• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل قبلہ کا “قبلہ نما” أھۡلُ السُّنَّۃِ وَالجَمَاعَۃ!!!

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37

اہل قبلہ کا “قبلہ نما” أھۡلُ السُّنَّۃِ وَالجَمَاعَۃ!!!


سفر الحوالی

مدرسہ ابن تیمیہ کا پورا ڈسکورس دیکھیں… تو یہاں “اہل سنت وجماعت” دو حیثیتوں میں سامنے آتے ہیں:

1۔یہ امت کا وہ حصہ ہیں جو زمین پر نبیﷺ اور صحابہ ؓ کا اصل وارث ہے۔ اُس اصل دین کا امین جو علم، عمل، اخلاق، معاشرت، سیاست، جہاد، تزکیہ، دعوت اور سلوک وغیرہ کی صورت اسلام کے قرنِ اول میں کرۂ ارض کے ایک بڑے حصے پر قائم رہا اور ایک بڑی خلقت اس کا مشاہدہ کرتی رہی۔
وہ اصل چیز جو رسول اللہﷺ سے صحابہ ؓ کو منتقل ہوئی اور صحابہ ؓ نے کمال دیانت و ذمہ داری سے ہر ہر سطح پراُسکو امت کی آئندہ نسلوں کو منتقل کیا:
“سنت”
کہلاتی ہے۔پھر اسلام کی اِس حقیقت پر جسے ہم
“سنت”
کہتے ہیں، صحابہؓ نے ایک ایسی مجتمع قوت بن کر دکھایا جو کرۂ ارض پر موجود ادیان، تہذیبوں، ملتوں، امتوں کا رخ بدل دینے اور دنیا کے بت کدے توڑنے، شرک مٹانے، خالص اللہ کی عبادت کروانے ، زمین پر عدل قائم کروانے اور انسانوں کو فوج در فوج دینِ خداوندی میں لے کر آنے کے ایک سلسلۂ لامتناہی کی بنیاد بنی۔​
“سنت”
(اسلام کی وہ مستند حقیقت جو رسول اللہﷺ سے صحابہؓ کے ذریعے امت کو منتقل ہوئی) پر قائم صحابہؓ کی یہ جتھہ بند حالت
“الجماعۃ”

کہلائی۔

پس یہ وہ لوگ ہوئے جنہوں نے صحابہؓ سے “سنت” اور “جماعت” دونوں چیزیں لیں اور پھر انہی دو چیزوں کا دم بھرتے دنیا سے گئے۔ یہ ہیں ’’اھل السنۃ والجماعۃ‘‘۔”سنت” سے انحراف[1]
“بدعت”
کہلایا اور
“جماعت”
سے انحراف
“تفرقہ“
۔ دونوں کو دین میں ہلاکت اور دوزخ کا موجب بتایا گیا۔ نیز دونوں کو لازم و ملزوم ٹھہرایا گیا۔ یعنی “بدعت” میں پڑنا بجائےخود “تفرقہ” ہے اور “تفرقہ” میں پڑنا بجائےخود “بدعت”۔ دونوں کا مفہوم اپنا اپنا لیکن مآل eventual status یکساں۔ چنانچہ ان 72 بدعتی ٹولوں پر “فرقوں” کا لفظ بھی بولا گیا اور “بدعتوں” کا بھی۔ البتہ وہ “ایک” جو بدعت اور تفرقہ سے بچ گیا اس کو ’’الجماعۃ‘‘ کہا۔ پھر پوچھنے پر یہ بھی بتایا کہ امت کا یہ حصہ جو “الجماعۃ” رہا اس کا وصف کیا ہوگا؟ فرمایا: ما أنا عليه وأصحابي “جو اُس چیز پر ہوگا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں”۔ چنانچہ احادیث میں 72 کو دوزخ کی وعید سنائی گئی اور “ایک” کو نجات کی بشارت۔
پس “اہل سنت و جماعت” امت کا وہ گروہ ہوا جو: دنیا میں “بدعت” اور “تفرقہ” سے بچا ہوا اور “سنت” اور “جماعت” پر قائم.. اور آخرت میں اللہ کے فضل سے دوزخ سے بچایا جانے والا اور جنت میں جانے والا ہوگا۔ جبکہ “اہلِ بدعت و تفرقہ” اس کے برعکس۔ گو یہ “اہل بدعت” بھی ملت میں داخل اور امت کا حصہ ضرور ہیں اور آخرت میں دوزخ کی وعید کے باوجود جنت کےلیے دائمی نااہل نہیں سوائے کسی ایسے شخص کے جس کی “بدعت” اور “تفرقہ” شرک اور کفر کے درجے کو پہنچتا ہو اور اس پر حجت قائم کرلی گئی ہو۔
چنانچہ یہ وجہ ہے کہ رسالہ کے متن میں شیخ سفرالحوالی امت کے اہل سنت کو اللہ رب العزت کی یہ دہری نعمت جتاتے ہیں:


  • ایک بار نعمت ہوئی کہ امتِ محمدﷺ میں سے ہوئے، جس کا گنہگار سے گنہگار اور منحرف سے منحرف آدمی بھی اس بات کا امیدوار تو ضرور ہےکہ خدا کی ابدی رحمت اور بہشت سے محروم نہ ہو۔
  • دوسری بار نعمت ہوئی کہ امتِ محمدﷺ کے اُس حصے میں سے ہوئے جو “سنت” اور “جماعت” پر ہونے کے ناطے ہر قسم کی دوزخ سے نجات پانے کا امیدوار ہے

  1. “اہل سنت” کی دوسری حیثیت یہ سامنے آتی ہے کہ یہ امت کا “کور گروپ” Core Group ہیں۔ ملت کے اصل ایجنڈا بردار۔ امت کی روحِ رواں۔ اہل قبلہ کا قبلہ نما compass جو ان پر حجت قائم کرتا ہے۔ ان میں سے بہت سوں کو راہِ راست پر لاتا، ان کو شیاطین کے چنگل سے رہائی دلاتا، ان کو بھٹکانے والے دجالوں کے ساتھ الجھتا اور اِن پر حملہ آور دشمن سے ٹکراتا ہے۔ ان کے ہزاروں کے ہزاروں کو بدعت وضلالت سے بچاتا اور سنت کا حلقہ بگوش کراتا ہے۔ ان کے غم میں گھلتا، ان کی ہدایت کےلیے دعاگو رہتا، دشمن کی چیرہ دستیوں کا ادراک کرتا، اُس کے خلاف اِن کو جہاد میں اتارتا… یوں ہر عہد کے بحرظلمات میں اِن کو پار لگاتا ہے۔
مدرسہ ابن تیمیہ کا ڈسکورس “مسلم عروج و زوال” کے پیچھے ہمیشہ “اہل سنت” کی معاشرتی پیش قدمی اور پسپائی کو تلاش کرتا یا اس کی نشاندہی کرتا ہے۔ “اہل سنت” قیادتوں کو ’حکومتوں‘ اور ’وزارتوں‘ سے زیادہ “معاشروں” کی نبض یا ان کے دھڑکتے دل کے طور پر دیکھتا ہے کہ اس کے صحیح ہونے کی صورت میں معاشرہ خودبخود سرخروئی کی راہ چلتا ہے؛ یہاں تک کہ خاصےخاصے نااہل اور غلط حکمرانوں کے باوجود معاشرے کی مجموعی کارکردگی اچھی خاصی قابل رشک ہوتی ہے، صرف اس لیے کہ معاشرے کی روحانی، فکری، علمی، تہذیبی، سماجی، احتسابی اور جہادی سرگرمی “اہل سنت” کی راہ نمائی میں اپنا راستہ چل رہی ہوتی ہے۔
چنانچہ جس دور میں “اہل سنت” کو معاشرتی زمین پر غلبہ اور ظہور ملا ہوگا اس دور میں امت (بطور مجموعی) اپنی مثالی ترین حالت میں ہوگی۔ اور جس دور میں “اہل سنت” میدان سے غائب پائے جائیں گے اس دور میں امت کے ہر ہر شعبے میں خاک اڑ رہی ہوگی۔ اس لحاظ سے؛ “اہل سنت امت کی اخروی نجات ہی نہیں دنیوی فلاح کا بھی ایک کلیدی کردار ہے۔ “مسلمان” کے حق میں “دین و دنیا” کا یکجا ہونا جو ایک معروف مسلّمہ ہے وہ امت میں اہل سنت” کی صدارت (مرکزیت) پر آپ سے آپ منتج ہوتا ہے۔ یہ “نیوکلیئس” جس وقت کمزور ہوگا امت کی سرگرمی کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ بےسمت ہوگی۔ ہاں جب یہ جاندار ہوگا امت کو ایک سے بڑھ کر ایک جہت ملے گی۔
“اہل سنت” وجود کے جو دو پہلو dimensions اوپر بیان ہوئے… مدرسہ ابن تیمیہ کے مباحث میں کسی کسی وقت اول الذکر کےلیے “فرقۂ ناجیۃ“[2] اور ثانی الذکر کےلیے “طائفۃ منصورۃ“[3] مستعمل ہے۔ یعنی آخرت میں نجات وسرخروئی اور دنیا میں نصرت و سرفرازی۔ جوکہ ایک آسمانی جماعت کی اصل پوزیشن ہے۔ (دونوں لفظ احادیث سے ماخوذ ہیں)۔ “اہل سنت” اپنے اُس آسمانی عہد کو بحال رکھ کر جو انبیاء کے ذریعے سے انسانوں کو ملا، امت کےلیے ہر دور میں خدا سے دنیوی نصرت لانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور اخروی نجات کا۔

دورِ حاضر میں اہل سنت کے غلبہ و ظہور کی شروعات

ڈاکٹر سفرالحوالی کا یہ ایک اہم تھیسس ہے۔ ان کا کہنا ہے، عالم اسلام کے ایک وسیع خطے میں سنت کے مقابلے پر بدعتی ٹولے بہت بڑی حد تک پسپا ہوچکے۔

(واضح رہے، شیخ سفرالحوالی اہل قبلہ میں پائے جانے والے کمیونسٹوں، سیکولروں، لبرلوں اور نیشنلسٹوں وغیرہ کو امت کے بدعتی ٹولے اور ہلاک ہونے والے فرقے گنتے ہیں اور ان کے مقابلے پر دین کی حقیقت پر جمے رہنے والے موحدین کو “اہل سنت”… یعنی نبیﷺ اور صحابہ﷢ کے راستے پر پایا جانے والا فریق)۔

سفرالحوالی کہتے ہیں، امت میں “قرآن اور ایمان” پر لگاتار محنت کا یہ نتیجہ اور خدا کا فضل ہے کہ بیرون سے کاشت کیے گئے سب فکری گروہ ایک ایک کر کے پسپا ہو رہے ہیں۔ کہاں مصر میں اٹھنے والی ’تہذیبِ فراعنہ کے احیاء‘ اور عراق میں ’بابلی تہذیب کی جانب لوٹنے‘ کی وہ صدائیں جو تھوڑی دیر میں ایک وسیع تر “عرب نیشنلزم” سے بدل دی گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عرب کے بہت سے ممالک میں “ناصریت” اور “بعث” کسی کالی گھٹا کی طرح چڑھ آئیں، مگر آج یہ اپنے آخری دموں پر ہیں اور عرب اسٹریٹ پھر سے “اسلام” اور “حجاب” میں پناہ لے رہی ہے۔ ترکی میں کمال ازم جل کر راکھ ہوا، اب “اسلامی آپشن” کا وقت ہے جو دھیرےدھیرے ترک سرزمین پر بڑھا چلا آ رہا ہے۔ فلسطین کی تحریک آزادی کی پہچان کبھی “پی ایل او” تھی، دو عشرے نہیں گزرتے کہ اب ہر طرف حماس اور جہاد اسلامی کے نغمے ہیں۔ کشمیر کی آواز “کےایل ایف” کی بجائے اسلامی جماعتوں میں ڈھل چکی۔کابل اور جلال آباد جو کبھی پیرس کا نقشہ پیش کرتا تھا آج جہاد کے قصیدے گا رہا ہے۔ رافضیت کے خلاف سنت عالم اسلام میں اپنی تاریخ کی ایک عظیم ترین جنگ لڑ رہی ہے؛ اور اللہ کے فضل سے بری نہیں جا رہی۔ اس کے علاوہ قبرپرستی اور اولیاء پرستی وغیرہ چند عشروں میں بہت پیچھے جا چکی اور توحیدی شعور بڑی تیزی سے آگے بڑھاہے۔ ’مذہبی تعصب‘ کی بدعت میں خاطرخواہ کمی آئی ہے اور سنت پر قائم “فقہی تنوع” کو اچھا خاصا قبول کیا جانے لگا ہے۔ یہ سب سفرالحوالی کی نظر میں “سنت” کی فتح ہے، جس میں بہت کچھ پیشرفت ہونا اور ڈھیروں پختگی آنا ابھی باقی ہے، مگر یہ اہل سنت کی ایک عظیم الشان بیداری پر دلیل ضرور ہے، نیز بہت بار کی طرح ایک بار پھر اہل سنت کی ایک ممکنہتاریخ ساز پیش قدمی کی جانب اشارہ۔ واللہ غالبٌ علیٰ امرہ
[1] ’’انحراف‘‘ یعنی لڑھکنے کےلیے عربی میں ھویٰ یھوِی کا لفظ چلتا ہے۔ پس ’’بدعت‘‘ اور ’’تفرقہ‘‘ ہر دو انحراف کےلیے ایک مختصر لفظ ’’ھویٰ‘‘ یا ’’اھواء‘‘ بھی چلتا ہے۔ کتب عقیدہ میں بدعتی ٹولوں کےلیے ’’اھل الاھواء‘‘ کا لفظ بکثرت مستعمل ہے۔ 72 فرقوں والی حدیث کی بعض روایات میں بھی ان کےلیے ’’اھواء‘‘ کا لفظ بولا گیا ہے۔

[2] ناجیۃ: یعنی نجات پانے والا؛ آخرت میں۔

[3] منصورۃ: یعنی نصرت پانے والا؛ دنیا میں۔
 
Top