاری: کتاب الازاد]
اس سے بھی معلوم ہوا کہ اگر بدعتی دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوا ہوتو پھر اس کے پیچھے نماز درست ہے۔ البتہ منتظم حضرات پرواجب ہے کہ وہ ایسا امام منتخب کریں جو بدعت اورفسق سے سالم ہو اور پسندیدہ سیرت وکردار کا مالک ہو۔ شیخ ابن بازؒ اور سعودی فتوی کمیٹی نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔ [مجموع فتاوی ابن باز:۱۲؍۱۱۸، فتاوی اللجنۃ الدائمہ: ۶؍۲۹۱]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعتی کی تعظیم کا حکم
شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں کہ اہل بدعت کی تعظیم اور تعریف و توصیف جائز نہیں خواہ ان کے پاس کچھ حق بھی موجود ہو کیونکہ ان کی تعریف و توصیف ان کی بدعت کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے گی اور ان کی تعظیم کے دھوکے میں آکر جاہل لوگ ان کی بدعات پر عمل شروع کردیں گے۔ (لہٰذا ایسے لوگوں سے نفرت کا اظہار کرنا ہی مناسب ہے) [دیکھئے: البدع والمحدثات و ما لااصل لہ، ص۱۵۳]
بدعتی سے شادی کا حکم
اعتقادی بدعات کامرتکب چونکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اس لئے اس سے کسی مسلمان کی شادی جائز نہیں۔ البتہ عملی بدعات کا مرتکب اگرچہ نافرمان تو ہے مگر بہرحال مسلمان ہے اس لئے اس سے شادی جائز ہے۔تاہم زیادہ بہتر یہی ہے کہ متبع سنت اور ہرطرح کی بدعات و خرافات سے بچنے والے کو ہی ترجیح دی جائے کیونکہ نبیﷺ نے دیندارکو ہی ترجیح دینے کی ترغیب دلائی ہے۔ [صحیح البخاري:۵۰۹۰]
علاوہ ازیں کسی بدعتی کے ساتھ شادی کرنے سے اس کی بدعات میں مبتلا ہونا کا بھی اندیشہ ہے۔ کیونکہ زوجین باہمی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انسان جس کے ساتھ محبت کرتاہے اس کے دین پر ہوتا ہے جیساکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے اسے دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی لگا رہا ہے۔‘‘ [سنن أبوداؤد :۴۸۳۳]
لہٰذا اگرچہ عملی بدعات کے مرتکب سے شادی جائز تو ہے مگر صرف متبع سنت دیندار کو ترجیح دینا ہی زیادہ بہتر ہے۔
 
Top