اگرانگلش اورعربی دونوں کااردومیں ترجمہ کردیں توزیادہ بہترہے۔
حدیث کا مفہوم
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری خدمت کا مستحق کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، تین مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ سوال کرنے پر یہی جواب دیا، چوتھی بار جب یہی سوال کیا گیا تب فرمایا: تمہارا باپ۔
یعنی انسان کی خدمت اور توجہ کی 75٪ ماں مستحق ہے اور 25٪ فیصد باپ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ۔۔۔سورة الاحقاف
ترجمه:اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا
یاد رہے کہ اس کا مطلب والد سے لڑنا جھگڑنا یا اس کی خدمت میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرنا بھی مناسب نہیں، اس حدیث سے یہ کہیں ثابت نہیں ہو رہا۔ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾۔۔۔سورۃ بنی اسرائیل
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا (23) اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے (24)