• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟؟

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
دنیا عورت کے ماضی کو کبھی نہیں بھولتی۔
دنیا صرف مرد کے ماضی کو بھول جاتی ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو پھر مرد کی غلطی کیوں معاف کی جاتی ہے۔
اور عورت کی ایک غلطی کو بھی معاف نہیں کیا جاتا ،
اسے قدم قدم پراس بات کا احساس دلایا جاتا ہے۔
آخرایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟؟ اپنے خیالات ضرور شئیر کریں۔جزاک اللہ خیرا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی میں ہر طرح معاف کرنے کا قائل ہوں اس پر سامنے چاہے عورت ہو یا مرد، مسلمان ہو یا غیر مسلم۔

اوور آل اس پر بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ اور پھر اس پر اپنے تجربہ سے کچھ باتیں شیئر کرتا ہوں اس پر آپکو یقیناً کچھ سیکھنے کو ملے گا گفتگو مختصر ہو گی اگر ہر بات کی باریکی پر بات کرنی ضروری سمجھیں تو بعد میں۔

1۔ میری ایک کزن تھی اس کی خاندان میں ہی شادی ہوئی مگر اس کے سسرال دوسرے شہر میں رہتے تھے کافی پرانی بات ھے اس وقت میں میٹرک میں تھا، اس کا خاوند بیرون ملک تھا اور اس کی شادی میں اس کی نند کچھ جیلس تھیں جن کی حتمٰی کوشش تھی کہ کسی بھی طرح ان میں علیحدگی کروا دی جائے۔

ایک مرتبہ ان کی نندیں لاہور آئیں اور اپنی ایک بہن کے گھر ٹھہریں جس پر انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھے ایک خط پڑھایا جو اس کزن کے کسی دوسرے نے اسے پوسٹ کے ذریعے بھیجا تھا کہ اس مرتبہ عید آ رہی ھے اور تم لاہور اپنی والدہ کے گھر آنا تو عید اکٹھے منائیں گے۔

کزن کا کزن چونکہ کرایہ کے گھر میں رہتے تھے جس پر اس نے لفافہ پر اپنا پتہ کسی دوست کے گھر کا لکھا ہوا تھا۔

نندوں نے کہا کہ اس ایڈریس پر معلوم کرو کہ یہ لڑکا کون ھے پھر ہم سے کے بعد کاروائی کریں گی۔

میں نے ایڈریس لیا اور جب اس جگہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایڈریس اس کے دوست کا ھے اور اس دوست کو بھی میں جانتا تھا، خیر معاملہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا سب کزن آپس میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا سوچا جاتا ھے، خط لکھنے والے کو بھی میں جانتا تھا کہ ان کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں تھی کزن سسٹر، کزن برادر تھے۔ ورنہ اس کے گھر کے ایڈریس پر کون خط لکھتا ھے اور خط میں ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی مگر اشو بنانے والے کو بہانہ چاہئے ہوتا ھے۔

میں گھر آیا اور اپنی والدہ سے اس مسئلہ پر بات کی اور اتفاق سے ان دنوں میرے والد محترم بھی پاکستان آئے ہوئے تھے، میری والدہ نے کہا کہ میں تمہارے ابو سے پوچھ کر بتاتی ہوں۔

والدہ کے بتانے پر والد محترم نے مجھے کہا کہ ناجانے یہ اس کا گھر کیوں تباہ کرنا چاہتی ہیں پھر بھی تم انہیں یہ کہو کہ یہ خط فیک ھے اس ایڈریس میں اس نام کا کوئی نہیں رہتا اس پر نہ تو وہ خود اس پتہ پر جا سکتی ہیں اور نہ ہی کسی اور کو کہیں گی تم اس وقت خاندان کے لڑکوں میں چھوٹے ہو اسی لئے انہوں نے تمہارا انتخاب کیا ھے۔ اگر تم نے انہیں بتا دیا کہ یہ ایڈریس درست ھے تو پھر وہ اس کا گھر تباہ کر دیں گے۔

اس کے بعد میں ان نندوں کے پاس گیا اور انہیں یہی کہا جس پر انہوں نے بہت کوشش کی کہ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو تم اس کو بچانا چاہتے ہو وغیرہ۔ پھر بھی بہت بحث کے بعد میں وہاں سے آ گیا جس پر وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو پائیں اور وہ کزن پھر کچھ سالوں بعد اپنے خاوند کے پاس چلی گئی اور اس وقت وہ اپنے فیملی میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ھے۔ اور اس کی نندیں کسی بھی طرح اسے بھلا نہیں پائیں جبکہ وہ اس سے کم درجہ کی زندگی گزار رہی ہیں۔

جو لوگ کسی کو معاف نہیں کرتے یا دوسرں کی جانے انجانے یا جان بوجھ کر ہونے والی غلطیاں معاف نہیں کرتے، وہ ساری زندگی اپنا خون جلاتے ہیں اور اس کشمکش میں ان کا دماغ اپنی بہتر زندگی کی کوشش میں جام ہو جاتا ھے، کیونکہ ہر وقت سامنے والے کی خیال ہی دل و دماغ میں چھایا رہتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے سوچنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے دوسرں کے عیب تلاش کرنے سے بہتر ھے کہ اپنی بہتری کے لئے دماغ کو خرچ کیا جائے۔ غلطی ہو یا غلط فہمی اسے اگنور کر کے دیکھیں آپ کو سکون ملے گا نہیں تو خود کے لئے بھی وقت نہیں بچے گا۔

والسلام
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
یہ تو آپکے والد محترم کی حکمت عملی تھی کہ اس بیچاری کا گھر ٹوٹتے ٹوٹتے بچ گیا۔لیکن میرا سوال جو ہے وہ عورت کے حوالے سے نہیں مرد کی نسبت سے ہے، مرد آخر کیوں نہیں معاف کرتا؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میری طرف سے اس کا جواب بھی اسی میں تھا، مرد کیوں معاف نہیں کرتے اب جو نہیں کرتے وہی بتا سکتے ہیں۔ پھر بھی جو معاف نہیں کرتے وہ خود کونسا سکون میں رہتے ہیں۔

کسی نے کہا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ اچھا کریں یا برا دونوں صورت میں انسان اسے نہیں بھولتا، اچھا کرنے والے کو جب بھی یاد کرے گا ساتھ دعائیں بھی دے گا، اور برا کرنے والے کو بھی جب یاد کرے گا تو ساتھ بددعا یا برا بھلا بھی کہے گا۔

والسلام
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
کسی نے کہا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ اچھا کریں یا برا دونوں صورت میں انسان اسے نہیں بھولتا، اچھا کرنے والے کو جب بھی یاد کرے گا ساتھ دعائیں بھی دے گا، اور برا کرنے والے کو بھی جب یاد کرے گا تو ساتھ بددعا یا برا بھلا بھی کہے گا۔
بهت خوب، کنعان بهایی
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
“ بڑا انسان وہ جو معاف کرنا جانتا ہے “

السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔

انسان کی جب پیدائش ہوتی ہے تو وہ ہر چیز سے انجان ہوتا ہے ، وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس قوم سے ہے کس مذہب سے ہے، یہ دنیا کیا ہے ، اس کا بنانے والا کون ہے ، سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے ، اچھا کیا ہے بُرا کیا ہے، جھوٹ کیا ہوتا ہے ، غیبت کیا ہوتی ہے ، حسد کیا ہوتا ، کسی کا مذاق اڑانا کیا ہوتا ہے ، کسی کا دل دکھانا کیا ہوتا ہے، وہ ہر چیز سے انجان ہی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی بھی گناہ کا اور سزا کا مرتکب نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اُسے ہر چیز کے بارے میں معلوم ہونے لگتا ہے کہ وہ کسی قوم و مذہب کا ہے ، سچ کسے کہتے ہیں جھوٹ کسے کہتے ہیں پھر جب وہ غلطی کرتا ہے تو اُس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے دنیا میں نہ سہی آخرت میں وہ اُس کو غلطیوں کی سزا ملتی ہے۔

جب انسان پیدا ہوتا ہے اور وہ جوانی کی طرف بڑھ رہا ہوتاہے تو گھر کے بڑے جو کسی بھی مذہب کے ہوں انہیں اپنے مذہب کے بارے میں آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں، مژال کے طور پر ہندئو اپنی اُولاد کو بُتوں کی طرف لے کر جاتے ہیں، عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو نعوذباللہ اپنا خدا مانتے ہیں ، ہر کوئی اپنے اپنے مذہب کی تلیقین اپنے بچوں کو دیتاہے اسی طرح جب مسلمان کے گھر بچہ پیدا ہوتاہے تو اُسے کانوں میں اذان کی آواز دی جاتی ہے جس کا مطلب بچے کو معلوم نہیں‌ہوتا ہے اور نہ ہی اُس کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ اذان کیا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوتاہے تو اُسے سمجھ آتی ہے کہ اس اذان کا مطلب کیا ہے۔ بچپن سے اُسے اس بات کی طرف مائل کر دیا جاتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالی اپنے بندون کو نماز اور فلاح پانے کے لیے آواز دیتا ہے۔

ہمارا اسلام ہمیں ہمیشہ سچی بات کہنے اور دوسروں کو حق بات پہنچانے کی تلیقین کرتا ہے ، نماز، روزہ ، زکوتہ ، حج یہ تمام چیزیں ہمیں دوسرے مذہب سے الگ کرتی ہیں اور ہماری پہچان بناتی ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن یہ صرف ہم پر انحصار کرتا ہے کہ ہم اپنے اسلام کو کتنا سمجھتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔ اسلام میں ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کسی کی غیبت نہ کریں ، جھوٹ نہ بولیں ، کسی کا مذاق نہ اڑائیں ، چوری و زنا سے دور رہیں ، سچی کہنے سے پیچھے نہ ہٹیں چاہے ہمیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ، کسی کا دل نہ دکھائیں۔

انسان کو جب اپنے دین کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا ہے تو وہ اپنے دین کے بارے میں جاننے کے لیے علم حاصل کرتا ہے تاکہ وہ اچھے بُرے کی تمیز کر سکے اور یہ جان سکے کہ اُس کے لیے کیا سہی اورکیا غلط ہے۔ جب علم نہیں ہوتا تو اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُس پر عمل بھی کر سکے لیکن نہایت شرم کی بات ہے کہ جب وہی انسان علم حاصل کر لیتا ہے تو عمل کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے کیوں ؟ علم اللہ تعالی کی دین ہے جسے چاہتاہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دے دیتا ہے۔ لیکن زیادہ علم حاصل کرنے میں اس بات کا گھمنڈ اور غرور نہیں آنا چاہیے کہ اُس کے پاس علم ہے اور وہ کسی کو کچھ بھی کہہ دے۔ علم حاصل کرنا بڑی بات نہیں اُس پر عمل کرنا بڑی بات ہے۔

ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور معاف کر دو ، اُن کے لیے دل میں بغض نہ رکھو ، اُن کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئو ، اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھائو نا کہ اُس سے بدلہ لو اور اُسے جگہ جگہ ذلیل کرو۔ وہ کیسا مومن/مسلمان ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مومن و مسلمان محفوظ نہ رہے۔ کہنے کی اور سننے کی حد تک ہمیں یہ باتیں بہت اثر کرتی ہیں لیکن جب ہم پر ایسا وقت آتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن یا بھائی کی غلطی کو معاف/درگزر کریں تو ایسا کرنے میں ہمیں بہت قباحت ہوتی ہے کیوں؟ میرا سوال ہے اُن علم والے بہن بھائیوں سے جو کہ اپنے دین کے بارے بہت کچھ جانتے ہیں اور ہر چیز سے باخبر ہیں کہ ہمارا دین/اسلام کیا کہتا ہے اور ان حالات میں آکر وہ غصے کا، جذباتی ہونے کا اور کم علمی کا مظاہر کیوں کرتےہیں؟ خود کو علم والا ، اور اونچا رکھنے کے لیے دوسروں کو نیچا اور کم علم والا ثابت کرتے ہیں کیوں؟ زبان زبان سے کسی کو یہ کہہ دینا کہ میرے دل میں کسی کے لیے کوئی بغض نہیں ، میں کسی سے حسد نہیں کرتا/کرتی ، میں کسی سے ناراض نہیں، سب مسلمان میرے بہن بھائی ہیں لیکن پیٹھ پیچھے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے لیے دل میں بغض بھی رکھنا ، اُن کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ، وقت آنے پر اُن پر وار کرنا ، اُن سے حسد کرنا کیا ایسا کرنا ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے؟


(عن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام

سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ( مسلمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرے دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ آدمی ہے کہ جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2031 )


خدارا اپنے دین کو جان لینے کے بعد ایسی حماقتیں مت کریں کہ دوسرے لوگ ہم پر ہنسیں اور ہمارا مذاق بنائیں۔ اگر میں غلط نہیں ‌ہوں تو ہمارا اسلام ہمیں یہی کہتا ہے نا

“ کہ دوسروں کے قصور معاف کرنا سیکھو“

(اللہ تعالی فرماتے ہیں :

اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے :

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿آل عمران: ١٣٤﴾
جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے (134)سورة آل عمران)


“ بدلہ لینےسے معاف کرنے والا بڑا ہوتاہے “

(عن أبي هريرة عن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2091 )


“ اچھا انسان وہی ہے جو معاف کرنا جانتا ہے

انسان، انسان کو ایسے معاف کرے جیسے اللہ تعالی سے اُمید رکھتا ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دے“


( اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ حق پر ہیں اور آپ کا مسلمان بھائی غلطی پر ہے پھر بھی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کو جنت میں گھر کی ضمانت دی ہے

عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترک المرا وإن کان محقا وببيت في وسط الجنة لمن ترک الکذب وإن کان مازحا وببيت في أعلی الجنة لمن حسن خلقه

سیدنا ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جو مذاق ومزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اور اس شخص کے لیے جو اعلی اخلاق کا مالک ہو اعلی جنت میں ایک مکان کا ضامن ہوں۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1396 )


ایک بات یاد رکھیں انسان کے حقوق انسان ہی معاف کرے گا نا کہ اللہ تعالی، اگر ہم نے کسی کا دل دُکھایا ہے یا کسی کے ساتھ بُرا کیا ہے یا جب تک ہمیں وہ انسان معاف نہ کرے گا جس کے ساتھ ہم نے ایسا کیا تو اللہ تعالی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ہم کسی کی اصلاح ہم کیوں کرتے ہیں ؟ تاکہ وہ غلط چیز سے بچ سکے اور ہم یہ کام اللہ تعالی کی رضا کے لیے نا کہ دنیا والوں کے آگے نمبر بنانے کےلیے۔ لیکن جب کوئی ہماری غلطی کی نشاندہی کرتا ہے تو ہم جذباتی کیوں ہوتے ہیں ؟ غصہ کیوں کرتے ہیں ، نشاندہی کرنے والے کو بُرا کیوں سمجھتے ہیں؟

(غصہ کو پی جانا بہادری ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عن سهل بن معاذ عن أبيه أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من کظم غيظا وهو قادر علی أن ينفذه دعاه الله عز وجل علی روس الخلاق يوم القيامة حتی يخيره الله من الحور العين ما شا قال أبو داود اسم أبي مرحوم عبد الرحمن بن ميمون

حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے غصہ کو پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو اللہ تعالیٰ روز قیامت ساری مخلوقات کے سامنے اسے بلائیں گے اور اسے اختیار دیں گے جو حور تو چاہے پسند کرلے امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ ابی مرحوم کا نام عبدالرحمن بن میمون تھا۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1374 )



ہم انسان ہیں اور انسان غلطیوں کا پُتلا ہے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر بیٹھتا ہے۔ ہم فرشتے نہیں جو ہر گناہ سے پاک ہیں۔ ایک انسان غلطی کرتا ہے تو وہی غلطی سے دوسرے سے بھی ہو سکتی ہے۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیشہ ایک انسان غلطی کرتا رہے اور دوسرا نہ کرے ایسا نہیں ہوتا۔ کسی کے پاس علم زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ زیادہ علم بہتر ہے تو یہ کہنا غلط ہو گا۔ اگر زیادہ علم والے کا عمل کم ہے اور کم علم والے کا عمل زیادہ ہے تو میری نظر میں کم علم بہترین انسان ہے جو علم کم ہونے کے باوجود زیادہ عمل کی طرف سے توجہ رکھے ہوئے ہے۔ علم کا غرور انسان کو مٹی میں ملا سکتا ہے ، خود کو اونچا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا یہ مومن مسلمانوں کا کام نہیں۔

(ایک مسلمان کیسا ہوتا ہے :

عن سالم عن أبيه أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه من کان في حاجة أخيه کان الله في حاجته ومن فرج عن مسلم کربة فرج الله عنه بها کربة من کرب يوم القيامة ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة

حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرمائے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی سے کوئی مصیبت دور کرے گا تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2077 )


اللہ تعالی کی نظر میں کون کتنا اچھا ہے ، کس کا وقار زیادہ بُلند ہے ، کس کے اعمال زیادہ بہترین ہیں یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات جانتی ہے۔

اسلام ہمیشہ ہمیں پیار سے بات کرنے اور آپس میں ایک رہنے کا درس دیتا ہے نا کہ مختلف حصوں میں بٹ کر رہنے کا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کافروں کو طائف پر اسلام کی دعوت دنی چاہیے تو کافروں نے آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پتھر مار کر لہولہان کر دیا تھا اور اُن کے مبارک جوتے خون سے بھر گئے تھے اُس اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا تھاکہ اے نبی اگر آپ کہیں تو ان کی بستی کو اُلٹا دیں یا ان کو دو پہاڑوں کے درمیان دے ماریں تو تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے اور جذبات کا اظہار نہ کیا تھا بلکہ اُن کافروں کے لیے ہدایت کی دُعا کی ہے۔ کیا شان ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ کافروں کے ظلم کو جواب اللہ تعالی سے اُن کی ہدایت کی صورت میں مانگا اور ایک ہم ہیں جو کافر تو دور مسلمان بہن بھائیوں کی ایک چھوٹی سی بات پر آگ بگولا ہو کر لعن طعن ، گالم گلوچ ، خون خرابے ، اور طنز و تنقید پر اتر آتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اپنے دین کو سمجھتے اور مانتے ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارے اندر برادشت کا مادہ کیوں نہیں ہے ؟ کوئی غلط بات سننے پر ہم کم عقلی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں ؟ بات کو سلجھانے کی بجائے اُسے بگاڑنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں ؟ اگر ہم سچے ہیں تو اُسے قرآن و حدیث سے ثابت کرو اگر نہیں کرسکتے تو خاموش رہو ناکہ دوسرے کو جگہ جگہ ذلیل کریں ، اُس کا مذاق بنائیں اور اُسے اپنے دور کر دیں۔ ایک مومن مسلمان کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے مسلمان بہن بھائی کو ذلیل کرے ، اُس پر طنزیہ جملے کسے ، اور معاف کرنے کی بجائے بدلے کی آگے دل میں رکھے اور وقت آنے پر اُس آگ کو منہ سے اُگلے۔ دوسروں کو اسلام کی تلیقین کرنے سے پہلے ہمیں خود اپنے اسلام کو سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ہو گا۔ کسی کی بات/کام میں کیڑے نکالنا بہت ہی آسان کام ہے یا کسی کو غلط ثابت کرنا بہت آسان کام لگتا ہے لیکن اپنی ہی غلطی کو ماننا شاید خود انسان کے لیے بہت دُشوار ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی غلطی سُدھارنے کے لیے ہمیں اپنی غلطیوں کی طرف بھی نظر دوڑانی چاہیے۔

دو لفظ بول کر کسی کا دل دُکھانا بہت آسان ہے لیکن اگر وہی سب کچھ اپنے ساتھ ہو جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں تو شاید ہمیں اندازہ ہو کہ خود وہ تکلیف سہنا کتنا مشکل ہے جو ہم دوسروں کو باآسانی دیتے جاتے ہیں۔

اللہ تعالی سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو اپنی غلطیوں کو جاننے اور اُس کو سُدھارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دوسروں کی غیبت کرنے ، جھوٹ بولنے ، زیادہ علم کا غرور کرنے ، دلوں میں بغض رکھنے ، کسی سے حسد کرنے اور کسی کا دل دُکھانے سے باز رکھے آمین یا رب العالمین۔

تحریر : ساجد تاج
 
Top