عنوان :
ترکہ کی تقسیم کے وقت غرباء و مساکین اور جن رشتہ داروں کا ترکہ میں حصہ نہیں ان کو کچھ دینا ؛
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (سورۃ النساء آیت 7)
ترجمہ :
(ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا(سورۃ النساء آیت 8)
ترجمہ :
جب ترکہ کی تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آ جائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو ۔
امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قيل: المراد: وإذا حضر قسمة الميراث ذوو القربى ممن ليس بوارث واليتامى والمساكين فليرضخ لهم من التركة نصيب، وأن ذلك كان واجبا في ابتداء الإسلام. وقيل: يستحب واختلفوا: هل هو منسوخ أم لا؟ على قولين، فقال البخاري: حدثنا أحمد بن حميد أخبرنا عبيد الله الأشجعي، عن سفيان، عن الشيباني، عن عكرمة، عن ابن عباس: {وإذا حضر القسمة أولوا القربى واليتامى والمساكين} قال: هي محكمة، وليست بمنسوخة. تابعه سعيد عن ابن عباس.
وقال ابن جرير: حدثنا القاسم، حدثنا الحسين، حدثنا عباد بن العوام، عن الحجاج، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس قال: هي قائمة يعمل بها.
آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی ایسا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں ؟
اس میں بھی دو قول ہیں ، امام بخاریؒ نے بسندہ نقل فرمایا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت :
«وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساكين»
”اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں۔“
کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعیدؒ بن جبیر نے بھی سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔(صحیح البخاری 4576)
وقال الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد في هذه الآية، قال: هي واجبة على أهل الميراث، ما طابت به أنفسهم. وهكذا روي عن ابن مسعود، وأبي موسى، وعبد الرحمن بن أبي بكر، وأبي العالية، والشعبي، والحسن، وابن سيرين، وسعيد بن جبير، ومكحول، وإبراهيم النخعي، وعطاء بن أبي رباح، والزهري، ويحيى بن يعمر: إنها واجبة.
اور یہی بات درج ذیل حضرات بھی کہتے ہیں جن میں مشہور مفسر قرآن جناب مجاہدؒ جن کا کہنا ہے کہ یہ حکم اہل میراث پر واجب ہے ،اور یہی بات سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوموسیٰ ، جناب عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہم، امام ابوالعالیہؒ ، امام شعبیؒ ، جناب حسنؒ ، حضرت سعید بن جیرؒ ، شام کے فقیہ جناب مکحولؒ ،امام ابنؒ سیرین ، امام عطاء ؒبن ابو رباح ، امام ابن شہاب زہریؒ ، یحییٰ بن معمر رحمہ اللہ علیہم بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے ، "
(اس کی تفصیل کیلئے تفسیر ابن جریرؒ الطبری اور تفسیر ابن کثیرؒ) دیکھئے ؛
مشہور سلفی محقق شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
سورۃ النساء کی آیت کو بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔
اور مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ تفسیر تیسیر القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
"ترکہ کی تقسیم کے وقت اگر کچھ محتاج، یتیم اور فقیر قسم کے لوگ یا دور کے رشتہ دار آ جائیں تو ازراہ احسان انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔ تنگ دلی یا تنگ ظرفی سے کام نہ لو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو کم از کم انہیں نرمی سے جواب دے دو۔ مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ مال یتیموں کا ہے۔ یا یہ کہ میت نے ایسی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ وغیرہ، وغیرہ"
ــــــــــــــــــــــ
اور فاضل عالم علامہ محمد لقمان سلفی لکھتے ہیں :
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت سے متعلق ایک ضمنی حکم بیان کیا ہے، کہ جب وراثت کا مال تقسیم ہو رہا ہو، اور وہاں ایسے رشتہ دار جو وراثت کے حقدار نہ ہوں اور یتیم اور غریب لوگ آجائیں تو مال تقسیم کرنے سے پہلے بطور صدقہ اور ان کا دل رکھنے کے لیے انہیں کچھ مال دے دینا چاہئے۔ اس آیت کے بارے میں دو رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے، امام بخاریؒ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت نقل کی ہے اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے کہ ورثہ پر یہ حکم واجب ہے، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس آیت کا حکم احکام وراثت کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے، عکرمہ، ابو الشعثاء اور قاسم بن محمد کی یہی رائے ہے، اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ مال میں وصیت کا حکم غیر وارثوں کے لیے باقی ہے۔ صاحب مال اپنی زندگی میں ایک تہائی مال میں بذریعہ وصیت تصرف کرسکتا ہے، جیسا کہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے جسے امام بخاری ؒاور امام مسلم ؒنے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تہائی مال میں بطور وصیت تصرف کرنے کا حق دیا تھا۔ بعض لوگوں نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ آیت کو منسوخ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتہ دار موجود ہوں اور وہ محتاج بھی ہوں، تو صلہ رحمی کا جذبہ رکھنے والے ورثہ یہی مناسب سمجھیں گے کہ انہیں بھی کچھ دے دیا جائے، تاکہ جہاں ان کے کسی رشتہ دار کا مال تقسیم ہو رہا ہے وہاں سے وہ محروم نہ واپس جائیں۔ اور خاص طور سے وہ یتیم بچے، جن کے باپ کا انتقال دادا کے ہوتے ہوئے ہوگیا ہو اور وراثت سے محروم ہوگئے ہوں اور پھر ان کے دادا کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم ہو رہی ہو، اور ان کے چچا اور پھوپھیاں وراثت کا مال پا کر خوش ہو رہی ہوں اور یہ بچے ان کا منہ تک رہے ہوں اور ان کے حصہ میں کچھ نہ آرہا ہو، صرف اس لیے کہ ان کے والد کا انتقال دادا سے پہلو ہوچکا ہے، تو ان کی محرومی کا کیا عالم ہوگا، ایسے بچوں کے حق میں تو یہ آیت آب حیات کے مترادف ہے، اور خاص طور پر اگر دادا کی جائداد بڑی ہو، اور ورثہ ان یتیموں کے حال پر رحم کریں تو ان کے حصہ میں بھی اچھی خاصی جائداد آسکتی ہے، اور ان کی غربت دور ہوسکتی ہے،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور سعودی مفسر علامہ عبد الرحمنؒ بن ناصر بن عبد الله السعدي (المتوفى: 1376هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
(وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى وَالْيَتامى وَالْمَساكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفاً) وهذا من أحكام الله الحسنة الجليلة الجابرة للقلوب فقال: {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ} أي: قسمة المواريث {أُولُو الْقُرْبَى} أي: الأقارب غير الوارثين بقرينة قوله: {الْقِسْمَةَ} لأن الوارثين من المقسوم عليهم. {وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِين} أي: المستحقون من الفقراء. {فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ} أي: أعطوهم ما تيسر من هذا المال الذي جاءكم بغير كد ولا تعب، ولا عناء ولا نَصَب، فإن نفوسهم متشوفة إليه، وقلوبهم متطلعة، فاجبروا خواطرهم بما لا يضركم وهو نافعهم.
(تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان)
یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(واذا حضر القسمۃ) یعنی میراث کی تقسیم کے وقت
(اولوا القربی) یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے وارث نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
(القسمۃ) ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہوگی
(والیتمی والمسکین) ” یتیم اور مساکین“ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ
(فارزقوھم منہ) یعنی اس مال میں سے جو تمہیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہوسکے عطا کر دو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کے دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو بھی دے دو جس سے تمہیں نقصان نہ ہو اور ان کے لئے فائدہ مند ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔