محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ایسی مٹی کا حکم جس میں نجس کھاد شامل ہو اور اس پر نماز پڑھنے کا حکم
سوال:جس مٹی میں جانوروں کے فضلے سے بنی ہوئی کھاد شامل ہو تو کیا وہ پاک ہے؟ اور کیا ایسی مٹی بھی پاک ہے؟
Published Date: 2016-10-26
الحمد للہ:
جانوروں کے فضلے اور پیشاب کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم:
ایسے جانور کا فضلہ اور پیشاب جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور اس کا دودھ پیا جاتا ہےمثال کے طور پر : بکری اور گائے ۔
تو ان کے جانوروں کے فضلے اور پیشاب کے متعلق احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ یہ پاک ہیں، ان میں سے چند احادیث یہ ہیں:
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنائے جانے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا کرتے تھے"
بخاری: (234) مسلم: (524)
اسی طرح انس رضٰ اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "عکل اور عرینہ قبیلے کے لوگ مدینہ آئے تو انہیں یہاں کی آب و ہوا اور خوارک راس نہ آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس چھوڑنے کا حکم دیا اور کہا کہ ان کا دودھ اور پیشاب ملا کر پیو"
بخاری: (233) مسلم: (1671)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب اور فضلہ اکثر سلف کے ہاں نجس نہیں ہے، یہی موقف امام مالک اور احمد وغیرہ کا ہے، بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ : صحابہ کرام میں سے کوئی بھی انہیں نجس قرار نہیں دیتا؛ لہذا انہیں نجس کہنا جدید موقف ہے صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔
اس بارے میں ہم نے ایک الگ تصنیف میں مکمل تفصیل لکھی ہے اور اس بارے میں دس سے زیادہ شرعی دلائل ذکر کیے ہیں ، اس لیے ماکول اللحم جانوروں کا فضلہ اور پیشاب نجس نہیں ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 21 / 613 )
مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (111786) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر ماکول اللحم جانوروں کے فضلے سے بنائی گئی کھاد پاک ہے اور جس زمین میں ایسی کھاد ملی ہوئی ہو وہاں پر نماز ادا کرنا جائز ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے اور بکریوں کا باڑا بکریوں کے فضلے اور پیشاب سے خالی نہیں ہوتا۔
دوسری قسم:
ایسے جانوروں کا فضلہ اور پیشاب جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا جیسے کہ گدھا اور خنزیر وغیرہ ، تو یہ جمہور اہل علم کے ہاں نجس ہے۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غیر ماکول اللحم جانوروں کا فضلہ اور پیشاب چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ جمہور سلف کے ہاں نجس ہے، اور تمام علاقوں کے فقہائے کرام اس پر متفق ہیں" انتہی
" الاستذكار " ( 3 / 205 )
ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خنزیر کے پیشاب کے ناپاک ہونے کے متعلق مجھے کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے" انتہی
" الاقناع في مسائل الإجماع " ( 1 / 110)
نجس لید اور فضلے کی دو حالتیں ہیں:
پہلی حالت:
لید اور فضلہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہو، اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے ۔
تو ایسی صورت میں جس زمین کے اندر اسے ملایا گیا ہے تو وہ زمین بھی نجس ہے، وہاں پر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ صحیح نماز کیلیے جائے نماز کا پاک ہونا شرط ہے۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام علمائے کرام کا اجماع ہے کہ کپڑے اور بدن کسی بھی قسم کی نجاست سے پاک ہوں، نیز جائے نماز بھی ان چیزوں سے پاک ہونی چاہیے"
" الاستذكار " ( 3 / 205 )
دوسری حالت:
ایسی لید کو کھاد میں تبدیل کر دیا جائے ، اور وہ اپنی اصلی حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جائے اور اس کی ناپاکی جاتی رہے، مثلاً اس کی بد بو ختم ہو جائے اور ایسی صورت کو علمائے کرام کے ہاں عربی زبان میں "استحالہ"[ تبدیلی یا تغیر] کہتے ہیں، یعنی نجس چیز کا کسی اور چیز میں تبدیل ہو جانا، تو اس بارے میں علمائے کرام کا صحیح ترین قول یہ ہے کہ جب نجاست کسی اور مادے میں تبدیل ہو جائے تو وہ پاک ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "استحالہ"[ تبدیلی یا تغیر] کے ساتھ اپنی کیفیت تبدیل کرنے والی اشیاءکے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ذکر کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ:
"دوسرا موقف جو کہ ابو حنیفہ اور مالک سمیت دیگر اہل علم کا بھی ہے کہ: پلید چیزیں اپنی کیفیت تبدیل کرنے پر نجس نہیں رہتیں۔ اور یہی موقف درست ہے؛ کیونکہ متغیرہ صورت میں ان چیزوں کو کوئی بھی نص لفظی یا معنوی کسی بھی صورت میں شامل نہیں ہیں، چنانچہ یہ پاکیزہ چیزیں ہیں اور یہ حلال چیزوں سے متعلق نصوص میں شامل ہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" ( 21 / 610 – 611 )
اشیا کی ماہیت اور کیفیت تبدیل ہونے کے متعلق احکامات جاننے کیلیے آپ فتوی نمبر: (97541) اور (141556) کا مطالعہ کریں۔
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ موقف رکھتے ہیں کہ اگر نجس لید پرانی ہو کر مٹی ہو جائے تو اس طرح وہ پاک ہو جاتی ہے، لہذا اس کی ماہیت میں آنے والی تبدیلی طہارت کا حکم لگانے کیلیے کافی ہو گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر نجس فضلے کی راکھ یا نجس کوڑا کرکٹ دھوپ اور ہوا کی وجہ سے خشک ہو کر مٹی ہو جائے توکیا اس پر نماز پڑھنا جائز ہے؟
انہوں نے جواب دیا:
"اگر نجاست پلید لید سے راکھ بن جائے یا نجس کوڑا کرکٹ دھوپ اور ہوا کی وجہ سے خشک ہو کر مٹی ہو جائے تو اس بارے میں ہم پہلے بھی بات کر آئے ہیں اور ہم نے اس بارے میں مالکی اور حنبلی مذہب کے دو اقوال ذکر کیے ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ تبدیلی کے بعد یہ چیزیں پاک ہیں، یہ ابو حنیفہ ، ظاہری اور دیگر اہل علم کا موقف ہے، اور ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہی موقف اس بارے میں راجح ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/479)
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اگر نجس فضلہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے تو وہ نجس ہے اور جس زمین میں وہ ملا ہوا ہے اس پر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر نجس فضلہ کسی اور مادے میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی بد بو وغیرہ بھی زائل ہو گئی ہے تو پھر وہ طاہر ہے اور جس زمین میں وہ ملا ہوا ہے اس پر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ
https://islamqa.info/ur/222524
سوال:جس مٹی میں جانوروں کے فضلے سے بنی ہوئی کھاد شامل ہو تو کیا وہ پاک ہے؟ اور کیا ایسی مٹی بھی پاک ہے؟
Published Date: 2016-10-26
الحمد للہ:
جانوروں کے فضلے اور پیشاب کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم:
ایسے جانور کا فضلہ اور پیشاب جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور اس کا دودھ پیا جاتا ہےمثال کے طور پر : بکری اور گائے ۔
تو ان کے جانوروں کے فضلے اور پیشاب کے متعلق احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ یہ پاک ہیں، ان میں سے چند احادیث یہ ہیں:
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنائے جانے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا کرتے تھے"
بخاری: (234) مسلم: (524)
اسی طرح انس رضٰ اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "عکل اور عرینہ قبیلے کے لوگ مدینہ آئے تو انہیں یہاں کی آب و ہوا اور خوارک راس نہ آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس چھوڑنے کا حکم دیا اور کہا کہ ان کا دودھ اور پیشاب ملا کر پیو"
بخاری: (233) مسلم: (1671)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب اور فضلہ اکثر سلف کے ہاں نجس نہیں ہے، یہی موقف امام مالک اور احمد وغیرہ کا ہے، بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ : صحابہ کرام میں سے کوئی بھی انہیں نجس قرار نہیں دیتا؛ لہذا انہیں نجس کہنا جدید موقف ہے صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔
اس بارے میں ہم نے ایک الگ تصنیف میں مکمل تفصیل لکھی ہے اور اس بارے میں دس سے زیادہ شرعی دلائل ذکر کیے ہیں ، اس لیے ماکول اللحم جانوروں کا فضلہ اور پیشاب نجس نہیں ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 21 / 613 )
مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (111786) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر ماکول اللحم جانوروں کے فضلے سے بنائی گئی کھاد پاک ہے اور جس زمین میں ایسی کھاد ملی ہوئی ہو وہاں پر نماز ادا کرنا جائز ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے اور بکریوں کا باڑا بکریوں کے فضلے اور پیشاب سے خالی نہیں ہوتا۔
دوسری قسم:
ایسے جانوروں کا فضلہ اور پیشاب جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا جیسے کہ گدھا اور خنزیر وغیرہ ، تو یہ جمہور اہل علم کے ہاں نجس ہے۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غیر ماکول اللحم جانوروں کا فضلہ اور پیشاب چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ جمہور سلف کے ہاں نجس ہے، اور تمام علاقوں کے فقہائے کرام اس پر متفق ہیں" انتہی
" الاستذكار " ( 3 / 205 )
ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خنزیر کے پیشاب کے ناپاک ہونے کے متعلق مجھے کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے" انتہی
" الاقناع في مسائل الإجماع " ( 1 / 110)
نجس لید اور فضلے کی دو حالتیں ہیں:
پہلی حالت:
لید اور فضلہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہو، اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے ۔
تو ایسی صورت میں جس زمین کے اندر اسے ملایا گیا ہے تو وہ زمین بھی نجس ہے، وہاں پر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ صحیح نماز کیلیے جائے نماز کا پاک ہونا شرط ہے۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام علمائے کرام کا اجماع ہے کہ کپڑے اور بدن کسی بھی قسم کی نجاست سے پاک ہوں، نیز جائے نماز بھی ان چیزوں سے پاک ہونی چاہیے"
" الاستذكار " ( 3 / 205 )
دوسری حالت:
ایسی لید کو کھاد میں تبدیل کر دیا جائے ، اور وہ اپنی اصلی حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جائے اور اس کی ناپاکی جاتی رہے، مثلاً اس کی بد بو ختم ہو جائے اور ایسی صورت کو علمائے کرام کے ہاں عربی زبان میں "استحالہ"[ تبدیلی یا تغیر] کہتے ہیں، یعنی نجس چیز کا کسی اور چیز میں تبدیل ہو جانا، تو اس بارے میں علمائے کرام کا صحیح ترین قول یہ ہے کہ جب نجاست کسی اور مادے میں تبدیل ہو جائے تو وہ پاک ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "استحالہ"[ تبدیلی یا تغیر] کے ساتھ اپنی کیفیت تبدیل کرنے والی اشیاءکے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ذکر کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ:
"دوسرا موقف جو کہ ابو حنیفہ اور مالک سمیت دیگر اہل علم کا بھی ہے کہ: پلید چیزیں اپنی کیفیت تبدیل کرنے پر نجس نہیں رہتیں۔ اور یہی موقف درست ہے؛ کیونکہ متغیرہ صورت میں ان چیزوں کو کوئی بھی نص لفظی یا معنوی کسی بھی صورت میں شامل نہیں ہیں، چنانچہ یہ پاکیزہ چیزیں ہیں اور یہ حلال چیزوں سے متعلق نصوص میں شامل ہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" ( 21 / 610 – 611 )
اشیا کی ماہیت اور کیفیت تبدیل ہونے کے متعلق احکامات جاننے کیلیے آپ فتوی نمبر: (97541) اور (141556) کا مطالعہ کریں۔
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ موقف رکھتے ہیں کہ اگر نجس لید پرانی ہو کر مٹی ہو جائے تو اس طرح وہ پاک ہو جاتی ہے، لہذا اس کی ماہیت میں آنے والی تبدیلی طہارت کا حکم لگانے کیلیے کافی ہو گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر نجس فضلے کی راکھ یا نجس کوڑا کرکٹ دھوپ اور ہوا کی وجہ سے خشک ہو کر مٹی ہو جائے توکیا اس پر نماز پڑھنا جائز ہے؟
انہوں نے جواب دیا:
"اگر نجاست پلید لید سے راکھ بن جائے یا نجس کوڑا کرکٹ دھوپ اور ہوا کی وجہ سے خشک ہو کر مٹی ہو جائے تو اس بارے میں ہم پہلے بھی بات کر آئے ہیں اور ہم نے اس بارے میں مالکی اور حنبلی مذہب کے دو اقوال ذکر کیے ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ تبدیلی کے بعد یہ چیزیں پاک ہیں، یہ ابو حنیفہ ، ظاہری اور دیگر اہل علم کا موقف ہے، اور ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہی موقف اس بارے میں راجح ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/479)
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اگر نجس فضلہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے تو وہ نجس ہے اور جس زمین میں وہ ملا ہوا ہے اس پر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر نجس فضلہ کسی اور مادے میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی بد بو وغیرہ بھی زائل ہو گئی ہے تو پھر وہ طاہر ہے اور جس زمین میں وہ ملا ہوا ہے اس پر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ
https://islamqa.info/ur/222524