• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل میت کے ہاں دوسرے لوگوں کا کھانا کھانا ۔(کڑوی روٹی )

sheikh fam

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2016
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
53
اسلام و علیکم :
گزشتہ دنوں ایک عزیز کے انتقال میں جانا ہوا ، بعداز تدفین کھانا (کڑوی روٹی )کا اہتمام ہوا جو کہ میت کے گھر والوں نے کیا تھا ۔ کھانے کے اہتمام کا جب میں نے غور سے جائزہ لیا تو دیکھا کہ مہمان حضرات دسترخوان براجمان تھے اورصرف میت کے گھر والے کھانے کےانتظامات (کھلا رہےتھے) سنبھالے ہوئے تھے ۔ مہمانوں میں ہنسی مذاق بھی جاری تھا پھر ایک آواز کانوں سے ٹکرائی ! بھائی ذرا! اچھی والی بوٹیاں نکال کے تو لے آو ۔ جبکہ کے گھر والوں کے چہرے افسردہ دکھائی دے رہے تھے ۔
برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں اس عمل کے بارے میں تفصیل سےنصیحت فرمایئے تاکہ امت مسلمہ کی اصلاح ہو ۔
جزاک اللہ !
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
قرآن کی اس آیت کے بارے بھی کچھ وضاحت ہو جائے۔
{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا} [النساء: 8]
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اسلام و علیکم :
گزشتہ دنوں ایک عزیز کے انتقال میں جانا ہوا ، بعداز تدفین کھانا (کڑوی روٹی )کا اہتمام ہوا جو کہ میت کے گھر والوں نے کیا تھا ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میت والوں کے ہاں کھانا کھانا
سنن ابن ماجہ کا ایک باب ہے :
بَابُ: مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الاِجْتِمَاعِ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةِ الطَّعَامِ
باب:" میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونا اور کھانا تیار شرعاً منع ہے "
اس باب کی حدیث یہ ہے :

عن جرير بن عبد الله البجلي ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "كنا نرى الاجتماع إلى اهل الميت وصنعة الطعام من النياحة".
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یعنی صحابہ کرام میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ (جو شریعت اسلامیہ میں بہت سخت حرام ہے )
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1612 ومصباح الزجاجة: ۵۸۶)، رواه أحمد (6866)
قال الشيخ الألباني: صحيح

مصر کے مشہور محقق محدث محمد فؤادؒ عبد الباقي سنن ابن ماجہ میں اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
[ش (كنا نرى) هذا بمنزلة رواية إجماع الصحابة رضي الله عنهم أو تقرير النبي صلى الله عليه وسلم. وعلى الثاني فحكمه الرفع. وعلى التقديرين فهو حجة]
یعنی سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ : "ہم یعنی صحابہ کرام ایسا سمجھتے تھے " یہ جملہ گویا اجماع صحابہ کا بیان ہے ، اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ تقریری حدیث ہے یعنی خود نبی مکرم ﷺ ایسا ہی سمجھتے تھے ،اس صورت میں یہ موقوف حدیث یعنی اثر صحابی مرفوع حدیث کے حکم میں ہوگی ، اور دوں صورتوں میں یہ قول صحابی شرعی دلیل ہے ۔(کہ اہل میت کے ہاں دوسرے کا کھانا نوحہ کرنے جیسا حرام ہے )

علامہ محمد بن علي الشوكاني (المتوفى: 1250ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
(‏ قوله: (كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت. . . إلخ) يعني أنهم كانوا يعدون الاجتماع عند أهل الميت بعد دفنه، وأكل الطعام عندهم نوعا من النياحة لما في ذلك من التثقيل عليهم وشغلهم مع ما هم فيه من شغلة الخاطر بموت الميت وما فيه من مخالفة السنة؛ لأنهم مأمورون بأن يصنعوا لأهل الميت طعاما فخالفوا ذلك وكلفوهم صنعة الطعام لغيرهم ۔
انتهى من " نيل الأوطار" (4/ 118) .
علامہ محمد بن علی
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی صحابی سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہو کر انکے پاس کھانا کھانے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، کیونکہ اس کی وجہ سے اہل میت پر بوجھ آتا ہے، اور میت والوں کو گھر میں مرگ کی وجہ سے ذہنی تناؤ کے باوجود کھانے کے انتظام میں مشغول ہونا پڑتا ہے، اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نا فرمانی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اہل میت کیلئے کھانا بنائیں، لیکن [یہاں ایسی صورت حال بن جاتی ہے کہ]انہوں نے اُلٹا میت والوں کو اپنے لئے کھانا بنانے میں مصروف کر دیا" انتہی
" نيل الأوطار" (4/ 118)
بات واضح ہے کہ:
میت کے ورثاء کو کھانا کھلانا چاہئے ،جو غم اور دکھ کے عالم میں ہیں ،نا کہ ان سے خود کھانے کے لیئے بیٹھ جائیں۔ اہل میت کا دیگیں پکانا اور تعزیت کے لیئے آنے والوں کا کھانابے حسی اور انسانیت سوز عمل بھی ہے۔ جس کا سدباب لازم ہے۔
ایسا کھانا کھلانا اگر نیکی و ثواب کی نیت سے ہو تو بدعت ہے ،اور نیکی اور اجر وثواب سے قطع نظر رسم و رواج کے طور پر ہو تو فرمان پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ،کیونکہ آپ ﷺ کا حکم ہے کہ دوسرے لوگ اہل میت کے کھانے کا انتظام کریں ؛
سنن ابوداود
باب صَنْعَةِ الطَّعَامِ لأَهْلِ الْمَيِّتِ
باب: اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا۔
عن عبد الله بن جعفر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "اصنعوا لآل جعفر طعاما، ‏‏‏‏‏‏فإنه قد اتاهم امر شغلهم".​
سیدنا جعفر طیار ؓ شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا :
جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ ان پر (غم وحزن کی ایسی ) حالت آپڑی ہے جس نے انہیں مشغول کردیا ہے ( یعنی غم میں ہونے کے سبب یہ اپنے کھانا نہیں بنا سکتے )"
( سنن ابی داود: 3132، وسندہ حسن )“۔
سنن ابی داود 3132، سنن الترمذی/الجنائز ۲۱ (۹۹۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۹ (۱۶۱۰)، مسند احمد (۱/۲۰۵)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کے گھر والے دوسرے لوگوں کے لیے کھانا تیار نہیں کریں گے بلکہ لوگ ان کے لیے کھانا پکا کر بھیجیں گے تاکہ وہ ان ایام غم میں کھانا پکانے کی طرف سے بے فکر رہیں ۔
اس حدیث کی شرح میں عون المعبود شرح سنن ابوداود میں لکھا ہے :
قال بن الهمام في فتح القدير شرح الهداية يستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم ليلتهم ويومهم ويكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة انتهى
یعنی مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن الہمام (كمال الدين محمد بن عبد الواحد (المتوفى: 861هـ)ھدایہ کی شرح فتح القدیر میں فرماتے ہیں کہ : اہل میت کے ہمسایوں اور دور کے رشتہ داروں کیلئے شرعاً مستحب یہ ہے کہ وہ اہل میت کو کم از کم ایک دن رات کا کھانا بناکر کھلائیں ،
اور شریعت میں اہل میت کے ہاں دوسرے لوگوں کا کھانے کی دعوت کھانا مکروہ ہے ،کیونکہ ضیافت (یعنی کھانے کی دعوت ) خوشی کے مواقع پر ہوتی ہے نہ کہ دکھ کے موقع پر ،یہ (اہل میت کے ہاں کھانا ) بہت بری بدعت ہے ۔ (دیکھئے فتح القدیر باب الجنائز )
اس کے بعد علامہ سندھی حنفی (نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ) کا تشریحی نوٹ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کی تعلیق میں لکھا ہے کہ :
وبالجملة فهذا عكس الوارد إذ الوارد أن يصنع الناس الطعام لأهل الميت فاجتماع الناس في بيتهم حتى يتكلفوا لأجلهم الطعام قلب لذلك "
یعنی معاملہ الٹ ہورہا ہے ،کیونکہ حدیث رسول ﷺ میں حکم وارد یہ تھا کہ دوسرے لوگ اہل میت کو کھانا کھلائیں ،لیکن اب لوگ اہل میت کے ہاں کھانے کیلئے جمع ہوتے ہیں ،اور اہل میت بے چارےبڑے اہتمام اور تکلف سے ان ندیدوں کیلئے کھانے کا انتظام کرتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل میت کو کھانے کا انتظام کرنے کی تکلیف دے کر مقروض اور زیرِ بار کرنا ویسے بھی نامناسب اور اخلاقی جرم ہے۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی غمزدہ اور مصیبت زدہ ہوتے ہیں، انہیں اتنی فرصت اور ہوش کہاں کہ اتنی بڑی بڑی جماعتوں کے لیے کھانوں کا انتظام کر سکیں، اسی لیے اصل شرعی صورت یہ ہے کہ متعلقین، دوست احباب وغیرہ انہیں کھانا بہم پہنچائیں؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ایک مخصوص صورت :
جو لوگ دور دراز سے جنازہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں اورکسی وجہ سے وہ واپس نہیں ہوسکتے ، یا کہیں اور سے کھانے کا انتظام نہیں کرسکتے ، اور اہل میت کےمتعلقین یا ہمسائے وغیرہ بھی اہل میت اور ان کے مہمانوں کیلئے کھانے کا انتظام نہ کریں تو ان کے لیے کھانے کا انتظام کرنا اضطراری صورت ہے ،یعنی اہل میت کیلئے ایسے مہمانوں کیلئے کھانا بنانا مجبوری ہے ،اور ایسے مہمانوں کا میت کے گھر کھانے میں حرج نہیں، جو بات مکروہ اور بدعت ہے وہ یہ کہ غم کے اس موقع پر خوشی و مسرت کی طرح باضابطہ کھانے کا دستر خوان سجانا منع ہے اسی طرح تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ کرنا یہ سب درست نہیں،
نیز اگر جنازہ اٹھنے کے بعد آنے والے سبھی مہمانوں کو جو کھانا کھلایا جاتا ہے اگر اس میں قریب و بعید ہر طرح کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور اس کا رواج بنا ہوا ہے تو اس کو ترک کرنا واجب ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم​
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
قرآن کی اس آیت کے بارے بھی کچھ وضاحت ہو جائے۔
{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا} [النساء: 8]
اسحاق سلفی صاحب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایصال ثواب کے نام پر بدعات

قرآن وسنت میں میت کے تعلق سے فاتحہ خوانی ’قل ’قرآن خوانی’سوم اور چہلم کے الفاظ یا اصطلاحات کا ذکر تک نہیں۔ اگر ان کی کچھ اہمیت ہوتی تو یہ الفاظ یا تقریبات قرآن و حدیث میں منقول ہوتے یا سلف صالحین سے ان کا ثبوت ہوتا ،
اور یہ اعمال دیگر قباحتوں سے پاک بھی ہوں تب بھی ان اعمال کےلئے خصوصی مجالس قائم کرنا’خصوصی دن مقرر کرنا اور پھر ان کی خاص شکل بنانا اور پھر کچھ آیا ت کا انتخاب کر کے اس موقع پر پڑھنا ان سب کا ثبوت درکار ہے۔ شارع علیہ السلام کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی عبادت کی شکل بنائے یا دن اور کیفیت کا تعین کرے۔
شریعت میں تو ثابت شدہ اعمال کو بھی اگر خود ساختہ کیفیات اور من پسند اوقات میں ادا کیا جائے تو وہ اعمال بھی بدعت کے زمرہ میں آئیں گے ، چہ جائیکہ اپنی طرف سے عبادات متعین کرلی جائیں۔
بہر حال قرآن و سنت کی رو سے ان مروجہ چیزوں کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔
ان بدعات کے دلدادہ لوگ اپنے آپ کو حنفی بھی کہتے ہیں انہیں چاہئے کہ حضرت ابو حنیفہ اور دوسرے حنفی اماموں میں سے ان رسومات کا کوئی ثبوت فراہم کردیں ۔
اس کےبرعکس بڑے حنفی ائمہ اور علماء نے اس طرح کی رسومات کو بدعت و ناجائز قرار دیا ہے۔​

(۱) مشہور حنفی فقیہ قاضی خان حنفی لکھتےہیں:۔
ویکره اتخاذ الضیافت فی ایام المصیبة لانها تاسف فلا یلیق بهاما کان للسرور۔ (فتاوی قاضی خاں)
یعنی مصیبت کے دنوں میں دعوت کرنا مکروہ ہے ۔ کیونکہ جو کام خوشی کے وقت ہو’وہ غمی کے وقت مناسب نہیں۔
(۲)امام حافظ ابن ہمام ؒلکھتے ہیں:۔
ویکره اتخاذ الضیافة لانه شرع فی السرور لافی السرود وهی بدعة مستقبحة۔ (فتح القدیر ج ۱ ص ۲۹۳)
یعنی میت کے گھر کھانا تیار کرنامکروہ ہے کیونکہ کھانا تو خوشی کےموقع پر تیار ہوتا ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بڑی قبیح بدعت ہے۔
(۲)امام حافظ الدین محمد بن شہاب حنفی لکھتےہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:
ويكره اتخاذ الضيافة ثلاثة أيام وأكلها لأنه مشروعه للسرور * ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع والأعياد ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة بقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء القرآن لأجل الأكل يكره *
‘‘ تین دین تک ضیافت مکروہ ہے اور اس طرح اس کا کھانا بھی کیوں کہ ضیافت تو خوشی کےموقع پر ہوتی ہے،اور پہلے دوسرے اور تیسرے دن طعام تیار کرنابھی مکروہ ہے اس طرح سات دنوں کے بعد (یعنی ساتواں ) اور عیدوں کےموقع پر اور اس طرح موسم بموسم قبروں کی طرف کھانا اور جانا بھی مکروہ ہے اور قرأت قرآن کےلئے اور علماء و قراء کو جمع کرکے ختم قرآن کےلئے دعوت کرنابھی مکروہ ہے اور علی ہذا القیاس سورہ انعام یا سورہ اخلاص کے قرأت کےلئے کھانا تیار کرنا بھی مکروہ ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرأت قرآن کے وقت کھانا تیار کرنا مکروہ ہے۔
( فتاویٰ بزازیہ جلد ۴)


(3)پاک و ہند کے حنفی بھائیوں کےنزدیک مقبول شخصیت حضرت شیخ عبدالحق دہلویؒ فرماتےہیں :
‘‘عادت نبوی نبود کہ برائے میت در غیر وقت نماز جمع شوند قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گورونہ غیر آن وایں مجموع بدعت است و مکروہ نعم تعزیت اہل میت و تسلیہ و صبر فرمودن سنت و مستحب است اما ایں اجتماع مخصوص روز سوم و ارتکاب تکلفات دیگر و صرف اموال نے وصیت از حق یتامی بدعت و حرام است’’ (سفر السعادت)
‘‘ یعنی یہ نبی کریمﷺ کی عادت مبارکہ نہیں تھی کہ نماز کے وقت کے علاوہ خاص طور پر میت کے لئے جمع ہوں پھر قرآن پڑھیں اور کئی ختم بھی پڑھیں نہ قبر اور نہ کسی اور دوسری جگہ اور یہ سارے کام بدعت اور مکروہ ہیں۔ ہاں میت کے ورثاء کی تعزیت کرنا انہیں صبروتسلی کی تلقین کرنا’ یہ سنت و مستحب ہے ۔ اس طرح تیسرے روز مخصوص اجتماع اور کئی تکلفات کرنااور یتیموں کے مال کو بغیر وصیت کے خرچ کرنا بھی بدعت اور حرام ہے۔’’
شیخ عبدالحق محد ث دہلوی ؒ نے تو بات بالکل صاف کردی ہے اورمذکورہ اعمال کی شرعی حیثیت متعین فرمادی ہے:
اور خاص طور پر یہ بات کہ اگر ان بدعات میں یتیموں کے اموال کو خرچ کیاجارہا ہے تو یہ بہت سخت حرام ہے۔
٭٭٭ اب جب ان رسومات کاثبوت ایسی شخصیات کے نزدیک بھی نہیں جن یہ بدعتی لوگ بھی احترام کرتےہیں’ اسکے بعد بھی ان رسومات کو اس جوش و خروش کے ساتھ کرنا جس جوش و جذبے سے فرائض بھی ادا نہیں کرتے تو یہ کھلی ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔
رہی ایصال ثواب کی بات تو اس کی شرعی صورت ہی مقبول ہے ، نا کہ خود ساختہ بدعات !
مندرجہ ذیل صحیح حدیث دیکھئے جس میں آپﷺ نے فرمایا:
اذا مات ابن آدم انقطع عمله الا من ثلاث صد قة جاریة او علم ینتفع به او ولد صالح یدعوا له۔(صحیح مسلم للالبانی کتاب الجنائز باب ایصال الثواب رقم الحدیث ۱۰۰۱)
یعنی جب کوئی آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے۔ (1)صدقہ جاریہ یا (2) ایسا علم پھیلانا جو اس کے بعد بھی نفع دے رہا ہے (3) یا نیک اولاد جو اس کےلئے دعا کرتی ہے۔​
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قرآن کی اس آیت کے بارے بھی کچھ وضاحت ہو جائے۔
{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا} [النساء: 8]
عنوان :
ترکہ کی تقسیم کے وقت غرباء و مساکین اور جن رشتہ داروں کا ترکہ میں حصہ نہیں ان کو کچھ دینا ؛
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (سورۃ النساء آیت 7)
ترجمہ :
(ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا(سورۃ النساء آیت 8)
ترجمہ :
جب ترکہ کی تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آ جائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو ۔
امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

قيل: المراد: وإذا حضر قسمة الميراث ذوو القربى ممن ليس بوارث واليتامى والمساكين فليرضخ لهم من التركة نصيب، وأن ذلك كان واجبا في ابتداء الإسلام. وقيل: يستحب واختلفوا: هل هو منسوخ أم لا؟ على قولين، فقال البخاري: حدثنا أحمد بن حميد أخبرنا عبيد الله الأشجعي، عن سفيان، عن الشيباني، عن عكرمة، عن ابن عباس: {وإذا حضر القسمة أولوا القربى واليتامى والمساكين} قال: هي محكمة، وليست بمنسوخة. تابعه سعيد عن ابن عباس.
وقال ابن جرير: حدثنا القاسم، حدثنا الحسين، حدثنا عباد بن العوام، عن الحجاج، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس قال: هي قائمة يعمل بها.

آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی ایسا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں ؟
اس میں بھی دو قول ہیں ، امام بخاریؒ نے بسندہ نقل فرمایا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت : «وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساكين‏»
”اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں۔“
کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعیدؒ بن جبیر نے بھی سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔(صحیح البخاری 4576)
وقال الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد في هذه الآية، قال: هي واجبة على أهل الميراث، ما طابت به أنفسهم. وهكذا روي عن ابن مسعود، وأبي موسى، وعبد الرحمن بن أبي بكر، وأبي العالية، والشعبي، والحسن، وابن سيرين، وسعيد بن جبير، ومكحول، وإبراهيم النخعي، وعطاء بن أبي رباح، والزهري، ويحيى بن يعمر: إنها واجبة.
اور یہی بات درج ذیل حضرات بھی کہتے ہیں جن میں مشہور مفسر قرآن جناب مجاہدؒ جن کا کہنا ہے کہ یہ حکم اہل میراث پر واجب ہے ،اور یہی بات سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوموسیٰ ، جناب عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہم، امام ابوالعالیہؒ ، امام شعبیؒ ، جناب حسنؒ ، حضرت سعید بن جیرؒ ، شام کے فقیہ جناب مکحولؒ ،امام ابنؒ سیرین ، امام عطاء ؒبن ابو رباح ، امام ابن شہاب زہریؒ ، یحییٰ بن معمر رحمہ اللہ علیہم بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے ، "
(اس کی تفصیل کیلئے تفسیر ابن جریرؒ الطبری اور تفسیر ابن کثیرؒ) دیکھئے ؛

مشہور سلفی محقق شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
سورۃ النساء کی آیت کو بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔

اور مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ تفسیر تیسیر القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
"ترکہ کی تقسیم کے وقت اگر کچھ محتاج، یتیم اور فقیر قسم کے لوگ یا دور کے رشتہ دار آ جائیں تو ازراہ احسان انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔ تنگ دلی یا تنگ ظرفی سے کام نہ لو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو کم از کم انہیں نرمی سے جواب دے دو۔ مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ مال یتیموں کا ہے۔ یا یہ کہ میت نے ایسی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ وغیرہ، وغیرہ"
ــــــــــــــــــــــ
اور فاضل عالم علامہ محمد لقمان سلفی لکھتے ہیں :
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت سے متعلق ایک ضمنی حکم بیان کیا ہے، کہ جب وراثت کا مال تقسیم ہو رہا ہو، اور وہاں ایسے رشتہ دار جو وراثت کے حقدار نہ ہوں اور یتیم اور غریب لوگ آجائیں تو مال تقسیم کرنے سے پہلے بطور صدقہ اور ان کا دل رکھنے کے لیے انہیں کچھ مال دے دینا چاہئے۔ اس آیت کے بارے میں دو رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے، امام بخاریؒ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت نقل کی ہے اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے کہ ورثہ پر یہ حکم واجب ہے، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس آیت کا حکم احکام وراثت کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے، عکرمہ، ابو الشعثاء اور قاسم بن محمد کی یہی رائے ہے، اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ مال میں وصیت کا حکم غیر وارثوں کے لیے باقی ہے۔ صاحب مال اپنی زندگی میں ایک تہائی مال میں بذریعہ وصیت تصرف کرسکتا ہے، جیسا کہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے جسے امام بخاری ؒاور امام مسلم ؒنے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تہائی مال میں بطور وصیت تصرف کرنے کا حق دیا تھا۔ بعض لوگوں نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ آیت کو منسوخ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتہ دار موجود ہوں اور وہ محتاج بھی ہوں، تو صلہ رحمی کا جذبہ رکھنے والے ورثہ یہی مناسب سمجھیں گے کہ انہیں بھی کچھ دے دیا جائے، تاکہ جہاں ان کے کسی رشتہ دار کا مال تقسیم ہو رہا ہے وہاں سے وہ محروم نہ واپس جائیں۔ اور خاص طور سے وہ یتیم بچے، جن کے باپ کا انتقال دادا کے ہوتے ہوئے ہوگیا ہو اور وراثت سے محروم ہوگئے ہوں اور پھر ان کے دادا کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم ہو رہی ہو، اور ان کے چچا اور پھوپھیاں وراثت کا مال پا کر خوش ہو رہی ہوں اور یہ بچے ان کا منہ تک رہے ہوں اور ان کے حصہ میں کچھ نہ آرہا ہو، صرف اس لیے کہ ان کے والد کا انتقال دادا سے پہلو ہوچکا ہے، تو ان کی محرومی کا کیا عالم ہوگا، ایسے بچوں کے حق میں تو یہ آیت آب حیات کے مترادف ہے، اور خاص طور پر اگر دادا کی جائداد بڑی ہو، اور ورثہ ان یتیموں کے حال پر رحم کریں تو ان کے حصہ میں بھی اچھی خاصی جائداد آسکتی ہے، اور ان کی غربت دور ہوسکتی ہے،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور سعودی مفسر علامہ عبد الرحمنؒ بن ناصر بن عبد الله السعدي (المتوفى: 1376هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
(وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى وَالْيَتامى وَالْمَساكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفاً) وهذا من أحكام الله الحسنة الجليلة الجابرة للقلوب فقال: {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ} أي: قسمة المواريث {أُولُو الْقُرْبَى} أي: الأقارب غير الوارثين بقرينة قوله: {الْقِسْمَةَ} لأن الوارثين من المقسوم عليهم. {وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِين} أي: المستحقون من الفقراء. {فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ} أي: أعطوهم ما تيسر من هذا المال الذي جاءكم بغير كد ولا تعب، ولا عناء ولا نَصَب، فإن نفوسهم متشوفة إليه، وقلوبهم متطلعة، فاجبروا خواطرهم بما لا يضركم وهو نافعهم.
(تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان)
یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (واذا حضر القسمۃ) یعنی میراث کی تقسیم کے وقت (اولوا القربی) یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے وارث نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (القسمۃ) ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہوگی (والیتمی والمسکین) ” یتیم اور مساکین“ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ (فارزقوھم منہ) یعنی اس مال میں سے جو تمہیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہوسکے عطا کر دو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کے دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو بھی دے دو جس سے تمہیں نقصان نہ ہو اور ان کے لئے فائدہ مند ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
عنوان :
ترکہ کی تقسیم کے وقت غرباء و مساکین اور جن رشتہ داروں کا ترکہ میں حصہ نہیں ان کو کچھ دینا ؛
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (سورۃ النساء آیت 7)
ترجمہ :
(ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا(سورۃ النساء آیت 8)
ترجمہ :
جب ترکہ کی تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آ جائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو ۔
امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

قيل: المراد: وإذا حضر قسمة الميراث ذوو القربى ممن ليس بوارث واليتامى والمساكين فليرضخ لهم من التركة نصيب، وأن ذلك كان واجبا في ابتداء الإسلام. وقيل: يستحب واختلفوا: هل هو منسوخ أم لا؟ على قولين، فقال البخاري: حدثنا أحمد بن حميد أخبرنا عبيد الله الأشجعي، عن سفيان، عن الشيباني، عن عكرمة، عن ابن عباس: {وإذا حضر القسمة أولوا القربى واليتامى والمساكين} قال: هي محكمة، وليست بمنسوخة. تابعه سعيد عن ابن عباس.
وقال ابن جرير: حدثنا القاسم، حدثنا الحسين، حدثنا عباد بن العوام، عن الحجاج، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس قال: هي قائمة يعمل بها.

آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی ایسا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں ؟
اس میں بھی دو قول ہیں ، امام بخاریؒ نے بسندہ نقل فرمایا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت : «وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساكين‏»
”اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں۔“
کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعیدؒ بن جبیر نے بھی سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔(صحیح البخاری 4576)
وقال الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد في هذه الآية، قال: هي واجبة على أهل الميراث، ما طابت به أنفسهم. وهكذا روي عن ابن مسعود، وأبي موسى، وعبد الرحمن بن أبي بكر، وأبي العالية، والشعبي، والحسن، وابن سيرين، وسعيد بن جبير، ومكحول، وإبراهيم النخعي، وعطاء بن أبي رباح، والزهري، ويحيى بن يعمر: إنها واجبة.
اور یہی بات درج ذیل حضرات بھی کہتے ہیں جن میں مشہور مفسر قرآن جناب مجاہدؒ جن کا کہنا ہے کہ یہ حکم اہل میراث پر واجب ہے ،اور یہی بات سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوموسیٰ ، جناب عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہم، امام ابوالعالیہؒ ، امام شعبیؒ ، جناب حسنؒ ، حضرت سعید بن جیرؒ ، شام کے فقیہ جناب مکحولؒ ،امام ابنؒ سیرین ، امام عطاء ؒبن ابو رباح ، امام ابن شہاب زہریؒ ، یحییٰ بن معمر رحمہ اللہ علیہم بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے ، "
(اس کی تفصیل کیلئے تفسیر ابن جریرؒ الطبری اور تفسیر ابن کثیرؒ) دیکھئے ؛

مشہور سلفی محقق شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
سورۃ النساء کی آیت کو بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔

اور مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ تفسیر تیسیر القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
"ترکہ کی تقسیم کے وقت اگر کچھ محتاج، یتیم اور فقیر قسم کے لوگ یا دور کے رشتہ دار آ جائیں تو ازراہ احسان انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔ تنگ دلی یا تنگ ظرفی سے کام نہ لو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو کم از کم انہیں نرمی سے جواب دے دو۔ مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ مال یتیموں کا ہے۔ یا یہ کہ میت نے ایسی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ وغیرہ، وغیرہ"
ــــــــــــــــــــــ
اور فاضل عالم علامہ محمد لقمان سلفی لکھتے ہیں :
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت سے متعلق ایک ضمنی حکم بیان کیا ہے، کہ جب وراثت کا مال تقسیم ہو رہا ہو، اور وہاں ایسے رشتہ دار جو وراثت کے حقدار نہ ہوں اور یتیم اور غریب لوگ آجائیں تو مال تقسیم کرنے سے پہلے بطور صدقہ اور ان کا دل رکھنے کے لیے انہیں کچھ مال دے دینا چاہئے۔ اس آیت کے بارے میں دو رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے، امام بخاریؒ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت نقل کی ہے اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے کہ ورثہ پر یہ حکم واجب ہے، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس آیت کا حکم احکام وراثت کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے، عکرمہ، ابو الشعثاء اور قاسم بن محمد کی یہی رائے ہے، اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ مال میں وصیت کا حکم غیر وارثوں کے لیے باقی ہے۔ صاحب مال اپنی زندگی میں ایک تہائی مال میں بذریعہ وصیت تصرف کرسکتا ہے، جیسا کہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے جسے امام بخاری ؒاور امام مسلم ؒنے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تہائی مال میں بطور وصیت تصرف کرنے کا حق دیا تھا۔ بعض لوگوں نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ آیت کو منسوخ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتہ دار موجود ہوں اور وہ محتاج بھی ہوں، تو صلہ رحمی کا جذبہ رکھنے والے ورثہ یہی مناسب سمجھیں گے کہ انہیں بھی کچھ دے دیا جائے، تاکہ جہاں ان کے کسی رشتہ دار کا مال تقسیم ہو رہا ہے وہاں سے وہ محروم نہ واپس جائیں۔ اور خاص طور سے وہ یتیم بچے، جن کے باپ کا انتقال دادا کے ہوتے ہوئے ہوگیا ہو اور وراثت سے محروم ہوگئے ہوں اور پھر ان کے دادا کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم ہو رہی ہو، اور ان کے چچا اور پھوپھیاں وراثت کا مال پا کر خوش ہو رہی ہوں اور یہ بچے ان کا منہ تک رہے ہوں اور ان کے حصہ میں کچھ نہ آرہا ہو، صرف اس لیے کہ ان کے والد کا انتقال دادا سے پہلو ہوچکا ہے، تو ان کی محرومی کا کیا عالم ہوگا، ایسے بچوں کے حق میں تو یہ آیت آب حیات کے مترادف ہے، اور خاص طور پر اگر دادا کی جائداد بڑی ہو، اور ورثہ ان یتیموں کے حال پر رحم کریں تو ان کے حصہ میں بھی اچھی خاصی جائداد آسکتی ہے، اور ان کی غربت دور ہوسکتی ہے،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور سعودی مفسر علامہ عبد الرحمنؒ بن ناصر بن عبد الله السعدي (المتوفى: 1376هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
(وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى وَالْيَتامى وَالْمَساكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفاً) وهذا من أحكام الله الحسنة الجليلة الجابرة للقلوب فقال: {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ} أي: قسمة المواريث {أُولُو الْقُرْبَى} أي: الأقارب غير الوارثين بقرينة قوله: {الْقِسْمَةَ} لأن الوارثين من المقسوم عليهم. {وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِين} أي: المستحقون من الفقراء. {فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ} أي: أعطوهم ما تيسر من هذا المال الذي جاءكم بغير كد ولا تعب، ولا عناء ولا نَصَب، فإن نفوسهم متشوفة إليه، وقلوبهم متطلعة، فاجبروا خواطرهم بما لا يضركم وهو نافعهم.
(تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان)
یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (واذا حضر القسمۃ) یعنی میراث کی تقسیم کے وقت (اولوا القربی) یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے وارث نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (القسمۃ) ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہوگی (والیتمی والمسکین) ” یتیم اور مساکین“ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ (فارزقوھم منہ) یعنی اس مال میں سے جو تمہیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہوسکے عطا کر دو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کے دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو بھی دے دو جس سے تمہیں نقصان نہ ہو اور ان کے لئے فائدہ مند ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تمام تفاسیر میں نص سے کوئی دلیل نہیں دی گئی۔
 
Top