• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل تشیع اور دجال

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
عموما اہل تشیع دجال کی روایات بیان نہیں کرتے لہذا یہاں ان کی کتب کی کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ اس کے بارے میں ان کی کیا آراء ہیں

الكافي – از الكليني – ج 8 – ص 296 – 297 کی روایت ہے

حمید بن زياد ، عن الحسن بن محمد الكندي ، عن غير واحد من أصحابه عن أبان بن عثمان ، عن أبي جعفر الأحول : والفضيل بن يسار ، عن زكريا النقاض ( 4 ) . عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : سمعته يقول : الناس صاروا بعد رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) بمنزلة من اتبع هارون ( عليه السلام ) ومن اتبع العجل وإن أبا بكر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) ( 5 ) إلا القرآن ‹ صفحة 297 › وإن عمر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإن عثمان دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإنه ليس من أحد يدعو إلى أن يخرج الدجال إلا سيجد من يبايعه ومن رفع راية ضلال [ – ة ] فصاحبها طاغوت .


زكريا النقاض ، ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابی جعفر علیہ السلام کو سنا کہہ رہے تھے لوگ رسول الله صلى الله عليه وآله کے بعد ہو گئے اس کے ساتھ جس کی منزلت ان کی سی تھی جنہوں نے ہارون کی اتباع کی اور (دوسرا گروہ) ان کی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی اور ابو بکر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (ابو بکر کی اتباع کی) اور عمر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عمر کی اتباع کی) اور عثمان نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عثمان کی اتباع کی) اور ایسا کوئی نہ ہو گا کہ وہ دجال کے لئے پکارے تو وہ خود ان میں سے ہو جائے گا جوگمراہی کا جھنڈا اٹھائے ہوں اور طاغوت کے ساتھی ہوں


الأمالي – از الصدوق – ص 345 – 347 کی روایت ہے

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق ( رحمه الله ) ، قال : حدثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلودي ، قال : [ حدثنا محمد بن عطية ، قال : حدثنا عبد الله بن عمرو بن سعيد البصري ، قال : حدثنا ] ( 3 ) هشام بن جعفر ، عن حماد ، عن عبد الله بن سليمان ( 4 ) ، وكان قارئا للكتب ، قال : قرأت في الإنجيل : يا عيسى ، جد في أمري ولا ‹ صفحة 346 › تهزل ، واسمع وأطع ، يا بن الطاهرة الطهر البكر البتول ، أتيت ( 1 ) من غير فحل ، أنا خلقتك آية للعالمين ، فإياي فاعبد ، وعلي فتوكل ، خذ الكتاب بقوة ، فسر لأهل سوريا السريانية ، وبلغ من بين يديك أني أنا الله الدائم الذي لا أزول ، صدقوا النبي ( صلى الله عليه وآله ) الأمي صاحب الجمل والمدرعة ( 2 ) والتاج – وهي العمامة – والنعلين والهراوة – وهي القضيب – الأنجل العينين ( 3 ) ، الصلت الجبين ( 4 ) ، الواضح ( 5 ) الخدين ، الأقنى الانف ، المفجل ( 6 ) الثنايا ، كأن عنقه إبريق فضة ، كأن الذهب يجري في تراقيه ، له شعرات من صدره إلى سرته ، ليس على بطنه ولا على صدره شعر ، أسمر اللون ، دقيق المسربة ( 7 ) ، شثن ( 8 ) الكف والقدم ، إذا التفت التفت جميعا ، وإذا مشى كأنما يتقلع ( 9 ) من الصخرة وينحدر من صبب ( 10 ) ، وإذا جاء مع القوم بذهم ( 11 ) ، عرقه في وجهه كاللؤلؤ ، وريح المسك ينفح منه ، لم ير قبله مثله ولا بعده ، طيب الريح ، نكاح النساء ذو النسل القليل ، إنما نسله من مباركة لها بيت في الجنة ، لا صخب فيه ولا نصب ، يكفلها في آخر الزمان كما كفل زكريا أمك ، لها فرخان مستشهدان ، كلامه القرآن ، ودينه الاسلام ، وأنا السلام ، طوبى لمن أدرك زمانه ، وشهد أيامه ، وسمع كلامه . ‹ صفحة 347 › قال عيسى ( عليه السلام ) : يا رب ، وما طوبى ؟ قال : شجرة في الجنة ، أنا غرستها ، تظل الجنان ، أصلها من رضوان ، ماؤها من تسنيم ، برده برد الكافور ، وطعمه طعم الزنجبيل ، من يشرب من تلك العين شربة لا يظلما بعدها أبدا . فقال عيسى ( عليه السلام ) : اللهم اسقني منها . قال : حرام – يا عيسى – على البشر أن يشربوا منها حتى يشرب ذلك النبي ، وحرام على الأمم أن يشربوا منها حتى تشرب أمة ذلك النبي ، أرفعك إلي ثم أهبطك في آخر الزمان لترى من أمة ذلك النبي العجائب ، ولتعينهم على العين الدجال ، أهبطك في وقت الصلاة لتصلي معهم إنهم أمة مرحومة


عبد الله بن سليمان جو کتب سماوی کو پڑھنے والے تھے کہتے ہیں میں نے انجیل میں پڑھا … عیسیٰ نے الله سے کہا اے رب یہ طوبی کیا ہے ؟ کہا جنت کا درخت ہے اس کا پانی تسنیم ہے اس کی ٹھنڈک کافور جیسی ہے اور کھانا زنجبیل جیسا ہے اور جو اس چشمہ سے پی لے اس کو پیاس نہ لگے گی کبھی بھی عیسیٰ نے کہا اے الله مجھے پلا دے فرمایا حرام ہے اے عیسیٰ کہ کوئی اس میں سے بشر پئے جب تک اس کو النبی (محمد) نہ پئے اور اس کی امت پر حرام ہے حتی کہ انکا النبی نہ پئے- میں تجھ کو اٹھا لوں گا پھر واپس آخری زمانے میں تیرا هبوط ہو گا کہ تم اس النبی العجائب کی امت دیکھو گے اور اس امت کی لعین دجال کے مقابلے میں مدد کرو گے اور تمہارا هبوط نماز کے وقت ہو گا کہ تم اس رحمت والی امت کے ساتھ نماز پڑھو


انجیل میں طوبی کا کہیں نہیں لکھا عبد بن سلیمان کو یہ انجیل کہاں سے ملی پتا نہیں

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم


حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے غرفة میں اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا دابه الارض یاجوج اور ماجوج تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی


ثواب الأعمال – از الصدوق – ص 54 کی روایت ہے

ومن صام من رجب أربعة أيام عوفي من البلايا كلها من الجنون والجذام والبرص وفتنة الدجال واجبر من عذاب القبر


جس نے رجب کے چار دن کے روزے رکھے وہ اس کو بچائیں گے جنون سے جذام سے برص سے اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے بھی


الأمالي – از الصدوق – ص 681

حدثنا محمد بن علي ماجيلويه ( رحمه الله ) ، قال : حدثني عمي محمد ابن أبي القاسم ، قال : حدثني محمد بن علي الكوفي ، عن المفضل بن صالح الأسدي ، عن محمد بن مروان ، عن أبي عبد الله الصادق ، عن أبيه ، عن آبائه ( عليهم السلام ) ، قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يوم القيامة يهوديا . قيل : يا رسول الله ، وإن شهد الشهادتين ؟ قال : نعم ، فإنما احتجز بهاتين الكلمتين عن سفك دمه ، أو يؤدي الجزية عن يد وهو صاغر . ثم قال : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا . قيل : فكيف ، يا رسول الله ؟ قال : إن أدرك الدجال آمن به


أبي عبد الله الصادق اپنے باپ اور ان کے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا اے رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) اور اگر وہ دو شہادتیں دے دے فرمایا ہاں …. رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے پھر فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا کیسے اے رسول الله ؟ فرمایا جب وہ دجال کو پائے گا تو اس پر ایمان لائے گا


یہ روایت دلیل ہوئی کہ دجال یہودی ہو گا اس کو ذہن میں رکھیں ابھی نیچے اس پر بحث آ رہی ہے

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 14 – ص 348

وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن صفوان وابن فضال ، عن ابن بكير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ذكر الدجال فقال : لا يبقى ( 1 ) منهل إلا وطأه إلا مكة والمدينة ، فإن على كل ثقب من أثقابها ( 2 ) ملكا يحفظها من الطاعون والدجال


أبي عبد الله عليه السلام نے فرمایا اور انہوں نے دجال کا ذکر کیا پس فرمایا اس سے کوئی (شہر) نہ بچے گا کہ جو اس کا مطیع نہ ہو سوائے مکہ مدینہ کے کہ اس کے ہر گھڑے اور خندق میں فرشتہ ہو گا اور وہاں دجال اور طاعون نہ آ سکے گا


وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 16 – ص 179

وفي ( صفات الشيعة ) عن محمد بن موسى بن المتوكل ، ( عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، ) ( 1 ) عن الحسن بن علي الخزاز قال : سمعت الرضا ( عليه السلام ) يقول : إن ممن ينتحل مودتنا أهل البيت من هو أشد فتنة على شيعتنا من الدجال ، فقلت : بماذا ؟ قال : بموالاة أعدائنا ، ومعاداة أوليائنا إنه إذا كان كذلك اختلط الحق بالباطل ، واشتبه الامر فلم يعرف مؤمن من منافق


الحسن بن علي الخزاز کہتے ہیں انہوں نے امام الرضا علیہ السلام کو سنا انہوں نے کہا جس کے اندر ہماری محبت ہو وہ اس دجال کے فتنہ میں اس پر بہت سخت ہو گا میں نے پوچھا ایسا کیوں؟ فرمایا ہمارے دشمنوں سے دوستی کی وجہ سے اور ہمارے دوستوں سے عداوت رکھنے کی وجہ سے سو جب ایسا ہو تو حق و باطل مل جائے گا اور امر مشتبہ ہو جائے گا لہذا مومن اور منافق پہچان نہ سکیں گے


یہ روایات اہل تشیع کی کتب کی ہیں – ان میں اہم بات ہے کہ امام مہدی کا ذکر ہی نہیں حالانکہ امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر شیعہ اور سنی ایک ساتھ بیان کرتے ہیں- اہل تشیع نے اس کا حل نکالا کہ صرف امام مہدی کا ذکر کرو- دجال کی روایات وہ مجلس میں بیان نہیں کرتے اور اس میں ایک عام شیعہ کا تصور ہے کہ قرب قیامت میں صرف امام مہدی آئیں گے اور سنی ختم ہو جائیں گے صرف شیعہ رہ جائیں گے لیکن یہاں روایات میں ہے کہ اہل بیت کے دشمن دجال کی تمیز کھو دیں گے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے بعد انے والے دجال کے وقت تک اہل بیت کے دشمن ہوں- یہ تضاد ہے جو امام مہدی اور خروج دجال کے حوالے سے ان کی کتب میں پایا جاتا ہے

عصر حاضر کے شیعہ محققین اور شارحین نے ایک نئی شخصیت سفیانی کو دجال سے ملا دیا ہے – سفیانی ایک شخص بتایا جاتا ہے جو ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل سے ہے اس کا نام عثمان بن عنبسہ لیا جاتا ہے اور اس کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ روم سے آئے گا اس کا چہرہ سرخ اور انکھیں نیلی ہوں گی اور گلے میں صلیب ہو گی (صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص651۔ نعمانی، الغیبة، ترجمه: جواد غفاری، ص435۔ طوسی، الغیبة، بصیرتی، قم، ص278۔ مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص205) –

سفیانی کے لئے شیعہ کتب میں کچھ روایات میں ہے

وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» (مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199

سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ساتھ ہے


وعن بشير بن غالب قال: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم) (كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463

سفیانی بلاد روم سے مدد لے گا گلے میں صلیب ہو گی اور اس قوم میں سے ہو گا


السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254

سفیانی الله کی عبادت نہ کبھی کرے گا نہ مکہ دیکھے گا نہ مدینہ


یعنی سفیانی ایک نصرانی ہو گا اللہ کی عبادت نہ کرتا ہو گا اور روم کی مدد لے گا اور انہی میں سے ہو گا

یہ روایات الکافی کی نہیں ہیں – الکافی میں دجال سے متعلق اس قسم کی کوئی روایت نہیں

اس کے برعکس اہل سنت کے مطابق دجال ایک گھنگھریالے بال والا ہو گا اس کی شکل عربوں میں حجازیوں جیسی ہو گی اور ایک انکھ پھولنے والے انگور جیسی ابلی پڑ رہی ہو گی- گویا دجال اہل سنت بد صورت ہو گا اور دجال اہل تشیع کے ہاں نیلی آنکھوں والا رومیوں جیسا ( اغلبا حسین) ہو گا

اب ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل کے لوگ کب روم منتقل ہوئے الله کو پتا ہے اور وہاں سے ایک خالص عربی نام عثمان بن عنبسہ کے ساتھ اس کا خروج بھی عجیب بات ہے – دوم سفیانی کے گلے میں صلیب بھی ہے یعنی اگر سفیانی دجال ہے تو اہل تشیع کا دجال اب عیسائیوں میں سے ہے اور اہل سنت اس کو یہودی بتاتے ہیں یہ بھی اختلاف اہم ہے

سفیانی کی حقیقت – کتب شیعہ میں

تاریخ کے مطابق السفیانی سے مراد يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان جو معاویہ رضی الله عنہ کے پڑ پوتے ہیں انہوں نے دمشق میں بنو امیہ کے آخری دور میں خروج کیا-

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٦٤ – ٢٦٥

عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن عثمان بن عيسى ، عن بكر بن محمد ، عن سدير قال : قال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : يا سدير ألزم بيتك وكن حلسا من أحلاسه واسكن ما سكن الليل والنهار فإذا بلغك أن السفياني قد خرج فارحل إلينا ولو على رجلك


أبي عبد الله ( عليه السلام ) نے کہا اے سدير اپنے گھر میں رہو .. پس جب السفیانی کی خبر آئے تو ہمارے طرف سفر کرو چاہے چل کر آنا پڑے


تبصرہ السفیانی سے مراد ایک اموی ہیں جو ابو سفیان رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پڑ پوتے ہیں. تاریخ الیعقوبی از الیعقوبی المتوفی ٢٨٤ ھ کے مطابق

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة ١٣٣ ھ

اور ابو محمد السفیانی کا خروج ہوا اور وہ ہیں اور یہ سن ١٣٣ ھ میں ہوا- امام جعفر المتوفی ١٤٨ ھ کے دور میں السفیانی کا خروج ہو چکا تھا

السفیانی کا خروج ہو گیا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٠٩

علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن محبوب عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : لا ترون ما تحبون حتى يختلف بنو فلان فيما بينهم فإذا اختلفوا طمع الناس وتفرقت الكلمة وخرج السفياني


أبي عبد الله ( عليه السلام ) نے کہا کیا تم دیکھتے نہیں جو تم کو پسند ہے کہ بنو فلاں میں جو ان کے پاس ہے اس پر اختلاف ہوا ، پس جب اختلاف ہوا لوگوں کا لالچ بڑھا اور وہ بکھر گئے اور السفیانی کا خروج ہوا


تبصرہ بنو فلاں سے مراد بنو امیہ ہیں جن میں آپس میں خلافت پر پھوٹ پڑھ گئی تھی. امام جعفر کے مطابق السفیانی کا خروج ہو گیا ہے یہ دور ١٢٦ سے ١٣٣ ھ کا ہے

السفیانی کو قتل کر دیا جائے گا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٣٣١

حميد بن زياد ، عن أبي العباس عبيد الله بن أحمد الدهقان ، عن علي ابن الحسن الطاطري ، عن محمد بن زياد بياع السابري ، عن أبان ، عن صباح بن سيابة عن المعلى بن خنيس قال : ذهبت بكتاب عبد السلام بن نعيم وسدير وكتب غير واحد إلى أبي عبد الله ( عليه السلام ) حين ظهرت المسودة قبل أن يظهر ولد العباس بأنا قد قدرنا أن يؤول هذا الامر إليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الأرض ثم قال : أف أف ما أنا لهؤلاء بإمام أما يعلمون أنه إنما يقتل السفياني


جب (بنو عبّاس سے پہلے) المسودہ ظاہر ہوئے (ابو عبدللہ سے بذریعہ خط ان کی رائے پوچھی گئی تو) انہوں نے خط زمین پر پھینک دیا پھر أبي عبد الله ( عليه السلام ) نے کہا اف اف کیا میں ان لوگوں کے نزدیک امام نہیں، کیا ان کو پتا نہیں کہ یہی تو السفیانی کو قتل کریں گے


تبصرہ حاشیہ میں المسودہ سے مراد أصحاب أبي مسلم المروزي لکھا ہے جو درست ہے ابو مسلم خراسانی کالے کپڑے اور کالے پگڑیاں باندھ کر نکلے تھے .امام جعفر کا گمان درست ثابت ہوا السفیانی کو قتل کیا گیا

المھدی کا اعلان

بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص٨٤ میں روایت ہے ، ابوبصیر ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں

راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟


امام جعفر صادق:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے


ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی سفیانی کاخروج ہوگا ، خراسانی کا خروج ہوگا، نفس ذکیہ کاقتل ہوگا بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔


راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟


امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی-


تبصرہ ابو مسلم خراسانی کا خروج ہو گیا اور محمّد بن عبدللہ المھدی نفس الزکیہ کا بھی خروج ہو چکا. ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رویوں کا گمان تھا کہ حسین کی نسل سے المہدی ظاہر ہونے والا ہے- لیکن دو نشانیاں رمضان میں آسمان سے نداء اور بیدا میں زمین کا دھنسنا نہیں ہوا-

یہ تمام نشانیاں ایک ساتھ ظاہر ہونی تھیں لیکن نہیں ہوئیں

سفیانی کو اہل تشیع کا اب دجال کہنا سراسر غلط ہے اور اوپر والی روایت کو جو دجال سے متعلق تھیں ان میں زبر دستی اپنی رائے کو شامل کرنے کے مترادف ہے

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية


عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية نام کے ابو سفیان رضی الله عنہ کے ایک پوتے تھے جو اپنے زمانے میں ایک معتدل شخصیت تھے اور قبول عامہ ایسی تھی کہ لوگ ثآلث مقرر کرتے تھے

ابن حزم نے کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھا ہے

أراد أهل الأردن القيام به باسم الخلافة، إذ قام مروان: أمه زينب بنت الزبير بن العوام


اہل اردن نے ارادہ کیا تھا کہ مروان کے قیام (خلافت) پر ان کے نام پر خلافت قائم کرنے کا – ان کی والدہ کا نام زينب بنت الزبير بن العوام ہے


کتاب نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق کے والد عنبسة بن عمرو بن عثمان بن عفان ہیں

اغلبا شیعان کو خطرہ تھا کہ کہیں اہل اردن (جن میں ممکن ہے عیسائی ہوں ) کہیں اس شخص کے لئے خلافت قائم نہ کر دیں – یہ ابو سفیان رضی الله عنہ کی اولاد میں سے بھی ہیں لہذا اس بنیاد پر عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية کے خلاف روایات بنا دی گئیں –
عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية تو انتقال کر گئے لیکن روایات شیعوں کے پاس رہ گئیں

عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت مکہ سے بصرہ تک تھی اور عبد الملک کی شام میں دونوں میں رابطہ کے فرائض عثمان بن عنبسة انجام دیتے تھے کیونکہ عثمان بن عنبسة دونوں کے رشتہ دار تھے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ عثمان بن عنبسة کے ماموں تھے

یعنی اہل تشیع جس السفیانی کا انتظار کر رہے ہیں وہ گزر چکا ہے چاہے يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہوں یا عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية ہوں

الله ہم سب کو ہدایت دے


حوالہ
 

syedibrahim

مبتدی
شمولیت
مارچ 19، 2017
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
محترم مکرم حضرات السلام علیکم ورحمة الله تعالى بركاته ایک مسئلہ کے بارے میں سؤال کرنا چاہتا ہوں امید ہے میرے اس اشکالات کی جواب دیجئے

ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﭘﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﻋﻈﯿﻢ
ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮ ﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﮦ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﯾﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺴﺐ
ﻧﺎﻣﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ : ” ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﻭﻟﺪ ﻧﻘﯽ ﻋﻠﯽ ﻭﻟﺪ ﺭﺿﺎ ﻋﻠﯽ ﻭﻟﺪ ﮐﺎﻇﻢ
ﻋﻠﯽ “
ﺁﻧﮑﮫ ﻭﺍﻻ ﺗﯿﺮﮮ ﺟﻠﻮﻭﮞ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺩﯾﺪﮦ ﮐﻮﺭ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﺁﺋﮯ ﻧﻈﺮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮫ

ﺍﺱ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﺎ
ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻧﺴﺐ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ :
” ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﺍﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﻘﯽ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﮞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺭﺿﺎ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﮞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﺤﻤﺪﮐﺎﻇﻢ ﻋﻠﯽ
ﺧﺎﮞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺷﺎﮦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﺧﺎﮞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ
ﺳﻌﺎﺩﺕ ﯾﺎﺭ ﺧﺎﮞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﷲ ﺧﺎﮞ ﺭﺣﻤﺔ ﺍﷲ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ “
‏( ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺕ، ﺟﻠﺪ ﺍﻭّﻝ، ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﺭﺿﻮﯾﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﺑﺎﻍ
ﮐﺮﺍﭼﯽ، ﺹ۲ ‏)
ﮐﯿﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﯾﻦ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪﯾﻦ، ﺍﻣﺎﻡ، ﺟﻌﻔﺮ ﺻﺎﺩﻕ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﻮﺳﯽٰ ﮐﺎﻇﻢ،
ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﺎ، ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻘﯽ ﺭﺣﻤﮩﻢ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﺷﯿﻌﮧ
ﺗﮭﮯ؟ ، ﻻﺣﻮﻝ ﻭﻻ ﻗﻮﺓ ﺍﻻ ﺑﺎﷲ
ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﻭﮨﺎﺑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﮐﺎﺑﺮﻋﻠﻤﺎﺀﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮﮞ ،ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ‏( ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ‏) ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﻮﺍﺏ
ﺻﺪﯾﻖ ﺣﺴﻦ ﺑﮭﻮﭘﺎﻟﯽ ‏( ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ‏) ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺑﭩﺎﻟﻮﯼ
‏( ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ‏) ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﯿﺪ ﺷﺮﯾﻒ ﺣﺴﯿﻦ ،ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮈﭘﭩﯽ ﺳﯿﺪ
ﺍﺣﻤﺪ ﺣﺴﻦ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﯿﺪ ﺍﻣﯿﺮ ﺣﺴﻦ ﺳﮩﺴﻮﺍﻧﯽ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﺒﻂ
ﺍﺣﻤﺪ ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺣﮑﯿﻢ ﻣﻈﮩﺮ ﻋﻠﯽ ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﺤﻤﺪ ﺗﻘﯽ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﯿﺪ
ﻋﻠﯽ ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﯿﺪ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﺴﻦ ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﻮﺍﺏ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺣﺴﻦ
ﺑﮭﻮﭘﺎﻟﯽ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﯿﺪ ﺣﯿﺪﺭ ﻋﻠﯽ، ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺧﺮﻡ ﻋﻠﯽ ﺑﻠﮩﻮﺭﯼ ،
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﺮﺯﺍ ﺣﺴﻦ ﻋﻠﯽ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ۔
‏( ﺗﺮﺍﺟﻢ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﻨﺪ، ﺍﺯ ﺍﺑﻮ ﯾﺤﯽٰ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﺎﮞ ﻧﻮﺷﮩﺮﻭﯼ،
ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﭨﺮﺳﭧ، ﮐﺮﺍﭼﯽ، ﺹ۳ ﺗﺎ ۳۱ ‏)
ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺷﯿﻌﮧ ﺗﮭﮯ؟ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﻮﮞ؟
” ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ “ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ ۵۶ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺩﺭﺝ
ﮨﮯ : ” ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﯽٰ ﺍﻟﺮﺿﺎ ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺍﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ
ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ “
ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﺑﻮ ﺻﻠﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻟﻮﻗﺮﯼﺀﮬﺬﺍ ﺍﻻﺳﻨﺎﺩ ﻋﻠﯽ
ﻣﺠﻨﻮﻥ ﻟﺒﺮﺍً ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺳﻨﺪ ﮐﻮ ﺍﮔﺮﮐﺴﯽ ﻣﺠﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺟﻨﻮﻥ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔ ‏( ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﷲ ‏)
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﺌﮯ ، ﺍﻥ ﺟﮩﻼﺋﮯ ﻭﮬﺎﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﺪ ﺑﺨﺘﯽ ﮐﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ
ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ
ﺍﺳﻤﺎﺀﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﻮ ﯾﮑﺠﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻧﺎ ﷲ ﻭﺍﻧﺎ ﺍﻟﯿﮧ ﺭﺍﺟﻌﻮﻥ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@syedibrahim صاحب! پہلے تو آپ کسی اہل الحدیث عالم کتاب یا تقریر سے اس بات کا ثبوت پیش کریں کہ صرف اسی بناء پر آپ کے امام احمد رضا خان بریلوی کےشیعہ ہونے کا حکم لگایا ہو!

” ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ “ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ ۵۶ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺩﺭﺝ
ﮨﮯ : ” ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﯽٰ ﺍﻟﺮﺿﺎ ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺍﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ
ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ “
ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﺑﻮ ﺻﻠﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻟﻮﻗﺮﯼﺀﮬﺬﺍ ﺍﻻﺳﻨﺎﺩ ﻋﻠﯽ
ﻣﺠﻨﻮﻥ ﻟﺒﺮﺍً ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺳﻨﺪ ﮐﻮ ﺍﮔﺮﮐﺴﯽ ﻣﺠﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺟﻨﻮﻥ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔ ‏( ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﷲ ‏)
اس ابو صلت کے بارے میں جان لیں:
عبد السلام بن صالح أبو الصلت الهروي کذاب ہے۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
عبد السلام بن صالح أبو الصلت الهروي كان رافضيا خبيثا[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 70]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
كان خبيثا رافضيا۔۔۔۔متهم [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 12/ 315 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
أبو الصلت عبد السلام بن صالح كذاب[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 260]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
واه شيعي متهم مع صلاحه[الكاشف للذهبي: 1/ 653]۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى:963)نے کہا:
عبد السلام بن صالح أبو الصلت الهروى اتهمه بالكذب غير واحد[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 79]۔
(بشکریہ شیخ @کفایت اللہ )
اب کسی کذاب، شعیہ رافضی کا عقیدہ احمد رضا خان بریلوی اور احمد رضا خان بریلوی کے پیروکاروں کو مبارک ہو!
یہ ان وجوہات میں سے ہے کہ جس کی بنا پر احمد رضا خان بریلوی کے شیعہ ہونے کا گمان ہوتا ہے!
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﺌﮯ ، ﺍﻥ ﺟﮩﻼﺋﮯ ﻭﮬﺎﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﺪ ﺑﺨﺘﯽ ﮐﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ
ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ
ﺍﺳﻤﺎﺀﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﻮ ﯾﮑﺠﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻧﺎ ﷲ ﻭﺍﻧﺎ ﺍﻟﯿﮧ ﺭﺍﺟﻌﻮﻥ
دیکھیں جناب! جہالت تو آپ کی اسی مراسلہ میں ثابت ہو گئی ہے، کہ ایک کذاب شیعہ رافضی شخص کے قول کو رد کرنے کو بدبختی قرار دے رہے ہو؛
معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نہ ابو الصلت کے بارے میں کچھ معلوم ہے، اور نہ ہی جاننے کی کوشش کی گئی ہے، جہالت آپ کی اپنی ہے اور دوسروں کو کوسنے دینا! اس سے بھی بڑھی جہالت ہے!
ایک بات آپ نے یہ کہی کہ یہ ابو الصلت ، امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کے دادا استاد ہیں!
ویسے یہاں ''استاد'' کا لفظ استعمال کرنا آپ کی ''استادی'' ہے، کہ استاد کے عمومی معنی کا تاثر دے کر ابو الصلت کی تعریف بیان کی جائے، تو یاد رہے یہاں استادی شاگردی کا عمومی معنی نہیں ہے، بلکہ یہ روایت کے راوی ہیں۔
دوم کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ''استاد'' جابر جعفی جیسے کذاب بھی ہیں، کہ امام ابو حنیفہ نے خود اسے کذاب کہا ۔

ویسے ایک بات بتلائیے، اس تھریڈ کا عنوان تو ہے:
''اہل تشیع اور دجال''
اب آپ کے امام احمد رضا خان ان میں سے کون ہیں؟ کہ آپ نے اس تھریڈ میں اپنے امام احمد رضا خان کی صفائیاں پیش کرنا شروع کردیں!
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
” ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ “ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ ۵۶ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺩﺭﺝﮨﮯ : ” ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﯽٰ ﺍﻟﺮﺿﺎ ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺍﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﻋﻦ ﺍﺑﯿﮧ ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ “ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﺑﻮ ﺻﻠﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻟﻮﻗﺮﯼﺀﮬﺬﺍ ﺍﻻﺳﻨﺎﺩ ﻋﻠﯽﻣﺠﻨﻮﻥ ﻟﺒﺮﺍً ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺳﻨﺪ ﮐﻮ ﺍﮔﺮﮐﺴﯽ ﻣﺠﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎﺟﻨﻮﻥ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ- ‏( ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﷲ ‏)

فی الحال میری مشکل یہ هیکہ اس حدیث کے بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام هے ہی نہیں ، یعنی فلان فلان عن علی هے تو میرا سوال یہ هیکہ اللہ اور اللہ کے رسول کے نام کے بغیر ، کسی کا جنون کیسے دور هوجائیگا؟ دوسرا "اشکال" یہ هیکہ قال علی رضی اللہ عنہ کو ابن ماجہ کے دادا نے حدیث کسطرح لکهدیا ؟
ذرا وضاحت کر دیں تا وقتیکہ علماء آپکے اشکالات پر رقم طراز هوں!!
صرف سند پڑهنے سے جنون دور هوجائیگا تو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑهنے اور سمجهنے اور سب سے بڑهکر اللہ کی کتاب ، جو کہ هے ہی مکمل شفاء کے بارے میں آپکا کیا خیال هے ؟
ویسے خوش قسمت هونکہ آپ نے بدبختوں میں شمار کیا ۔ یہ سند اعزاز هے ۔
شکریہ سند عطاء کرنے کا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد طارق عبداللہ بھائی! یہ اس کی سند تک ہی رہیں گے،اس حدیث کا متن قبول نہیں کرسکتے، کہ وہ احناف کے ایمان کی تعریف کے خلاف ہے!
یعنی کہ پھر تو انہیں خود کو مرجئی تسلیم کرنا پڑ جائے گا!
یہ حدیث سند و متن کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ» قَالَ: أَبُو الصَّلْتِ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الْإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَبَرَأَ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘ ایمان نام ہے دل سے ( اللہ کی) معرفت کا، زبان سے اقرار اور( جسم کے) اعضاء کے ساتھ ( اس کے مطابق) عمل کرنے کا۔’’ ابو صلت نے کہا: اگر یہ سند کسی مجنون پر پڑھی جائے تو وہ تندرست ہو جائے۔
حکم : موضوع
سنن ابن ماجہ: کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت»»باب: ایمان سے متعلق احکام ومسائل
 

syedibrahim

مبتدی
شمولیت
مارچ 19، 2017
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
اللہ تعالی آپ سب حضرات کو جزاء خیر عطا کرے آپ سب کا شکریہ میں نے یہ اعتراض نہیں کیا میں صرف سائل ہوں

اس پر مزید جواب ہے تو دیجئے
 
Top