• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایسا ہی ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
آپ ﷺ نے فرمایا
- جاء رجلٌ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقال : مَن أَحَقُّ الناسِ بحُسنِ صحابتي ؟ قال " أمُّك " قال : ثم من ؟ قال " ثم أمُّكَ " قال : ثم من ؟ قال " ثم أمُّكَ " قال : ثم من ؟ قال " ثم أبوك " . وفي حديثِ قُتَيبةَ : مَن أَحَقُّ بحسنِ صحابتي ؟ ولم يذكر الناسَ .
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2548
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اگرانگلش اورعربی دونوں کااردومیں ترجمہ کردیں توزیادہ بہترہے۔
انگلش پوسٹر کا مفہوم
بچہ اپنے والد سے ہم کلام ہوتے ہوئے اپنی والدہ کے بارے میں پوچھتا ہے
اس کے برعکس والدہ سے ہم کلام ہوتے ہوئے بہت ساری باتیں کہتا ہے، جن میں
میں بھوکا ہوں
مجھے سردی لگی ہے
مجھے گرمی لگی ہے
میں کر سکتا ہوں یا میں کیا کر سکتا ہوں
میں دیکھنا چاہتا ہوں
آپ کہاں ہیں؟
کیا آپ والد صاحب سے پوچھ سکتی ہیں
کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں
ہم کیوں ہیں
ہم کیوں نہیں کر سکتے

شاید اس پوسٹر کا مطلب ہے کہ آدمی اپنے والد سے ہم کلام ہو کر اس قدر دل کی گفتگو نہیں کرتا جس قدر وہ اپنے دکھ سکھ اپنی والدہ سے شئیر کرتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اگرانگلش اورعربی دونوں کااردومیں ترجمہ کردیں توزیادہ بہترہے۔
حدیث کا مفہوم
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری خدمت کا مستحق کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، تین مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ سوال کرنے پر یہی جواب دیا، چوتھی بار جب یہی سوال کیا گیا تب فرمایا: تمہارا باپ۔
یعنی انسان کی خدمت اور توجہ کی 75٪ ماں مستحق ہے اور 25٪ فیصد باپ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ۔۔۔سورة الاحقاف
ترجمه:اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا
یاد رہے کہ اس کا مطلب والد سے لڑنا جھگڑنا یا اس کی خدمت میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرنا بھی مناسب نہیں، اس حدیث سے یہ کہیں ثابت نہیں ہو رہا۔ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾۔۔۔سورۃ بنی اسرائیل
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا (23) اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے (24)
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بالکل ایسا ہی ہے!!بہت خوبصورت حقیقت ،جس کی طرف شاید ہم میں سے کئی توجہ نہیں دے سکے تھے !!


رب ارحمهما كما ربياني صغيرا

 
Top