• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل دیوبند میں اشاعرہ و ماتریدیا اور جہمیہ و معتزلہ کے عقائد

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
انصاران خلافت اسلامیہ کا دیوبندی حضرات کے نام پیغام
منجانب: ٹیم منبر الجہاد و احوال امت
(انصار خلافت اسلامیہ ولایت خراسان)
اہل دیوبند میں اشاعرہ و ماتریدیا اور جہمیہ و معتزلہ کے عقائد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دیوبندی اللہ کے اسماء و صفات میں اہلسنت کے عقیدے کے برعکس اشاعرہ و ماتریدیہ کی پیروی کرتے ہیں۔ دیوبندیوں کے عقیدہ کی کتاب 'المہندعلی المفند' کے شروع ہی میں مذکور ہے:

"ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمد للہ فروعات میں مقلدہیں مقتدائے خلق حضرت امام ہمام امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنھم کے اور اصول و اعتقادات میں پیرو ہیں امام ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی رضی اللہ عنھما کے۔"
(المہندعلی المفند:۱۱)

نیزلکھتے ہیں:

"اور ہمارے متاخرین اماموں (امام ابو الحسن اشعری و ابو منصور ماتریدی) نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں کہ صحیح استواء سے مراد غلبہ اور ہاتھ سے مراد قدرت ہے۔"
(المہند علی المفند ص:۳۹)

جہمیہ اشاعرہ و ماتریدیا کی تفصیل:

جہمیہ کے باطل عقیدے کا آغاز قرون سلف میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دور میں ہوا۔ اس باطل عقیدے کا بانی جہم بن صفوان تھا۔ اوراس کی نام کی مناسبت سے اس کا پیروکار فرقہ جہمیہ کہلاتا ہے۔

جہم بن صفوان نے سب سے پہلے توحید اسماء و صفات کا انکار کیا اور اللہ کے قرآن میں بیان کردہ صفات عرش، جہت علو، ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، عین (آنکھ) وغیرہ کے انکار کی وجہ اور تاویل یہ بیان کی کہ اس سے اللہ کی مخلوق کے ساتھ جہت و مکان اور تشبیہ و تجسیم ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک اللہ کی صفات کا انکار توحید ہے۔ اور جو اللہ کی صفات کو مانتے ہوئے اس کی شان کے لائق قرار دے وہ ان کے نزدیک باطل فرقہ مشبہ و مجسمہ و کرامیہ ہے۔ (یہ وہ فرقے ہیں جواللہ کی صفات کو حقیقت میں مخلوق جیسا قرار دیتے تھے)

جہم بن صفوان کو اور اس کے عقیدے کے ایک دوسرے بڑے عالم جعد بن درہم کو اس فتنہ و گمراہی کی وجہ سے خلافت بنو امیہ میں موت کی سزادی گئی۔

جہم بن صفوان کے اللہ کی صفات کے انکار پر سلف صالحین نے شدید رد کیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اللہ کی ان عظیم صفات کے انکار یا تاویل کی کبھی تعلیم نہ دی تھی۔ بلکہ ان کی تاویل کے بغیر اس کے اقرار کو ایمان قرار دیا۔

حدیث میں مذکورہ ہے أم سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ فِي قَوْلِهِ عزوجل :( الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى) ، قَالَتْ : الِاسْتِوَاءُ غَيْرُ مَجْهُولٍ، وَالْكَيْفُ غَيْرُ مَعْقُولٍ، وَالْإِقْرَارُ بِهِ إِيمَانٌ، وَالْجُحُودُ بِهِ كُفْرٌ ، وَيُرْوَى هَذَا الْكَلَامُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍّ "حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا، اللہ تعالی کے اس ارشاد کے بارے میں"(رحمٰن، عرش پر مستوی ہے)" فرماتی ہیں: استواء معلوم ہے، اور اس کی کیفیت غیر معقول ہے، اوراس کا اقرار کرنا ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔"
(التوحيد لابن منده، حديث نمبر ۸۳۰)

اہلسنت کے ائمہ سلف اجماعی طور پر اسی طرح اللہ کی تمام صفات کو کسی تاویل و انکار کے بغیر مانتے ہوئے اللہ کی شان کے لائق سمجھتے تھے اور ان کی مخلوق میں کسی کے ساتھ تشبیہ و تمثیل بیان نہیں کرتے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَمَا يُشْبِهُ هَذَا مِنْ الرِّوَايَاتِ مِنْ الصِّفَاتِ وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا قَالُوا قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَايَاتُ فِي هَذَا وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلَا يُتَوَهَّمُ وَلَا يُقَالُ كَيْفَ هَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُمْ قَالُوا فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَمِرُّوهَا بِلَا كَيْفٍ وَهَكَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ وَأَمَّا الْجَهْمِيَّةُ فَأَنْكَرَتْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ وَقَالُوا هَذَا تَشْبِيهٌ وَقَدْ ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابهِ الْيَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ فَتَأَوَّلَتْ الْجَهْمِيَّةُ هَذِهِ الْآيَاتِ فَفَسَّرُوهَا عَلَى غَيْرِ مَا فَسَّرَ أَهْلُ الْعِلْمِ وَقَالُوا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَخْلُقْ آدَمَ بِيَدِهِ وَقَالُوا إِنَّ مَعْنَى الْيَدِ هَاهُنَا الْقُوَّةُ

"اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے بارے میں اور اس جیسی صفات کی دوسری روایات کے بارے میں اورباری تعالیٰ کے ہررات آسمان دنیاپر اترنے کے بارے میں کہاہے کہ ' اس سلسلے کی روایات ثابت ہیں، ان پر ایمان لایاجائے ، ان میں کسی قسم کا وہم نہ کیاجائے گا، اور نہ اس کی کیفیت پوچھی جائے ۔ اوراسی طرح مالک ، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، ان لوگوں نے ان احادیث کے بارے میں کہاہے کہ ان حدیثوں کوبلا کیفیت جاری کرو ۱؎ اسی طرح کا قول اہل سنت والجماعت کے اہل علم کا ہے، البتہ جہمیہ نے ان روایات کا انکار کیاہے، وہ کہتے ہیں کہ ان سے تشبیہ لازم آتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر 'ہاتھ، کان، آنکھ ' کا ذکر کیا ہے۔جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اوران کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیرکے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔"

[جامع ترمذی، تحت حدیث:
٦٦۲]

جہمیہ کے اس فتنہ پر سلف صالحین میں سے خاص طور پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ میدان میں اترے، اور آپ کے جہم بن صفوان سے اس کے باطل عقائد کے رد پر کافی مباحثے منقول ہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اللہ کی صفات کے ضمن میں مشہور تصنیف "الفقہ الاکبر" میں فرمایا:

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اور اس کے لیے ہاتھ 'منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔‘‘

(البیان الازہرترجمہ الفقہ الاکبر :ص ۳۲)

قرون اولٰی کے تمام سلف صالحین، ائمہ اہلسنت اللہ کی صفات کو ظاہری معنوں میں مانتے ہوئے انہیں اللہ کی شان و عظمت کے لائق سمجھتے تھے۔ اوراس ضمن میں متقدمین علماء اہلسنت کے درمیان ذرا اختلاف نہ تھا۔ لیکن جہم بن صفوان کے بعد بہت زیادہ علماء اس فتنے کا شکار ہوئے اور ان کے ساتھ علم الکلام کے ماہر حنفی عالم ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی نے اپنے علم الکلام کے زور پر اس فتنے کو بہت زیادہ پھیلایا جس سے یہ گمراہی بہت زیادہ علماء میں درآئی۔ ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی نے بھی اللہ کی صفات کو نہ ماننے اور اس کی تاویل کرنے کی وجہ وہی بیان کی جو جہم بن صفوان نے کی تھی کہ ان صفات کو ماننے سے اللہ کی جہت، مکان، تشبیہ اور تجسیم ثابت ہوتی ہے۔ ائمہ اہلسنت اشاعرہ و ماتریدیا کی اس باطل تاویل کا خاص طور پر رد کیا ہے۔

جہم بن صفوان نے بھی اسی باطل تاویل سے اللہ کی صفات کا انکار کی اتھا۔ امام احمد بن حنبل اس باطل تاویل کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

"ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ عرش(اورآسمان) پر ہے جیسے اس نے چاہا اور جس طرح چاہا، بغیر کسی حد (اور تشبیہ و تجسیم کے) اور بغیر ایسی صفت کے جہاں کوئی بیان کرنے والا پہنچ سکتا ہے یا کوئی حد مقرر کرنے والا حد مقرر کر سکتا ہے، پس اللہ عز وجل کی صفات اسی سے ہیں اور اسی کے لیے ہیں، اور وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے، اس کو نگاہیں نہیں پا سکتیں۔"
(کتاب درء ابن تیمیہ، الرد علی الجہیمہ:۱۰۴)

موجودہ احناف سے منسوب دیوبندی مسلک میں ابوالحسن اشعری اور ابومنصور ماتریدی کی تاویلات کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی صفات کو نہیں مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی صفت عرش سے مراد اللہ کا غلبہ ہے اور اسی طرح ید (ہاتھ) سے مراد قوت ہے۔ ان کو جب کہا جاتا ہے کہ آپ اللہ کی صفات کے عقیدے میں اہلسنت اور امام ابو حنیفہ رحمہ کی پیروی کیوں نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ ابوالحسن اشعری اور ابومنصور ماتریدی چونکہ علم الکلام میں بڑے حنفی علماء تھے اس لیے انہوں نے اس معاملے میں اجتہاد کیاہے۔

دار العلوم دیوبند کی فتویٰ کمیٹی سے اس ضمن میں سوال کیا گیا:

سوال: ہم مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں اور عقائد میں امام ابو منصور ما تریدی اور ابو الحسن اشعری کی تقلید کرتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ امام ابوحنیفہ کے عقائد کیا تھے؟ اورآپ عقائد میں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے جب کہ کہا جاتا ہے کہ تقلید صرف ایک کی کی جائے۔ میں خود حنفی ہوں پر ایک عام شخص ہوں۔ برائے مہربانی ان اشکالات کو دور فرما دیجئے؟

جواب :(فتوی: 654=608/ب، دارالعلوم دیوبند)


"ہر فن کا ایک امام ہوا کرتا ہے، ہرفن میں ایک ہی شخص امام نہیں ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم حنفی مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمة کی اتباع کرتے ہیں اور عقائد امیں ابومنصور ماتریدی اور ابوالحسن اشعری علیہم الرحمة کا اتباع کرتے ہیں اور قراءت میں ائمہ سبعہ میں امام عاصم کوفی کا اتباع کرتے ہیں جیسا کہ عام دنیا مانتی ہے، اور ان کے مسلک کے مطابق قرآن شریف پڑھتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند، فتوی: 654=608/ب)

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اسماء وصفات کے ضمن میں عقیدہ واضح ہے اور آپ جہم بن صفوان کے باطل عقائد کے خلاف نبردآزما رہے اور آپ اللہ کی صفات کو ان کے ظاہری معنوں میں مانتے تھے اوراس کی تاویل کو گمراہی قرار دیتے تھے جیسا کہ ہم نے امام ابوحنیفہ کا تصنیف'الفقہ الاکبر' سے حوالہ ذکر کیا ہے۔ اللہ کی صفات کا انکار کرنے والے ملعون جہم بن صفوان اوراس فرقہ کے کفریہ عقائد کے رد میں امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ اہلسنت برسر پیکار رہے۔

لیکن دیوبندی اکابراشرف علی تھانوی اسے اسلام سے منسوب کرتا ہے اور اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ سلف صالحین کا عقیدہ جہمیہ سے مخالف تھا اور وہ اللہ کی صفات کو ظاہر میں مانتے تھے۔

اشرف علی تھانوی کا قول ان کی تقریر ترمذی میں یوں مزکورہے۔ بیان کرتے ہیں:

"بہت سے اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ(اللہ کی صفات کی) حدیثیں اپنے ظاہر پر رکھی جائیں یعنی یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی ہیں اور پیر بھی اور آنکھ بھی اور کان سب چیزیں ہیں مگر ہم ان کی کیفیات سے آگاہ نہیں ہیں جیسا وہ خدائے بے مثل ہے اور جیسا اس کی ذات کا کما حقہ ادراک نہیں ہو سکتا ایسے ہی اس کے صفات کا ادراک بھی محال ہے اور سلف صالحین و علماء متقدمین(یعنی امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی) کا یہی مذہب تھا اور جہمیہ جو ایک فرقہ اسلامیہ ہے وہ ان امور میں تاویل کرتے ہیں۔ مثلا يد الله فوق ايديهم میں ید سے مراد قوت کہتے ہیں۔
اور متاخرین(احناف یا دیوبند) نے ان مبتدعین(جہمیہ) کے مذہب کو اختیار کیا ہے ایک خاص ضرورت سے اور وہ یہ ہے کہ نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہوتی تھی یعنی جیسا کہ وہ قائل ہیں کہ تین بھی خدا ہیں اور ایک بھی ہے مگر سمجھ نہیں آسکتا ہے ایسے اہل السلام کے یہاں بھی ان امور کے باب میں گفتگو تھی تو گویا اس اعتراض صوری کے رفع کرنے کو یہ طریق اختیار کیا گیا۔"

(تقریر ترمذی از محمد اشرف علی تھانوی،ص: ۱۸۹)

دیوبندیوں کی عقیدہ کی کتاب 'المہند علی المفند' میں بھی اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اس مسئلہ میں متقدمین ائمہ اہلسنت امام ابوحنیفہ وامام یوسف وغیرہ سے متاخرین ائمہ احناف مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔

'المہند المفند' میں مزکورہے:

"اس قسم کی (اللہ کی صفات کی) آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے یقین جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین (امام ابوحنیفہ وغیرہ) کی رائے ہے۔
اور ہمارے متاخرین اماموں (امام ابوالحسن اشعری و ابومنصور ماتریدی) نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں کہ کم فہم جان لیں کہ ممکن ہے کہ استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالٰی کیلئے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ جہت و مکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ و عالی ہے۔"

(المہند علی المفند ص:۳۸-۳۹)

متاخرین احناف و دیوبندی اللہ کی ان صفات کو اہمیت نہیں دیتے جبکہ یہی مسئلہ جو قرون اولٰی سے اہلسنت اوراہل بدعت کے درمیان فرق کرتا تھا۔ تمام صحاح ستہ میں محدثین نے اللہ کی صفات نہ ماننے والے جہمیہ کے رد میں باقاعدہ ابواب اور احادیث قلم بند کی ہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جو شخص یہ کہے کہ میں اپنے رب کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ آسمان میں ہے یا زمین میں اس نے کفر کیا، اور ایسے ہی وہ شخص جو یہ کہے کہ وہ عرش پر ہے لیکن میں نہیں جانتا عرش آسمان میں ہے یا زمین میں"
(الفقہ الاکبر:۳۰۱)

عقیدہ طحاویہ کے شارح امام ابن عز حنفی رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے مسلک کو اختیار کیا ہے جبکہ ابن عبد السلام حنفی اس مسئلہ کے قائل (یعنی سلف و امام ابو حنیفہ) کو باطل فرقہ مشبه قرار دیتے ہیں۔

مُلا علي القاري نے اپنی 'شرح الفقه الأكبر' میں امام ابن عبد السلام کی کتاب حل الرموز کایہ قول نقل کیا ہے کہ: "امام ابوحنیفہ کی الفقہ الاکبر کے اس قول 'جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں ہے تو اس شخص نے کفر کیا۔' اس قول سے یہ وہم ہوتا ہے کہ الله تعالی کے لیے مکان ثابت ہے اور جو یہ وہم کرے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت ہے تو وه (باطل فرقہ) مشبه ہے۔
"
مُلا علي القاري نے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ابن عبد السلام بہت بڑے اور ثقہ علماء میں سے ہیں لہذا انهوں نے جو جواب دیا ہے اس پر اعتماد ضروری ہے اور جو بات شارح الطحاوی(ابن ابی عز) نے نقل کی ہے اس پر کوئی اعتماد نہ کرنا چائیے۔ جب کہ ابو مطيع محدثین کے نزدیک وضع ہے اور اس بات کی تصریح ایک زیاده نے کی ہے۔"

(شرح عقیدہ الفقہ الاکبر از ملا علی قاری)

متاخرین احناف اللہ کے آسمان پر اور عرش پر ہونے کا اس لیے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کو عرش اور آسمان پر ماننے سے اس کا مکان اور جہت ثابت ہوتی ہے، اور بعض تو اس میں اس قدر متشدد ہیں کہ وہ اللہ کا عرش ماننے والے کو اس کا مکان ثابت کرنے کی وجہ سے کفر پر گردانتے ہیں بعض احناف امام ابوحنیفہ کی فقہ اکبر کی اوپر مزکورہ روایت پرجرح کرتے ہیں اور بعض اس کی عجب تاویل کرتے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔

امام بياضی الحنفی امام ابو حنیفہ کے فقہ الاکبر کے قول پر کہتے ہیں:

"دراصل اس دوسری بات کا مرجع بھی پہلی بات کی طرف ہے کيونکہ جب وہ اللہ کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس کا بھی وہی مطلب ہوا جو پہلی عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پر تب ايسے شخص نے اللہ کے ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور اللہ کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا۔ [انتہي]

متاخرین احناف امام ابو حنیفہ اور امام طحاوی حنفی کے ان اقوال سے جو ہم آگے ذکر کر رہے ہیں مییج کے مکان کی نفی کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی صفات کونہ مانتے ہوئے ان کی تاویل کی جائے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”جب تم سے کوئی پوچھے کہ اللہ (کی ذات) کہاں ہے تو اسے کہو کہ اللہ وہیں ہے جہاں مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا جب کوئی مکان نہیں تھا صرف اللہ موجود تھا۔ اور وہی اس وقت موجود تھا جب مکان مخلوق نام کی کوئی شے ہی نہیں تھی۔“
(الفقه الأكبر، ص: ۱۶۶)

امام الطحاوي الحنفي فرماتے ہیں:

"الله تعالی مکان و جھت و حدود سے پاک ہے۔"
(متن عقیدہ طحاویہ، ص:۱۵)

نیزامام الطحاویُّ الحنفی فرماتے ہیں:

"الله تعالی بلند و برتر ہے حدود و غایات سے اور ارکان و اعضاء و ادوات سے، چھ جِهات الله تعالی کو حاوی نہیں ہیں دیگر تمام مخلوقات کی طرح۔"
(عقیدہ طحاویہ)

امام ابوحنیفہ یا امام طحاوی کے ان اقوال یعنی مکان یا جسم کی نفی سے مراد حد والے مکان یا مخلوق جیسے جسم یا اعضاء کی نفی ہے۔ لیکن اگر امام طحاوی اس سے مراد اللہ کے نفس، یا ہاتھ یا عرش وغیرہ کے مخلوق سے بلا تمثیل اس کے شان کے لائق ماننے کی نفی کر رہے تو یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک نہیں۔ امام ابوحنیفہ 'الفقہ الاکبر' میں اللہ کے نفس، عرش اور اس کی صفات کو بغیر تاویل کے مانتے ہیں۔ اور دیگر متقدمین ائمہ اہلسنت بھی اللہ کی ان تمام صفات کومانتے ہیں اور ان کی تاویل و انکار نہیں کرتے۔

احناف اپنے حق میں متاخرین علماء کے بے شمار اقوال پیش کرتے ہیں کہ جن میں اللہ کے مکان کی نفی کی وجہ سے اللہ کی صفات کی تاویل کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی کو مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں گھیرسکتی بلکہ وہ ہر چیز پر محیط ہے اور اس سے اوپر ہے۔ لیکن اشاعرہ اور ان کے موافقین کی خطا کا سبب یہ ہے کہ وہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالٰی کی صفت علو(بلندی)، عرش اور آسمان پر ثابت کرنے سے یہ لازم آتاہے کہ وہ مخلوق کی جہات ومکان میں گھرا ہوا ہے۔ چنانچہ انھوں ان صفات کو اپنے حقیقی معنی سے پھیردیا۔ وہ اپنے گمان کے مطابق نصوص کے تعارض کو دورکررہے ہیں۔ لیکن اس دوران وہ ایک زبردست غلطی کرگئے یعنی اللہ کے لیے ثابت ایسی چیز کا انکار وتاویل کر بیٹھے جو سنت رسول اور متقدمین ائمہ سلف سے ثابت نہیں۔ اہلسنت متاخرین کی رائے کو متقدمین اہلسنت امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام ابوحنیفہ وغیرہ کے اجماع پرمقدم نہیں کرتے۔ اگر متاخرین کی رائے کو درست مان لیا جائے تو متقدمین ائمہ اہلسنت گمراہ ٹھریں گے جو اللہ کی صفات کو تاویل کے بغیراس کی بے مثل ذات کے لائق سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس اس مسئلہ میں سب سے بڑی دلیل متقدمین ائمہ اہلسنت امام مالک، امام احمد، امام ابوحنیفہ وغیرہ کا اس مسئلہ میں اجماع ہے۔ جبکہ متاخرین اس مسئلہ میں متقدمین ائمہ اہلسنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کرتے۔

امام ابو حنيفہ رحمہ الله فرماتے ہیں:

"ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں۔" (كتاب الوصية'ص: ۸۷ :سند صحیح) و ملا علي القاري
في شرح الفقه الاكبر (ص/ ۷۵) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف)

"ایک عورت نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے پوچھا کہ جس رب کی آپ عبادت کرتے ہیں وہ کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ "اللہ سبحانہ و تعالی زمین میں نہیں آسمان میں ہے۔ اس پر ان سے ایک آدمی نے کہا تو اللہ کا یہ قول ہے کہ "و ھو معکم" "وہ تمہارے ساتھ ہے۔" تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ تم کسی آدمی کو لکھتے ہو کہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، حالانکہ تم اس سے غائب ہوتے ہو۔"
(الفقہ الابساط ص:۲۶ ، مجموع الفتاوی (۴۸/۵)، ابن القیم نے اجتماع الجیوش الاسلامیہ ص ۱۳۹ میں، ذہبی نے العلوص ۱۰۱،۱۰۲ میں، ابن قدامہ نے العلوص ۱۱٦ میں، ابن ابی العز نے الطحاویہ ص ۳۰۱ میں نقل کیا ہے۔)

"امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے کہا کہ بیشک اللہ سبحانہ و تعالی زمین میں نہیں، آسمان میں ہے اس پر ان سے ایک آدمی نے کہا کہ تو اللہ تعالی کا جو یہ قول ہے کہ "و ھو معکم" "اور وہ تمہارے ساتھ ہے" تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ تم تم کسی آدمی کو لکھتے ہو کہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، حالانکہ تم اس سے غائب ہوتے ہو۔"
( کتاب الاسماء و صفات ص:۴۲۶)

امام شافعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

"
وہ سنت جس پر میں ہوں اور جس پر میں نے اپنے اصحاب الحدیث کو دیکھا ہے، جنہیں کہ میں نے دیکھا اور جن سے علم حاصل کیا، جیسے سفیان ثوری رحمۃ اللہ اور مالک وغیرہ۔ اس سنت کے بارے میں قول یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا اقرار ہو، اور اس بات کا اقرار ہو کہ اللہ اپنے عرش پر اپنے آسمان میں ہے، اپنی مخلوق سے جیسے چاہتا ہے قریب ہوتا ہے (اللہ اپنے علم اور قدرت میں زمین کی ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے)، اور یہ کہ اللہ آسمان دنیا کی طرف جیسے چاہتا ہے اترتا ہے۔ (جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ عزوجل آسمان دنیا سے کبھی نیچے نہیں اترتا)۔"
(الجیوش الاسلامیہ ازابن قیم'کتاب عقیدہ آئمہ اربعہ مؤلف شیخ الخمیس)

ابو نعیم نے جعفر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہا کہ ہم لوگ امام مالک بن انس کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے آ کر کہا: اے ابو عبد اللہ (الرحمن علی العرش استوی) (رحمن عرش پر مستوی ہوا) کیسے مستوی ہوا؟ تو مالک کو کسی بات پر اتنا غصہ نہیں آیا جتنا اس کے اس سوال سے آیا۔ انہوں نے زمین کی طرف دیکھا اور ان کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے کریدنے لگے، یہاں تک کہ ان پسینہ چھا گیا، پھر سر اٹھایا، لکڑی پھینک دی اور فرمایا: اس کی کیفیت سمجھ سے بالا ہے، اس کا استوا مجہول نہیں ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے، اور تمہیں صاحب بدعت سمجھتا ہوں، اس کے متعلق حکم دیا اور وہ نکال دیا گیا۔
"
(حلیہ (۳۲۵/۲) اسے لالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ (۲۴۹/۱) میں ابو محمد یحیی بن خلف عن مالک کے طریق سے روایت کیا ہے اور قاضی عیاض نے ترتیب المدارک (۴۴/۲) میں ذکر کیا ہے۔)

ابو دواؤد نے عبد اللہ بن نافع سے روایت کی کہ مالک رحمۃ اللہ نے کہا کہ

"اللہ آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔" (اسے ابو داؤد نے مسائل الام احمد ص ۲٦۳ میں روایت کیا ہے اور عبد اللہ بن احمد میں السنۃ ص ۱۱ میں، طبعہ قدیمہ میں، ابن عبدالبر نے التمہید ۱۳۸/۷ میں روایت کیا ہے۔)

متاخرین احناف اللہ کی آسمان کی طرف جہت کو گمراہی سمجھتے ہیں تو کیا یہ تمام ائمہ اہلسنت جو اللہ کوآسمان کی طرف جہت اور عرش پراسی کے شان کے لائق سمجھتے ہیں گمراہی کے مرتکب ہیں۔ جبکہ درحقیقت یہ خود گمراہ ہیں اور اہلسنت کے اجماع پر عمل نہیں کرتے۔

متاخرین احناف اللہ کو آسمان پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ لامکاں ہے۔ اللہ تعالى کے لیے جہت ثابت نہ کرنے کا معنى ہے کہ اللہ تعالى نہ مشرق میں ہے نہ مغرب میں، نہ شمال میں، نہ جنوب میں، نہ اوپر اور نہ ہی نیچے! جو کسی بھی جہت میں نہ ہو تو یقینا وہ ہوتا ہی نہیں ہے!!!۔ یعنی اس عقیدہ کے مطابق اللہ تعالى ہے ہی نہیں!!! (والعیاذ باللہ ....)

اور اسی بد عقیدہ کو وہ دوسرے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالى آسمان میں نہیں بلکہ موجود ہرجگہ بلامکاں ہے۔

مفتی محمد حسن گنگوہی دیوبندی لکھتا ہیں:

''
خدا ہر جگہ موجود ہے۔'' (ملفوظات فقیہ الامت، ج:۲، ص:۱۴)

حماد بن زیدؒ حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
”سلیمان رحہم اللہ فرماتے ہیں حماد بن زید رحمہ اللہ (محدث و فقیہ) نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے۔"
(مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵/ص۵۶۷):صحیح)

جہمیہ کے اس عقیدے کو بعد میں معتزلہ نے اورشدت سے اپنایا۔ اور انھوں نے اسی بنیاد پر اللہ کے کلام اورصفت قرآن کا بھی انکار کر دیا، ان کے نزدیک توحید تنزیہ ہے۔

تنزیہ ک امطلب ہے کہ اللہ رب العزت کی ذات کو صفات، تجسیم، جہت وعدمِ جہت سے ماورا جانا جائے۔

حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں: "کہ (جہمیہ کے فرقے) معتزلہ نے باری تعالی کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے۔" (تلبیس ابلیس ص:۳۸)

متاخرین احناف اللہ تعالی کو آسمان پر عرش پر ماننے کو گمراہی کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے اللہ کا جسم، جہت اور مکان محدود ثابت ہوتاہے۔

جبکہ ائمہ اہلسنت نے اس بات کا رد کیا ہے کہ اللہ کو آسمان پر ماننے سے کوئی اللہ کا مخلوق جیسا جسم یا حد مکان بنتی ہے۔

امام احمد بن حنبل اس ضمن میں فرماتے ہیں:

"ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ عرش (اور آسمان) پر ہے جیسے اس نے چاہا اور جس طرح چاہا، بغیر کسی حد (اورتشبیہ و تجسیم کے) اور بغیر ایسی صفت کے جہاں کوئی بیان کرنے والا پہنچ سکتا ہے یا کوئی حد مقرر کرنے والا حد مقرر کر سکتا ہے، پس اللہ عز وجل کی صفات اسی سے ہیں اور اسی کے لیے ہیں، اور وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے، اس کو نگاہیں نہیں پا سکتیں۔"
(کتاب درءابن تیمیہ، الرد علی الجہیمہ:۱۰۴)

متاخرین احناف اللہ کی جہت فوق اورآسمان کی طرف ماننے کو گمراہی کہتے ہیں۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کومومن قراردیتے ہیں۔

صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم السلمی کی وہ روایت جس میں انہوں نے رسول اللہ سے اپنی لونڈی کو آزاد کرنے کا پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قَالَ: «ائْتِنِي بِهَا» فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا: «أَيْنَ اللهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: «مَنْ أَنَا؟» قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ: «أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»اسے میرے پاس لے آؤ۔ میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ نے اس سے پوچھا: ’’اللہ کہا ں ہے؟‘‘ اس نےکہا : آسمان میں۔ آپ نے پوچھا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نےکہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث: ۱۱۹۹)

شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:

’’اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ تعالی) ہر مکان میں ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آسمان میں عرش پر ہے۔‘‘(غنیۃ الطالبین:۱/۱۰۰)

شیخ ابن باز فرماتے ہیں:

’’ان میں (محدثین و آئمہ عظام ) میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالی آسمان میں نہیں ہے یا یہ کہ وہ عرش پر نہیں ہے اور نہ کسی نے یہ کہا کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور اس کی نسبت سے تمام جگہیں برابر ہیں۔‘‘
(مقالات وفتاوی،ص:۱۳۲)

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بہت سے پیروکار عقائد میں اشعری اور ماتریدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، جسکی وجہ سے حنفی مذہب میں سلف صالحین کے عقیدہ کی مخالفت آگئی، بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ انکے مخالف ہے، اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب منسوب بہت سی باتیں ثابت نہیں ہوتیں، بلکہ یہ انکے ماننے والوں کی بات ہوتی ہے جو اپنے تیئں انکے مذہب کی جانب نسبت رکھتے ہیں۔

امام ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"واضح ہے کہ یہ مخالفات ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ انکے شاگردوں کی جانب سے ہے، کیونکہ ان میں اکثر قابل اعتبار درجہ سے گری ہوئی ہیں جنہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہیں پسند کرتے۔" (شرح عقیدہ طحاویہ، ص: ۲۲۶)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام 'الفقہ الاکبر' ہے اس رسالے میں سے کچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل، تحریف، صفات وغیرہ کے قائل تھے۔"(فتاوی الشیخ ابن جبرین:٦۳/۱۴)

ہمیں دیوبندیوں کے اسماء صفات میں عقیدے کی تحقیق کے بعد علماء دیوبند میں سے مولانا ادریس کاندھلوی صاحب کے متعلق معلوم ہوا کہ انہوں نے اسماء و صفات میں اشاعرہ و ماتریدیا اور جہمیہ و معتزلہ کی بجائے اہلسنت کاعقیدہ اپنایا ہے۔

مولانا ادریس کاندھلوی صاحب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس قول کہ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:

’’اور اس کے لیے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔‘‘
(البیان الازہر ترجمہ الفقہ الاکبر :ص ۳۲)

مولانا ادریس کاندھلوی صاحب امام ابوحنیفہ کی فقہ اکبرکے اس قول کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے وجہ، ید، نفس اورعین کا ذکر کیا ہے وہ سب اللہ کی صفات ہیں۔ یہ نہ کہنا چاہیے کہ ید سے اللہ کی نعمت یا قدرت مراد ہے، اس لیے کہ اس طور سے اللہ کی صفات باطل کرنا لازم آتا ہے اور یہ قول معتزلہ کا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ید اللہ تعالٰی کی ایک صفت جو کم وکیف سے پاک ومنزہ ہے۔"(عقائداسلام: ۷۸)

اور دیوبندیوں کے مفتی شفیع صاحب نے اللہ کے عرش کی صفت کو تو مانا ہے لیکن اللہ کی دیگر صفات ید اور عین وغیرہ میں اشاعرہ و ماتردیا کی پیروی کی ہے۔

مفتی شفیع صاحب اپنی تفسیر معارف القرآن میں الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی کے تحت بیان کرتے ہیں: "استواء علی العرش کے متعلق صحیح بے غبار وہ ہی بات ہے جو جمہور سلف صالحین سے منقول ہے کہ اس کی حقیقت و کیفیت کسی کو معلوم نہیں متشابہات میں سے ہے، عقیدہ اتنا رکھنا ہے کہ استواء علی العرش حق ہے اس کی کیفیت اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق ہوگی جس کا ادراک دنیا میں کسی کو نہیں ہوسکتا۔
"
(معارف القرآن:۶/۶۵)
 
Top