آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ :
" ایک اور سوال یہ کہ اگر مسلمان (بد عقیدہ) شرک کرے تو اس کو کچھ شروط وموانع کے بغیر کافر نہیں کہا جاتا حالانکہ وہ باقی کفار کی طرح پیدائشئ اس شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو اس لحاظ اصلی کافر پر بھی شروط وموانع کے بغیر حکم نہیں لگا سکتے ،؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ پیدائشی بدعقیدہ مسلمان یعنی وہ لوگ جو نسل در نسل غلط عقیدہ کے حامل ہیں، انہیں بھی تکفیر کی شروط نہ ہونے اور تکفیر کے موانع کی موجودگی میں واضح کا فر نہیں کہا جاتا ،جبکہ پیدائشی کفا و مشرکین کو کافر کہا جاتا ہے ، تو تفریق کی وجہ کیا ہے ؟
تو اس کا جواب سمجھنا آسان ہے ،
پیدائشی طور پر بد عقیدہ مسلمان اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ، اقرار کرتا ہے ، اور اکثر بڑے خلوص سے اسلام کو سچا ،مکمل ،آخری دین اور پیارے نبی ﷺ کو اللہ تعالی کا سچا اور آخری نبی بھی مانتا ہے ،
قرآن کریم کو اللہ عزوجل کی سچی مکمل اور آخری کتاب بھی تسلیم کرتا ہے ،
لیکن کچھ اعمال و عقائد میں جہالت اور بد عقیدہ لوگوں کے ماحول کے سبب حقیقی اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتا ہے ،
(عمومی طور ان لوگوں میں سے )جو کفریہ اور شرکیہ اعمال کرتا ہے ،تو اسلام کی مخالفت اور ضد میں آکر نہیں کرتا ،بلکہ ان خلافِ اسلام اعمال و عقائد کو جہالت یا تقلید کے سبب اسلام کا حصہ سمجھتا ہے ،
ان اسباب و وجوہ کی بنا پر گمراہ مسلمان کو کافر نہیں کہا جاتا ،بلکہ اس پر اتمام حجت کیلئے اسے حقیقی دین کی تعلیم دینے کی کوشش کی جاتی ہے ،
جبکہ نسل در نسل کا کافر اپنے شعور کے پہلے دن سے جانتا ہے کہ میرا مذہب دین اسلام نہیں ،بلکہ فلاں ہے ،یعنی وہ جانتا ،مانتا ہے کہ ہندو ،عیسائی ،یا یہودی یادہریہ ہوں ،
ایسا کافر شعوری طور پر جانتا اور مانتا ہے کہ :
میں مسلمان نہیں بلکہ ہندو ،یہودی ،عیسائی یا تمام ادیان و مذاہب کی نفی کرنے والا سیکولر ،لبرل ہوں ،
اسلئے ہمیں بحیثیت مسلم داعی اس تک اسلام کی دعوت پہنچانی تو دینی تقاضا ہے ،تاہم دعوت اسلام قبول کرنے تک وہ بلاشبہ ایک یہودی یا عیسائی یا ہندو وغیرہ قسم کا کافر ہی ہوگا ،
اور اگر ہم اسے کافر نہ کہیں تو بھی وہ خود اپنے آپ کو اسلام مخالف اور اسلام کے علاوہ کسی مذہب کا پروکار سمجھتا ،جانتا ،مانتا ہے ،
اس موضوع پر کچھ عرصہ قبل
ماہنامہ ایقاظ میں شائع محترم حامد کمال الدین کے ایک مضمون سے اقتباس پیش ہے ،
امید مفید رہے گا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ہمارے ہاں کچھ لوگ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور پارسیوں وغیرہ کو ’ازراہِ شائستگی‘ کافر یا کفار کہنے سے عمداً احتراز برتتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ خوامخواہ کی شدت اور غلظت ہے۔ ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کیلئے زیادہ سے زیادہ یہ کسی لفظ کے روادار ہیں تو وہ ہے ’غیر مسلم‘۔ بسا اوقات یہ ان کو ’غیر مسلم بھائیوں‘ کے طور پر بھی پکارتے ہیں خصوصاً بعض سیاسی یا سماجی سرگرمیوں کے ضمن میں!
حق یہ ہے کہ ”غیر مسلم“ کی اصطلاح اسلامی قاموس کے اندر نووارد ہے اور ہماری اِن آخری صدیوں کے اندر جا کر ہی اِس قدر عام ہوئی ہے کیونکہ مغربی نقشے پر کھڑے کئے جانے والے اِن (جدید) معاشروں میں، جہاں ”دین“ انسان کی اصل شناخت نہیں، یہ لوگوں کی ایک ضرورت بن گئی تھی۔ اپنے اِس حالیہ استعمال کے لحاظ سے یہ ”غیر مسلم“ کا لفظ اسلام میں سراسر ایک محدَث (نو پید ) ہے یعنی بعد میں گھڑی جانے والی چیز، قرآن اور حدیث کے ذخیرے قطعی طور پر آپ کو ”غیر مسلم“ کی اصطلاح سے خالی نظر آئیں گے۔
قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ایک شخص ”مومن“ اور ”مسلم“ ہے خواہ وہ فسق و فجور یا بدعت (غیر مکفرہ) میں کیوں نہ پڑا ہوا ہو، یا پھر ”منافق“ ہوتا ہے (جس کا علم صرف اللہ کے پاس ہو سکتا ہے، ظاہر میں وہ ”مسلم“ ہی ہوتا ہے)، اور یا پھر وہ شخص ”کافر“ ہے۔
”غیر مسلم“ البتہ آج کے دور میں سامنے آنے والی ایک
نئی اصطلاح ہے جس کو مسلمانوں کی لغت میں زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ اِس کی ترویج کیلئے طرح طرح کا سماجی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ شروع شروع میں اِس کی ضرورت یہاں ہونے والی ”حقوق“ کی جدوجہد کے دوران پڑی، بعد ازاں جب یہ یہاں کے جدت پسند دانشوروں کے من کو بھانے لگی، تو اِس کو ایک ”علمی“ و ”شرعی“ اصطلاح کے رنگ میں بھی پیش کیا جانے لگا۔ البتہ جیسے ہی ”گلوبلائزیشن“ کے نقارے بجے، یہ یہاں پر ایک نعمت غیر مترقبہ کے طور پر دیکھی گئی، یہاں تک کہ اسلام کی اصل اصطلاح (”کافر“) آج ایک معیوب و غیر مہذب لفظ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، بلکہ کچھ دانشوروں کو کیا سوجھی کہ وہ ”کافر“ کے لفظ کو فی زمانہ ”ممنوع“ و ”غیر شرعی“ ثابت کرنے چل پڑے!
علمائے اہل سنت اِس موضوع پر نہایت صریح ہیں کہ: دنیا کے جس ہندو، عیسائی، یہودی، مجوسی، بدھ یا ملحد نے محمد رسول اللہ کا سن رکھا ہے اور وہ آپ پر ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوا، اُس کیلئے ہماری اسلامی شرعی اصطلاح میں ایک ہی لفظ ہے، اور وہ ہے ”کافر“۔
صرف یہی نہیں، جو شخص ایسے کسی شخص کے کافر ہونے میں شک یا تردد یا توقف بھی کرے، وہ بھی کافر ہو جاتا ہے۔ دنیا آج بھی محمد ﷺ کو بنیاد مان کر تقسیم ہو گی۔ قیامت تک دنیا کی تقسیم کی یہی ایک بنیاد ہو گی: محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین کو ماننے والے ”مسلم“ اور نہ ماننے والے ”کافر“۔ تیسری کوئی قسم نہیں۔
چنانچہ اسلام کے سوا کسی اور دین کے ایک پیروکار اور محمد ﷺ کی شریعت کی تابعداری سے انکار کرنے والے ایک شخص کیلئے ’کافر‘ کا لفظ بولنا جس ”کلمہ گو“ پر گراں گزرتا ہے وہ خود بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ (ایقاظ )
www.eeqaz.org
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس موضوع پر شیخ محمد رفیق طاہر (ملتان ) کا فتوی بھی پیش ہے ،اس سے بھی بات سمجھنا آسان ہوگا ؛
کافر اور غیر مسلم میں فرق ؟
شیخ محمد رفیق طاہر (حفظہ اللہ تعالی)
مکمل سوال :
السلام علیکم شیخ، ایک نوجوان جو قرآن کی تفسیر کے حوالے سے آجکل مغربی ممالک میں بڑا مشہور ہے، نعمان علی خان، ان کا کہنا ہے کہ ہر غیر مسلم کو کافر کہنا درست نہیں، دلیل کے طور پر بتایا کہ قرآن میں غیر مسلموں کے لئے مختلف الفاظ آئے، صرف کافر کے نہیں، اور یوں وہ کافر اور غیر مسلم میں کچھ فرق سمجھانا چاہتا ہے، تاکہ مسلمان ہر غیر مسلم کو کافر کہہ کر اس سے بدسلوکی نہ کریں، یہ بات اسکی کس حد تک درست ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اسلام کے مقابل صرف اور صرف کفر ہی ہے , اسکے سوا کچھ بھی نہیں , لہذا غیر مسلم کا مطلب بھی کافر ہی ہوتا ہے , خواہ اسے کوئی بھی نام دے دیا جائے ۔ مثلا: یہودی, عیسائی, اہل کتاب, ہندو, مجوسی, سکھ, وغیرہ یہ سب کافر ہیں , غیر مسلم ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ ہر کافر یا غیر مسلم کے ساتھ بد سلوکی کی اجازت اسلام میں موجود نہیں ہے ۔
اسلام نے تو بعض کفار کے ساتھ حسن سلوک سے بھی منع نہیں کیا ۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ " ترجمہ : اللہ تعالى تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے منع نہیں فرماتا جو دین کی بناء پر تم سے لڑتے نہیں اور نہ ہی تمہیں ہجرت پر مجبور کرتے ہیں ۔ یقینا اللہ تعالى انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔ [الممتحنة : 8]
اور پھر جن کافروں کے ساتھ دلی دوستی لگانا منع ہے انکا ذکر اللہ تعالى نے ان الفاظ میں فرمایا ہے :
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ " یقینا اللہ تعالى تمہیں ایسے لوگوں سے دوستیاں کرنے سے منع فرماتا ہے جو تمہارے ساتھ دین کی بناء پر لڑتے ہیں اور تمہیں ہجرت پر مجبور کرتے ہیں اور تمہیں نکالنے پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ اور جو ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی لگائے گا تو وہی ظالم ہے ۔ [الممتحنة : 9]
هذا, والله تعالى أعلم, وعلمه أكمل وأتم, ورد العلم إليه أسلم, والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم, وصلى الله على نبينا محمد وآله وسلم
وكتبه أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا الله عنه