saeedimranx2
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2017
- پیغامات
- 178
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 71
لگتا ہے تھیوفانس کے کرانیکلز کی سند ڈھونڈی جا رہی ہے۔
ہم تو آپ کی طرح ہوائی نہیں مارت نا! آپ نے تو جہالت جہاں سے ملی تھوپ دینی ہے!لگتا ہے تھیوفانس کے کرانیکلز کی سند ڈھونڈی جا رہی ہے۔
دلائل تو کیا دلیل کجا است؟پہلے دلیلیں مانگ رہے تھے جب دلائل دیے تو ذاتی حملے ۔۔۔
اول تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارا تعلق یزیدی پارٹی سے نہیں، بلکہ اہل سنت والجماعت سے ہے اور آپ کا تعلق کسی رافضی پارٹی سے ہو تو الگ بات ہے!یزیدی پارٹی کا کوئی بھی شخص آج تک کوئی ایسی صحیح و حسن روایت نہیں پیش کر سکا جس میں صراحتََا ذکر ہو کہ قسطنطنیہ یا مدینہ قیصر پر کئے گئے تمام حملوں میں یزید شریک تھا یا سب سے پہلے حملے میں یزید شریک تھا۔
قسطنطنیہ پر پہلے لشکر کے یزید کے شامل ہونے کے لئے کسی استدلال کی نہیں ، بلکہ روایت میں خبر کی ضرورت ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو استدلال و خبر کے فرق کا بھی نہیں معلوم!ان لوگوں کا صحیح بُخاری کی حدیث سے استدلال دررست نہیں ہے۔
ماشاء اللہ! بہت خوب!سنن ابی داود والی حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یزید والے حملہ سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملہ ہوا ہے جس میں جماعت کے امیر عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے۔
محدثین نے درست کہا ہے کہ جھوٹے شخص کو نسیان کا مرض ہوتا ہے!تو میرے بھائی قسطنطنیہ پر حملہ تو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح نے کیا تھا ،
اور اب آپ کہتے ہو کہ :یزید کا جنگِ قسطنطنیہ میں شرکت کرنا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
یہاں آپ نے یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کو تسلیم کیا ہے!یزید بن معاویہ کے آخری حملوں سے پہلے قسطنطنہ پرسابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔
اول تو یہ روایت یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کے پہلے ہونے کے ثبوت میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ اس کی دلیل ہے!چونکہ یہ حدیث ان لوگوں کے لیے زبردست رکاوٹ ہے جو یزید کو بخشا ہوا ہونا ثابت کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ اس روایت کے جواب میں یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ : ابو داود کے سوا کسی کتاب میں عبدالرحمیں کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والی فوج کے قائد ہونے کا ذکر نہیں۔ حالانکہ درج ذیل کتابوںمیں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہی مذکور ہے۔ اس میں جامع البیان فی تفسیر القرآن (جلد 2 صفحہ 118-119)، تفسیر ابن ابی حاتم الرازی (جلد 1 صفحہ 330-331)، احکام القران للجصاص (جلد 1 صفحہ 326، 327)، مستدرک الحاکم (جلد 2 صفحہ 84-85) ، اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ ابو داود والی روایت بھی بالکل صحیح اور محفوظ ہے (حافظ زبیر علی زئی)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ اس لشکر میں مصریوں کے امیر سیدنا عقبہ بن عامر، شامیوں کے امیر سیدنا فضالہ بن عبید تھے ، پورے لشکر کے امیر سیدنا عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے۔
اب آپ بتلائیے آپ نے نزدیک آپ کی ہی کون سی بات درت ہے؟اس حدیث میں ذکر ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا، تو میرے بھائی قسطنطنیہ پر حملہ تو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح نے کیا تھا ، سب سے پہلے وہ اپنے لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ میں داخل ہوا تھا، حدیث میں الفاظ ہیں "چنانچہ ابو ایوب انصاری اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ ہی میں دفن ہوئے۔ تو میرے بھائی ، جب قسطنطنیہ فتح ہی نہیں ہوا تھا تو اس میں کیسے دفن ہو سکتے تھے۔
کسی شہر کی فصیل پر حملہ کرنا اس شہر پر حملہ کرنا کیسے ہوسکتا ہے، اس حدیث میں یا ایسی دوسری احادیث میں کہا ذکر ہے کہ قسطنطنیہ کے اندر داخل ہوئے اور شہر پر حملہ کیا ؟؟؟
جی ان تمام لشکروں کا رومیوں پر حملہ کرنا ثابت ہے، لیکن اس میں کسی ایک حملہ میں بھی قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونا ثابت نہیں! اگر آپ کے پاس کسی ایک یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر سے پہلے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر کا ثبوت مل جائے تو یہاں پیش کر دیجیئے گا!تاریخ سے بھی ثابت ہو تا ہے کہ سیدنا معاویہ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی ، ایک لشکر سردیوں میں اور دوسرا گرمیوں میں حملہ آور ہوتا تھا۔ بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملے کا ثبوت ملتا ہے جس میں سیدنا معاویہ بھی شاملہ تھے۔ یہ حملہ 32 ھجری میں ہوا تھا ۔ (تاریخِ طبری ج 4 ص 304)، العبر للذہبی ( ج1 ص24)، المنتظم ابن الجوزی (ج5 ص9 طبع 1992)، البدایہ والنہایہ (ج7 ص 159، ج9 ص 126)۔ اس وقت یزید کی عمر چھ سال تھی۔
دلیل ایک ہی کافی ہے، اگر صحیح ہو!صرف اس ایک دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے لشکر میں یزید کو فٹ کرنا صحیح نہیںہے۔
جناب! قسطنطنیہ پر یزید رحمہ اللہ کے لشکر سے سابقہ حملوں کا کوئی ثبوت بھی دیں!یزید بن معاویہ کے آخری حملوں سے پہلے قسطنطنہ پرسابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔
ویسے ایک بات کہوں!حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: اور معاویہ نے سفیان بن عوف کو قسطنطنیہ پر صیفی حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔ محمد الخفیری کی محاضرات الامم والاسلامیہ میں ہے: اور 4 ھجری میں معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امیر سفیان بن عوف تھے۔
اول تو اس بات کو یاد رکھیں! کہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین نے جہاد میں اسلام کے اصولوں و ضوابط کی پابندی ہے، اور ایسی کوئی پابندی شریعت میں نہیں ہے کہ امیر لشکر اسی قوم سے ہو!یزیدی پارٹی مزید یہ بھی کہتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن خالدصرف مدینہ والی جماعت کے امیر تھے۔ تو جناب کیا عرب کا جنگی دستور یہی تھا کہ ایک بندہ جس نے ایک شہر میں کبھی زندگی گُزاری ہی نہ ہو تو اس شہر کے لشکر پر امیر بنا دیا جائے؟؟؟ عبدالرحمٰن بن خالد کی یرموک کے بعد ساری زندگی شام میں گُزری، یرموک کی جنگ کے وقت آپ کی عمر سترہ ، اٹھا رہ سال تھی۔ اور اس کے بعد آپ اپنے والد خالد بن ولید کے ساتھ ملک شام میں ہی رہے اور آپ کی جائداد کے وارث بنے۔ معاویہ کے دور میں آپ حمص کے گورنر بھی رہے اور کہیں سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے مدینہ میں سکونت اختیار کی ہو۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک شہر والوں کی جماعت پر اس شخص کو امیر بنا دیا جائے جو اپنی جماعت کے لوگوں کو اور ان کی جنگی قابلیت کو جانتا ہی نہیں ہے۔
یعنی کہ اس لشکر میں متعدد جماعتیں تھیں اور ان پر امیر تھے!اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ اس لشکر میں مصریوں کے امیر سیدنا عقبہ بن عامر، شامیوں کے امیر سیدنا فضالہ بن عبید تھے ،
اہل سنت والجماعت کی باسند و صحیح روایات کے مقابلہ میں پادریوں اور رافضیوں کی تاریخ پیش کرنے کو میں زندیقیت سمجھتا ہوں!روم کا پادری تھیوفانس دی کنفیسر660-61 عیسوی کے واقعات میں لکھتا ہے:
"اس سال بادشاہ نے قسطنطنیہ چھوڑ دیا اور سسلی میں سیراکوس کی طرف گیا، اس کا ارادہ تھا کہ وہ شاہی دارلحکومت کو روم میں منتقل کر دے۔ اس نے حکم بھیجا کہ اس کی بیوی اور تین بچوں (قسطنطین، ہیراکلس اور طبریاس ) کو بھی لایا جائے۔ لیکن بازنطیہ کے باشندوں نے ایسا نہ کیا" تھیوفانس دی کنفیسر کے کرانیکل صفحہ 486
اس واقعے سے تو پتہ چلتا ہے کہ قسطنطنیہ تو قیصر کا شہر ہی نہیں رہا تھا (یہ معاویہ کی حکومت کا چھٹا سال تھا)۔ آگے جا کر 661-662 ھجری کے واقعات میں وہ لکھتا ہے
اس سال عربوں نے رومیوں کے خلاف ایک مہم بھیجی اور انہوں نے بہت ساری جگہوں پر حملہ کیا اور بہت ساروں کو قیدی بنا لیا (صفحہ 486)"
یہاں پر کرانیکلز پر تحقیق کرنے والے نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ،( یا تو) یہ حملہ 42 ھجری والا حملہ جس کی قیادت بُصر بن ارطاۃ نے کی تھی۔
آگے جا کر 663-664 عیسوی کے واقعات میں تھیوفانس لکھتا ہے کہ:" عبدالرحمٰن ، خالد کے بیٹے نے ، روم پر حملہ کیا اور سرما میں یہاں قیام کیا اور بہت سارے علاقوں پر حملے کئے۔ سلاوینیوں نے خالد کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ شام واپس چلے گئے۔ وہ پانچ ہزار تھے جو کہ اپامیہ میں سیلیوکوبولس میں سکونت پذیر ہوئے"۔ (صفحہ 487)
مزید آگے چل کر تھیوفانس 664-65 عیسوی اور سیدنا معاویہ کے دسویں سال کی بپتا لکھتا ہے:"اس سال بصر نے روم پر حملہ کیا۔۔۔۔۔۔۔پھر 665 -66 عیسوی میں بھی یہی ذکر کرتا ہے کہ بصر نے اس سال پھر حملہ کیا۔ (صفحہ 487-488)
سال 666-67 میں سرجئیس کی بغاوت اور اس کا سیدنا معاویہ کے پاس جانا اور اینڈریو کا سرجیئس کی مخالفت میں معاویہ سے ناکام بات چیت کرنا ذکر ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ سرجئیس کی مدد کے لئے عرب جنرل فضالہ کو بھیجا گیا۔ یہ سیدنا معاویہ کی حکومت کا بارہواں سال تھا۔ (صفحہ 488-490)
سال 669-70 عیسوی کے واقعات میں فضالہ کے حملے کا ذکر ہے اور 670-71 میں ایک بار پھر بصر کے حملے کا ذکر ہے (صفحہ 492)
سال 671-72 عیسوی کے واقعات بہت اہم ہیں اس میں ذکر ہے کہ مسیح کے نہ ماننے والے (یعنی مسلمان) ایک بڑے بحری لشکر کے ساتھ سیلیسا کے پاس سے گزرے اور محمد بن عبداللہ نے سمرنا میں قیام کیا جبکہ قیس نے سلیسیا اور لائسیا میں قیام کیا۔ حاشیہ میں لکھا گیا ہے کہ یہ نام صحیح نہیں لگتے شاید یہ محمد بن عبدالرحمٰن ، محمد بن مالک اور عبطداللہ بن قیس ہیں۔ (صفحہ 493)
اب سب سے اہم واقعہ آتا ہے جو کہ صفحہ 493 پر 672-73 کے واقعات میں ہے۔ لکھا جاتا ہے کہ: خُدا کے دشمنوں کا یہ بحری بیڑا سفر کرتا ہوا تھریس کے علاقے میں داخل ہوا۔ہر روز جنگ ہوتی تھی، گولڈن گیٹ اور ککلوبین کے درمیان ۔۔ دشمن نےیہ حملے اپریل سے ستمبر تک جاری رکھے۔ پھر وہ واپس کزیکوس چلے گئے جہاں انہوں نے سرما بسر کیا اور پھر موسم بہار میں پھر اسی طرح عیسائیوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ۔ سات سال تک وہاں رہنے کے بعد اور خُدا کی مدد سے شرمندہ ہو کر اور اپنے بہت سارے جنگجو ضائع کرنے کے بعد یہ بحری بیڑہ واپسی کے لیے نکلا اورطوفان کا شکار ہو گیا۔
اب عوف کے چھوٹے بیٹے سُفیان نے فلورس ، پیٹروناس اور شپریئین کے ساتھ جنگ میں شمولیت اختیار کی جو کہ رومی فوج کا اہم حصہ تھے۔ 30000 ہزار عرب مارے گئے۔ یہاں یہ بھی ذخر ہے کہ عرب فوج کی شکست کی سب سے بڑی وجہ گریک فائر تھی۔
جناب اوپر جن حوالوں کا میں نے ذکر کیا ۔۔ یہ غیر مسلم تھیوفانس دی کنفیسر کے حوالے ہیں۔ جسے نہ سیدنا معاویہ سے نفرت تھی نہ یزید سے محبت۔۔۔ مسلمان ان کے دشمن تھے اور اس نے اپنی تاریخ میں جو کچھ لکھا ہے۔۔۔ اس پر تو جانبداری کا الزام لگ ہی نہیں سکتا ۔
جناب اہل سنت والجماعت کی باسند و صحیح روایات کے مقابلہ میں پادریوں اور رافضیوں کی تاریخ پیش کرنے کو میں زندیقیت سمجھتا ہوں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بہت سارے مفسرین کو زندیق سمجھتے ہیں جنہوں نے تحریف شدہ اسرائیلیات کو اپنی تفاسیر میں شامل کیا ہے۔۔۔ اور تاریخ جس کی بھی ہو اگر وہ ثابت ہو تو اس سے آنکھیں کترانا ویسا ہی جیسے کبوتر کا کسی دشمن کو دیکھ کر گھونسلے میں سر چھپانا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی جہاں علم کی شدید کمی ہو وہاں پر ایسے ہی اعتراضات لگائے جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ اگر یہی اعتراضات۔۔۔۔ ابن خلدون، طبری، ابن کثیر ، وغیرہ پر لگائے جائیں تو۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ العَنْسِيَّ، حَدَّثَهُ - أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ، وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ - قَالَ: عُمَيْرٌ، فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ؟ قَالَ: «أَنْتِ فِيهِمْ»، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»، فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ»
اول تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارا تعلق یزیدی پارٹی سے نہیں، بلکہ اہل سنت والجماعت سے ہے اور آپ کا تعلق کسی رافضی پارٹی سے ہو تو الگ بات ہے!
دوم کہ بالکل صراحت کے ساتھ یزید رحمہ اللہ کا قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کا سپہ سالار باسند صحیح پیش کیا جا چکا ہے، ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں:
ہم سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ثوربن یزید نے بیان کیا ، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ ( آپ کی بیوی) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا ، اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب کر لی ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی ۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ)
صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان (باب : نصاریٰ سے لڑنے کی فضیلت کا بیان)
یہ ہے با سند صحیح حدیث جس کی رو سے مدینہ قیصر (جو بوقت لشکر کشی قسطنطنیہ تھا) پرحملہ کرنے والا اول لشکر والا مغفور ہوگا، یعنی کہ ان کے لئے جنت کی بشارت ہے۔
اب دیکھتے ہیں قسطنطنیہ پر کو سا لشکر حملہ آوار ہوا!
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ وَابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُهُورِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ مَهْ! لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ! فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، لَمَّا نَصَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ، وَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، قُلْنَا: هَلُمَّ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا! فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195]، فَالْإِلْقَاءُ بِالْأَيْدِي إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيمَ فِي أَمْوَالِنَا، وَنُصْلِحَهَا، وَنَدَعَ الْجِهَادَ. قَالَ أَبُو عِمْرَانَ: فَلَمْ يَزَلْ أَبُو أَيُّوبَ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى دُفِنَ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ.
جناب اسلم‘ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے ، ہم قسطنطنیہ (استنبول) جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے امیر جماعت تھے ۔ رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے ۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دشمن پر ہلہ بول دیا تو لوگوں نے کہا : رکو ، ٹھہرو ! «لا إله إلا الله» یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ جب اللہ ذوالجلال نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اسلام کو غالب کر دیا تو ہم نے کہا : چلو اب ذرا اپنے اموال و جائیداد میں رک جائیں اور ان کو درست کر لیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ “ ہلاکت میں ڈالنا یہ تھا کہ ہم اپنے مالوں میں رک جائیں ، ان کی اصلاح میں مشغول ہو جائیں اور جہاد چھوڑ دیں ۔ ابو عمران نے کہا : چنانچہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ (استنبول ) ہی میں دفن ہوئے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}[البقرة: 195])
سنن ابو داؤد: کتاب: جہاد کے مسائل (باب: آیت کریمہ «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» ” اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو “ کی تفسیر)
اس سے باسند قسطنطنیہ پر حملہ ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ پر حملہ آور لشکر میں شامل تھے، اور وہیں ان کی وفات ہوئی!
اب دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ والے اس لشکر کے بارے میں دیکھتے ہیں:
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ: أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ كَانَتْ فِي دَارِهِمْ،
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے باپ ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کلی بھی یاد ہے جو آپ نے ان کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر ان کے منہ میں کی تھی۔
صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا)
(اسی سند سے مزیدروایت ہے)
فَزَعَمَ مَحْمُودٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ الوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا، أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ» فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى المَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، وَصَفَفْنَا [ص:60] وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ، فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي البَيْتِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: مَا فَعَلَ مَالِكٌ؟ لاَ أَرَاهُ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: ذَاكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَقُلْ ذَاكَ أَلاَ تَرَاهُ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ "، فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَمَّا نَحْنُ، فَوَ اللَّهِ لاَ نَرَى وُدَّهُ وَلاَ حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَى المُنَافِقِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ " قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ: فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا، وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَأَنْكَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا قُلْتَ قَطُّ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ المَدِينَةَ، فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ.
محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھامیرے ( گھر ) اور قوم کی مسجدکے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاکر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کر وں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کروگے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر ا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہاتھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولاوہ تو منافق ہے۔ اسے خدا اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ ( اصل حال ) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالی نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! میںنہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالی کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تومیں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بن و سالم میں آیا۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کونماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا)
یہاں سے باسند ثابت ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے اس لشکر کے سپہ سالار یزید ؒ بن معاویہ تھے۔
تو جناب یزید ؒ بن معاویہ کا قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر میں شامل ہونا ہی نہی،بلکہ اس کا سپہ سالار ہونا ثابت ہو گیا۔
ابھی ایک جگہ تو آپ نے سلطان فاتح محمد کے قسطنطنیہ پر حملہ کو قسطنطنیہ پر پہلا لشکر قرار دیا تھا!
اس کے بعد بھی یہ نعرہ بازی کرنا آج تک کوئی ایک صحیح و حسن روایت پیش نہیں کی، خودفریبی بھی ہے اور دجل ومکاری بھی!
قسطنطنیہ پر پہلے لشکر کے یزید کے شامل ہونے کے لئے کسی استدلال کی نہیں ، بلکہ روایت میں خبر کی ضرورت ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو استدلال و خبر کے فرق کا بھی نہیں معلوم!
کسی واقعہ کے لئے ثابت ہونے کے لئے خبر کی ضرورت ہے، نہ کہ استدلال کی!
ماشاء اللہ! بہت خوب!
آپ کا کلام پیش خدمت ہے!
محدثین نے درست کہا ہے کہ جھوٹے شخص کو نسیان کا مرض ہوتا ہے!
دروغ گو حافظہ ناباشد
اور یہاں آپ عبد الرحمن بن خالد بن ولید کے لشکر کو یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر سے پہلے کا لشکر قرار دے رہے ہو!
اب پہلے تو آپ یہ بتلائیں کہ آپ نے یہ جو کہا تھا کہ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کیا تھا وہ آپ کی مؤقف کے مطابق درست ہے، یا ابھی جو آپ کہہ رہے ہیں کہ یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے سے قبل عبد الرحمن بن خالد بن ولید کے لشکر نے حملہ کیا تھا یہ آپ کے مؤقف کے مطابق ہے؟
آپ کا یہ دو متضاد باتیں کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا مقصد کسی بھی طرح یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کا پہلا لشکر ہونے کا انکار کرنا ہے!
خواہ اس کے لئے آپ کو پہ در پہ جھوٹ کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے!
ویسے آپ مدعی تھے کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر میں شامل ہی نہیں تھے؛
آپ کا کلام یہ تھا:
اور اب آپ کہتے ہو کہ :
یہاں آپ نے یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کو تسلیم کیا ہے!
اول تو یہ روایت یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کے پہلے ہونے کے ثبوت میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ اس کی دلیل ہے!
اور ہم نے اس روایت کو جلی حروف کے ساتھ خود دلیل میں پیش کیا ہے!
شکر ہے کہ آپ نے سنن ابو داود کی اس حدیث کا انکار نہیں کیا، بلکہ اس کے صحیح ہونے پر پر زور اتفاق کیا ہے!
نوٹ: دیکھیں! جب آپ یہاں مجھ سے گفتگو کر رہے ہیں، میرے پیش کیئے ہوئے دلائل اور میرے باتوں کا رد کیجیئے!
فلاں یہ کہتا ہے فلاں یوں کہتا ہے، یہ اس کا محل نہیں! آپ ایسی بات کا رد کر ردہے ہو جو میں نے نہیں کہی!
بلکہ آپ نے اس روایت پر رد لکھا تھا کہ یہ تو قسطنطنیہ پر حملہ ہی نہیں:
اپنا کلام ملاحظہ فرمائیں:
اب آپ بتلائیے آپ نے نزدیک آپ کی ہی کون سی بات درت ہے؟
جو آپ نے پہلے لکھی تھی یا جو آپ نے اب لکھی ہے۔
جی ان تمام لشکروں کا رومیوں پر حملہ کرنا ثابت ہے، لیکن اس میں کسی ایک حملہ میں بھی قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونا ثابت نہیں! اگر آپ کے پاس کسی ایک یزید رحمہ اللہ کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر سے پہلے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر کا ثبوت مل جائے تو یہاں پیش کر دیجیئے گا!
دلیل ایک ہی کافی ہے، اگر صحیح ہو!
اور یزید رحمہ اللہ کے لشکر کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے کے ثبوت پر صحیح روایت موجود ہے، اور اس لشکر کا پہلا ہونا بھی ثابت ہے، اور اس سے پہلے کسی لشکر کا قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونا ثابت نہیں!
جناب! قسطنطنیہ پر یزید رحمہ اللہ کے لشکر سے سابقہ حملوں کا کوئی ثبوت بھی دیں!
صرف دعوی کر دینے سے کیا ہوتا ہے! آپ باسند وہ روایات پیش کریں کہ جس میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونا ثابت ہو!
ویسے ایک بات کہوں!
آپ نے ابن حجر کے حوالہ سے ان کی عبارت کا اردو ترجمہ لکھ دیا، وہ بھی بغیر کسی حوالہ کہ، نہ عربی عبارت دی، نہ کتاب کا نام ، نہ صفحہ کا نمبر، نہ اشاعت! کم از کم حوالہ ڈھنگ سے دیں!
دوم کہ یہاں بھی قسطنطنیہ کی طرف لشکر بھیجنے کا ذکر ہے، اس لشکر کا قسطنطیہ پہنچ کر قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کا نہیں!
اول تو اس بات کو یاد رکھیں! کہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین نے جہاد میں اسلام کے اصولوں و ضوابط کی پابندی ہے، اور ایسی کوئی پابندی شریعت میں نہیں ہے کہ امیر لشکر اسی قوم سے ہو!
اور یہ عربوں کی عربی دستور کی جنگ نہیں تھی، یہ اسلام کے لئے جہاد تھا!
عبد الرحمن بن خالد بن ولید کو ایک لشکر کو یزید رحمہ اللہ والے کی سپہ سالاری کے ایک حصے کا امیر کہنا بالکل درت ہے!
دیکھیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ وَابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ،
جناب اسلم‘ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے ، ہم قسطنطنیہ (استنبول) جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے امیر جماعت تھے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}[البقرة: 195])
سنن ابو داؤد: کتاب: جہاد کے مسائل (باب: آیت کریمہ «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» ” اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو “ کی تفسیر)
اب یہاں امیر جماعت کہا گیا ہے یعنی کہ اس لشکر میں متعدد جماعتیں تھیں،
اور یہ بات آہ کو بھی تسلیم ہے جیسا کہ آپ نے خود کہا ہے:
یعنی کہ اس لشکر میں متعدد جماعتیں تھیں اور ان پر امیر تھے!
اب دیکھیں اسی حدیث میں فضالہ بن عبید کے لئے بھی اسی لشکر میں امیر جماعت کے الفاظ آئیں ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ، قَالَ: كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ، فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنَ الرُّومِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَكْثَرُ، وَعَلَى أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، وَعَلَى الجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى صَفِّ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ، فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا: سُبْحَانَ اللهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ. فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ لَتُؤَوِّلُونَ هَذِهِ الآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ، وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلاَمَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الإِسْلاَمَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا، فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا: {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}، فَكَانَتِ التَّهْلُكَةُ الإِقَامَةَ عَلَى الأَمْوَالِ وَإِصْلاَحِهَا، وَتَرْكَنَا الغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ، شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ملاحظہ فرمائیں: سنن الترمذي» كتاب تفسير القرآن» باب ومن سورة البقرة
جب فضالہ بن عبید ''عَلَى الجَمَاعَةِ''کے الفاظ کے ساتھ ایک جماعت کے یعنی اہل شام کی جماعت امیر ہو سکتے ہیں، اور پورے لشکر کے نہیں، تو عبد الرحمن بن خالد کے لئے ان الفاظ سے پورے لشکر کا سپہ سالار ہونا کیوں کر لازم ہے؟
اہل سنت والجماعت کی باسند و صحیح روایات کے مقابلہ میں پادریوں اور رافضیوں کی تاریخ پیش کرنے کو میں زندیقیت سمجھتا ہوں!
نوٹ: مزید کچھ لکھنے سے قبل آپ مراسلہ کو بغور پڑھیئے گا! اور اپنا گزشتہ تضاد بیانی پر معافی مانگتے ہوئے، آئندہ تضاد بیانی سے گریز کیجئے گا!
اہل سنت والجماعتمیں سے کوئی ایک بھی یزید کو رحمہ اللہ نہیں کہتا یزیدی پارٹی (ناصبی) ضرور کہتے ہیںاول تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارا تعلق یزیدی پارٹی سے نہیں، بلکہ اہل سنت والجماعت سے ہے
یہ مطلب آپ نے غلط کشید کیا ہے!اس کا مطلب ہے کہ آپ بہت سارے مفسرین کو زندیق سمجھتے ہیں جنہوں نے تحریف شدہ اسرائیلیات کو اپنی تفاسیر میں شامل کیا ہے۔۔۔ اور تاریخ جس کی بھی ہو اگر وہ ثابت ہو تو اس سے آنکھیں کترانا ویسا ہی جیسے کبوتر کا کسی دشمن کو دیکھ کر گھونسلے میں سر چھپانا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی جہاں علم کی شدید کمی ہو وہاں پر ایسے ہی اعتراضات لگائے جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ اگر یہی اعتراضات۔۔۔۔ ابن خلدون، طبری، ابن کثیر ، وغیرہ پر لگائے جائیں تو۔۔۔
میں نے بالکل صحیح کشید کیا ہے میں نے تاریخی حوالوں سے ثبوت دیا جو کہ ایک عیسائی پادری کی لکھی تاریخ ہے۔۔۔۔اگر ابن کثیر کسی یہودی کی لکھی ہوئی تاریخ یا باتوں کا حوالہ دے رہا ہے تو اس میں اور مجھ میں کیا فرق ہے۔۔۔پھر تو وہ بھی زندیق ہی ہوا نا۔۔۔۔یہ دوہرا معیار دراصل ناصبیوں کی نشانی ہے اللہ کی عدالت اور قرآن و نبی عدالت میں سب برابر ہیں آپ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا تو جب غیر مسلم روایاپیش کر کے میں زندیق ہو گیا تو کیا ابن کثیر کے لیے کوئ اور اصول ہے؟؟ پہلے اپنے اس دوغلے معیار پر آپ معافی مانگیں مجھے اپنے بیانات پر معافی کی ضرورت ہے ہی نہیں کیونکہ مجھے آپ غلط ثابت کر ہی نہیں سکے۔۔۔خیر فقہ سنابلی کے ماننے والے مجھے غلط ثابت کرنے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں۔۔۔انشاء اللہ ناکام ہی ہوں گےیہ مطلب آپ نے غلط کشید کیا ہے!
میرے کلام میں یہ بات شامل نہیں!
دوم اصل مدعا کی طرف آئیے!
اہل سنت کی روایات پر آپنی تضاد بیانیوں پر معافی مانگیں!
آپ بلکل غلط سمجھے! میرے کلام کو ذرا غور سے پڑھیں!میں نے بالکل صحیح کشید کیا ہے میں نے تاریخی حوالوں سے ثبوت دیا جو کہ ایک عیسائی پادری کی لکھی تاریخ ہے۔۔۔۔
اہل سنت کی با سند و صحیح روایات کے مقابلہ میں پادریوں اور رافضیوں کی تاریخ پیش کرنے کا کہا ہے!اہل سنت والجماعت کی باسند و صحیح روایات کے مقابلہ میں پادریوں اور رافضیوں کی تاریخ پیش کرنے کو میں زندیقیت سمجھتا ہوں!
فرق یہ ہے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حدیث کے تحت اسرائیلات روایت کرتے ہیں، نہ کہ آپ کی طرح اہل سنت والجماعت کی باسند وصحیح روایات کے مقابلہ میں!اگر ابن کثیر کسی یہودی کی لکھی ہوئی تاریخ یا باتوں کا حوالہ دے رہا ہے تو اس میں اور مجھ میں کیا فرق ہے۔۔۔
نہیں! یہ زندیقیت آپ کے حصہ میں ہی آئی ہے، اور ابن کثیر رحمہ اللہ آپ کی اس تہمت و ہفوات سے بری ہیں! الحمد للہ!پھر تو وہ بھی زندیق ہی ہوا نا
معیار ہمارا دہرا نہیں! آپ کا معیار تو اسی تھریڈ میں واضح کیا جا چکا کہ ایک روایت کو کبھی رد کرنے کے لئے اٹکل پچو لگاتے ہیں! اور کبھی اسی کو درست ثابت کرنے کے لئے بھی دلیل دیتے ہیں!یہ دوہرا معیار دراصل ناصبیوں کی نشانی ہے اللہ کی عدالت اور قرآن و نبی عدالت میں سب برابر ہیں آپ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا
جہالت کی معراج ہے!تو جب غیر مسلم روایاپیش کر کے میں زندیق ہو گیا تو کیا ابن کثیر کے لیے کوئ اور اصول ہے؟؟
بندہ اگر ڈھیٹ و بے حیا ہو جائے تو کچھ نہیں کیا جا سکتا!پہلے اپنے اس دوغلے معیار پر آپ معافی مانگیں مجھے اپنے بیانات پر معافی کی ضرورت ہے ہی نہیں کیونکہ مجھے آپ غلط ثابت کر ہی نہیں سکے۔۔۔
آپ کی پٹاری خالی ہو چکی ہے! اور اہل سنت کے دلائل کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں!خیر فقہ سنابلی کے ماننے والے مجھے غلط ثابت کرنے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں۔۔۔انشاء اللہ ناکام ہی ہوں گے