کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
خلاصہ کلام فقہاء
فقہاء کے کلام کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ: کفار کے تہواروں پر انکو تہنیت پیش کرنے میں:
کیا اس پر ہم ان کو مبارکباد کے کارڈ بھیجیں گے ۔۔۔ یا جہنم کی وعید سنائیں گے:
فقہاء کے کلام کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ: کفار کے تہواروں پر انکو تہنیت پیش کرنے میں:
ذرا یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اُن کو مبارکباد کس چیز پر دیتے ہیں؟ اور کیا ہمیں اُس چیز کی حقیقت کا علم بھی ہے جس پر ہم اُنہیں مبارکباد دینے چل پڑتے ہیں؟ واضح سی بات ہے وہ اپنے اِس تہوار پر عیسیٰ ں کی پیدائش کی یادتازہ کرتے ہیں۔ اور عیسی ں وہ ہستی ہیں جن کو وہ رب مانتے ہیں! اور رب کا بیٹا ! اور ثالث ثلاثہ! قارئین کرام یہ تو آپ کے بنیادی عقیدہ ہی کے ساتھ سیدھا سیدھا تصادم نہیں ہے؟ آپ کا وہ بنیادی ترین عقیدہ جس کو منوانے کے لیے اللہ نے سب کے سب انبیاء اور سب کے سب رسول بھیجے ہیں بشمول عیسی عليہ السلام کے!1۔اگر اس تہوار کی تعظیم بھی شامل ہو تو خدشہ ہے کہ ایسا شخص کفر کا ارتکاب کر بیٹھا ہے، العیاذ باللہ۔
2۔ہاں اگر اس میں تعظیم شامل نہ ہو، تو یہ (کفر نہیں بنتا البتہ) محرمات میں آتا ہے جس پر اس پر تعزیر لگانا بنتا ہے؛ کیونکہ ایسے شخص نے اہل کتاب کی عیدوں میں شمولیت کر لی ہے،
3۔نیز اس لیے بھی کہ یہ اہل کتاب کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور اس لیے بھی کہ یہ ان کے دین کو ایک طرح کی سند دینے کا معنیٰ رکھتا ہے۔
4۔ اُن کو مبارکباد کس بات پر، اور پھر اُن کو دعوت کس چیز کی!
کیا اس پر ہم ان کو مبارکباد کے کارڈ بھیجیں گے ۔۔۔ یا جہنم کی وعید سنائیں گے:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْْئاً إِدّاً تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدّاً أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً وَمَا یَنبَغِیْ لِلرَّحْمَنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَداً إِن کُلُّ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلّاَ آتِیْ الرَّحْمَنِ عَبْداً لَقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدّاً وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً (مریم: ۸۸ ۔ ۹۵)
اور وہ بولے: خدا بیٹا رکھتا ہے۔ یقیناًتم نے ایک نہایت گھناؤنی بات بول ڈالی۔ قریب ہے کہ آسمان اِس سے پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس لیے کہ انہوں نے رحمن کے لیے بیٹا تجویز کر ڈالا۔ اور رحمن کے لائق نہیں کہ اولاد رکھے۔ ہر ذی نفس جو آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اُس کے حضور بندہ ہو کر حاضر ہونے والا ہے۔ یقیناًاُس نے اِن کا احاطہ کر لیا ہے اور ان کے ایک ایک کی گنتی کر لی ہے۔اور روزِ قیامت یہ سب اُس کے حضور اکیلے اکیلے حاضر ہونے والے ہیں۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی ﷺ قال:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: کَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہ ذٰلِکَ، وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَکُنْ لَہ ذٰلِکَ، فَأمَّا تَکْذِیْبُہُ إیَّایَ فَزَعْمُہ أنِّیْ لا أَقْدِرُ أنْ أُعِیْدَہ کَمَا کَانَ، وَأمَّا شَتْمُہ إیَّایَ فَقَوْلُہ لِیْ وَلَدٌ، فَسُبْحَانِیْ أنَ أتَّخِذَ صَاحِبَۃً أوْ وَلَداً (رواہ البخاری)
روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم نے میری تکذیب کی اور یہ اس کو سزاوار نہ تھا۔ ابن آدم نے مجھے دشنام بکی اور یہ اس کو سزاوار نہ تھا۔ جہاں تک اس کا میری تکذیب کرنا ہے تو وہ اس کا یہ اعتقاد کہ میں اس کو پہلی حالت میں ازسر نو تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ رہ گیا اس کا مجھ کو دشنام بکنا تو وہ اس کا یہ کہنا کہ میری اولاد ہے، حالانکہ میں پاک ہوں اس سے کہ کوئی جورو یا اولاد رکھوں‘‘