عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
اس لئے قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔
ان النصاریٰ فی ھاذہ الزمان لا یذبحون بل یقتلوں بالوقد غالباً فلا یحل طعامھم
اس زمانہ کے نصاریٰ ذبح نہیں کرتے بلکہ وہ وقد کے ذریعہ قتل کرتے ہیں لہٰذا ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
باوجودیکہ متقدمین فقہاء نے اہل کتاب کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کے یہودو نصاریٰ آج کل کے ترقی یافتہ یہودو نصاریٰ نہیں تھےاور نہ اس قسم کے آلات ہی اس وقت ایجاد ہوئے تھے،طریقہ ذبح بھی ہی قدیم تھا،لیکن قاضی صاحب تو ابھی چند برسوں کے علماء میں سے ہیں وہ نصاریٰ سے بہت اچھے طریقے سے واقف ہیں اسی طرح علامہ ابن عابدین حال ہی کے علماء متاخرین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:۔
والاولیٰ ان لایا کل ذبیحتھم ولا یتزوج منھم الا للضرورۃ
اور بہتر یہ ہے کہ ان کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور نہ ان سے مناکحت کی جائے مگر ضرورتاً۔
اس سے چند سطر پہلے تحریر فرماتے ہیں:۔
وبہ افتی الجد
محترم دادا صاحب اسی پر فتویٰ دیتے تھے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یوروپ اور امریکہ اہل کتاب کے ذبیحہ میں ذبیحہ شرعیہ کی دونوں شرطیں مفقود ہیں (۱)یہ ذبح اختیاری یا اضطراری کی کسی قسم میں داخل نہیں (۲)اس پر اللہ کا نام عمداً ترک کیا جاتا ہے اور یہی اغلب ہے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کے ذبیحہ کو اس سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہےمگر ایک رکن بہر ھال اس میں سے بھی فوت ہورہاہےاس لئے دونوں ذبیحہ حرام ہیں(۳) قرآن پاک میں نزول قرآن کے وقت ان کا طریقہ ذبح معروف تھا جس کے متعلق قرآن پاک میں حلت کاحکم دیا تھا اور اب موجودہ طریقہ میں دونوں رکن فوت ہونے کی وجہ سے بدل چکا ہے اس لئے قرآن پاک کی مذکورۃ الصدر آیت سے آج کل کے حالات ِذبیحہ خارج از بحث ہیں پھر حضرت علیؓ کا استثنیٰ موجود ہے ااس کی روشنی میں یوروپ امریکہ کے ذبیحہ اس آیت کے تحت داخل نہیں ہیں (۴) آج کل کے اہل کتاب کے بارے میں حس ظن قائم نہیں رکھا جاسکتا اس لئے کہ وہ سور کا گوشت بھی کھاتے ہیں،اور نزول قرآن کے وقت سور کا گوشت نہیں کھاتے تھے(۵) اردن کے مفتی صاحب کا یہ ارشاد قطعاً غلط اور بلا دلیل ہے کہ سردیوں کی جہ سےسرد ممالک میں گوشت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے،اس ضرورت کی وجہ سے کھاناجائز ہے میرے نزدیک امریکہ اور یوروپ اور دوسرے سرد ممالک میںگوشت کا بدل انڈا اور مچھلی ہےکیا یہ شریعت میں موجود نہیں ہےکہ جب کسی چیز کا بدل موجود نہ ہو تب اس کی اباحت کا حکم دیا جاتا ہےاور یہاں سرد ممالک میں ضرورت انسانیہ کے پیش نظر گوشت کا بدل انڈا اور مچھلی ہےاس کے علاوہ علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کسی شئی کی حرمت اور حلت میں شک ہوجائے تو حرمت کو ترجیح دیتے ہیں اور ناجائز قرار دیتے ہیں اور پھر اگر ضرورت پیش آئے تو قیودات کے ساتھ اس کو مباح قرار دیتےہیں یہ بھی غلط ہے کہ حلال اور حرام کی تحقیق علماء کاکام ہے انہی کو اس پر عمل کرنا چاہئے اس لئے کہ حلت اور حرمت کا معاملہ مقتضاء ایمان میں سے ہےاس لئے یوروپ اور امریکہ پہنچ کر کسی بھی مسلمان کو بلا تحقیق کے وہاں کاذبیحہ نہیں کھانا چاہئے۔
فقط والسلام
ان النصاریٰ فی ھاذہ الزمان لا یذبحون بل یقتلوں بالوقد غالباً فلا یحل طعامھم
اس زمانہ کے نصاریٰ ذبح نہیں کرتے بلکہ وہ وقد کے ذریعہ قتل کرتے ہیں لہٰذا ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
باوجودیکہ متقدمین فقہاء نے اہل کتاب کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کے یہودو نصاریٰ آج کل کے ترقی یافتہ یہودو نصاریٰ نہیں تھےاور نہ اس قسم کے آلات ہی اس وقت ایجاد ہوئے تھے،طریقہ ذبح بھی ہی قدیم تھا،لیکن قاضی صاحب تو ابھی چند برسوں کے علماء میں سے ہیں وہ نصاریٰ سے بہت اچھے طریقے سے واقف ہیں اسی طرح علامہ ابن عابدین حال ہی کے علماء متاخرین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:۔
والاولیٰ ان لایا کل ذبیحتھم ولا یتزوج منھم الا للضرورۃ
اور بہتر یہ ہے کہ ان کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور نہ ان سے مناکحت کی جائے مگر ضرورتاً۔
اس سے چند سطر پہلے تحریر فرماتے ہیں:۔
وبہ افتی الجد
محترم دادا صاحب اسی پر فتویٰ دیتے تھے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یوروپ اور امریکہ اہل کتاب کے ذبیحہ میں ذبیحہ شرعیہ کی دونوں شرطیں مفقود ہیں (۱)یہ ذبح اختیاری یا اضطراری کی کسی قسم میں داخل نہیں (۲)اس پر اللہ کا نام عمداً ترک کیا جاتا ہے اور یہی اغلب ہے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کے ذبیحہ کو اس سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہےمگر ایک رکن بہر ھال اس میں سے بھی فوت ہورہاہےاس لئے دونوں ذبیحہ حرام ہیں(۳) قرآن پاک میں نزول قرآن کے وقت ان کا طریقہ ذبح معروف تھا جس کے متعلق قرآن پاک میں حلت کاحکم دیا تھا اور اب موجودہ طریقہ میں دونوں رکن فوت ہونے کی وجہ سے بدل چکا ہے اس لئے قرآن پاک کی مذکورۃ الصدر آیت سے آج کل کے حالات ِذبیحہ خارج از بحث ہیں پھر حضرت علیؓ کا استثنیٰ موجود ہے ااس کی روشنی میں یوروپ امریکہ کے ذبیحہ اس آیت کے تحت داخل نہیں ہیں (۴) آج کل کے اہل کتاب کے بارے میں حس ظن قائم نہیں رکھا جاسکتا اس لئے کہ وہ سور کا گوشت بھی کھاتے ہیں،اور نزول قرآن کے وقت سور کا گوشت نہیں کھاتے تھے(۵) اردن کے مفتی صاحب کا یہ ارشاد قطعاً غلط اور بلا دلیل ہے کہ سردیوں کی جہ سےسرد ممالک میں گوشت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے،اس ضرورت کی وجہ سے کھاناجائز ہے میرے نزدیک امریکہ اور یوروپ اور دوسرے سرد ممالک میںگوشت کا بدل انڈا اور مچھلی ہےکیا یہ شریعت میں موجود نہیں ہےکہ جب کسی چیز کا بدل موجود نہ ہو تب اس کی اباحت کا حکم دیا جاتا ہےاور یہاں سرد ممالک میں ضرورت انسانیہ کے پیش نظر گوشت کا بدل انڈا اور مچھلی ہےاس کے علاوہ علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کسی شئی کی حرمت اور حلت میں شک ہوجائے تو حرمت کو ترجیح دیتے ہیں اور ناجائز قرار دیتے ہیں اور پھر اگر ضرورت پیش آئے تو قیودات کے ساتھ اس کو مباح قرار دیتےہیں یہ بھی غلط ہے کہ حلال اور حرام کی تحقیق علماء کاکام ہے انہی کو اس پر عمل کرنا چاہئے اس لئے کہ حلت اور حرمت کا معاملہ مقتضاء ایمان میں سے ہےاس لئے یوروپ اور امریکہ پہنچ کر کسی بھی مسلمان کو بلا تحقیق کے وہاں کاذبیحہ نہیں کھانا چاہئے۔
فقط والسلام