عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
اہل سنت سے اعتقادی اختلاف رکھنے والے فرقوں کے مراتب
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
امت میں بہت سے اعتقادی مسائل میں اختلاف ہوا جس کی بنیاد پر مختلف فرقے وجود میں آئے۔ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اساسی عقائد میں مسلمانوں سےاختلاف کیا۔علمائے کرام نے ان لوگوں کو کافر اوردائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ان امور میں اختلاف نہیں کیا جن کا ضروریات دین سے ہونا قطعی اورحکمی تھا انہوں نے ان ارکان،اصول اور قواعد کو تسلیم کیا جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے،لہٰذا علمائے اہل سنت نے ان کی غیر کفریہ بدعات کی بنا پر اسلام سے خارج نہیں سمجھاالبتہ انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’چنانچہ اگر ایسا ہوجائے کہ تمام گروہوں میں عدوان و زیادتی کے مرتکب لوگوں کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں میں سے متقی لوگوں کی شرف و عزت افزائی کی جائے تو یہ اللہ اوررسول اللہﷺکی پسندیدگی اور مسلمانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا سبب ہوگا‘‘(الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح:۱/۲۲)
قدریہ
شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ’’شرح لمعۃ الاعتقاد‘‘میں قدریہ کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قدریہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ اور قدرت کے تابع ہےگویا ان کے نزدیک انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے سب کام انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے اللہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو حوادث کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ وقوع میں آتے ہیں،ان اقوال سے ان کا مقصد اللہ کے ازلی علم اور ارادہ کی نفی کرنا تھا۔
’’قدریہ کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جنہوں نے کہا کہ اشیاءکے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہوتا ،
دوسری قسم وہ ہے جو کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کرتابلکہ بندے اپنے افعال کےخودخالق ہیں‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہ قدریہ جو اللہ کے ازلی علم اور تقدیر کے لکھے جانے کے انکاری ہیں سلف صالحین نے ان کو کافر کہا اورجنہوں نے اللہ کے ازلی علم کو تو تسلیم کیالیکن اس بات کا انکار کیا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے ان کو کافر نہیں کہا‘‘(فتاوی ابن تیمیہ:۳۵۲/۳)
یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے تقدیر کا انکار کیا وہ بصرہ کا معبد الجہنی تھا۔میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور کہا اے ابو عبدالرحمن ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن مجید کو پڑھتے اور عالم ہونے کے دعویدار ہیں لیکن وہ تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم ان سے ملو تو انہیں بتانا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔اللہ کی قسم اگر وہ احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کریں اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئیں‘‘(مسلم:۸)عبداللہ کہتے ہیں:کہ میرے والد احمد سے سوال کیاگیا کہ کیا قدریہ کا قول کہنے والا کافر ہے؟میرے والد نے جواب دیا:جب وہ (اللہ کے ازلی )علم کا انکار کرے(تو کافر ہے)۔(السنۃ للخلال:روایۃ:862)
رافضہ
شیعہ کے بہت سے گروہ ہیں بعض وہ ہیں کہ جو کفر اکبر کے مرتکب اوراسلام سے خارج نہیں۔ان میں سے ایک زیدیہ بھی ہیں جس کے امام زید بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب تھے۔شیعہ کے تمام فرقوں میں سےزیدیہ اہل سنت کے زیادہ قریب ہیں یہ ائمہ کو عام لوگوں کی طرح انسان مانتے ہیں البتہ انہیں رسول اللہﷺکے بعدسب صحابہ سے افضل تسلیم کرتے ہیں یہ اصحاب رسول کی تکفیر بھی نہیں کرتے اور یہ عقیدہ بھی نہیں رکھتے کہ نبی کریمﷺنے نام لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیاان کے نزدیک امام میں اگرچہ کامل صفات ہونی چاہیے لیکن اگر امت کسی ایسے شخص کو امام چن لے جس میں بعض صفات موجود نہ ہوں اور وہ اس کی بیت کرلیں تو اس کی امامت درست اور بیعت لازم ہو گی یہی وجہ ہوگی کہ زیدیہ کے ہاں سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی امامت صحیح تھی۔زیدیہ فرقہ آج کل بھی یمن میں موجودہے۔
شیعہ کی کئی گروہ ایسے ہیں جو کفراکبر کے مرتکب ہیں۔جیسا کہ آج کل ایران،عراق اور پاکستان میں شیعہ جنہیں امامیہ یا اثنا عشریہ کہتے ہیں۔ان کے ہاں کتب اربعہ مصادر دین کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ کتب اربعہ یہ ہیں۔
1:الکافی،2:التہذیب۔3:الاستبصار۔4:من لایحضرہ الفقیہ
ان کے چند عقائد ملاحظہ کیجیے:
تحریف قرآن کا عقیدہ
قرآن مجید کے بارے میں امامیہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن جس طرح نازل ہواتھا وہ اس طرح باقی نہ رہا بلکہ نبی کریمﷺکی وفات کے بعدتین یا چار صحابہ کو چھوڑ کرتمام صحابہ مرتد ہوگئے اور انہوں نے قرآن میں کمی اور زیادتی کے جرم کا ارتکاب کیا۔عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جن صحابہ نےقرآن کریم کو جمع کیاانہوں نے اس میں سے’’علی‘‘اور’’آل‘‘محمد کے الفاظ کوکئی مقامات سے حذف کیا اور اس طرح کئی منافقین کے نام بھی قرآن مجید سے نکال دیے۔(حیات القلوب للمجلسی541/2،تفسیر الصافی،المقدمۃ السادسۃ للکاشانی)
شیعہ مذہب کے مطابق جو قرآن آپﷺپر نازل ہواتھا اس کی آیات کی تعدادایک روایت کے مطابق17ہزار(الکافی۱۳۴/۲)
جبکہ موجودہ قرآنی آیات کی تعداد۶۲۳۶ہے۔(تفسیر مجمع البیان للطبرسی)گویا شیعہ قوم کے نزدیک دو تہائی قرآن ضائع ہو چکا ہے۔شیعہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے بارے میں ایک سورت نازل فرمائی تھی،جس کانام’’سورہ الولایۃ‘‘تھا۔(فصل الخطاب للنوری180،تذکرۃ الائمۃ لمحمدباقر المجلسی،9۔10)
نظریہ امامت
شیعہ نظریہ کے مطابق جس طرح نبوت اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک منصب ہے اسی طرح امامت بھی الہیٰ منصب ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’الامامۃ منصب الھی کالنبوۃ‘‘امامت نبوت کی مانند الہی منصب ہے۔(أصل الشیعۃ واصولھا58)امام جعفر فرماتے ہیں۔’’بنی الاسلام علی خمس:علی الصلاۃوالزکوۃ والصوم والحج والولایۃ ولم ینادبشیءکمانودی بالولایۃ‘‘’’اسلام پانچ بنیادوں پر قائم ہے۔1:نماز،2:زکوۃ،3:روزہ،4:حج،5:ولایت اور کسی چیز کی طرف اتنا بلایا نہیں گیا جتنا زیادہ ولایت کی طرف بلایا گیا ہے۔(أصول الکافی2/18)
چنانچہ خمینی لکھتا ہے:’’وان من ضروریات مذھبنا،ان لائمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقربً ولا نبی مرسلً‘‘(الحکومۃ الاسلامیہ52)’’اور بے شک ہمارے مذہب کی ضروریات(میں یہ بات شامل ہے)یہ کہ ہمارے ائمہ کے لیے وہ مقام ہے کہ جس تک نہ تو کوئی فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل‘‘امامیہ’’عصمت ائمہ‘‘کے عقیدے پر متفق ہیں۔اس عقیدے سے ائمہ ہر صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔نہ تو وہ جان بوجھ کر گناہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے بھول چوک سے گناہ سرزدہوتا ہے۔اسی طرح وہ تاویل میں بھی خطا نہیں کھاتے۔(بحار الانوار،25/211،مرآۃ العقول4/352،أوائل المقالات:276)ان کے نزدئک امام سہو ونسیان میں واقع نہیں ہوتا۔یہ شیعہ کا وہ مسئلہ ہے جن پر ان کا اجماع ہے۔(عقائد الامامیۃ للمظفر:95،صراط الحق لأصف المحیسنی:3/121)شیعہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ اپر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور وہ وحی کے بغیر کلام نہیں کرتے۔(بحار الانوار:26/358،17/155،54/234)
صحابہ کرام کے بارے میں عقیدہ
ایسے عقائد کے حاملین رافضہ کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:شیعہ کا عقیدہ ہے کہ صحابہ نبی کریمﷺکی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے،سوائے تین یا چار کے کوئی بھی ارتداد سے محفوظ نہ رہا۔(السقیفۃ:19،احقاق الحق و ازھاق الباطل:316)صحابہ کرام نبی کریمﷺکے زمانے میں نفاق پر تھے۔(احقاق الحق و ازھاق الباطل:3،تفسیر الصافی:1/4)
’’جس کسی نے یہ زعم رکھا کہ قرآن کی آیات کم ہوگئی ہیں یا چھپا لی گئی ہیں یا اس زعم میں مبتلا ہوا کہ قرآن کی ایسی باطنی تاویلات ہیں کہ جو مشروع اعمال کو ساقط کر دیتی ہیں تو ایسوں کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں اور جس کسی نے یہ زعم رکھا کہ سوائے چند صحابہ کےجو کہ دس اورکچھ کی تعداد کو بھی نہیں پہنچتے باقی تمام صحابہ رسولﷺکے بعد مرتد ہوگئے تھے یا یہ کہ ان کے عام افراد فاسق ہوگئے تھے تو ایسے کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیونکہ یہ شخص ان آیات کو جھٹلانے والا ہے جس میں صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے اور اللہ نے صحابہ سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا ہے۔ایسے کے کفر میں بھی بھلا کون شک کر سکتا ہے؟اس کا کفر تو متعین ہے۔یہ قول کہنے والاکا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو نقل کرنے والےکفار یا فساق ہیں۔یہ قرآن مجید کی اس آیت’’کُنْتُمْ خیر اُمَّۃ۔۔۔۔’’تم بہترین امت ہو‘‘کا صریح انکا ر ہے۔
یقیناً اس امت کا سب سے بہترین حصہ پہلی صدی میں تھا اور اگر یہ مانا جائے کہ ان کے عوام کفار یا فساق تھے(تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ)یہ امت سب امتوں میں بدترین امت ہے اور اس کے پہلےلوگ اس کے شریر ترین تھے۔اس قول کا کفر ہونا ان امور میں آتا ہے کہ جو معلوم من الدین بالضرورۃ ہیں۔(الصارم المسلول587،586)
جاری ہے