السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی ! امام غزالی کا یزید کو رحمہ اللہ کہنا اس وقت امام غزالی کا تفرد کہلاتا جب اہل سنت میں یزید کو رحمہ اللہ کہنے کا جواز نہ ہوتا!
اہل سنت کا اس معاملہ میں تو اختلاف نہیں کہ یزید رحمہ اللہ مسلمان تھے، روافض یزید رحمہ اللہ کی تکفیر کرتے ہیں! بلکہ وہ تو سوائے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر بھی کرتے ہیں!
اہل سنت میں آج اور آج سے قبل چند ہی لوگوں نے یزید رحمہ اللہ کے اسلام پر تشکیک کا اظہار کیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ یزید کے معاملہ میں وہ انہیں نہ مسلمان کہتے ہیں اور نہ کافر، جیسا کہ احمد رضا خان بریلوی نے کہا ہے! یہ مؤقف بھی اہل سنت کے مؤقف سے خروج ہے اور باطل ہے!
اب جب اہل سنت کا مؤقف یہی ہے کہ یزید رحمہ اللہ مسلمان تھے، تو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر مسلمان کی نماز جنازہ شریعت نے فرض قرار دی ہے، گو کہ یہ فرض کفایہ ہے، لیکن ہے فرض ہے!
اور پھر آپ نماز جنازہ کی دعائیں دیکھیں!
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ سَمِعَهُ يَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ قَالَ و حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ هَذَا الْحَدِيثِ أَيْضًا
ابن وہب نے کہا:مجھے معاویہ بن صالح نے حبیب بن عبید سے خبر دی،انھوں نے اس حدیث کو جبیر بن نفیر سے سنا،وہ کہتے تھے:میں نے حضر ت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہتے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اسے یاد کرلیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:"اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔"کہا:یہاں تک ہوا کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ یہ میت میں ہوتا! (معاویہ نے) کہا:مجھے عبدالرحمان بن جبیر نے حدیث بیان کی،انھوں نے اپنے والد سے حدیث سنائی،انھوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حبیب بن عبیدکی) اسی حدیث کے مانند روایت کی۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کرنا)
وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْحِمْصِيِّ ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي الطَّاهِرِ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ قَالَ عَوْفٌ فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ أَنَا الْمَيِّتَ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمَيِّتِ
عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:" "اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔" حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اس میت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی وجہ سے میں نے تمنا کی کہ کاش وہ میت میں ہوتا!
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کرنا)
لہٰذا یزید رحمہ اللہ کے لئے بھی رحمہ اللہ کی دعا کرنے کا ان کی نماز جنازہ میں بھی ثابت ہوتا ہے، اور نماز جنازہ کے بعد بھی اس کا جواز برقرار رہتا ہے!
یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہو گی کہ نماز جنازہ کی فرضیت ادا کرنے والے یزید کو نماز جنازہ میں رحمہ اللہ کی دعا کرنے پر ناصبی قرار پائیں! یا نماز جنازہ کی فرضیت میں یزید کے لئے رحمہ اللہ کی دعا کرنے والوں کے لئے تو جائز ہو، اور بعد دوسروں کے لئے یہی دعا ناصبیت قرار پائے!
اب دو ہی صورتیں ہیں!
ایک کہ یزید رحمہ اللہ کی تکفیر کرکرے یزید رحمہ اللہ کے لئے نماز جنازہ کی فرضیت کا انکار کردیا جائے!
یا پھر یزید رحمہ اللہ کے لئے نماز جنازہ اور نماز جنازہ کے علاوہ رحمہ اللہ یا کسی اور دعاء کی ممانعت کی تخصیص ثابت کی جائے!
اور وحی میں تخصیص وحی سے ہی ثابت کی جاسکتی ہے!
لہٰذا امام غزالی کا یزید کو رحمہ اللہ کہنا ان کا تفرد نہیں، بلکہ قرآن و حدیث سے مسلمانوں کے لئے احکام سے ثابت ہے!