عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
خلاصہ بحث:۔
الحاصل جس جانور کو ذبح کرتے وقت عمداً اللہ کا نام لینا چھوڑدیا اس کا کھنا حرام ہے یہی امت کا فیصلہ ہے اسی پر اجماع ہے اور اب تک اس اجماع کے خلاف ثابت نہیں ہوسکا۔
(۲) امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قرآن پاک اور متعدد احادیث کی روشنی میں اگر تسمیہ عند الذبح نسیاناً رہ گیا وہ حلال ہے یہی ابن عباس ؓ کا مسلک ہے اور اسی کو امام بخاری ؒ نے ترجیح دی ہے۔
(۳)حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث سے ترک تسمیہ عامداً ثابت نہیں بلکہ علمائے امت کی تشریحات کی رو سے امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کے مطابق ہےنہ کہ امام شافعیؒ کے مسلک کے جس کے بل بوتے پر مولانا(سعید احمدصاحب اکبرآبادی)نے امریکہ کے ہوٹلوں میں صرف بسم اللہ پڑھ کر یہ گوشت خوب پیٹ بھر کر کھایا ہے۔
(۴) احادیث کے علاوہ آیات سے تسمیہ عندالذبح واجب ہوناثابت ہوتا ہے مثلاً:۔
واذکروااسم اللہ علیہ(الآئیۃ)
اس آیت میں امر کا صیغہ ہے جس سےوجوب ثابت ہوتا ہے۔
فاذکروااسم اللہ صواف
اس آیت سے بھی تسمیہ عندالذبح واجب ہوناثابت ہے کیونکہ اس میں بھی امر کا صیغہ ہے اور مزید قرینہ یہ ہے کہ آگے چل کر فرمایا ''فاذا وجبت جنوبھا'' اور فا اس میں تعقیب کے اوپر دلالت کررہی ہے (احکام القرآن:۷:ج:۳)
(۵) آیت ''لا تاکلو'' الخ سورۃ انعام سے متروک التسمیہ عامداًثابت ہے نہ کہ ناسیاً کیونکہ ''انہ لفسق''کی ضمیر کا مرجع بروایت ابن عباس یہی ہے (روح المعانی :۵۱:۴اور بخاری شریف باب التسمیہ علی الذبح:۸۲۶:ج۲)
(۶) ابن ماجہ اور نسائی کی روایت اپنے ترجمۃ الباب کے تحت اور علمائے امت کی تشریحات خصوصاً ابن تیمیہ ؒ کے اس فتویٰ ''علیہ غیر واحد من السلف'' کی رو سےبھی امام شافعیؒ کے مطابق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کی تائید میں ہے۔
ذبح کا میکینکل طریقہ: اس طریقہ سے مراد مشین کے ذریعہ ذبح کرنا ہے ہوتا یہ ہے کہ جانوروں کو مذبح میں لیجاکر بجلی کا بٹن دبادیتے ہیں اور مشین ان جانوروں کی گردنوں کا تیا پانچا کردیتی ہے ظاہر ہےامریکہ اور یوروپ کے ہوٹلوں میں جو گوشت آتا ہے وہ اان مشینوں کا ذبح شدہ ہوتا ہے جس کی تجارت یہودی کرتے ہیں یا نصرانی ،یہودی کے یہاں تو اتنا اہتمام کیا جاتا ہے کہ کوئی ان کا ملّا آکر گوشت پر پھونک مار جاتاہے ،اور نصاریٰ کے یہاںتو اس کا بھی اہتمام نہیں ، خود مولانا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے،اور اللہ کا ناام لیکر بٹن دبانے کا تو سوال ہی نہیں اگر یہ ہوا ہوتا تو مولانا کے لئے تو بہت سہولت تھی ان کو اتنی طویل بحث کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحاصل جس جانور کو ذبح کرتے وقت عمداً اللہ کا نام لینا چھوڑدیا اس کا کھنا حرام ہے یہی امت کا فیصلہ ہے اسی پر اجماع ہے اور اب تک اس اجماع کے خلاف ثابت نہیں ہوسکا۔
(۲) امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قرآن پاک اور متعدد احادیث کی روشنی میں اگر تسمیہ عند الذبح نسیاناً رہ گیا وہ حلال ہے یہی ابن عباس ؓ کا مسلک ہے اور اسی کو امام بخاری ؒ نے ترجیح دی ہے۔
(۳)حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث سے ترک تسمیہ عامداً ثابت نہیں بلکہ علمائے امت کی تشریحات کی رو سے امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کے مطابق ہےنہ کہ امام شافعیؒ کے مسلک کے جس کے بل بوتے پر مولانا(سعید احمدصاحب اکبرآبادی)نے امریکہ کے ہوٹلوں میں صرف بسم اللہ پڑھ کر یہ گوشت خوب پیٹ بھر کر کھایا ہے۔
(۴) احادیث کے علاوہ آیات سے تسمیہ عندالذبح واجب ہوناثابت ہوتا ہے مثلاً:۔
واذکروااسم اللہ علیہ(الآئیۃ)
اس آیت میں امر کا صیغہ ہے جس سےوجوب ثابت ہوتا ہے۔
فاذکروااسم اللہ صواف
اس آیت سے بھی تسمیہ عندالذبح واجب ہوناثابت ہے کیونکہ اس میں بھی امر کا صیغہ ہے اور مزید قرینہ یہ ہے کہ آگے چل کر فرمایا ''فاذا وجبت جنوبھا'' اور فا اس میں تعقیب کے اوپر دلالت کررہی ہے (احکام القرآن:۷:ج:۳)
(۵) آیت ''لا تاکلو'' الخ سورۃ انعام سے متروک التسمیہ عامداًثابت ہے نہ کہ ناسیاً کیونکہ ''انہ لفسق''کی ضمیر کا مرجع بروایت ابن عباس یہی ہے (روح المعانی :۵۱:۴اور بخاری شریف باب التسمیہ علی الذبح:۸۲۶:ج۲)
(۶) ابن ماجہ اور نسائی کی روایت اپنے ترجمۃ الباب کے تحت اور علمائے امت کی تشریحات خصوصاً ابن تیمیہ ؒ کے اس فتویٰ ''علیہ غیر واحد من السلف'' کی رو سےبھی امام شافعیؒ کے مطابق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کی تائید میں ہے۔
ذبح کا میکینکل طریقہ: اس طریقہ سے مراد مشین کے ذریعہ ذبح کرنا ہے ہوتا یہ ہے کہ جانوروں کو مذبح میں لیجاکر بجلی کا بٹن دبادیتے ہیں اور مشین ان جانوروں کی گردنوں کا تیا پانچا کردیتی ہے ظاہر ہےامریکہ اور یوروپ کے ہوٹلوں میں جو گوشت آتا ہے وہ اان مشینوں کا ذبح شدہ ہوتا ہے جس کی تجارت یہودی کرتے ہیں یا نصرانی ،یہودی کے یہاں تو اتنا اہتمام کیا جاتا ہے کہ کوئی ان کا ملّا آکر گوشت پر پھونک مار جاتاہے ،اور نصاریٰ کے یہاںتو اس کا بھی اہتمام نہیں ، خود مولانا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے،اور اللہ کا ناام لیکر بٹن دبانے کا تو سوال ہی نہیں اگر یہ ہوا ہوتا تو مولانا کے لئے تو بہت سہولت تھی ان کو اتنی طویل بحث کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔