- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اہل و عیال کو نفع پہنچانے والا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلیَ اللّٰہِ تَعَالیٰ أَنْفَعُھُمْ لِعَیَالِہِ۔ ))1
'' سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ بندہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے زیادہ نفع مند ہے۔ ''
شرح...: اس سے مراد وہ انسان ہے جو اپنے گھر والوں اور اولاد کو دین کی تعلیم دے کر اور شریعت کے مطابق تربیت کرکے آگ سے بچاتا ہے اور ان کے حقوق بھی بخوبی نبھاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِذَا أَنْفَقَ الْمُسْلِمُ نَفَقَۃً عَلیٰ أَھْلِہِ ... وَھُوَ یَحْتَسِبُھَا ... کَانَتْ لَہُ صَدَقَۃً۔ ))2
'' جب مسلمان اپنے اہل پر کوئی خرچہ کرتا ہے اور نیت ثواب کی ہوتی ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ ''
نیز فرمایا:
(( أَفْضَلُ دِیْنَارٍ یُنْفِقُہُ الرَّجُلُ دِیْنَارٌ یُنْفِقَہُ عَلیٰ عَیَالِہِ وَدِیْنَارٌ یُنْفِقُہُ الرَّجُلُ عَلیٰ دَآبَّتِہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَدِیْنَارٌ یُنْفِقُہُ عَلیٰ أَصْحَابِہِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ))3
'' انسان کا خرچ کیا ہوا بہترین اور افضل دینار وہ ہے جسے اپنے عیال پر خرچ کرتا ہے۔ ''
معلوم ہوا جو پیسے انسان اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے وہ اللہ کے رستہ میں خرچ کرنے، غلام آزاد کروانے یا مسکین پر خرچ کرنے سے بہتر اور افضل ہیں۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( دِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہُ عَلیٰ أَھْلِکَ أَعْظَمُھَا أَجْرًا اَلَّذِيْ أَنْفَقْتَہُ عَلیٰ أَھْلِکَ۔ ))4
'' ایک اشرفی وہ ہے جو تم نے اللہ کی راہ میں دی اور ایک کسی غلام کے آزاد ہونے میں دی اور ایک مسکین کو دی اور ایک اپنے گھر والوں پر خرچ کی تو ثواب کی رو سے بڑی وہی اشرفی ہے جو اپنے گھر والوں پر خرچ کی۔ ''
عَنْ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: (( کَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَعُوْدُنِیْ وَأَنَا مَرِیْضٌ بِمَکَّۃَ، فَقُلْتُ: لِيْ مَالٌ، أُوْصِیْ بِمَا لِیْ کُلِّہٖ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ: لَا۔ قُلْتُ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ: اَلثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ، أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِیْ أَیْدِیْھِمْ وَمَھْمَا أَنْفَقْتَ فَھُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، حَتّٰی اللُّقْمَۃَ تَرْفَعُھَا فِيْ فِیِّ امْرَأَتِکَ وَلَعَلَّ اللّٰہَ یَرْفَعُکَ، یَنْتَفِعُ بِکَ نَاسٌ، وَیُضَرُّ بِکَ ئَ آخَرُوْنَ۔ ))5
سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا
''میں مکہ میں تھا کہ میری بیماری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے ''میں نے عرض کیا ''میرے پاس مال ہے، (تو کیا) میں اپنے سارے مال کی وصیت (اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالنے کی) کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''نہیں'' میں نے کہا: نصف مال کی؟ فرمایا ''نہیں'' میں نے عرض کیا: ''پس تیسرے حصہ کی کردوں؟ فرمایا '' ہاںتیسرے حصہ کی۔ اور تیسرا حصہ بھی بہت ہے۔ اس سے کہ آپ اپنے ورثاء کو مالدار حیثیت میں چھوڑ کر جائیں یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ انہیں فقیر کرجائیں اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ '' جہاں بھی تو (اپنا مال) خرچ کرے گا تو وہ تیرے لیے صدقہ ہوگا حتیٰ کہ وہ لقمہ بھی جو تو اپنی بیوی کو کھلاتا ہے۔'' ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے کچھ لوگ آپ سے فائدہ اٹھائیں اور کچھ لوگوں کو آپ کے ذریعے نقصان پہنچے۔''
یعنی یہ ایسا انسان ہے جو راحت پہنچانے والے مختلف مباح طریقوں سے اپنے اہل و عیال کے دلوں کو خوش کرتا اور ان سے مفاسد دور کرتا ہے نیز ان کے لیے اچھائیوں کا حریص ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۷۲۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب النفقات، باب: فضل النفقۃ علی الأھل، رقم: ۵۳۵۱۔
3 أخرجہ مسلم في کتب الزکاۃ، باب: فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، رقم: ۲۳۱۰۔
4 أخرجہ مسلم في کتب الزکاۃ، باب: فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، رقم: ۲۳۱۱۔
5 أخرجہ البخاري في کتاب النفقات، باب: فضل النفقۃ علی الأھل، رقم: ۵۳۵۴۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند