وہ "مسلک حقہ" جس کے اصولوں میں شامل ہے کہ مذاہب اربعہ سے بندے توڑ توڑ اہل حدیث (بلکہ فصیح پنجابی میں "ایل دیث") کیے جائیں اور مذاہب اربعہ کو باطل قرار دینا زندگی کا مشن بنا لیا جائے ، یہ "مسلک حقہ" (ح پر زبر ہے) محدثین و فقہاء کے نزدیک کہیں نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تک کہیں نہیں تھا ، یہ رد عمل ہے تقلیدی جمود کا جو برصغیر میں صدیوں پایا گیا اور اس کے رد عمل میں دوسری انتہا ہے کہ مذاہب اربعہ کو ہی رد کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا یہ کہنا کہ :دوسری انتہا ہے کہ مذاہب اربعہ کو ہی رد کر دیا جائے ؛
آپ ہی بتا دیں کہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان "وسط " یا "اوسط " کیا ہے ؟
لیکن ملحوظ رہے :
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ ء حق و باطل نہ کر قبول
ہم تو اتنا جانتے ہیں ،یہ امت "مذاہب مروجہ " سے پہلے "أمة وسطا " کے حقیقی معیار پر تھی،
یہ اربعہ ،خمسہ، کی تقسیم نہ تھی ،لھذا( امت واحدہ) اس کا تشخص تھا ،
پھر مذاہب اربعہ یا خمسہ وغیرہ کی تدوین و ظہور کے بعد شناخت کے عنوان بھی بدل گئے ،
اب اسلام اور دین کی جگہ "مذہب "کی اصطلاح اور عنوان ٹانکا گیا ،
اور اسی پر بس نہیں ،بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ (SUBTITLES) بھی متعارف کروائے گئے ،
اور یہ حقیقت فراموش کردی کہ امم سابقہ کی گمراہی اور تباہی کا بنیادی سبب یہی آئیٹم تھے
(وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (105