• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل تشیع کی خدمت میں

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پیش لفظ

ایک شیعہ مجلہ ’افکار العارف‘ کے مئی ٢٠١١ء کا شمارہ دیکھا تو اس میں جناب عباس مرتضی کا سعودی حکمرانوں ، سلفیہ اور پاکستانی اہل الحدیث کے بارے غم وغصے،بے جا اعتراضات اور تنقید اور سوئے ظن کا اظہار دیکھ کر افسوس ہوا۔عرصہ ہوا راقم نے ماہنامہ محدث جون ٢٠٠٧ء کے شمارہ میں ایک مضمون اس وقت اہل تشیع کے جناب حافظ طاہر الاسلام عسکری صاحب کے خلاف غم وغصہ کے اظہار اور مظاہروں کے جواب میں تحریر کیا تھا جو افادہ عام کے لیے یہاں شیئر کیا جا رہا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مذہبی انتہا پسندی اور اس کے عملی مظاہر

اسلام ایک معتدل و متوازن دین ہے جو میانہ روی کو پسند کرتاجبکہ غلو اور انتہا پسندی کے خلاف ہے۔ قرآن و سنت میں جابجا ایسی تعلیمات موجود ہیں جو اعتدال و توازن کاسبق دیتی ہیں۔
کتاب وسنت میں غلو کی ممانعت
مثلاً ’انفاق‘ کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا}(الفرقان: ۶۷)
’’اور اللہ کے بندے جب خرچ کرتے ہیں تو اِسراف نہیں کرتے اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں اور میانہ روی اختیار کرتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے :
{وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیر}(لقمان: ۱۹)
’’اور تو اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست رکھ،بے شک سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے ۔‘‘
{وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلَی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا}(الاسراء: ۲۹)
’’اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھے رکھ(یعنی بخل کر)اور نہ تو اس کو بالکل ہی کھول دے (یعنی اسراف کرکے)پس تو (بعدمیں )ملامت زدہ،تھکا ہارا بیٹھا رہ جائے گا۔‘‘
{وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلًا}(الاسراء: ۱۱۰)
’’اور نہ آپ اپنی(قراء ت) کو نماز میں بلند کریں اور نہ اس کو پست کریں اور اس دونوں کا درمیانی راستہ تلاش کریں ۔‘‘
جس طرح قرآن و سنت میں اعتدال و میانہ روی کی تعلیمات موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور’غلو‘ سے منع بھی کیا گیا ہے۔ قرآن میں دو مقامات ایسے ہیں جہاں باقاعدہ’غلو‘ یعنی انتہا پسندی کا نام لے کر اس سے روکا کیا گیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{یَاَھْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوا عَلَی اﷲِ اِلَّا الْحَقَّ}(النساء:۱۷۱)
’’اے اہل کتاب !تم اپنے دین میں غلو نہ کرواور اللہ کے بارے میں سواے حق بات کے کچھ نہ کہو۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
{قُلْ یَاَھْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ} (المائدۃ :۷۷)
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجیے: اے اہل کتاب!تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔‘‘
اسی طرح احادیث ِمبارکہ میں بھی کسی بھی معاملے میں،چاہے وہ نیکی کا ہی کیوں نہ ہو، انتہا پسندی کے بالمقابل اعتدال و توازن کواختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔صحیح مسلم میں ہے :
عن أنس أن نفرا من أصحاب النبي ﷺ سألوا أزواج النبي عن عملہ في السر۔ فقال بعضھم: لا أتزوج النساء وقال بعضھم لا آکل اللحم وقال بعضھم: لا أنام علی فراش فحمد اﷲ وأثنی علیہ فقال:ما بال أقوام قالوا: کذا وکذا لکني أصلي وأنام وأصوم وأفطر وأتزوَّج النساء فمن رغب عن سنتي فلیس مني۔(صحیح مسلم:۱۴۰۱)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے آپ کی بعض ازواج سے آپ کے گھر کے معمولات کے بارے میں پوچھا۔ پھر ان صحابہ میں سے ایک نے کہا:میں زندگی بھرشادی نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا:میں کبھی گوشت نہیں کھاؤں گا۔ تیسرے نے کہا:میں کبھی بستر پر نہیں سوؤں گا۔(آپؐ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے)پس آپ نے اللہ کی تعریف بیان کی اور کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جبکہ میں (اللہ کا رسول)نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں(نفلی) روزہ بھی رکھتا ہوں اورکبھی نہیں رکھتا اور میں نے عورتوں سے شادیاں بھی کی ہیں پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا ،اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
0ھلک المُتنطِّعون قالھا ثلاثا۔(صحیح مسلم : ۲۶۷۰)
’ متنطعون ہلاک ہوگئے، متنطعون ہلاک ہو گئے، متنطعون ہلاک ہو گئے ۔‘‘
امام نووی متنطعون کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
المتعمقون الغالون المجاوزون الحدود فی أقوالھم و أفعالھم۔(شرح صحیح مسلم:۴۸۲۳)
’’وہ لوگ جو اپنے اقوال و افعال میں حد سے بڑھنے اور غلو کرنے والے ہیں۔‘‘
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مذہبی انتہاپسندی ٭کی تاریخ
انتہا پسندی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی عمر ہے۔ چنانچہ قرآن نے قدیم آسمانی مذاہب یہود و نصاریٰ میں پائے جانے والے ’غلو‘ کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ اس سے سختی سے منع بھی فرمایا۔اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم اللہ کے دیے ہوئے دین میں ’غلو‘ کا شکار ہوتی ہے تو اس دین کا بیڑ ہ غرق کر دیتی ہے ۔مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ یہود نے حضرت عیسیٰ ؑکی دشمنی میں ’غلو‘ کرتے ہوئے اُنہیں ولد الزنا،جادوگر اور واجب القتل قرار دیا اور اپنے گمان میں ان کو قتل بھی کر دیا، معاذ اللہ۔ دوسری طرف حضرت عیسیٰ ؑکی محبت میں عیسائیوں نے ان کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہوئے اُلوہیت کے درجے پر فائز کر دیا جبکہ اسلام نے ان دونوں مذاہب کے برعکس حضرت عیسیٰ ؑ کی ذات کے بارے میں ایک معتدل موقف پیش کیا ہے جو سورہ مریم کی ابتدائی آیات میں موجود ہے ۔
سابقہ آسمانی مذاہب کی طرح اُمت ِمسلمہ بھی ’غلو‘ اور انتہا پسندی کا شکار ہوئی۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی بعض اشخاص کی طرف سے جب نیکی میں ’غلو‘ کا مظاہرہ کیا گیا تو آپ ؐ نے اس کو سخت ناپسند کیا اور اس سے روکاجیسا کہ تین اصحاب کا واقعہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں آپؐ نے اپنی پیش گوئیوںمیں مسلمانوں میں آئندہ بعض متشدد،متعصب اور انتہا پسند گروہوں کی نشاندہی کی اور ان کی بعض صفات بھی بیان کیں۔آپ ؐ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق خلافت ِراشدہ میں ہی ایک ایسا گروہ پیدا ہو چکا تھا جو حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے ان دونوںحضرات صحابہؓ اور ان کے ساتھیوں کو کافر قرار دے کر واجب القتل سمجھتا تھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت یسیر بن عمرو ؒنے سہل بن حنیفؓ سے سوا ل کیا کہ کیا آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوارج کے بارے میں کچھ سنا ہے؟
تو اُنہوں نے جواب دیا:
سمعتہ یقول وأھوٰی بیدہ قبل العراق یخرج منہ قوم یقرؤون القرآن لا یجاوز تراقیھم یمرقون من الإسلام مروق السھم من الرمیۃ ۔(صحیح بخاری:۶۹۳۴)
’’میں نے آپ ؐ کو کہتے ہوئے سنا، اس حال میں کہ آپ ؐ نے عراق کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ وہ اسلام سے اتنی تیزی سے نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکلتا ہے ۔‘‘
خوارج کی نیکی،خلوص، تقویٰ اورللّٰہیت میں کسی کو کلام نہیں۔ تاریخی روایات میں ملتا ہے کہ یہ لوگ بہت کثرت سے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی اس صفت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس گروہ کے تقویٰ کا اندازہ ان کے اس عقیدے سے لگا یا جا سکتا ہے جس کے مطابق یہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ بھلا وہ شخص جس کا یہ عقیدہ ہو کہ گناہِ کبیرہ کے ارتکاب سے ایک شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، کیا وہ کبھی گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو گا؟ لہٰذا خوارج جن کی نیکی اورشریعت پر عمل پیرا ہونے کا یہ عالم ہو، ان کو حضر ت سہل بن حنیفؓ نے آپ ؐکی اس حدیث کا مصداق قرار دیا ہے۔ اسلئے جس گروہ یا جماعت میں نیکی ،خلوص،تقویٰ اور شریعت پر عمل پیر اہونے کا جذبہ توہو لیکن قرآن وسنت کا علم ناقص ہو تو ایساگروہ اور جماعت عموماً دین میں ’غلو‘ کا شکار ہو جاتی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیعہ سنی انتہا پسندی کے عملی مظاہر

ٹھوس تاریخی تجزیے پر علمی اختلاف کرنااورتحقیق میں آزادی کی روش اختیار کرنا ایک معاشرے کے شعوری ارتقا اورروحانی ترقی کے لیے از بس ضروری ہے۔ جہاں علمی اختلاف کو تعصب کا رنگ دے کر کفر کے فتوے لگائے جائیں اور معاملہ قتل و غارت تک پہنچ جائے، اسی طرح آزادیٔ اظہار اور حریت ِفکر کو مختلف حربوں سے دبا دیاجا ئے تو ایسا معاشرہ افتراق وانتشارکا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ و سنی مکالمہ ہو یا بریلوی،دیوبندی اور اہل حدیث کے درمیان بحث و مباحثہ،اسے صرف علمی مباحثہ و مکالمہ تک ہی محدودرہنا چاہیے اور اس کی بنیاد پر تشدد کی کوئی پالیسی اختیار کرنایا اپنی اجتہادی آرا کو دوسروں پر جبراً ٹھونسنااسلامی تعلیمات کے منافی ہے جو پورے اسلامی معاشرے کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔

لیکن حالیہ دنوں کچھ خبریں،بعض اخبارات میں نظر سے گزریں تو ان کو پڑھ کر افسو س ہوا۔ تفصیلات کے مطابق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ جامعہ حفصہ والے قضیہ کے تناظر میں ’معروف و منکر‘کے موضوع پر ایک علمی مذاکرہ جیو ٹی وی پر ’غامدی‘ نامی پروگرام میں پیش ہوا جس میں جامعہ حفصہ پر گفتگو کے دوران سیدناحسین ؓ کا یزید کے خلاف خروج کا مسئلہ بھی زیر بحث آ گیا۔ مذاکرہ میں شریک بعض حضرات نے سیدنا حسینؓ کے خروج کے حوالے سے یہ موقف پیش کیا کہ سیدنا حضر ت حسینؓ کا یزیدکے خلاف خروج تو بر حق تھا لیکن دنیاوی طور پر بظاہر یہ خروج نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔

مذاکرے میں اگرچہ سیدنا حضرت حسینؓ کے خروج کے برحق یا ناحق ہونے کی بحث نہیں ہو رہی تھی بلکہ اصل بحث صرف واقعاتی تھی کہ حضرت حسین ؓ کے اس خروج کے لیے کوفہ اور اہل کوفہ کے حالات سازگار تھے یا نہیں؟ تو اس پر شرکاے مذکراہ میں سے ایک صاحب نے کہا کہ کوفہ اور اہل کوفہ کے حالات اس وقت سازگار نہیں تھے۔ چنانچہ سیدناحسینؓ سے اس معاملے میں تدبیری عجلت ہوئی کہ اُنہوں نے کوفہ کے حالات کو سازگار سمجھا۔ بعد میں اس موقف کی مزید وضاحت مع معذرت جیو ٹی وی نے انہی دنوں ان صاحب کی طرف سے بھی نشر کی، جو یہ تھی کہ
’’میں سیدنا حسین ؓ کو نوجوانانِ جنت کا سردار مانتا ہوں اور ان کی ادنیٰ توہین وتحقیر کو موجب ِ کفر وضلالت سمجھتا ہوں۔ پروگرام میں میری گفتگو سے جو مغالطہ پیدا ہوا ، اس سلسلے میں میرا مقصود صرف اتنا تھا کہ شہادتِ حسین کا باعث دراصل وہ لوگ بنے جو اُنہیں کوفہ بلانا چاہتے تھے۔ یہ سارے لوگ درحقیقت قابل اعتماد نہ تھے، ورنہ سیدنا حسین کا اِقدام بالکل برحق تھا اور ان کی شہادت ایک مظلومانہ شہادت ہے …
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!‘‘
اس کے باوجود بعض جذباتی شیعہ حضرات کی طرف سے جس ردّ عمل کا مظاہرہ ہوا، وہ واقعتا قابل تعجب بھی ہے اور قابل افسوس بھی۔ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے اس ردعمل کی چند جھلکیاں قارئین کے سامنے پیش کر تے ہیں:

نجی ٹی وی پر امام حسین ؓ کی توہین کے خلاف جامعۃ المنتظر اور آئی ایس او کا مظاہرہ
’’جیو ٹی وی کے پروگرام ’غامدی‘ میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین ؓکی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کرنے پر جامعۃ المنتظرکے اساتذہ اور امامیہ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے جناب جاوید غامدی اور جیو ٹی وی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اُنہوں نے جیو ٹی وی اور جناب جاوید غامدی کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور کہا کہ جیو ٹی وی استعماری ایجنٹ نہ بنے۔ مظاہرین نے کہا کہ جاوید غامدی امریکہ کا ایجنٹ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پروگرام نشر ہونے سے تین روز قبل ریکارڈ کیا گیا تھا اور سنسر وغیرہ کے مراحل کے بعد عمداً نشر کیا گیاجس سے مذکورہ چینل کی بد نیتی واضح ہوتی ہے۔ اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ناقابل معافی جرم کے ارتکاب پر ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کرے۔‘‘(روزنامہ ’ایکسپریس‘:۳۰اپریل ۲۰۰۷ء،ص۸)
جعفریہ الائنس کے تحت جیو ٹی وی کے خلاف ہونے والی احتجاجی ریلی کے شرکا نے لوئر مال احتجاجاً بند کر دی۔یزیدیت، جیو ٹی وی اور غامدی وغیرہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ جیو ٹی وی پر عارضی پابند ی اور غامدی پروگرام کو فوری بند کرنے اورمتہم صاحب سمیت ’جیو‘ کے سرکردہ ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلا کر پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ جیو چینل اس بیان کی تردید کرے اور غامدی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ (روزنامہ ایکسپریس:۲مئی ۲۰۰۷ء،ص۱)
علاوہ ازیں جیو ٹی وی اور جناب جاوید احمد غامدی کوٹیلی فون کالز کے ذریعے قتل وغیر ہ کی دھمکیاں بھی دی گئی مثلاًجاوید احمد غامدی صاحب کے بیٹے جناب معاذ احسن غامدی کو مظفر حسین نامی ایک شخص نے ایک ٹیلی فون کال میں کہا :
’’میرا نام مظفر حسین ہے اور میں فخر سے جہنم میں جائوں گا کیونکہ میں اس شخص کو قتل کروں گا جس نے نواسۂ رسول ؐکی توہین کی ہے ۔‘‘
ان مظاہروں میں مذکورہ بالا موقف (جس میں غامدی صاحب کا ’معروف ومنکر‘ کے بارے میں موقف بھی شامل ہے) کے خلاف ایسا ردِ عمل شیعہ حضرات کی انتہا پسندی ہے، کیونکہ اگر مسئلہ صرف یہ ہے کہ بعض حضرات تاریخی تجزیے میں سیدنا حضرت حسین ؓ کو شرعی طور پر بر حق قرار دینے کے باوجود تدبیری حیثیت سے معصوم نہیں مانتے، جیسا کہ شیعہ کا اپنے ۱۲ائمہ کے بارے میں عقیدہ ہے تو تدبیری رویوں میں عدمِ عصمت کا عقیدہ (انبیا کے علاوہ) تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بریلوی،دیوبندی اور اہل حدیث سب مسالک کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا مظاہرہ کرنے والے شیعہ حضرات پاکستان کی ۸۲ فیصد سنی اکثریت کے لیے حکومت سے پھانسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایک طرف تو یہ شیعہ حضرات کا یہ مطالبہ ہے تودوسری طرف خود شیعہ علما کی ایسی سینکڑوں کتب، تقاریر ا ور سی ڈیز بھی موجود ہیں جن میں اکابر حضرات صحابہ ؓ پر طعن کیا جاتا ہے :
ایک دفعہ مجھے معروف شیعہ واعظ علامہ طالب جوہری کی براہِ راست تقریر سننے کا موقعہ ملا جس میں صحابہ کرامؓ کو برا بھلا کہا گیا تھا جو کہ اہل سنت کے عقیدے کے سرا سر خلاف ہے۔اس پر ایسے شیعہ حضرات سے یہ سوال ہے کہ کیا اس موقعہ پر اگلے دن اہل سنت کے کسی مدرسے کے پانچ چھ سو طلبا کو اکٹھا کر کے کوئی مظاہرہ کر دینا چاہیے تھا جس میں یہ مطالبہ ہوتا کہ علامہ طالب جوہری شاتم صحابہؓ ہے اور اس کو سر عام پھانسی دی جائے ؟

جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود شیعہ علما و فقہا میں سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عصمت ِامامؓ کے قائل نہیں ہیں۔معروف ایرانی شیعہ فقیہ اور عالم دین علامہ موسی ا لموسوی لکھتے ہیں :
’’لیکن عصمت درحقیقت امام کے حق میں نقص کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں کوئی مدح نہیں ہے کیوں کہ شیعی مفہوم کے مطابق عصمت کا معنی یہ ہے کہ ائمہ اپنی ولادت سے لے کر وفات تک اللہ تعالیٰ کے ارادے سے اس کی کسی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں خیر کو شر پر فضیلت و ترجیح دینے کا ارادہ مفقود تھا۔ میں نہیں جانتا کہ جب کوئی شخص ایسے ارادے کی بدولت جو اس کی ذات سے خارج ہے، برائی کرنے پر قادرہی نہیں ہے ’کونسی قابل فخر عصمت ‘ہے؟ ہاں اگر عصمت کا یہ مطلب ہو کہ ائمہ گناہ کرنے پر قادرہونے کے باوجود عالی نفسی،اخلاق میں قوی ملکہ اور رکاوٹ کی بنا پرہر گز نافرمانی نہیں کرتے تو یہ بات معقول اور عقل و منطق سے مطابقت رکھتی ہے لیکن اس صورت میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ قوتِ نفس معدودے چند اشخاص کے ساتھ خاص ہے یا صرف ہمارے ائمہ کے ساتھ خاص ہے بلکہ یہ ایسی صفت ہے کہ جس کے ساتھ ہر انسان متصف ہو سکتا ہے بشرطیکہ حدوداللہ کی پابندی کرے،اس کے اَوامر کی فرمانبرداری کرے اور اس کے نواہی سے باز رہے۔‘‘ (’اصلاحِ شیعہ‘ ترجمہ الشیعۃ والتصحیح:ص۱۴۵،۱۴۶)
معاذ احسن غامدی صاحب کو بعض شیعہ حضرات کی طرف سے جو قتل کی دھمکیاں ملیں،یہ بھی مناسب طرزِ عمل نہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے ایک نئی سپاہِ صحابہؓ تو جنم لے سکتی ہے لیکن کوئی افہام وتفہیم ممکن نہیں۔ظاہر ہے کہ غامدی صاحب کا بھی ایک ادارہ اور ان کے سامعین کا ایک حلقہ ہے۔ مذاکرے میں شریک دوسرے حضرات سنی مکتب ِفکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ضرور ان کا کسی نہ کسی سنی مدرسے سے تعلق بھی ہو گا، ان کے پیچھے ایک بڑی سیاسی مذہبی جماعت اسلامی اور اہل سنت کا پورا مسلک ہے تو اس قسم کے پیغامات کا نتیجہ سواے دو گروہوں اور جماعتوں میں کشیدگی بڑھانے کے اور کچھ نہیں نکلے گا۔ ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ یہی انتہا پسندی تھی جس نے خود شیعہ اور اہل سنت کو بہت سے جلیل القدر اکابر علما سے محروم کر دیا۔

یاد رہے کہ شیعہ کو اس ملک میں اپنے مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ واشاعت کی ہر طرح اجازت ہے۔ ہمارے ملک میں فوج ہو یا پولیس،ہر دومحکموں میں بڑی بڑی پوسٹوں پر زیادہ تر شیعہ حضرات موجود ہیں۔پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا،اس پر بھی شیعہ چھائے ہوئے ہیں بلکہ الیکٹرونک میڈیا خصوصاً فلم انڈسٹری کا تقریباً ۸۰ فیصد کردار شیعہ کے پاس ہی ہے۔’شیعہ انفلوئنس‘ کی صورتحال تو یہاں تک ہے کہ رمضان کے مہینے میں پی ٹی وی پر ڈرامے چلتے رہیں گے لیکن محرم شروع ہوتے ہی سواے شیعہ علما کی تقاریر و مجالس عزاکے سب کچھ ٹی وی سے غائب ہو جاتاہے۔یومِ عاشورا پرحکومت کی طرف سے ایک کی بجائے دو چھٹیاں ہوتی ہیں۔ حکومت ِپاکستان کی طرف سے زکوٰۃ کی کٹوتی سے شیعہ حضرات مستثنیٰ ہیں۔ہم شیعہ کو دی جانے والی ان تمام مراعات کے خلاف تونہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ جب شیعہ علما ایک ’اقلیت‘ ہونے کے باوجود پاکستان میں اپنے عقائد کے اظہار کے لیے اس قدرمواقع، ذرائع اور وسائل سے مستفید ہورہے ہیں اوروہ ان کو بھرپور طریقے سے استعمال بھی کرتے ہیں تو پھر ان کی طرف سے اہل سنت پر ا پنے عقائد کے اظہار کے لیے اتنی سختی کیوں …؟

ایکسپریس اخبار نے تین دن شیعہ حضرات کے حالیہ مظاہروں کی خبر شائع کی۔ ایک دن آخری صفحہ پر جبکہ دو دن پہلے صفحہ پر، اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ ایک مظاہرے میں شرکت کی جو تصویر مذکورہ اخبار نے شائع کی، اس میں پندرہ بیس سے زائد افراد موجود نہیں تھے لیکن خبر میں سینکڑوں افراد کے مظاہرے کی بات کر کے اس مسئلے کوبلا وجہ اُچھالنے کی کوشش کی گئی۔ ایک روزنامہ اخبار نے اس چھوٹے سے مسئلے کو جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اس کو کوریج دی، اس سے بھی بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پرنٹ میڈیا پر شیعہ کا کتنا کنٹرول ہے ؟جیو ٹی وی کو مختلف شیعہ حضرات کی طرف سے مسلسل ٹیلی فون کروائے گئے اور دھمکیاں دی گئیں جس پر جناب غامدی صاحب اوردیگر حضرات کے معذرتی بیانات بھی جیو نے نشر کیے لیکن ان معذرتی بیانات کے نشرہونے کے دو روز بعد بھی سیالکوٹ میں شیعہ حضرات کی طرف سے ایک مظاہرہ ہوا جو قابل افسوس امرہے۔ اسی قسم کا واقعہ کچھ عرصہ پہلے روزنامہ’ دن ‘کے ساتھ بھی ہوا کہ ایک عرب عالم کے ترجمہ شدہ کالم میں ’شیعہ قاتلانِ حسین‘ کے الفاظ شائع ہو گئے جس پر جامعہ منتظر میں ایک میٹنگ کے دوران یہ فیصلہ ہوا کہ روزنامہ’دن‘ کے دفتر پر مسلح ہو کر حملہ کیا جائے اور اس کو آگ لگا دی جائے۔ بعد ازاں روزنامہ’دن ‘ نے اس ایڈیٹر (جس کی غفلت سے یہ جملہ شائع ہوگیا تھا)کو فارغ کر کے شیعہ انتہا پسندوں سے جان چھڑائی۔

یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جن حضرات نے یہ مظاہرے کیے ہیں، ان میں ایک دو ہی بمشکل ایسے ہوں گے جنہوں نے ’غامدی‘ پروگرام بھی دیکھاہو گا۔بقیہ سارے تو اپنے واعظین کی اندھی تقلید میں مظاہرہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ اگر شیعہ حضرات یہ سمجھتے تھے کہ ٹی وی پروگرام میں کوئی غلط بات نشر ہو گئی ہے تو وہ اس کی علمی تردید کرتے، تاریخی حقائق کی روشنی میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی سرپرستی میں نشر ہونے والے موقف کا جواب دیتے جس سے مثبت انداز میں ایک علمی و فکری تحقیق آگے بڑھتی جس کا فائدہ ہر دو فریق کو ہوتا۔پاکستان کی ماضی کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ تشدد اور انتہاپسندی کے نتائج سواے دہشت گردی کے کچھ نہیں رہے۔ہم شیعہ کے ساتھ ساتھ اہل سنت حضرات سے بھی یہ درخواست کرتے ہیں کہ اختلافات میں وہ بھی اعتدال و میانہ روی کی روش اختیار کریں او ر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے اور اظہارِ رائے پر قتل وغارت کی دھمکیاں دینے کی بجائے ایک علمی و فکری مکالمے کی فضا قائم کریں۔

یہاں یہ امر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض معتدل و متوازن شیعہ علما اور جماعتوں کو خراجِ تحسین پیش کریں جنہوں نے اپنے مذہب میں اصلاح اور مذہبی شدت پسندی کے خاتمہ کے لیے بہت سی قربانیاںدیں۔ان شیعہ علما میں معروف ایرانی عالم الامام الاکبر سید ابو الحسن الموسوی الاصفہانی اور اُن کے پوتے ڈاکٹر موسیٰ الموسوی کی کوششیں خاص طور پر قابل تعریف ہیں ۔علاوہ ازیں علامہ آیۃ اللہ شریعت سنغلجلی سید ابو الفضل آیۃ اللہ العظمی البرقعی الاستاذ علی الاکبر حکمی زادہ علامہ دکتور علی شریعتی علامہ نعمۃ اللہ صالحی نجف آبادی الاستاذ حیدر علی بن اسماعیل قلمداران السید مصطفی الطبطبائی،علامہ احمد کسروی سید حسن الموسوی الکربلائی النجفی اور سید قاضی نیاز حسین نقوی وغیر ہ جلیل القدر شیعہ علما کی کوششیں بھی خراجِ تحسین کے لائق ہیں۔ یہ حضرات نہ صرف اپنے مذہب کے مصلحین ہیں بلکہ شیعہ،سنی اتحاد اور مفاہمت میں بھی ان کا کام سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

شیعہ میں ’زیدیہ ‘ فرقہ ایسا ہے جو کہ واقعتا ایک معتدل اور متوازن فرقہ ہے اور اس وقت اس فرقے کے ایک کروڑ سے زائد پیروکار دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ایران میں اکثر پڑھا لکھا طبقہ شیعہ کے اسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں انتہا پسندوں کا رویہ یہ ہے کہ پاکستان میں اہل سنت کے علما کی کئی ایسی کتابوں پر پابندی لگوائی جن میں واقعہ کربلا،شہادتِ حسینؓ یا صحابہ کرامؓ کے بارے میں شیعی عقائد کو بیان کیاگیا تھا۔ جن میں بالکل بے ضرر اور معتدل عظیم خطیب پاکستان حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑیؒ (م۱۹۶۲ء) کی کتاب ’شہید ِکربلا‘ پر سب سے پہلے بیورو کریسی نے پابندی لگائی۔ علاوہ ازیں ان کتب میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب ’شیعہ اور تشیع‘اور ’شیعہ اور اہل بیت‘بھی شامل ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا عبد العزیزمحدث دہلویؒ کی کتاب ’تحفہ اثنا عشریہ ‘کو پاکستان کی تمام پبلک لائبریریز سے غائب کروا دیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہمیں انتہاپسندی کا شکار ہونے سے بچائے اورباہمی فروعی، فقہی اوراجتہادی اختلافات میں روا داری کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
انتہاء پسندی مذہبی بھی ہوتی ہے اور غیر مذہبی بھی، اس وقت ہمارے پیش نظر مذہبی انتہا پسندی ہے۔ غیر مذہبی یا سیکولر انتہا پسندی کی مثال فرانس میں مسلمان عورتوں کے لیے شرعی حجاب اوڑھنے پر قانونی پابندی عائد کرنا ہے۔
١۔ سید ابو الحسن الموسوی الاصفہانی :بہت بڑے ایرانی شیعہ عالم اور فقیہ ہیں۔ ان کے علم کے بارے یہ قول شیعہ میں بڑا معروف ہے:
انسی من قبلہ واتعب من بعدہ
یعنی اپنے سے پہلے علماء کو بھلوا دیا اور اپنے بعد والوں کو عاجز کر دیا۔
ان کی اصلاحی کوششوں کے جواب میں ایک متعصب شیعہ نے ان کے بیٹے کو نجف اشرف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقبرہ کے احاطہ میں مغرب اورعشاء کے درمیان دوران نماز بے دردی سے ذبح کر دیا۔
٢۔ ڈاکٹر موسی الموسوی:١٩٣٠ء میں ’نجف اشرف‘ میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے ”اجتہاد‘ کے موضوع پر فقہ اسلامی میں ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔١٩٥٥ءمیں طہران یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔١٩٥٩ء میں پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔١٩٦٠ء سے ١٩٦٢ء تک بغداد یونیورسٹی میں اقتصاد اسلامی کے پروفیسر رہے۔١٩٦٨ء تا ١٩٧٨ء بغداد یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر رہے۔١٩٧٣ء تا ١٩٧٤ء ہالہ یونیورسٹی ، جرمنی اور طرابلس یونیورسٹی، لیبیا میں وزٹنگ پروفیسر رہے۔ ١٩٧٥ء تا ١٩٧٦ء ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں ریسرچ سکالر کی حیثیت سے کام کیا۔١٩٧٨ء میں لاس اینجلس یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر رہے۔
شیعہ کے عقائد اور رسومات کی تصحیح پر کئی کتب لکھیں جن میں سے معروف ’الشیعہ والتصحیح‘ ہے جس کا اردو ترجمہ ’اصلاح شیعہ‘ کے نام سے ہوا ہے۔اردو ترجمہ پر پبلشر کا نام نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ اہل تشیع کا تعصب، انتہا پسندی اور دھمکی آمیز رویہ ہے جس کی وجہ سے اولا تو کسی عالم کے لیے حق بات کہنے کی جرات کرنا ہی مشکل ہوتا ہے اور اگر کوئی جرات کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے شیعہ انتہا پسندی کے ڈر سے پبلشر کا نام دینے کی ہمت نہیں ہوتی۔حال ہی میں احمد الکاتب کے ایک عربی مقالے کا ترجمہ ’شیعہ افکار ولایت سے لے کر شوری تک ‘ لندن سے شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے شیعہ کے بارہویں امام ، مہدی منتطر کی پیدائش کا تاریخی حقائق کی روشنی میں انکار کیا ہے، کیونکہ پاکستان میں اس کتاب کی شاعت کی گنجائش نہیں تھی۔
٣۔ آیت اللہ شریعت :بہت بڑے ایرانی شیعہ عالم اور فقیہ تھے۔ ١٩٤٣ء میں وفات پائی۔ شیعہ عقائد ونطریات میں اصلاح کی تحریک انہوں نے ہی شروع کی تھی۔شیعہ کی اصلاح کے لیے کئی ایک کتب اور مقالات لکھے جن میں ’الاسلام والرجعة‘ ایک معروف کتاب ہے جس میں انہوں نے شیعہ کے تصور امامت اور بارہویں امام مہدی منتظر کے بارے عام شیعہ عقیدہ سے بالکل ہٹ کر موقف پیش کیا ہے۔
٤۔ ابو الفضل آیت اللہ العظمی بن الحسن بن حجۃ الاسلام احمد بن السید رضی الدین بن السید یحی بن مرزا بن یحی بن میر حسن بن میر رضی الدین بن السید محمد بن میر فخر الدین بن میر حسن بن بادشاہ بن میر ابو القاسم بن میر ابو الفضل بن پندار بن عیسی بن ابی جعفر بن ابی القاسم بن علی بن علی محمد بن احمد بن محمد الاعرج بن السید احمد موسی المبرقع بن محمد الجواد۔ یہ اہل قم کے علماء میں سے تھے۔ امام خمینی کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ شیعہ کے نزدیک درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ انہوں نے شیعہ کی اصلاح کے لیے کئی ایک کتب لکھیں جس میں ان کی کتاب ’کسر الصنم‘ بہت معروف ہوئی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’منھاج السنة النبویة‘ کا فارسی میں ترجمہ بھی انہوں نے کیا۔
۵۔ استاذ علی اکبر حکمی زداہ :معروف ایرانی شیعہ عالم اور سکالر ہیں۔ ”اسرار ہزار سالہ“ کے نام سے اصلاح شیعہ پر ان کی کتاب ہے۔
۶۔ ڈاکٹر علی شریعتی :معروف ایرانی عالم، مفکر اور فلسفی ہیں۔ ایرانی انقلاب میں ان کو وہی مقام حاصل ہے جو تحریک پاکستان میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کا ہے۔ ۱۹۷۸ء میں وفات ہوئی۔ ”التشیع العلوی والتشیع الصفوی“ کے نام سے اصلاح شیعہ پر کتاب لکھی جس میں شیعہ کی اپنے اءمہ کی طرف منسوب جھوٹی روایات کی نفی کی ہے۔
۷۔ علامہ نعمت اللہ نجف آبادی ایران میں” قم “ کے معروف علماء میں سے ہیں۔انہوں نے ”شہید جاوید“ کے نام سے واقعہ کربلا پر ایک کتاب لکھی ۔ ان کی تردید میں ۱۳ شیعہ علماء نے کتابیں لکھیں جن کا جواب انہوں نے ایک اور کتاب”عصای موسی درمان بیماری غلو“ میں دیا۔ یہ کتاب ایک ہی بار طبع ہوءی، بعد میں حکومت ایران نے اس پر پابندی لگا دی۔
۸۔ استاذ حیدر علی قلمداران :معروف ایرانی شیعہ عالم ہیں۔ انہوں نے شیعہ کی اصلاح کے لیے کئی ایک کتب لکھی جن میں ”الامامةوالولایة“ اور ”طریق النجاةمن شر الغلاة“ معروف ہیں۔
۹۔ علامہ احمد کسروی :معروف ایرانی شیعہ عالم ہیں۔ انہوں نے بنیادی اور انتہائی تعلیم ایران ہی سے حاصل کی ہے۔
طہران یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ ایران میں محکمہ قضا وعدل میں کئی مناصب پر فاءز رہے۔شیعہ کی اصلاح کے لیے کئی کتب لکھیں جن میں ”التشیع والشیعة“ معروف ہے۔ انہیں ان کے نظریات کی وجہ سے دو دفعہ متعصب شیعہ نے گولی ماری۔ پہلی دفعہ اللہ نے شفا دی جبکہ دوسری دفعہ گولی اور خنجر کے وار سے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔
۱۰۔ سید حسن الموسوی :نجف کے معروف شیعہ عالم دین ہیں۔ امام خمینی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اصلاح شیعہ کے لیے ”للہ ثم التاریخ“ کے نام سے کتاب لکھی۔
۱۱۔ ”تقریب المذاھب“ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ نکالتے ہیں۔ ان میں اگرچہ اتنی وسعت فکر تو نہیں ہے جتنی دیگر ایرانی شیعہ مصلحین میں ہے کہ یہ شیعہ عقائد ورسومات کی اصلاح کے لیے لکھیں لیکن بہرحال پاکستان میں پائے جانے والے شیعہ سنی اختلافات میں ایسے لوگ بھی غنیمت ہیں جو کم ازکم بات توسنتے ہیں اور شیعہ سنی مسائل کو مکالمہ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آج کے دور میں شیعہ عزائم کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔۔۔
میں پوری طرح اس بات سے متفق ہوں۔۔۔
جس طرح سے میڈیا کو شیعہ لابی استعمال کررہی ہے کوئی اور نہیں کررہا۔۔۔
یہ بالکل وہی چال ہے جیسے یہودی عالمی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں بین اسی طرح شیعہ پاکستان کے میڈیا پر چھا گئے ہیں۔۔۔
میں نے پہلے بھی یہ بات کہی تھی کے جب حکومت طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے تو فوج کیوں نہیں چاہتی۔۔۔
اس کا جواب بھی آپ کے تحریر میں موجود ہے۔۔۔ کہ فوج کے تقریبا عالٰی عہدوں پر شیعہ رافضی فائز ہیں۔۔۔
بلکہ فضائیہ اور بحری افواج میں بھی ان کا کافی اثر ورسوخ ہے اسی لئے ہم رسوا ہورہے ہیں۔۔۔
یہ سب اس ہی وقت ختم ہوگا جب ہم سب مل کر اس نظریئے طرف لوٹیں گے جو پاکستان کے وجود میں آنے کی بنیاد تھی۔۔۔
لا الہ اللہ جو پاکستان کا مطلب تھا۔۔۔
اس پورے نعرے، مقصد اور نظریئے کو خاص فکر رکھنے والے گروہ نے دبا دیا۔۔۔
جو نہیں چاہتا کے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ کو۔۔۔ اور اسلامی قوانین کانفاذ کون کرے گا؟؟؟۔۔۔
ذرا سوچئے!۔ جن سے فوج مذاکرات نہیں چاہتی۔۔۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

۱۰۔ سید حسن الموسوی :نجف کے معروف شیعہ عالم دین ہیں۔ امام خمینی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اصلاح شیعہ کے لیے "للہ ثم التاریخ" کے نام سے کتاب لکھی۔
بارک اللہ شیخ صاحب
اللہ تعالی سے امید ہے کہ مذکورہ بالا کتاب آپ کو جلد ہی پڑھنے کو ملے گی۔
 
Top