• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل علم میری مدد فرماے حدیث کو وحی نا ماننے والوں کی خلاف

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
پہلی نشست کا خلاصہ
منکر کی دلیل (١)حدیث وحی نھی کیونکہ اللہ تعالی نےفرمایا قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گیی ہے اس میں صرف یہ چیزیں حرام ہے
اب حدیث وحی اس لیے نھی کہ حدیث میں تو بہت کچھ حرام ہے

میری دلیل (١)حدیث وحی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی یہاں ھو ضمیر ینظق کی طرف راجع ہے جس سے مراد نطق ہے مقصد یہ کہ جو بھی رسول اللہ کی منہ سے نکلتاہے تو وہ وحی ہے جاری ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
منکر کی دلیل (١)حدیث وحی نھی کیونکہ اللہ تعالی نےفرمایا قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گیی ہے اس میں صرف یہ چیزیں حرام ہے۔ اب حدیث وحی اس لیے نھی کہ حدیث میں تو بہت کچھ حرام ہے
اس آیت کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اب تک مجھ پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس میں ان چار چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کی وحی کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ اور بعد کی وحی میں اور بھی چیزوں کو حرام کیا گیا جو قرآن میں بھی ہیں اور حدیث میں بھی۔ یہ مفہوم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔

اس کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے سیاق و سباق میں مشرکین مکہ کے منگھڑت محرمات کی فہرست بیان کی گئی ہے اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی زبان سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ جنہیں تم مشرکین حرام سمجھتے ہو ان میں سے میں صرف ان چار چیزوں کو وحی الہی میں حرام پاتا ہوں۔ یہ مفہوم امام شافعی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے جو قرآن کے سیاق و سباق کا تقاضا ہے۔

لہذا اس آیت کی بنیاد پر احادیث میں بیان شدہ محرمات کا انکار کرنا درست نہیں ہے جبکہ قرآن نے خود ان چار چیزوں کے علاوہ کو بھی حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا ۚ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّ‌مَ رَ‌بُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَ‌بُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّ‌مَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
[COLOR="#FF000[QUOTE]0"]منکر کی دلیل نمبر ٢
حدیث وحی نھیں کیونکہ حدیث قرآن مجید کی خلاف اور ضد ھوتی ہے جیسا کی رجم کی احادیث سب سورہ نور کی آیت نمبر دو کی خلاف ہے اس لیے رجم کی تمام احادیث غلط ہے بکواس ہے جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قول عمر صحیح ہے اگر لوگوں کا خوف نا ھوتا تو میں اس آیت کو قرآن میں شامل کرتا تو وہ لوگ کافر ہے رجم کی سزا قرآن کی باالکل خلاف ہے [/COLOR][/QUOTE]
میں نے ان کو پہلی دلیل کی جواب میں کہا تھا کہ قرآن میں تو محرمات اس کی علاوہ بھی ہے اور پھر میں نے وہ سارے آیات نکال کر پیش کی جو شیخ ابوالحسن علوی صاحب کی آخری مندرجہ بالا تحریر میں ہےلیکن وہ نھیں مانا اور انھوں نے کہا کہ آیت میں ذکر ہے علی طاعم یطعمہ کھانے کی چیز مراد ہے اور کھانے کی محرمات چار ہی ہے جب میں نے والمنخنقۃ والموقوذۃ والا آیت بتادی تو انھوں کہا کہ یہ تو سب میتتہ کی تفسیر ہے اور یہ سب میتتہ میں داخل ہے جواب تو ان کا وزنی تھا تو مین نے ایالزامی جواب دیا مین نے کھا تم غلط کہتے ہو حدیث میں محرمات زیادہ نھی چار چیزیں ھی ہے آپ کوئی ایسا حدیث بتادے جس میں محرمات چار سے زیادہ ہو تو پھر انھوں نے کہا کہ یہ قرض ھوا ڈھونڈ کر نکالینگے اب یہ قرض ان پر باقی ہے
یہ جواب میں تفھیم القرآن مودودی صاحب والی میں دیکھی تھی کہ اصل محرمات چار ہی ہے عند البعض اور باقی کی متعلق احادیث میں صرف کراہت یا منع کا ذکر ہے حرام کا نھیں اس لیے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ اور اماں عایشہ کا مسلک ہے کہ محرمات غلیظہ صرف چار ھی ہے واللہ اعلم پتہ نہیں میرا یہ دلیل صحیح ہے یا نہی لیکن اس سے مخالف خاموش ضرور ھوا
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
اس آیت کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اب تک مجھ پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس میں ان چار چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کی وحی کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ اور بعد کی وحی میں اور بھی چیزوں کو حرام کیا گیا جو قرآن میں بھی ہیں اور حدیث میں بھی۔ یہ مفہوم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔

اس کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے سیاق و سباق میں مشرکین مکہ کے منگھڑت محرمات کی فہرست بیان کی گئی ہے اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی زبان سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ جنہیں تم مشرکین حرام سمجھتے ہو ان میں سے میں صرف ان چار چیزوں کو وحی الہی میں حرام پاتا ہوں۔ یہ مفہوم امام شافعی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے جو قرآن کے سیاق و سباق کا تقاضا ہے۔

لہذا اس آیت کی بنیاد پر احادیث میں بیان شدہ محرمات کا انکار کرنا درست نہیں ہے جبکہ قرآن نے خود ان چار چیزوں کے علاوہ کو بھی حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا ۚ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّ‌مَ رَ‌بُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَ‌بُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّ‌مَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١

جزاک اللہ شیخ صاحب آپ کی پہلی والی پوسٹ سے بھی میں پواینٹ نوٹ کی ہے اور یہ پوسٹ تو لاجواب ہے امید ہے آپ خصوصا رھنمائی اور باقی احباب عمو ما رھنمائی جاری رکھینگے شکرا کزیلا
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
میں نے ان کو پہلی دلیل کی جواب میں کہا تھا کہ قرآن میں تو محرمات اس کی علاوہ بھی ہے اور پھر میں نے وہ سارے آیات نکال کر پیش کی جو شیخ ابوالحسن علوی صاحب کی آخری مندرجہ بالا تحریر میں ہےلیکن وہ نھیں مانا اور انھوں نے کہا کہ آیت میں ذکر ہے علی طاعم یطعمہ کھانے کی چیز مراد ہے اور کھانے کی محرمات چار ہی ہے جب میں نے والمنخنقۃ والموقوذۃ والا آیت بتادی تو انھوں کہا کہ یہ تو سب میتتہ کی تفسیر ہے اور یہ سب میتتہ میں داخل ہے جواب تو ان کا وزنی تھا تو مین نے ایالزامی جواب دیا مین نے کھا تم غلط کہتے ہو حدیث میں محرمات زیادہ نھی چار چیزیں ھی ہے آپ کوئی ایسا حدیث بتادے جس میں محرمات چار سے زیادہ ہو تو پھر انھوں نے کہا کہ یہ قرض ھوا ڈھونڈ کر نکالینگے اب یہ قرض ان پر باقی ہے
کتاب اللہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی بیان ہوا ہے کہ آپ طیبات کو حلال قرار دیتے ہیں اور خبائث کو حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ ہے کہ طیبات اور خبائث کی فہرست بیان کریں۔ اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طیبات اور خبائث کے بارے کلام کہاں کیا ہے؟ یعنی طیبات حلال ہیں اور خبائث حرام ہیں۔ لیکن طیبات کیا ہیں اور خبائث کیا ہیں؟ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم واضح کریں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُ‌هُم بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ‌ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٥٧﴾
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور طیبات کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور خبائث کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں۔
طیبات کو حلال قرار دینے اور خبائث کو حرام قرار دینے کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے نہ کہ کتاب اللہ کی طرف۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حلت و حرمت کا اختیار دیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں ایک جگہ ایسے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے یا اللہ کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَلَا يُحَرِّ‌مُونَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ
قتال کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں۔
یہاں حرام کرنے کی نسبت یا تحریم کا فاعل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کو قرار دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جیسے اللہ کے پاس تحریم کا اختیار ہے ایسے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تحریم کا اختیار دیا گیا ہے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کے علاوہ محرمات کو بیان کرنا دراصل قرآن ہی کا بیان ہے یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بیان کردہ محرمات طیبات اور خبائث کی فہرست ہیں اور ارشاد باری تعالی کا مصداق ہیں:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٤٤﴾
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
بسم اللہ الرحمن الرحیم


حدیث کے وحی خفی ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے​

(1) اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:- جو درخت تم نے کا ٹے یا چھوڑدئے یہ سب اللہ کے حکم سے تھا( الحشر5)


اس آیات سے معلوم ہوتا ہےکہ درخت اللہ کے حکم سے کاٹے گیے تھے لیکن وہ حکم قرآن میں کہیں نہیں لہٰذا ثابت ہواکہ قرآن کے علاوہ بھی کوئی وحی تھی جس کے ذریے حکم بیجھا گیا تھا:

2) اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اور اس قبلہ کو جس پر آپ اس وقت ہیں(یعنی بیت المقدس) کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کون رسول کی اتباع کرتا ہے(البقرۃ-143)

بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں ہے لہٰذا وہ حکم بذریہ وحی خفی تھا؛واضح ہوکہ اس آیات میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے کیونکہ اس سے آگے ارشاد ہے"ہم عنقریب اس قبلے کی طرف آپ کو موڑ دیں گیں جس قبلے کی آپ کو خواہش ہے"یعنی کعبہ کی طرف منہ کرنےکا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا:


(3) اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:ـ اور جب نبی نے ایک بات پوشیدہ طور پر اپنی ایک بیوی سے کہی تو اس بیوی نے اس بات کو ظاہر کر دیا؛اللہ نے نبی کو اس افشا ء رازسے مطلع کر دیا تو نبی نے بعض بات جتا دی اور بعض بات سے چشم پوشی کی پس جب نبی نے اس بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو بی بی نے پوچھا آپ کو کس نے خبر دی نبی نے کہا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی(التحریم-3)

قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بیوی نے تمہارا راز ظاہر کر دیا پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طر ح خبر دی؟ ظاہر ہے وحی خفی یعنی حدیث کے ذریہ سے

4)اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ جس وقت اے نبی تم مومنین سے کہہ رہے تھےکہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتو ں سے تمہاری مدد کرے بلکہ اگر تم صبر کرو گے اور پر ہیز گاری اختیار کرو گے اور کافر پورے جو ش و خروش سے تم پر حملہ اور ہوں گے تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں تمہاری مدد فرما ئے گا
(ال عمران:ـ124-125)

یہ خبر جو رسول ﷺ نے جنگ سے پہلے صحابہ کو دی تھی اور جس کا ذکر اللہ نے جنگ کہ بعد ان آیات میں کیا ہے؛ قرآن مجید میں کہاں ہے ؟ آخر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی تین ہزار بلکے پانچ ہزار فرشتوں مدد فرمائے گا-
اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی وہی کام کر رہے ہیں جس کی ممانعت کی گئی تھی اور وہ برابر گناہ ظلم و زیادتی اور رسول کی نا فرمانی کی سر گو شی کر تے رہتے ہیں(المجادلہ:8)

ظاہر ہے کہ اس آیات کے نزول سے پہلے سر گوشی سے منع کر دیا گیا ہو گا لیکن ممانعت کا حکم قرآن میں اس آیات کے بعد ہے پس ثابت ہوا کہ پہلے بزریہ وحی خفی منع کیا گیا تھا:


اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ نمازوں کی حفاظت کرو خصو صا درمیانی نماز کی اور اللہ سامنےادب سے کھڑے ہوا کرو اگر تم کو خوف ہو تو پھر نماز پیدل یا سوار ی پر پڑھ لو لیکن جب امن ہو جائے تو پھر اسی طریقہ سے اللہ کا ذکر کرو جس طریقہ سے اللہ نے تمہیں سیکھایا ہے اور جس طریقہ کو تم( پہلے) نہیں جانتے تھے(ابقرۃ238-239)

اس آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز پڑھنے کا ایک خاص طریقہ مقرر ہے جق بحالت جنگ معاف ہے:بحالت امن اسی طریقہ سے نماز پرھی جائے گی،اس طریقہ کی تعلیم کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن قرآن مجید میں یہ طریقہ کہیں مذکور نہیں ظاہر ہے کہ اللہ نے سکھا یا اور حدیث کہ زریعہ سکھایا جو بزریعہ و حی نازل ہوئی:

اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اے ایما والو ، جب جمعہ کے دن نماز کے لیے تم کو بلایا جا ئے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی سے آجایا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دیا کرو(الجمعہ 9)

آیات سے ظاہر ہوتا ہے نماز جمعہ کے لئے بلا یا جاتا تھا لیکن اس بلانے کا طریقہ کیا تھا؟ یہ بلانا کس کے حکم سے مقرر ہوا تھا قرآن اس سلسہ میں خاموش ہے ـ پھر جمعہ کی نماز کا اہتمام علاوہ اور دنوں کا کو ئی درجہ رکھتا ہو گا جمعہ کی نماز کا کوئی خاص وقت بھی مقرر ہو گا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر وقت تیار رہیں،جب بلایا جائے چلے آئیں خواہ دن میں کئی بار بلایا جائے - یہ سب چیزیں اس آیت کے نزول سے پہلے مقرر ہیں ہو چکی تھیں لیکن قرآن اس سلسلہ میں بلکیل خاموش ہے – ظاہر ہے کہ پھر یہ تمام کام بزریعہ وحی خفی یعنی بذریہ حدیث مقرر ہوئے تھے:

اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اگر دو لڑکیاں ہوں تو ان کو دہ تہا ئی ترکہ ملے (النساء11)

آیات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ کن حالات میں ترکہ اس طرح تقسیم ہو گا لہٰذا لازمی ہے کہ ان حالات کا علم بزریعہ وحی خفی دیا گیا ہو ،اسی طرح اس آیات میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تقسیم کے بعد باقی ترکہ کا کیا کیا جائے آخر اس کا بھی کوئی مصرف ہونا چاہیئے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ضا ئع ہونے دیا جائے یا یو ں ہی چھوڑ دیا جائے ، لہٰذا اس کے متعلق بھی کوئی ہدائت ہونی چاہیئے لیکن قرآن میں نہیں ہے ظاہر ہے کہ وہ ہدایت حدیث میں ہو گی ، لہٰذا حدیث وحی ہے:


اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اب تم رمضان کی راتوں میں عورتوں سے مل سکتے ہو ( البقرۃ 87ا)

اس آیات سے معلوم ہوا کہ پہلے رمضا ن کی راتوں میں عورتوں سے ملنا منع تھا ، لیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں ،لہٰذا یہ حکم بزریہ وحی خفی نازل ہوا تھا لہٰذا حدیث وحی خفی ہوئی:
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
kaafi dilchasp mozo hai. Chunke ye mozo public forum par chaira giya hai is liye bahtar hoga k pahle bunyadi istilahaat ki taarif ki jaye taky mere jaise aam qarian jan sakain k wahi matloo ya wahi jali kia hai AUR wahi ghair matloo ya wahi khafi kia hai. Konsi baat kab/kaise wahi jali ban jati aur kab/kaise ose wahi khafi tahraya jayega. Nazool k aitebar se wahi jali main kin baton ka hona zaroori hai aur wahi khafi main kin baton ka hona zaroori hai
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
کتاب اللہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی بیان ہوا ہے کہ آپ طیبات کو حلال قرار دیتے ہیں اور خبائث کو حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ ہے کہ طیبات اور خبائث کی فہرست بیان کریں۔ اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طیبات اور خبائث کے بارے کلام کہاں کیا ہے؟ یعنی طیبات حلال ہیں اور خبائث حرام ہیں۔ لیکن طیبات کیا ہیں اور خبائث کیا ہیں؟ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم واضح کریں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُ‌هُم بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ‌ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٥٧﴾ جناب شیخ ابوالحسن صاحب یہی آیت وہ بھی بیان کرتے ہیں لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ اختیار تحلیل وتحریم حکمت ہے ان کو وحی نھی کہاجاتا
البتہ شیخ محترم یہ قاتلوالذین لایوءمنون بااللہ ولابالیوم الاخر ولایحرمون ماحرم اللہ ورسولہ والا پواینٹ بہت زبردست ہے یہ میں ان کی سامنے رکھونگا کیونکہ اگر ماحرم الرسول وحی نہی تو پھر قتال کیسے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جزاک اللہ سرجی بہت خوب بہت ہی زبردست
پوایینٹ دیا آپ نے
 

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
وحیِ خفی کا معاملہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ تمام انبیا علیہم السلام کی طرف وحی خفی کا نزول ہوتا تھا. ایک مثال جناب موسی علیہ السلام کی بھی ہے. اللہ نے موسی علیہ السلام کوفرعون کی طرف بھیجا اور پھر سارے معاملے کے بعد یعنی جب بنی اسرائیل کو اللہ نے فرعون سے نجات دے دی تب اللہ نے موسی علیہ السلام کو "تورات" سے نوازا. یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تورات کے علاوہ بھی موسی علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی.
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
بسم اللہ الرحمن الرحیم


حدیث کے وحی خفی ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے​

(1) اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:- جو درخت تم نے کا ٹے یا چھوڑدئے یہ سب اللہ کے حکم سے تھا( الحشر5)


اس آیات سے معلوم ہوتا ہےکہ درخت اللہ کے حکم سے کاٹے گیے تھے لیکن وہ حکم قرآن میں کہیں نہیں لہٰذا ثابت ہواکہ قرآن کے علاوہ بھی کوئی وحی تھی جس کے ذریے حکم بیجھا گیا تھا:

2) اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اور اس قبلہ کو جس پر آپ اس وقت ہیں(یعنی بیت المقدس) کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کون رسول کی اتباع کرتا ہے(البقرۃ-143)

بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں ہے لہٰذا وہ حکم بذریہ وحی خفی تھا؛واضح ہوکہ اس آیات میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے کیونکہ اس سے آگے ارشاد ہے"ہم عنقریب اس قبلے کی طرف آپ کو موڑ دیں گیں جس قبلے کی آپ کو خواہش ہے"یعنی کعبہ کی طرف منہ کرنےکا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا:


(3) اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:ـ اور جب نبی نے ایک بات پوشیدہ طور پر اپنی ایک بیوی سے کہی تو اس بیوی نے اس بات کو ظاہر کر دیا؛اللہ نے نبی کو اس افشا ء رازسے مطلع کر دیا تو نبی نے بعض بات جتا دی اور بعض بات سے چشم پوشی کی پس جب نبی نے اس بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو بی بی نے پوچھا آپ کو کس نے خبر دی نبی نے کہا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی(التحریم-3)

قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بیوی نے تمہارا راز ظاہر کر دیا پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طر ح خبر دی؟ ظاہر ہے وحی خفی یعنی حدیث کے ذریہ سے

4)اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ جس وقت اے نبی تم مومنین سے کہہ رہے تھےکہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتو ں سے تمہاری مدد کرے بلکہ اگر تم صبر کرو گے اور پر ہیز گاری اختیار کرو گے اور کافر پورے جو ش و خروش سے تم پر حملہ اور ہوں گے تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں تمہاری مدد فرما ئے گا
(ال عمران:ـ124-125)

یہ خبر جو رسول ﷺ نے جنگ سے پہلے صحابہ کو دی تھی اور جس کا ذکر اللہ نے جنگ کہ بعد ان آیات میں کیا ہے؛ قرآن مجید میں کہاں ہے ؟ آخر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی تین ہزار بلکے پانچ ہزار فرشتوں مدد فرمائے گا-
اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی وہی کام کر رہے ہیں جس کی ممانعت کی گئی تھی اور وہ برابر گناہ ظلم و زیادتی اور رسول کی نا فرمانی کی سر گو شی کر تے رہتے ہیں(المجادلہ:8)

ظاہر ہے کہ اس آیات کے نزول سے پہلے سر گوشی سے منع کر دیا گیا ہو گا لیکن ممانعت کا حکم قرآن میں اس آیات کے بعد ہے پس ثابت ہوا کہ پہلے بزریہ وحی خفی منع کیا گیا تھا:


اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ نمازوں کی حفاظت کرو خصو صا درمیانی نماز کی اور اللہ سامنےادب سے کھڑے ہوا کرو اگر تم کو خوف ہو تو پھر نماز پیدل یا سوار ی پر پڑھ لو لیکن جب امن ہو جائے تو پھر اسی طریقہ سے اللہ کا ذکر کرو جس طریقہ سے اللہ نے تمہیں سیکھایا ہے اور جس طریقہ کو تم( پہلے) نہیں جانتے تھے(ابقرۃ238-239)

اس آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز پڑھنے کا ایک خاص طریقہ مقرر ہے جق بحالت جنگ معاف ہے:بحالت امن اسی طریقہ سے نماز پرھی جائے گی،اس طریقہ کی تعلیم کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن قرآن مجید میں یہ طریقہ کہیں مذکور نہیں ظاہر ہے کہ اللہ نے سکھا یا اور حدیث کہ زریعہ سکھایا جو بزریعہ و حی نازل ہوئی:

اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اے ایما والو ، جب جمعہ کے دن نماز کے لیے تم کو بلایا جا ئے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی سے آجایا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دیا کرو(الجمعہ 9)

آیات سے ظاہر ہوتا ہے نماز جمعہ کے لئے بلا یا جاتا تھا لیکن اس بلانے کا طریقہ کیا تھا؟ یہ بلانا کس کے حکم سے مقرر ہوا تھا قرآن اس سلسہ میں خاموش ہے ـ پھر جمعہ کی نماز کا اہتمام علاوہ اور دنوں کا کو ئی درجہ رکھتا ہو گا جمعہ کی نماز کا کوئی خاص وقت بھی مقرر ہو گا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر وقت تیار رہیں،جب بلایا جائے چلے آئیں خواہ دن میں کئی بار بلایا جائے - یہ سب چیزیں اس آیت کے نزول سے پہلے مقرر ہیں ہو چکی تھیں لیکن قرآن اس سلسلہ میں بلکیل خاموش ہے – ظاہر ہے کہ پھر یہ تمام کام بزریعہ وحی خفی یعنی بذریہ حدیث مقرر ہوئے تھے:

اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اگر دو لڑکیاں ہوں تو ان کو دہ تہا ئی ترکہ ملے (النساء11)

آیات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ کن حالات میں ترکہ اس طرح تقسیم ہو گا لہٰذا لازمی ہے کہ ان حالات کا علم بزریعہ وحی خفی دیا گیا ہو ،اسی طرح اس آیات میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تقسیم کے بعد باقی ترکہ کا کیا کیا جائے آخر اس کا بھی کوئی مصرف ہونا چاہیئے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ضا ئع ہونے دیا جائے یا یو ں ہی چھوڑ دیا جائے ، لہٰذا اس کے متعلق بھی کوئی ہدائت ہونی چاہیئے لیکن قرآن میں نہیں ہے ظاہر ہے کہ وہ ہدایت حدیث میں ہو گی ، لہٰذا حدیث وحی ہے:


اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اب تم رمضان کی راتوں میں عورتوں سے مل سکتے ہو ( البقرۃ 87ا)

اس آیات سے معلوم ہوا کہ پہلے رمضا ن کی راتوں میں عورتوں سے ملنا منع تھا ، لیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں ،لہٰذا یہ حکم بزریہ وحی خفی نازل ہوا تھا لہٰذا حدیث وحی خفی ہوئی:
جزاک اللہ ہابیل بھائی یہ سب پواینٹ بہت اچھے ہیں میں نے نوٹ کرلیا ہے لیکن یہ سب پواینٹ وہ اس طرح رد کرتے ہیں کہ ھم تو حدیث کو مانتے ہیں اور ان کی اھمیت کو بھی مانتے ہیں لیکن اس کو وحی نھی مانتے لھذا کوئی کھل کر ایسی دلایل جمع کرنی کی ضرورت ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حدیث وحی ہے یا وہ دلایل کام آینگے جو ان کی دلایل کی توڑ کریں یعنی ان کی دلایل کی جوابات بہر حال جزاک اللہ ہابیل بھائی آپ کی دلایل حدیث کی اھمیت کی موضوع پر بہت ہی اچھی ہے جزاک اللہ احسن الجزاء
 
Top