وہ مکالمہ اگلی پوسٹ میں ملاحظہ کریں
حرب بن شداد
1.ممبر بھائی کی پوسٹ
اقتباس:(کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟)
محترم بھائی ۔ یہ آپ کہاں کفر اور شرک کے چکروں میں پھنس گئے ۔ میری رائے میں آپ کو اس ٹاپک سے دور ہی رہنا چاہے ۔ یہ آپ کا کام نہیں ۔ یہ کام علماء کرام کا ہے اور وہ علماء جو اس موضوع پر سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ اپنے ردود کا محور صرف مسالک کو ہی بنائیں تو بہتر ہے ۔
صرف اتنا کہوں گا کہ جس چیز کو ثابت کرنے کے لیے آپ نے جن کتب سے حوالے دیے ہیں، ان میں سے چند کتب پراور ان کے مصنفین پر علماء کی جرح موجود ہے ۔ ان کتب کے رد بھی لکھے گئے ۔ لہذا اس مسئلے کو علماء کرام کے پاس ہی رہنے دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا۔
2.عبدہ کی پوسٹ
محترم ------ بھائی میں نے حال ہی میں فورم جوائن کیا ہے مگر آپ کا یہ تھریڈ کافی پہلے پڑھ چکا تھا اس ٹاپک پر میرے محترم ممبر بھائی نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ سے دور ہی رینا چاہیے تو ہو سکتا ہے ان کو اس بارےمجھ سے زیادہ تجربہ رکھتے ہوں اور ان کی بات ٹھیک ہوکہ ایسی باتوں سے معاملات بگڑتے ہیں ان کو بڑے علمإ تک ہی محدود رکھیں تو بہتر ہے
البتہ میں اپنا ایک تجربہ سامنے رکھنا چاہوں گا وہ یہ کہ چونکہ ہم لوگ کچھ معاملات میں چونکہ دلائل میں موازنہیں کر سکتے تو پھر ویاں پر اسلام یہ نہیں کہتا کہ ہم بیٹھ جائیں بلکہ اھل ذکر سے پوچھ کر معاملہ کرنے کا حکم ہے چناچہ میں مولانا امین اللہ پشاوری سے ان کے علم اور تقوی کی وجہ سے کافی متاثر ریا ہوں اس لئے ان معاملات میں ان کی پیروی کرتا تھا مگر مجھے یہ علم نہیں تھا کہ کوئی بڑا عالم بھی مشرک کے ذبیحہ کو اس طرح حرام سمجھتا ہے مگر کچھ عرصہ پہلے اس تھریڈ سے مجھے بہت کچھ جاننے کو ملا
باقی اب میرا تو عقیدہ اور عمل یہی ہے مگر مشرک کے ذبیحہ کو حرام نہ سمجھنے والوں کو بھی میں اپنی جگہ صحیح سمجھتا ہوں کہ ان کو جس طرح سمجھ آئی انھوں نے کیا
محترم ----- بھائی اور محترم ممبر بھائی اگر میری کوئی اصلاح ہو تو فرما دیں
3.ممبر بھائی کی پوسٹ
اقتباس:(عبدہ نے لکھا ہے ۔۔محترم------- بھائی میں نے حال ہی میں فورم جوائن کیا ہے مگر آپ کا یہ تھریڈ کافی پہلے پڑھ چکا تھا اس ٹاپک پر میرے محترم عکاشہ بھائی نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ سے دور ہی رینا چاہیے تو ہو سکتا ہے ان کو اس بارےمجھ سے زیادہ تجربہ رکھتے ہوں اور ان کی بات ٹھیک ہوکہ ایسی باتوں سے معاملات بگڑتے ہیں ان کو بڑے علمإ تک ہی محدود رکھیں تو بہتر ہے)
اردو مجلس پر خوش آمدید ۔ اس حسن ظن کے لیے شکریہ ۔
اقتباس:(البتہ میں اپنا ایک تجربہ سامنے رکھنا چاہوں گا وہ یہ کہ چونکہ ہم لوگ کچھ معاملات میں چونکہ دلائل میں موازنہیں کر سکتے تو پھر ویاں پر اسلام یہ نہیں کہتا کہ ہم بیٹھ جائیں بلکہ اھل ذکر سے پوچھ کر معاملہ کرنے کا حکم ہے)
کچھ معاملات میں اہل علم سے پوچھ کر معاملہ کرنے کا حکم ہے لیکن تجربہ کی بنیاد پر کسی ایسے شخص پر جسے آپ کافر اور مشرک سجھتے لگے ہوں معین کرکے''حُکَم'' نہیںلگایا جا سکتا ہے ۔ یہ کام صرف علماء کرام کا ہے کہ وہ حجت قائم کرنے کے بعد ایسا کریں ۔ اگر کوئی جاہل ایسا خود سے کرے جو خود کسی عالم کا مقلد ہے اگرچہ وہ اہل حدیث ہی کیوں نہ ہو توایمان کا کچھ نہ کچھ حصہ ضائع ہونے کا خطرہ رہتا ہے ۔
اور یہی بات محترم-------- بھائی سے کہی تھی کہ جن کتب کا انہوں نے حوالہ دیا ہے ان میں سے بعض کتابوں پر انہی کے ہم مسلک علماء کا رد موجود ہے ۔لہذا وہ ایسے معاملات کو جید علماء کے لیے چھوڑ دیں ۔ دعوت دین کی تبلیغ کے لیے ضروری نہیںکہ دین کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑائی جائے ، بعضمسائل کو علماء پر چھوڑدینا چاہے۔
4.عبدہ کی پوسٹ
محترم ممبربھائی آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ اگر ہم ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے لگ گئے تو اہل قرآن کی طرح ایک ایک معاملے کی ہزاروں تفسیریں سامنے آ جائیں گی اور لوگوں کو حق تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا خصوصا آج کے اس دین سے نابلد معاشرے میں-
میں اصل میں غلطی سے ہر معاملے کے لئے یہ لکھ گیا کہ ہمیں اعلی علم والے سے ہر بات پوچھ کر عمل کرنا ہے اور بیٹھا نہیں رہنا مگر شاہد مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ اس طرح کے خطرناک معاملے میں جب انتہائی شرعی ضرورت ہو تو بھر عام آدمی کو کسی سلفی عالم کی مدلل بات پر اعتبار کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے مثلا میں نے بہن کی شادی کرنی ہے تو ایک آدمی دین اور دنیا کے لحاظ سے ہر طرح ٹھیک ہے مگر بے نمازی ہے اب اگر بے نمازی کو اگنور کر دیں تو نبی صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق مجھے فورا رشتے کی ہاں کرنی چاہئے مگر اب میں علمإ سے دلائل پوچھوں گا اور اگر علمإ عرب کے دلائل راجح لگیں گے تو رشتہ نہیں دوں گا ورنہ دے دوں گا- اب یہاں پر انتہائی مجبوری ہے کسی ایک علمإ کے گروہ کے فتوی پر عمل کرنا لازمی ہے اسی طرح اور انتہائی مجبوری کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مجھے یہ اختیار ملا ہے کہ کسی کا حج کے لئے پاسپورٹ منظور کروں یا نہ کروں تو مجھے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث نظر آتی ہے کہ اخرجوا المشرکین من جزیرۃ العرب اور قران کا حکم کہ لا تقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا تو پھر مجھے مزاروں پر شرک کرنے والے کلمہ گو مشرکوں کے بارے عملمإ کے دو گرویوں سے ایک کا مدلل دلائل کی بنیاد پر انتخاب کرنا ہو گا کہ آیا یہ اس حکم میں آتے ہیں کہ نہیں
اب آپ کے مطابق وہ گروہ ٹھیک ہے جو ان کا حکم مکہ کے مشرکوں جیسا سمجھتا ہے تو پھر آپ کو دینا کے اختیار کو اللہ کے حکم کے لئے استعمال کرنا ہو گا ورنہ قیامت میں اللہ پوچھے گا اور اگر آپ کے مطابق جو گروہ ان کا حکم مسلمان کا سمجھتا ہے وہ ٹھیک ہے تو آپ کو ان کو حج کی لازمی اجازت دینی ہو گی ورنہ آپ نیک کام سے روکنے والے بن جائیں گے
تو میرے خیال میں صرف چند صورتوں میں تو ان خطرناک صورتوں میں بھی ہمیں اپنی پوری کوشش سے اجتھاد کرتے ہوئے عمل کرنا لازمی ہو گا ورنہ اکثر موقعوں پر اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں کہ وہ کافر ہے کہ نہیں
البتہ جو بات زہن میں رکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں گروہ اپنی جگہ بھائی ہیں جب تک وہ توحید و سنت پر ہیں ہمیں مشرکوں کافروں وغیرہ کیلئے آپس میں نہیں لٹنا چاہیے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے والذین کفروا بعضھم اولیإ بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر کہ کافر جس طرح اکٹھے ہیں ہم بھی اکٹھے ہوں ورنہ فساد بڑھے گا ایک دوسرے کی بات ٹھنڈے دل سے سنیں واللہ اعلم
5.ممبر بھائی کی پوسٹ
) یعنی جس چیز کو میں اگنور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، اسی کو آپ تاویلات سے جائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقصد فتوٰی کے لئے راہ تلاش کرنا ہے ۔ اورپھردعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں۔
اقتباس:(مگر شاہد مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ اس طرح کے خطرناک معاملے میں جب انتہائی شرعی ضرورت ہو تو بھر عام آدمی کو کسی سلفی عالم کی مدلل بات پر اعتبار کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے)
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا شارع علیہ السلام نے آپ کو اس کا مکلف کیا ہے ۔ اگر ہاں تو قرآن وحدیث اور سلف سے ثابت کریں ؟
6.عبدہ کی پوسٹ
محترم ممبر بھائی شاہد میری کم علمی کی وجہ میری باتیں آپ کو تاویلات لگی ہوں ورنہ واللہ میرا مقصد تاویلات کرنے کا نہیں تھا اگر آپ کو لگا ہے تو میں معذرت کرتا ہوں میں پھر کوشش کرتا ہوں کہ کچھ بہتر طریقے سے کہوں
آپ نے قرآن و سنت کا حوالہ پوچھا ہے تو میرے خیال میں ہم آخرت کے لیے جو عمل کرتے ہیں ان کا حکم دو طرح سے ملتا ہے ایک ڈائریکٹ جیسے نماز پڑھنا کہ حکم ہے نماز پڑھو دوسرا انڈائریکٹ جیسے ایٹم بم بنانا کہ اس کا حکم تو نہیں ملے گا مگر واعدوا لھم ماستطعتم کے حکم پر عمل کرنے کے لئے ایٹم بم بنانا وسیلہ ہے جیسے مالک غلام کو کہتا ہے کہ پانی پلاؤ تو غلام گلاس ڈھونڈے گا پھر ٹوٹی کھولے گا حالانکہ اس کا حکم مالک نے نہیں دیا مگر ان پر عمل کے بغیر وہ پانی نہیں پلا سکتا اسی کے تحت نحو کا علم حاصل کیا جاتا ہے جس کو بریلوی مناظرے میں بدعت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ من عمل عملا لیس علیہ امرنا کے تحت نہیں آتی کیونکہ ولقد یسرنا القران للذکر کے تحت ہمیں قران کو سمجھنے کے لیے اس کی ضرورت ہے تو جس طرح گلاس کے بغیر پانی نہیں لا سکتے اسی طرح اس کے بغیر قران نہیں سمجھ سکتے اسی طرح اسمإ الرجال کا علم بھی بدعت نہیں کہ بہت سی آیات و احادیث میں بالواسطہ حکم موجود ہے مثلا ان جإکم فاسق اور من کذب علی متعمدا اور بلغو عنی ولو ایہ کے تحت-
اسی طرح ایک کلمہ گو مرتا ہے تو اللہ کا حکم ہے ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین کے حکم پر عمل کرنے کے لئے مجھے پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا یہ اسی طرح کا مشرک ہے یا نہیں ورنہ اس آیت پر عمل معلق ہو جائے گا اسی طرح کا معاملہ میں نے اپنی پہلی پوست میں لکھا تھا کہ اخرجوالمشرکین من جزیرۃ العرب پر عمل بھی اسی چیز کے ساتھ معلق ہے
میں چونکہ نیا اھل حدیث ہوا ہوں اس لیے معلومات کم ہیں مگر جستجو زیادہ ہے دلائل کا متمنی مگر لڑائی سے کوسوں دور- اسلیے میری محترم ممبر بھائی اور باقی علمإ بھایئوں سے بھی گزارش ہے کہ میری رینمائی کرتے رہیں
7.ممبر بھائی کی پوسٹ
میں نے جو سوال کیا تھا ، اس کا جواب دینے سے آپ کی رہنمائی ہو سکتی تھی ۔ لیکن آپ بھی شاید خیال پر عمل کرنا چاہتے ہیں-اگرآپ نے مزید اس موضوع پر گفتگوکرنی ہے تومیرے کیے گئے سوال کا جواب دیں ۔
اقتباس:(میں چونکہ نیا اھل حدیث ہوا ہوں اس لیے معلومات کم ہیں مگر جستجو زیادہ ہے دلائل کا متمنی مگر لڑائی سے کوسوں دور- اسلیے میری محترم ممبر بھائی اور باقی علمإ بھایئوں سے بھی گزارش ہے کہ میری رینمائی کرتے رہیں)
نئے اہل حدیث کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے علمائے کرام کے پاس جا کر دین کا علم حاصل کرے ، اس کے لیے یہ مسائل جاننا ضروری نہیں۔
8.عبدہ کی پوسٹ (جو حذف کر دی گئی)
محترم بھائی میں شاہد سمجھا نہیں سکا دوبارہ سمجھانا چاہوں گا کہ ایک انسان کو پتا ہے کہ سود حرام ہے کوئی اس سے بڑا عالم/استاد سود کے بارے پوچھتا ہے کہ تو وہ کہتا ہے استاد جی میرے خیال میں قران میں آتا ہے کہ واحل اللہ البیع و حرم الربا تو جو اس نے میرے خیال میں کے الفاظ کہے ہوتے ہیں وہ استاد کے احترام اور اس کے علم کے اعتراف میں کہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں میں جو اس آیت سے سمجھا ہوں وہ اس کا مقصود بھی ہے یا نہیں ورنہ قران کی آیت تو وہ پیش کر رہا ہوتا ہے واللہ میرے بھائی میں آپ کو استاد سمجھ کر ہی پوچھ رہا تھا اسلئے میرے خیال کے الفاظ استعمال کیے ورنہ میں نے آگے قران کی آیت ہی تو لکھی تھی کہ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین اور پوچھا تھا کہ آجکل کے کلمہ گو مشرک کی میت جنازے کے لئے سامنے پڑی ہو تواس آیت پر عمل معلق رکھنا ہے یا کرنا ہے اگر کرنا ہے اور یقینا کرنا ہے تو کیا علمإ کے دو گروہوں میں سے ایک کا انتخاب نہیں کرنا پڑے گا کہ آیا یہ مشرکین مکہ کی طرح ہے یا نہیں
دوسرا میرے بھائی آپ نے کہا کہ نئے اہل حدیث کو پہلے دین کا علم حاصل کرنا ہے مسائل جاننا ضروری نہیں تو میں اسکے لئے ایک مثال دیتا ہوں کہ میں انڈیا میں ہوں اور میں نے گوشت خریدنا ہے ایک ٓدمی کہتا ہے کہ یندو سے نہ لینا کیوں کہ اس کا ذبیحہ حرام ہے تو میں نے ایک عالم سے پوچھا کہ کیا ہندو کافر ہے اب اگر وہ جواب دے کہ تم پہلے دین اسلام سیکھو ان مسائل کو علماء تک رہنے دو تو میری سمجھ میں نہیں ٓتا کہ میں نے تو دین اسلام کی ہے بات پوچھی ہے جو فوری مجھے پیش آئی ہے اس میں کیا مجبوری ہے
ویسے میں آپ کو استاد سمجھتے ہوئے آپ کے حکم پر عمل کرتا ہوں کہ اب جب تک آپ حکم نہیں دیں گے آپ کو جواب نہی ںدوں گا
9.------ بھائی کی پوسٹ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
اس مضمون کو لکھنے کا پس منظر اور محرک میری جستجو ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کافر پر کفر کا حکم لگانے کے سلسلے میں علمائے کرام کے متضاد خیالات سے میں بے چین اور پریشان تھا کچھ علماء کفر اور شرک کے مرتکب پر کافر اور مشرک ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں اور کچھ نہیں چاہے وہ شخص کفراکبر اور شرک اکبر ہی میں مبتلا کیوں نہ ہو۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے میں نے نہ صرف علماء سے گفتگو کی بلکہ خود متعلقہ کتب کا بغور مطالعہ کیا اور اس تحقیق کے ذریعے میں جس نتیجہ پر پہنچا اسے میں نے مضمون کی شکل میں پیش کردیا۔ لیکن پیش کرنے سے پہلے ایک مستند عالم دین سے اس پر نظر ثانی کروالی تاکہ غلطی کی گنجائش نہ رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے مضمون میں جو موقف اپنایا ہے انتہائی محتاط ہے اور کسی بھی شخص کے لئے اس سے انکار ممکن ہے۔ اس مضمون کا مکمل اور بغور مطالعہ اس کے لئے شرط ہے۔ اکثر بھائیوں نے میرے مضمون پر جو اعتراضات قائم کئے ہیں اسکی وجہ انکا مضمون کو سرسری انداز میں دیکھنا یا کچھ مقامات کا مطالعہ کرلینا اور کچھ مقامات کو چھوڑ دینا ہے۔
جہاں تک محترم ممبر بھائی کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ میں نے بعض ایسی کتب کے بھی حوالے دئے ہیں جن پر علمائے اہل حدیث نے نقد کیا ہے۔ تو اس بات کو میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایک دو کتب متنازعہ ہیں لیکن ان متنازعہ کتب سے میں نے جو عبارات نقل کی ہیں انکی تائید میں دوسری ایسی کتابوں اور علماء کے فتوے بھی پیش کئے ہیں جو متفق علیہ ہیں۔ مطلب یہ ہے متنازعہ کتب سے میں نے صرف غیرمتنازعہ عبارات ہی پیش کی ہیں۔
اس مضمون کے منظر عام پر آنے کے بعدممبر بھائی جیسے دیگر مخلص بھائیوں اور علماء نے بھی مجھے نصیحت کی کہ میںاس معاملہ میں نہ پڑوں اسی لئے میں اس پر مزید بحث سے احتراز کیا ہے۔
10.------ بھائی کی پوسٹ
اقتباس:(ممبر بھائی نے لکھا ہے ۔۔
: ) یعنی جس چیز کو میں اگنور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، اسی کو آپ تاویلات سے جائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقصد فتوٰی کے لئے راہ تلاش کرنا ہے ۔ اورپھردعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں۔)
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا شارع علیہ السلام نے آپ کو اس کا مکلف کیا ہے ۔ اگر ہاں تو قرآن وحدیث اور سلف سے ثابت کریں ؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
قرآن مجید حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے ہی نازل ہوا ہے۔ اس لئے ہر مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ کفرو شرک اور توحید میں فرق کرے اور جانے۔ ورنہ بہت ممکن ہے کہ کفر اور توحید میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے وہ خود کفر اور شرک میں جاپڑے اسی طرح ہر مسلمان کو کافرو مشرک اور مومن و موحد میں تمیز کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ کافروں سے کافروں والا اور مومنوں سے مومنوں والا معاملہ کرے۔ مطلب یہ کہ مومنوں سے دوستی رکھے اور کافروں سے براءت کا اظہار کرے جو کہ شریعت کو مطلوب ہے اور اسکے برعکس کرکے اللہ کے غضب کو دعوت نہ دے۔ اور اسکے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کون کافرو مشرک ہے اور کون مومن؟