بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
انصار اللہ اردو پیش کرتا ہے
اہل بیت سے محبت کے دعویدار رافضیوں کی حقیقت خود اہل بیت کی زبانی
تحریر: شیخ محمد موسیٰ سبحانی حفظہ اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی محبت ہر مسلمان پر واجب ہے اور جو کوئی بھی اہل بیت سے ذرا سا بھی بغض و عداوت رکھے اس کا ایمان معتبر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے مراد سب سے پہلے آپ کی تمام ازواج مطہرہ اور اس کے بعد آپ کی اولاد، آپ کے چچا اور ان کی اولاد اور بعض روایات کے مطابق تما م بنی ہاشم شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرہ کو اہل بیت میں شامل ہی نہیں سمجھتا بلکہ ان میں سے بعض سے شدید بغض وعداوت رکھتے ہوئے معاذ اللہ ان کو فاجرہ، فاسقہ اور فاحشہ عورتوں میں شمار کرتے ہوئے ان کی تکفیر تک کا قائل ہے اور اس کے ساتھ خلفائے راشدین میں سے سوائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو کافر ومرتد سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد مطہرہ کو بھی اہل بیت میں شمار نہیں کرتا سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور ان کے شوہر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بیٹوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اہل بیت میں شمار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ گروہ اہل بیت کی محبت کے نام پرغلو اختیار کرتے ہوئے گمراہی و ضلالت کی تمام حدوں کو عبور کرگیا یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الوہیت کا درجہ عطا کردیا لیکن حقیقت میں ان اہل بیت کو ان کی زندگی میں مصیبت و تکالیف میں مبتلا کرنے اور ان کے بعد ان کو سرِعام رسوا کرنے والوں میں سب سے بڑا ہاتھ اسی گروہ کا ہے۔ اس گروہ کو سلف صالحین نے ”رافضہ“ کے نام سے پکارا ہے کیونکہ اسی گروہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا:
((وعن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال کنت ثم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعندہ علی فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،یاعلی!سیکون فی امتی قوم ینتحلون حب اھل البیت لھم نبز یسمون الرافضة قا تلوھم فانھم مشرکون)) (رواہ الطبرانی واسنادہ حسن بحوالة مجمع الزوائد،ج:۱۰،ص:۲۲۔السنةلاب ن ابی عاصم،ج:۲،ص:۴۷۶)
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی رضی اللہ عنہ! میری امت میں عنقریب ایسی قوم ہوگی جو اہل بیت سے محبت کا (جھوٹا) دعویٰ کرے گی، ان کے لئے ہلاکت ہے ان کو رافضہ کہا جائے گا تم ان سے قتال کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوں گے“۔
((وعن فاطمة رضی اللّٰہ عنہا بنت محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم قالت نظر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی علی فقال ھذا فی الجنة ،وان من شیعتہ یعلمون (وفی روایة یلفظون)الاسلام ثم یرفضونہ، لھم نبزیسمون(وفی روایةیشھدون)) الرافضة من لقیھم فلیقتلھم فانھم مشرکون)) (مسند ابی یعلیٰ ۱۳،۴۹۱،رقم:۶۶۰۵۔راوہ الطبرانی ورجالہ ثقات بحوالہ مجمع الزوائد،ج:۱۰،ص:۲۲)
”سیدہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا پھر فرمایا کہ یہ جنت میں ہوگا اور اس کے گروہ میں سے ایسے لوگ ہوں گے جو اسلام کو جاننے کے بعد اس کو جھٹلا دیں گے، ان کے لئے ہلاکت ہے، ان کو رافضہ کے نام سے جانا جائے گا، جب تمہارا ان سے سامنا ہو تو ان سے قتال کرنا کیونکہ وہ مشرک ہیں“۔
((عن ابی عبد الرحمن السلمی عن علی قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سیأتی بعدی قوم لھم نبز یقال لھم الرافضة فاذا لقیتموھم فاقتلوھم فانھم مشرکون قلت یارسول اللّٰہ ماالعلامۃفیھم قال یقرضونک بمالیس فیک ویطعنون علی اصحابی ویشتمونھم)) (کنز العمال،ج:۱۱ص:۳۲۴رقم:۳۱۶۳۴۔ السنة لابن ابی عاصم،ج:۲،ص:۴۷۴)
”ابو عبد الرحمن سلمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد ایک قوم آئے گی ان کے لئے خرابی ہے، ان کو رافضہ کہا جائے گا پس تمہارا ان سے سامنا ہوتو ان کو قتل کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں۔ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ان کی علامت کیا ہوگی؟ فرمایا کہ مدح کریں گے تمہاری اس چیز کے بارے میں جو تم میں نہیں ہے اور میرے اصحاب پر طعن کریں گے اور ان کو گالیاں دیں گے“۔
((عن علی رضی اللّٰہ عنہ بن ابی طالب قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،یاعلی!انک من اھل الجنة وانہ یخرج فی امتی قوم ینتحلون شیعتنالیسوا من شیعتنالھم نبزیقال لھم الرافضة وآیتھم انھم یشتمون أبابکروعمر اینمالقیتھم فاقتلھم فانھم مشرکون)) (السنن الواردة فی الفتن،ج:۳،ص:۶۱۶،رقم الحدیث:۲۷۹۔الفردوس بماثور الخطاب،ج:۵،ص:۳۱۶)
”سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تم اہل جنت میں سے ہو اور میری امت میں سے ایسی قوم نکلے گی جو اپنے آپ کو ہماری اولاد سے منسوب کریں گے اور وہ ہماری اولاد میں سے نہیں ہوں گے، ان کے لئے برائی ہے، ان کو رافضہ کہا جائے گا اور ان کی علامت یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو گالی دیں گے وہ جہاں کہیں بھی تم کو ملیں تم ان کو قتل کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں“۔
پس شرعی اصطلاح میں درج بالا صفات کے حامل گروہ کو ”رافضہ“ قرار دیا گیا:
((أخبرنا عبد اللّٰہ بن احمد قال قلت لأبی من الرافضة قال الذی یشتم ویسب أبابکر وعمر(رضی اللّٰہ عنھما)) (السنة للخال،ج:۳،ص:۴۹۲واسنادہ صحیح۔السنةلعبد اللّٰہ بن احمد،ج:۲ص:۵۴۸)
”ہم کو خبر دی ابو عبد اللہ احمد بن حنبل نے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ”رافضی“ کون ہیں، فرمایا وہ شخص جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو برا کہے اور ان کو گالیاں دے“۔
((المعروف ان الرافضة قبحھم اللّٰہ یسبون الصحابةرضی اللّٰہ عنھم ویلعنوھم وربّماکفّروھم أو کفروا بعضھم والغالبیة منھم مع سبھم لکثیرمن الصحابة والخلفاء یغلون فی علی رضی اللّٰہ عنہ واولادہ ویعتقدون فیھم الالھیة)) (شرح العقیدة الواسطیة،ج:۱،ص:۲۵۳)
”معروف بات یہ ہے کہ روافض کو اللہ ہلاک کرے کیونکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم کو گالیاں دیتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں یا ان میں سے بعض کو کافرکہتے ہیں اور ان کی غالب اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اور خلفاء راشدین کو گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے بارے میں غلو کرتی ہے اور ان کے بارے میں خدا ہونے کا اعتقاد رکھتی ہے“۔ پس اس گروہِ رافضہ نے ایک طرف اہل بیت کی محبت کے نام پر امت غلو اور کفروضلالت کو نہ صرف عام کیا بلکہ دوسری طرف خود اہل بیت کو ان کی زندگی میں سب سے زیادہ رسوا کرنے اور ان کو تکالیف و ایذاء پہنچانے میں یہ گروہ سب سے آگے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود اہل بیت خصوصاً خانوادہ ٔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی محبت کا دعویٰ کرنے والے اس گروہ پر لعنت بھیجی اور ان کے لئے بددُعائیں کیں اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف خود رافضہ گروہ کی مستند کتابوں میں کیا گیا جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں خود روافض کی کتابوں سے چند حوالہ جات نقل کئے جاتے ہیں تاکہ امت مسلمہ پر اس گروہِ رافضہ کا اصل چہرہ سامنے آسکے۔ ٍسب سے پہلے جو اس گروہ کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہوئے، وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ کیونکہ یہ لوگ آپ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے آپ کے لشکر میں شامل ہوئے لیکن سب سے زیادہ اس گروہ نے آپ کو اذیت پہنچائی لہذا آپ نے بغیر کسی سستی اور تاخیر کے ایک ایک جرم کا نام لے کر انہیں مجرموں، غداروں اور دشمنوں کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ رافضیوں کی کتاب ”نہج البلاغۃ“ میں آتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”خدا نے جس کام کا بھی فیصلہ کیا تھا، جس چیز کو بھی مقدر کردیا تھا، میں اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے تمہاری وجہ سے مجھے مصیبت میں مبتلا کیا۔ اے لوگو! میں نے جب بھی تمہیں کوئی حکم دیا تم نے اطاعت نہ کی، میں نے جب بھی پکارا تم نے میری پکار کا جواب نہ دیا، تم سے نرمی برتی تو تم نے اس کو فراموش کیا، تمہیں لڑایا گیا تو تم بھاگ گئے، اگر لوگ کسی امام پر متفق ہوگئے تو تم نے اس میں عیب نکالے، تمہیں کسی طرف لایا گیا تو تم پلٹ گئے۔ تمہارے سوا کسی نے انکار نہیں کیا.میری مرضی کا کوئی حکم بھی تم تک ایسا نہیں پہنچا جس پر تم راضی ہوگئے ہو، کوئی ناراضگی ایسی نہیں جس پر تم سب جمع نہ گئے ہو“
(نھج البلاغة،ص۲۵۹،۲۵۸بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘ از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
ایک دفعہ اس گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تباہی ہو تمہارے لئے! میں تمہاری سرزنش کرتے کرتے اکتا چکاہوں، کیا آخرت کی زندگی کے بدلے میں دنیاوی زندگی پر خوش ہو، عزت کے بدلے میں ذلت پر خوش ہو، جب میں تمہارے دشمنوں کے ساتھ جہاد کے لئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں پھر جاتی ہیں، گویا تمہاری جان نکل رہی ہے یا نشہ کی وجہ سے ایک بے خودی کا سا عالم ہے. تم ان اونٹوں کی طرح ہو جن کا چرانے والا گم ہوگیا ہو، جب بھی انہیں ایک طرف سے جمع کیا جائے تو دوسری طرف سے منتشر ہوجائیں گے، برا ہو ا۔ خدا کی قسم! تم نے جنگ کی آگ بھڑکا دی. خدا کی قسم میں تمہارے بارے میں گمان کرتا ہوں کہ اگر جنگ بھڑک اٹھے، موت کا بازار گرم ہوجائے، تو تم علی بن ابی طالب سے یوں الگ ہوجاؤ جیسے سر تن سے الگ ہوجاتا ہے“۔
(نھج البلاغة،ص۷۸بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
اسی طرح ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے لوگو ں کے سامنے اس گروہ کی بزدلی و غداری اور فتنہ وفساد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”خدا کی قسم! تم اجتماعات میں بہت زیادہ ہو، جھنڈے تلے بہت کم ہو، میں جانتا ہوں کہ کس چیز سے تمہاری اصلاح ہوگی ، تمہارا ٹیڑھا پن دور ہوگا؟ لیکن میں تمہارے اصلاح کے لئے اپنے آپ کو خراب نہیں کرسکتا۔ خدا تمہارے رخسارے خراب اور تمہارے بڑو ں کو تباہ کرے! تم جس طرح باطل کو پہچانتے ہو، حق کو نہیں پہنچاتے، جس طرح حق کی تردید کرتے ہو باطل کی تردید نہیں کرتے“۔
(نھج البلاغة،ص۹۹،۸۹بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
بالآخر کوفہ والوں کو بددعا دیتے ہوئے کہا: ”کوفہ ہی تھا جو سب سے بڑا تھا اور سب سے دور تھا، سوائے تیرے کوئی نہیں تھا جس میں آندھیاں چلا کرتی تھیں، خدا تجھے برباد کرے!. یا اللہ! میں ان سے اکتا گیا ہوں وہ مجھ سے اکتاگئے ہیں، میں ان سے تنگ ہوچکا ہوں، یا اللہ! مجھے اس کے بدلہ میں بہترین آدمی عطا فرما اور انہیں میرے بدلے بُرا قائد عطا فرما! یا اللہ ان کے دلوں کو اس طرح بہادے جس طرح پانی نمک میں بہہ جاتا ہے“۔
(نھج البلاغة،ص۷۶،۶۶بحوالہ ’’الشیعہ واہل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے نواسۂ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ”خدا کی قسم! میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے لئے اِن لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں، جو اپنے آپ کو میرا گروہ کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے قتل کرنا چاہا، میرا مال چھین لیا “۔
(الاحتجاج للطبرسی ،ص۱۴۸بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
آپ کا یہ ارشاد بھی ان ہی کی کتاب سے ملتا ہے: ”میں کوفہ اور ان کی آزمائش کو جانتا ہوں، ان میں جو فاسد ہے وہ میرے لئے درست نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس میں وفا ہے نہ قول وعمل کی ذمہ داری! وہ اختلاف کرنے والے ہیں، ہم سے کہتے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں مگر پھر بھی انہوں نے ہم ہی پر تلواریں سونت رکھی ہیں“۔
(الاحتجاج للطبرسی ،ص۱۴۸بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
کتاب ”الارشاد للمفید“ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ہے۔ جب انہوں نے رافضیوں کے خلاف بددعا کی۔ اسی طرح کتاب ”الاحتجاج“میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا:
”لکنکم اسرعتم الی بیتنا کطیرة الدباء وتھافتم کتھافت الفراش، ثم نقضتموھا سفھا وبعداً وسحقا لطواغیتِ ھذہ الامة، وبقیة الاحزاب،ونبذة الکتاب،ثم انتم ھئولا تتخاذلون عنا وتقتلوننا، الا لعنة اللّٰہ علی الظالمین“
”لیکن تم نے ہمارے گھروں پر وحشیانہ دھاوا بول دیا اور سارے عہد کو توڑ دیا، دوری وبربادی ہے اس امت کے طاغوتوں اور بقیہ ایسے گروہوں، کتاب اللہ کو چھوڑنے والے گروہوں کے لیے۔ پھر اب تم ہمیں رسوا کرتے ہو اور ہمیں ہی قتل کرتے ہو، خبردار اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر“۔ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں یوں بد دعا کی: ”یا اللہ! اگر تو انہیں کچھ عرصے تک باقی رکھے تو ان میں تفریق ڈال دے، انہیں پارہ پارہ کردے، ان کے والیوں سے کبھی خوش نہ ہو، ان لوگوں نے ہمیں بے یارومدگار چھوڑ دیا، پھر سے دشمنی کرتے ہوئے ہمیں قتل کرڈالا“۔
(مفید الارشاد ص۲۴۱۔اعلام الوریٰ ص۵۴۹بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
رافضہ کی کتاب ”الاحتجاج“ میں ہی ہے کہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ جن کا لقب امام زین العابدین رحمہ اللہ کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے اہلِ کوفہ سے کہا:
”ھل تعلمون انکم کتبتم الی ابی و خدعتموہ و اعطیتموہ من انفسکم العھد و المیثاق ثم قتلتموہ و خزلتموہ بای عین تنظرون الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ھو یقول لکم قاتلتم عترتی و انھکتم حرمتی فلستم من امتی“
”کیا تم جانتے ہو کہ تم ہی نے میرے والد کی طرف خط لکھا اور پھر انہیں دھوکہ دیا اور تم نے خود انہیں پختہ عہد و پیمان دیا پھر تم نے ہی انہیں قتل کردیا اور انہیں رسوا کرڈالا۔ تم کس نظر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو گے جبکہ وہ فرمائیں گے کہ تم نے میری اولاد کو قتل کردیا اور میری حرمت کو رسوا کرڈالا، تم میری امت میں سے نہیں ہو“۔
چنانچہ امام زین العابدین رحمہ اللہ ان کی مزید حقیقت کھولتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام سے محبت کی، ان کے بارے میں جو کچھ کیا سو کیا، نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق اور نہ ان کا عزیر سے کوئی تعلق۔ نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام سے محبت کی، مگر نہ عیسیٰ کا نصاری سے کوئی تعلق اور نہ ان کا عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی تعلق۔ میں بھی انہی جیسا ہوں۔ ہماری قوم ’’شیعہ‘‘ بھی ہم سے محبت کرے گی اور ہمارے بارے میں وہی کچھ کہے گی جو یہود نے حضرت عزیر اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں کہا تھا، نہ ان لوگوں کا ہم سے کوئی تعلق نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق“۔ (رجال الکشی ص۱۱۱بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ) اسی طرح ”الاحتجاج“ میں فاطمہ الصغری رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ امام زین العابدین رحمہ اللہ نے اہلِ کوفہ کو اپنے خطبہ میں کہا: ”اے اہلِ کوفہ………اے اہلِ غدر ومکر وتکبر! اللہ نے ہم اہلِ بیت کی تمہارے ذریعے آزمائش کی اور ہمارے ذریعے تمہاری آزمائش کی۔ تو اس نے ہماری آزمائش کو آزمائشِ حسنہ بنا دیا تو تم نے ہمارا انکار کردیا، ہمیں جھٹلایا اور ہمارے ساتھ لڑائی کو حلال کرلیا اور ہمارے اموال کو لوٹنا مباح کرلیا جیسے کہ تم نے اس سے قبل ہمارے جد اعلیٰ کو قتل کیا۔ تمہاری تلواروں سے اہلِ بیت کا خون ٹپک رہا ہے۔ تم پر تباہی ہو، پس تم اللہ کے عذاب اور اس کی لعنت کا انتظار کرو کہ وہ تم پر آیا چاہتی ہے۔ اللہ تمہارے بعض کا زور تمہارے اوپر مسلط کرے اور ہم پر ظلم کرنے کے سبب تم قیامت تک دردناک عذاب میں مبتلا رہو۔ خبردار! اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر۔ اے اہلِ کوفہ تم پر تباہی ہو، تم نے اس سے قبل اللہ کے رسول اور آپ کی اولاد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ پھر تم نے ان کے بھائی اور میرے داداعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں کے ساتھ غداری کی۔ ان کی یہ باتیں سن کر اہلِ کوفہ کے ایک فرد نے بڑے فخر سے جواب دیا“۔
نحن قتلنا علیا وابن علی سیوف ہندیة ورماح وسبینا نسائھم سبی ترک ونطحنا ھم فای نطاح
ہم نے علی اور اس کے بیٹے کو تیز دھار ہندی تلواروں اور نیزوں سے قتل کیا اور ان کی عورتوں کو ترکوں کی طرح قیدی بنایا انہیں زخمی کیا پس کیا ہی زخمی کرنا تھا
ان دو روایتوں پر تعلیق لگاتے ہوئے مشہور رافضی عالم ”سید حسین الموسوی“ بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ:
”یہ دو نصوص ہمیں بیان کرتی ہیں کہ جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کے حقیقی قاتل کون ہیں؟ وہ کوفہ کے شیعہ ہیں! یعنی ہمارے آباء واجداد تو پھر ہم اہل السنۃ کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا کیوں کر ذمہ دار ٹھہرائیں؟“
(بحوالہ ’’ھل أتاک حدیث الرفضة‘‘ ا لامام الشھداء مصعب الزرقاوی رحمہ اللّٰہ)
چنانچہ امام جعفر بن باقر کے بیٹے موسیٰ نے اس رافضی گروہ کے اوصا ف یوں بیان کیا: ”اگر میرے شیعہ میں مجھے کوئی ممتاز وصف ملا ہے تو یہ کہ اگر میں نے ان کا امتحان لیا تو انہیں ”مرتد“ پایا ہے، انہیں آزمایا تو ہزار میں ایک بھی مخلص نہیں تھا، اگر انہیں چھلنی میں چھپانا ہے تو پاس جو تھا اس کے سوا ایک بھی نہیں بچا، عرصہ گزر گیا ہے کہ وہ لوگ تلیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم شیعہ علی رضی اللہ عنہ ہیں“
(الروضہ من الکافی ج ۸ص۲۲۸بحوالہ ’’الشیعہ واھل البیت‘‘از علامہ احسان الٰھی ظھیر شھیدؒ)
یہ ہے روافض کے مستند و معتبر کتابوں سے اقتباسات جو خود ”رافضیوں“ کا وہ اصل چہرہ دکھا رہی ہیں جس کو اہل بیت نے بے نقاب کیا۔ اہل السنۃ کو ان روافض سے ہر دم ہوشیار وخبردار رہنا چاہیے کیونکہ ان کا کردار ہمیشہ ان منافقین کا سا رہا کہ جو مسلمانوں کے منہ پر تو ان کی محبت کا دم بھرتے تھے لیکن پیٹھ پیچھے چھرا گھوپنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ آج سے تقریباً سات سو سال قبل جب ہلاکو خان بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجارہا تھا اور مسلمانوں کے کھوپڑیوں کے مینار بنارہا تھا تو یہ ہی وہ گروہ تھا جوکہ اُس وقت خوشی کے شادیانے بجارہا تھا اور ابن علقمی اور نصیر الدین طوسی جیسے رافضی ہی تھے جو کہ ہلاکو خان کو اُس موقع پر اپنی رائے مشوروں سے نواز رہے تھے۔
چناچنہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس (ابن علقمی رافضی) نے تاتاریوں سے مکاتبت کی اور انہیں طمع دلوائی کہ ملک پر قبضہ کرلیں اور ان کے لیے اس نے کام آسان کردیا اور انہیں ساری حقیقت بیان کی اور فوجیوں کی کمزوریاں بیان کی اور اس میں اس کی طمع صرف یہ تھی کہ ”اہل السنۃ“ کا مکمل صفایا ہوجائے اور بدعتی رافضیوں کا ظہور ہو اور خلافت فاطمیوں کے ہاتھوں چلی جائے اور علماء و مفتیان قتل کردئیے جائیں………اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے“۔
اس کے علاوہ صلیبی جنگوں میں بھی یہ ہمیشہ عیسائی صلیبیوں کے ہمنوا رہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وفیھم من معاونة الکفار علی المسلمین مالیس من الخوارج.والرافضة ھم معاونون للمشرکین والیھود والنصاری علی قتال المسلمین………وکذلک فی الحروب التی بین المسلمین وبین النصاری بسواحل الشام قدعرف اھل الخبرة ان الرافضة تکون مع النصاری علی المسلمین وانھم عاونوھم علی اخذ البلاد .واذاغلب المسلمون النصاری والمشرکین کان ذالک غصة عند الرافضة واذاغلب المشرکون والنصاری المسلمین کان ذلک عیدا،ومسرة عند الرافضة)) (الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیةرحمہ اللّٰہ ،ج:۵،ص:۲۴۸)
”اور ان (روافض) میں وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں پر کافروں کی معاونت کرتے ہیں………اور رافضہ معاونت کرتے ہیں مشرکوں اور یہود ونصاریٰ کی مسلمانوں کے قتل عام کرنے پر………اور اسی طرح ان (صلیبی) جنگوں میں جو مسلمانوں اور نصاریٰ کے درمیان ہوئیں شام کے ساحل پر۔ اہل خبر کے ہاں مشہور ہے کہ رافضہ مسلمانوں کے مقابلے میں نصاریٰ کے ساتھ ہوتے تھے اور مسلمانوں کے شہروں قبضہ کرنے میں نصاریٰ کی مدد کرتے تھے………اور جب مسلمانوں کو نصاریٰ اور مشرکین پر غلبہ حاصل ہوتا تو رافضہ کے نزدیک یہ بات غصہ والی ہوتی اور اگر مسلمانوں پر مشرک اور نصاری غلبہ حاصل کرتے تو یہ بات ان کے لئے عید اور مسرت کا باعث ہوتی“۔
یہی تاریخ اس رافضی گروہ نے آج عراق میں دوبارہ دہرائی کہ وہاں امریکہ کے ساتھ مل کر اہل السنۃ کا قتل عام کیا گیا اور ان کی عزتوں کو تاراج کیا اور یہی کچھ آج سر زمین شام اہل السنۃ کے ساتھ کیا جارہا ہے جو کہ کسی سے مخفی نہیں اور اب یہی تاریخ پاک سرزمین یعنی پاکستان میں اہل السنۃ کے ساتھ دہرائی جانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
لہذا اے مسلمانوں:
(ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْ قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ) (المنافقون:۴)
”یہی (تمہارے) حقیقی دشمن ہیں لہذا ان سے بچ کر رہو۔ اللہ انہیں غارت کرے کہاں پھرے جاتے ہیں“۔
پی ڈی ایف،یونی کوڈ
Zip Format
پی ڈی ایف
یونی کوڈ (ورڈ)