• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کے ہاں اللہ تعالی کا جسم ہے یا نہیں ؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اہل حدیث کے ہاں اللہ تعالی کا جسم ہے یا نہیں ؟
ہم اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کرتے ہیں جس لفظ یعنی ’’جسم‘‘ کو قرآن وحدیث نے اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا تو ہم بھی منسوب نہیں کرینگے۔ اللہ کی صفات توفیقی ہیں اللہ کی جس صفت کا اظہار قرآن وحدیث سے ہوتا ہے ہم اس کا اثبات کرتے ہیں اور جس صفت کا قرآن وحدیث میں اللہ کی طرف نسبت سے انکار کیا گیا ہے ہم اسکی نفی کرتے ہیں اور جس صفت کے بارے میں کتاب وسنت خاموش ہیں ہم اس میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
 

Star24

مبتدی
شمولیت
فروری 10، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
ufff ye kis kissam k sawal hai ,, i want to report this thread...
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میرے خیال متکلمین کے اعتراضات کو انہیں پر لوٹانے سے کام بنتا ہے
اہل حدیث کے ہاں اللہ تعالی کا جسم ہے یا نہیں ؟
آپ کے نزدیک کیا اللہ کا جسم ہے
1-اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو نص بتائیں
2-اگر نہ ہے تو جسم کے بغیر اپنی چار صفاتِ لازمہ (حیات، قدرت، علم اور ارادہ) کو منطق سے ثابت کریں
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
عبدہ : بھائی : ایک تو میں نے اعتراض نہیں کیا ، صرف سوال کیا ہے ، اعتراض جواب کے بعدآئیگا ۔
2: میرے سوال کو میری طرف لوٹانے سے پہلے میں آپ کا جواب ہاں یا نا ں سمجھوں؟
آپ کے یہ سب سوال سر آنکھوں پر ، لیکن مبتدی کی وجہ سے پہلا حق میرا ہے کہ سوال کا جواب حاصل کروں ، ابتسامہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ایک تو میں نے اعتراض نہیں کیا ، صرف سوال کیا ہے ، اعتراض جواب کے بعدآئیگا ۔
آپ کے یہ سب سوال سر آنکھوں پر ، لیکن مبتدی کی وجہ سے پہلا حق میرا ہے کہ سوال کا جواب حاصل کروں ، ابتسامہ
محترم بھائی میں صحیح سمجھا تھا کہ آپ کا اعتراض آنا تھا پس میرے سوالات حفظ ما تقدم کی قبیل سے تھے
جہاں تک آپ کی بات کا جواب نہ دینے کا تعلق ہے تو چانکہ پہلے ہی محترم شاہد بھائی نے دے دیا تھا پس میں نے نہیں دہرایا
ہم اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کرتے ہیں جس لفظ یعنی ’’جسم‘‘ کو قرآن وحدیث نے اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا تو ہم بھی منسوب نہیں کرینگے۔ جس صفت کے بارے میں کتاب وسنت خاموش ہیں ہم اس میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
اور کچھ وضاحت آپ کے دوسرے اللہ کے ہاتھ والے دھاگے میں بھی کر دی گئی ہے جو مندرجہ ذیل ہے
میں جواب دینے سے پہلے استوی کے بارے اہل حدیث کے نظریے کو بیان کر دوں جو موجودہ سوال کی قبیل سے ہے

الاستواء معلومٌ ، والكيف مجهولٌ ، والإيمان بـــه واجبٌ ، والسؤال عنه بدعةٌ ".
" الإستواء غير مجهول - والكيف غير معقول - والإيمان به واجب - والسؤال عنه بدعة " .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية بعد قول مالك : " وهذا الجواب ثابتُ عن ربيعة شيخ مالك , وقد روي هذا الجواب عن أم سلمة رضي الله عنها موقوفاً ومرفوعاً ولكن ليس في إسناده مما يعتمد عليه , وهكذا سائر قولهم يوافق مالك " [ مجموع الفتاوى ] : ( 5/365 ) .
تخریج:
رواه اللالكائي في [ شرح السنة ] : ( 664 ) . والبهقي في : [ الأسماء والصفات ] : ( 867 ) . وقال الحافظ في : [ الفتح ] : ( 13/407 ) << إسناده جيد >> . ورواه الدارمي في : [ الرد على الجهمية ] : ( 104 ) . وابن عبد البر في : [ التمهيد ] : ( 7/151 ] .

معلوم: أي: معناه في لغة العرب ، ومن ظن أن معنى " معلوم " أي: موجود مذكور في القرآن فهو جاهل كما قال شيخ الإسلام رحمه الله " مجموع الفتاوى" ( 5/149) و (13/309). الكيف مجهول : فيه اثبات الكيف لكنه مجهول بالنسبة لنا . والإيمان به واجب : الإيمان بالكيف . والسؤال عنه بدعة : أي : السؤال عن الكيف
خلاصہ:
استوی تو معلوم ہے (معلوم سے مراد کیفیت کا علم نہیں بلکہ لغت میں معنی کا علم ہے) مگر کیفیت مجہول ہے یعنی کیفیت ہے تو سہی مگر ہمیں اسکا علم نہیں اور اس (کیفیت) پر ایمان واجب ہے جبکہ اس (کیفیت) بارے سوال بدعت ہے
سوال و جواب

اوپر وضاحت کے پس منظر میں یہ عرض ہے کہ اہل حدیث معلوم چیز کا تو بتا سکتے ہیں اور غیر معلوم چیز کے بارے سوال کرنے کو بدعت جانتے ہیں
پس جیسے استواء تو معلوم تھا پس ہم نے اسکو بیان کیا مگر اسکی کیفیت کا بیان غیر معلوم تھا تو اسکے بارے جواب تو دور کی بات سوال کرننے والے کو ہی بدعتی سمجھتے ہیں
اسی طرح اللہ کے ہاتھ ہونے کا ہمیں علم ہے تو ہم اسکو بیان کرتے ہیں مگر تعداد کا تعین قرآن و حدیث میں نہ ہونے کی وجہ سے اسکے بارے سوال کو بدعت کہتے ہیں تو جواب کیسے دے سکتے ہیں
 
Top