السلام علیکم
بھائی میں ہر طرح معاف کرنے کا قائل ہوں اس پر سامنے چاہے عورت ہو یا مرد، مسلمان ہو یا غیر مسلم۔
اوور آل اس پر بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ اور پھر اس پر اپنے تجربہ سے کچھ باتیں شیئر کرتا ہوں اس پر آپکو یقیناً کچھ سیکھنے کو ملے گا گفتگو مختصر ہو گی اگر ہر بات کی باریکی پر بات کرنی ضروری سمجھیں تو بعد میں۔
1۔ میری ایک کزن تھی اس کی خاندان میں ہی شادی ہوئی مگر اس کے سسرال دوسرے شہر میں رہتے تھے کافی پرانی بات ھے اس وقت میں میٹرک میں تھا، اس کا خاوند بیرون ملک تھا اور اس کی شادی میں اس کی نند کچھ جیلس تھیں جن کی حتمٰی کوشش تھی کہ کسی بھی طرح ان میں علیحدگی کروا دی جائے۔
ایک مرتبہ ان کی نندیں لاہور آئیں اور اپنی ایک بہن کے گھر ٹھہریں جس پر انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھے ایک خط پڑھایا جو اس کزن کے کسی دوسرے نے اسے پوسٹ کے ذریعے بھیجا تھا کہ اس مرتبہ عید آ رہی ھے اور تم لاہور اپنی والدہ کے گھر آنا تو عید اکٹھے منائیں گے۔
کزن کا کزن چونکہ کرایہ کے گھر میں رہتے تھے جس پر اس نے لفافہ پر اپنا پتہ کسی دوست کے گھر کا لکھا ہوا تھا۔
نندوں نے کہا کہ اس ایڈریس پر معلوم کرو کہ یہ لڑکا کون ھے پھر ہم سے کے بعد کاروائی کریں گی۔
میں نے ایڈریس لیا اور جب اس جگہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایڈریس اس کے دوست کا ھے اور اس دوست کو بھی میں جانتا تھا، خیر معاملہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا سب کزن آپس میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا سوچا جاتا ھے، خط لکھنے والے کو بھی میں جانتا تھا کہ ان کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں تھی کزن سسٹر، کزن برادر تھے۔ ورنہ اس کے گھر کے ایڈریس پر کون خط لکھتا ھے اور خط میں ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی مگر اشو بنانے والے کو بہانہ چاہئے ہوتا ھے۔
میں گھر آیا اور اپنی والدہ سے اس مسئلہ پر بات کی اور اتفاق سے ان دنوں میرے والد محترم بھی پاکستان آئے ہوئے تھے، میری والدہ نے کہا کہ میں تمہارے ابو سے پوچھ کر بتاتی ہوں۔
والدہ کے بتانے پر والد محترم نے مجھے کہا کہ ناجانے یہ اس کا گھر کیوں تباہ کرنا چاہتی ہیں پھر بھی تم انہیں یہ کہو کہ یہ خط فیک ھے اس ایڈریس میں اس نام کا کوئی نہیں رہتا اس پر نہ تو وہ خود اس پتہ پر جا سکتی ہیں اور نہ ہی کسی اور کو کہیں گی تم اس وقت خاندان کے لڑکوں میں چھوٹے ہو اسی لئے انہوں نے تمہارا انتخاب کیا ھے۔ اگر تم نے انہیں بتا دیا کہ یہ ایڈریس درست ھے تو پھر وہ اس کا گھر تباہ کر دیں گے۔
اس کے بعد میں ان نندوں کے پاس گیا اور انہیں یہی کہا جس پر انہوں نے بہت کوشش کی کہ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو تم اس کو بچانا چاہتے ہو وغیرہ۔ پھر بھی بہت بحث کے بعد میں وہاں سے آ گیا جس پر وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو پائیں اور وہ کزن پھر کچھ سالوں بعد اپنے خاوند کے پاس چلی گئی اور اس وقت وہ اپنے فیملی میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ھے۔ اور اس کی نندیں کسی بھی طرح اسے بھلا نہیں پائیں جبکہ وہ اس سے کم درجہ کی زندگی گزار رہی ہیں۔
جو لوگ کسی کو معاف نہیں کرتے یا دوسرں کی جانے انجانے یا جان بوجھ کر ہونے والی غلطیاں معاف نہیں کرتے، وہ ساری زندگی اپنا خون جلاتے ہیں اور اس کشمکش میں ان کا دماغ اپنی بہتر زندگی کی کوشش میں جام ہو جاتا ھے، کیونکہ ہر وقت سامنے والے کی خیال ہی دل و دماغ میں چھایا رہتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے سوچنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے دوسرں کے عیب تلاش کرنے سے بہتر ھے کہ اپنی بہتری کے لئے دماغ کو خرچ کیا جائے۔ غلطی ہو یا غلط فہمی اسے اگنور کر کے دیکھیں آپ کو سکون ملے گا نہیں تو خود کے لئے بھی وقت نہیں بچے گا۔
والسلام