- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
اہل بدعت سے تعلقات کی شرعی حیثیت
حافظ عمران ایوب
بدعت کا معنی و مفہوم اور تقسیم بدعت کا لغوی معنی ہے کسی ایسی ایجاد جس کی نظیر پہلے موجود نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’بدیع‘ بھی اسی سے ہے کہ’پہلی مرتبہ بنانے والا‘۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں بھی لفظ ’بدع‘ کا یہی مفہوم ذکر ہواہے۔ملاحظہ فرمائیے:{بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ} [البقرۃ:۱۱۷] ’’اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے والاہے۔‘‘
شرعاً بدعت سے مراد ہر وہ کام ہے جس کی اصل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو اور اسے اجر کی نیت سے بجالایا جائے۔چنانچہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ{قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ} [الأحقاف:۹]
’’(اے پیغمرﷺ!)کہہ دیجئے کہ میں کوئی پہلا رسول نہیں ہوں۔‘‘
اور فرمایا کہ’’ کُلُّ مُحْدَثةٍ بِدْعَةٌ ‘‘ [سنن أبوداؤد:۴۶۰۷]
’’دین میں ہر نیاایجاد کردہ کام بدعت ہے۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ مَنْ أحْدَثَ فِیْ أمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ‘‘ [صحیح البخاري:۲۶۹۷]
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جواس میں نہیں تھا وہ مردود ہے۔‘‘
شیخ ابن باز فرماتے ہیں کہ’’بدعت دین میں ایجاد کردہ اس طریقے کا نام ہے جس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو۔ ‘‘[الاعتصام:۱؍۳۷]
شریعت میں بدعت لوگوں کی ایجاد کردہ ہراس عبادت کا نام ہے جس کی اصل نہ قرآن میں ہو، نہ سنت میں اورنہ ہی خلفاے راشدین کے عمل میں۔ [مجموع فتاویٰ ابن باز:۲؍۸۳۷]