• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایصال ثواب سے متعلق بعض ضعیف ومردود روایات۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بعض لوگ مروجہ ایصال ثواب سے متعلق چند احادیث پیش کرتے ہیں اور انہیں دلائل کی حیثیت دے کر ان سے استدلال کرتے ہیں ، ذیل ایسی روایات کی تحقیق ملاحظہ ہو:
مجھے نیٹ پر جو روایات مل سکیں میں نے ان کی تحقیق پیش کردی ہے اگر اس ضمن کسی بھائی کو کوئی اورروایت ملے تو اگاہ کریں تاکہ اس کی حقیقت بھی بیان کردی جائے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
1: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے میں ان کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں ، کون سا صدقہ افضل ہوگا۔ آپﷺ نے فرمایا: پانی۔ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ ام سعد کےلیے ہے۔(سنن ابی داؤد، ج: 2، ص:180، حدیث:1681)۔

2: فرمان رسولﷺ ہے جو قبرستان میں گیا ، گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصال ثواب کرے گا تو مردوں کی تعداد کے برابر ایصال ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔(کشف الخفاء، ج:2، ص:252، حدیث:2629)۔

3: فرمان رسولﷺ ہے کہ جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کےلیے دعائے مغفرت کرتا ہے اللہ اس کےلیے ہر مومن مرد وعورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔(مجمع الزوائد، ج:15، ص:352، حدیث:17598)۔

4: فرمان رسولﷺ ہے کہ مردہ کا حال ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سے بہتر ہوتی ہے ۔ اللہ قبروالوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطاء فرماتا ہے زندوں کا ہدیہ (یعنی تحفہ) مردوں کےلیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔(شعب الایمان ، ج:4، ص:253، حدیث:7805)۔

5: فرمان نبوی ﷺ ہے کہ جب تم میں سے کوئی کچھ نفل خیرات کرے تو چاہیے کہ اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے کرے کہ اس کا ثواب انہں ملے گا اور اس کے (یعنی خیرات کرنے والے کے) ثواب میں کوئی بھی کمی نہیں آئے گی(شعب الایمان ، ج:4، ص:205، حدیث:7911)۔

6: فرمان رسولﷺ ہے: بندہ جب والدین کےلیے دعا ترک کردیتا ہے اس کا رزق قطع ہوجاتا ہے۔(کنز العمال ، ج:14، ص:201، حدیث: 45548 )۔

7 : فرمان رسولﷺ ہے : اگر کوئی ادمی مر جاتاہے اور اسکے گھر والے اسکی طرف سے موت کے بعد صدقہ کریں تو جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کو ایک نورانی طبق میں رکھکر صاحب قبر سے کہتے ہیں اے قبر والے یہ ہدیہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تیری طرف بھیجا ہے ۔( طبرانی)

8: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئ فوت ہوتا ہے 7 دن قبر میں اس کی بڑی آزماش ہوتی ہے، صاحبہ تابعین اس زمانے کہ پہلے لوگ مستحب سمجتے تھے 7 دن تک ان کے نام سے کھانے پکاکر ایصال ثواب کرتے تھے (حلیۃ الاولیاء جلد 4 صفحہ 11 )۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
1: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے میں ان کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں ، کون سا صدقہ افضل ہوگا۔ آپﷺ نے فرمایا: پانی۔ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ ام سعد کےلیے ہے۔(سنن ابی داؤد، ج: 2، ص:180، حدیث:1681)۔
اصل الفاظ یہ ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ رَجُلٍ، (؟) عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: «الْمَاءُ» ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا، وَقَالَ: هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ[سنن أبي داود 2/ 130رقم 16814]۔

یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سندمنقطع ہے کیونکہ رجل (سعید ابن المسیب یا حسن البصری) کی ملاقات سعدبن عبادہ سے ثابت نہیں ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے کہا:
قلت: لا؛ فإنه غير متصل [تلخیص المستدرك للحاكم: ج1ص414]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
2: فرمان رسولﷺ ہے :جو قبرستان میں گیا ، گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصال ثواب کرے گا تو مردوں کی تعداد کے برابر ایصال ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔(کشف الخفاء، ج:2، ص:252، حدیث:2629)۔
اصل الفاظ یہ ہیں:
من مر بالمقابر فقرأ إحدى عشرة مرة "قل هو الله أحد"، ثم وهب أجره الأموات؛ أعطي من الأجر بعدد الأموات رواه الرافعي في تاريخه عن علي. [كشف الخفاء:2/ 339]۔
مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ اس کی تخریج رافعی نے کی ہے اب اصل رافعی کی کتاب سے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:

أبو القاسم الرافعي القزويني فرماتے ہیں:
قرأت عَلَى والدي رحمه اللَّه ليلة الخميس التاسع عشر من ذي الحجة سنة خمس وستين وخمسمائة أَخْبَرَكُمْ أَبُو الْفَضْلِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْن سعد بْن عنتر التميمي أنبأ أبو عثمان إسماعيل ابن مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد الْوَاعِظُ أَنْبَأَ الْخَطِيبُ أَبُو مَنْصُورٍ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بن أحمد ابن عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْغَزَّالُ ثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ ابن مُحَمَّدِ بْنِ مَهْرَوَيْهِ وَأَبُو سَهْلٍ إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ لْوَهَّابِ ِقَزْوِينَ سنة ثلاثين وثلاثمائة ثنا داؤد بْنُ سُلَيْمَانَ الْغَازِيُّ. أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ مَرَّ عَلَى الْمَقَابِرِ فَقَرَأَ فِيهَا إِحْدَى عَشَرَ مَرَّةٍ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُمَّ وَهَبَ أَجْرَهُ الأَمْوَاتَ أُعْطِيَ مِنَ الأَجْرِ بِعَدَدِ الأَمْوَاتِ".[التدوين في أخبار قزوين 2/ 297]۔

یہ روایت موضوع من کھڑت ہے اسے ’’داؤد بْنُ سُلَيْمَانَ الْغَازِيُّ‘‘ نے گھڑا ہے ، اس کذاب نے ’’عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا ‘‘ کے نام پر ایک پورا نسخہ وضع کررکھا تھا اوراس روایت کو وہ اپنے اسی خودساختہ نسخہ سے روایت کررہا ہے لہٰذا اس روایت کے موضوع ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
داود بن سليمان الجرجاني الغازى. عن على بن موسى الرضا وغيره. كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا رواها على بن محمد بن مهرويه القزويني الصدوق عنه، قال: حدثنا على بن موسى، أخبرنا أبى [ عن أبيه ] عن جده، عن على بن الحسين، عن أبيه، عن على - مرفوعا: اختنوا أولادكم يوم السابع، فإنه أطهر وأسرع نبتا للحم، إن الارض تنجس من بول الاقلف أربعين يوما. [ميزان الاعتدال 2/ 8]۔
نیز ملاحظہ ہو:[الجرح والتعديل 3/ 413]۔

اسی روایت کو أبو محمد،الخلال نے بھی روایت کیا ہے فرماتے ہیں:
حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان ، ثنا عبد الله بن عامر الطائي ، حدثني أبي ، ثنا علي بن موسى ، عن أبيه ، موسى ، عن أبيه ، جعفر ، عن أبيه ، محمد ، عن أبيه ، علي ، عن أبيه الحسين ، عن أبيه علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم « من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة ، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات »[فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال ص: 54]۔

’’عبداللہ بن عامر‘‘ اور اس کے باپ ’’عامر طائی‘‘ دونوں کذاب ہیں ، اوریہ بھی اسی من گھڑت اور خود ساختہ نسخہ کی روایت کرتے ہیں :


امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبدالله ابن أحمد بن عامر أو أبوه فإنهما يرويان نسخة عن أهل البيت كلها باطلة. [الموضوعات 2/ 289]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبدالله بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن علي الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه.[ميزان الاعتدال 2/ 390]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الله بن احمد بن عامر عن أبيه عن علي الرضا عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه قال الحسن بن علي الزهري وكان أميا لم يكن بالمرضي وروى عنه الجعابي وابن شاهين وجماعة مات سنة أربع وعشرين وثلاث مائة [لسان الميزان 3/ 252]۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى963)نے کہا:
عبد الله بن أحمد بن عامر له عن أبيه عن أهل البيت نسخة باطلة ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 71]۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ، کشف الخفاء کا پورا نام ہی یہی ہے ’’ كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس‘‘۔
نیز اس روایت سے ملتی روایت کو محمدطاہر الفتنی رحمہ اللہ نے بھی موضوعات میں نقل کیا ہے اورانہوں نے بھی یہ صراحت کردی ہے کہ یہ روایت من گھڑت نسخہ سے روایت کی گئی ہے ، ملاحظہ ہوں اس کتاب کے الفاظ:
من مر بالمقابر فقرأ الإخلاص إحدى وعشرين مرة ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات " من نسخة عبد الله بن أحمد الموضوعة.[تذكرة الموضوعات ص: 220]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
3: فرمان رسولﷺ ہے: کہ جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کےلیے دعائے مغفرت کرتا ہے اللہ اس کےلیے ہر مومن مرد وعورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔(مجمع الزوائد، ج:15، ص:352، حدیث:17598)۔
اصل الفاظ یہ ہیں:
وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: «مَنِ اسْتَغْفَرَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ حَسَنَةً» . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 10/ 210]۔

اسے طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے اب طبرانی کے اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:
حدثنا عمرو بن أبي الطاهر بن السرح، ثنا عبد الغفار بن داود أبو صالح الحراني، ثنا موسى بن أعين، عن بكر بن خنيس، عن عتبة بن حميد، عن عيسى بن سنان، عن يعلى بن شداد بن أوس، عن عبادة بن الصامت، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من استغفر للمؤمنين والمؤمنات كتب الله له بكل مؤمن ومؤمنة حسنة»[مسند الشاميين للطبراني 3/ 234]۔

اس کی سند میں‌ ’’عیسی بن سنان الحنفی‘‘ ہیں اوریہ ضعیف ہیں ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ضعيف [تاريخ ابن معين - رواية الدوري 3/ 335]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ضعيف[الجرح والتعديل 6/ 277 وسندہ صحیح]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ليس بقوي في الحديث [الجرح والتعديل 6/ 277]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ضعفه أحمد، وابن معين، وهو ممن يكتب حديثه على لينه.[ميزان الاعتدال 3/ 312]۔

ایک دوسری کتاب میں‌ فرماتے ہیں:
ضعيف الحديث وقواه بعضهم[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 109]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
لين الحديث[تقريب التهذيب 1/ 354]۔


خلاصہ یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے اس میں‌ اور علتیں بھی ہیں ۔

مذکورہ روایت کا ایک شاہد بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا محمد بن زكريا ثنا قحطبة بن عرابة ثنا أبو أمية بن يعلى عن سعيد بن أبي الحسن عن أمه عن أم سلمة قالت قال النبي صلى الله عليه و سلم : ( من قال كل يوم اللهم اغفر لي وللمؤمنين والمؤمنات الحق به من كل مؤمن حسنة ) [المعجم الكبير 23/ 370]۔

اس کی سند میں ابو امیہ ضعیف ہے۔

امام ہیثمی فرماتے ہیں:
وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَنْ قَالَ كُلَّ يَوْمٍ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ; أُتْحِفَ بِهِ مِنْ كُلِّ مُؤْمِنٍ حَسَنَةً» . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ أَبُو أُمَيَّةَ بْنُ يَعْلَى، وَهُوَ ضَعِيفٌ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 10/ 210]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
4: فرمان رسولﷺ ہے کہ مردہ کا حال ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سے بہتر ہوتی ہے ۔ اللہ قبروالوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطاء فرماتا ہے زندوں کا ہدیہ (یعنی تحفہ) مردوں کےلیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔(شعب الایمان ، ج:4، ص:253، حدیث:7805)۔
اصل کتاب کے الفاظ یہ ہیں :
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْأُشْنَانِيُّ، أنا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، نا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَنْطَاكِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الْمِصِّيصِيُّ، نا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، نا يَعْقُوبُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ، يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ " قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ: " وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، لَمْ يَقَعْ عِنْدَ أَهْلِ خُرَاسَانَ، وَلَمْ أَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الشَّيْخِ "، قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللهُ: قَدْ رَوَاهُ بِبَعْضِ مَعْنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ خُزَيْمَةَ الْبَصْرِيُّ أَبُو بَكْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَابْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، يَنْفَرِدُ بِهِ، وَاللهُ أَعْلَمُ [شعب الإيمان 10/ 300 و11/ 472]۔

اسے ضياء الدين ،المقدسي نے بھی [المنتقى من حديث الأمير أبي أحمد وغيره:268 / 1] اور[السنن :86 / 2] میں ابن شاذان: حدثنا محمد بن الفضل العطار کے طریق سے اسی سندکے ساتھ روایت کیا ہے۔

یہ روایت بھی موضوع و من گھڑت ہے اس کی سند میں ’’الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَنْطَاكِيُّ‘‘ ہے یہ کذاب راوی ہے۔


امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا بأحاديث لم نكتبها عن غيره وأوصل أحاديث وسرق أحاديث وزاد فِي المتون،[الكامل في ضعفاء الرجال 7/ 126]۔

نیزامام ابن عدی نے اسے کذاب بھی کہا ہے ، حمزة بن يوسف السهمي کہتے ہیں:
سمعت بن عدي والدارقطني وغيرهما يقولون إنه كذاب لا يساوي شيئا[سؤالات حمزة ص: 248]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
فضل بن محمد العطار الأحدب، حدثونا عنه، كذاب.[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ص: 19 فی الاصل فطر والصواب فضل]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الفضل بن محمد العطار عن مصعب بن عبد الله قال الدارقطني كان يضع الحديث[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 117]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اس کے کذاب اوروضاع ہونے سے متعلق اقوال نقل کئے ہیں[لسان الميزان 4/ 448]۔

اس کے علاوہ سند میں موجود ’’مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الْمِصِّيصِي‘‘ بھی مجہول ہے ۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
محمد بن جابر بن أبي عياش المصيصى.لا أعرفه. [ميزان الاعتدال 3/ 496]۔

ایک روایت میں بعض الفاظ کے ساتھ ’’ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَسَّانِيُّ‘‘ کے ذریعہ ’’فضل بن محمد العطار‘‘ کی متابعت منقول ہے۔

چنانچہ امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أخبرنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَسُّونٍ، قَالَ: أَنْبَأَ الْمُبَارَكُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، قَالَ: أَنْبَأَ عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأَرْجِيُّ، قثنا أَبُو بَكْرٍ الْمُفِيدُ، قثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَسَّانِيُّ، قثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، قثنا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قثنا يَعْقُوبُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَدِيَّةُ الأَحْيَاءِ إِلَى الأَمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَهُمْ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ الدُّورِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ»[البر والصلة لابن الجوزي ص: 132]۔

لیکن اول تو اس روایت کا دارمدار بھی ’’مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ‘‘ پرہے جس کے بارمے میں امام ذہبی کا قول پیش کیا جاچکاہے کہ یہ نامعلوم شخص ہے۔
دوم اس سند میں بھی کذاب اوروضاع راوی ’’ محمد بن أحمد بن محمد أبو بكر المفيد ‘‘ موجودہے۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
محمد بن أحمد بن محمد أبو بكر المفيد محدث مشهور مجمع على ضعفه واتهم [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 4]۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔


امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
محمد بن جابر بن أبي عياش المصيصى. لا أعرفه.وخبره منكر جدا.روى الفضل بن محمد الباهلي، وعبد الله بن خالد الرازي، عنه، قال: حدثنا ابن المبارك، عن يعقوب بن القعقاع، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما الميت في قبره إلا كالغريق ينتظر دعوة تلحقه من أب أو أم أو صديق، وإن الله ليدخل من الدعاء على أهل القبور كأمثال الجبال، وإن هدية الاحياء إلى الاموات الاستغفار لهم. زاد الرازي: والصدقة عنهم. [ميزان الاعتدال 3/ 496]۔

علامہ محمد طاہر قطنی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوعات میں‌ نقل کیا ہے ملاحظہ ہو:[تذكرة الموضوعات ص: 216]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
5: فرمان نبوی ﷺ ہے کہ جب تم میں سے کوئی کچھ نفل خیرات کرے تو چاہیے کہ اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے کرے کہ اس کا ثواب انہں ملے گا اور اس کے (یعنی خیرات کرنے والے کے) ثواب میں کوئی بھی کمی نہیں آئے گی(شعب الایمان ، ج:4، ص:205، حدیث:7911)۔
اصل الفاظ یہ ہیں :
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، نا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ شَوْذَبٍ، إِمْلَاءً بِوَاسِطَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْعَوَّامِ، نا مَنْصُورُ بْنُ صُقَيْرٍ، نا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي: " إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَتَصَدَّقَ صَدَقَةً فَاجْعَلْهَا عَنْ أَبَوَيْكَ، فَإِنَّهُ يَلْحَقُهُمَا، وَلَا يُنْتَقَصُ مِنْ أَجْرِكَ شَيْئًا "[شعب الإيمان 10/ 304]۔

یہ روایت بھی موضوع ومن گھڑت ہے، سند میں‌ ’’عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ‘‘ راوی ہے۔

امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
فاحذروا روايته[الكامل في الضعفاء 4/ 333 وسندہ صحیح]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ليس بشيء في الحديث [تاريخ ابن معين - رواية الدارمي ص: 146]۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
عباد بن كثير اسوأ حالا من الحسن بن عمارة وأبى شيبة إبراهيم بن عثمان روى أحاديث كاذبة لم يسمعها[الجرح والتعديل موافق 6/ 84]۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
عباد بن كثير الثقفي البصري: سكن مكة، تركوه.[الضعفاء للبخاري - مكتبة ابن عباس ص: 89]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عباد بن كثير البصري كان بمكة متروك الحديث [الضعفاء والمتروكين ص: 74]۔

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
لم يكن بشيء وهو من أهل البَصْرَة[سؤالات محمد بن عثمان بن أبي شيبة لعلي بن المديني - ص: 50]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
لا يكتب حديثه ،وكان لا يضبط الحديث [الجرح والتعديل موافق 6/ 84 وسندہ صحیح]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبادِ بن كثير - واه [تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق 1/ 127]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عباد بن كثير الثقفي البصري متروك قال أحمد روى أحاديث كذب[تقريب التهذيب موافق رقم 1/ 205]۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’عباد بن کثیر‘‘ جھوٹی حدیثیں بیان کرتا تھا ، لہٰذا مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
سند دیگراورعلتیں بھی ہیں۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
6: فرمان رسولﷺ ہے: بندہ جب والدین کےلیے دعا ترک کردیتا ہے اس کا رزق قطع ہوجاتا ہے۔(کنز العمال ، ج:14، ص:201، حدیث: 45548 )۔
اصل الفاظ یہ ہیں:
إذا ترك العبد الدعاء للوالدين فإنه ينقطع عنه الرزق ( ك في التاريخ والديلمي - عن أنس ) [كنز العمال 16/ 675]۔

امام حاکم اور امام دیلمی کی سند ایک ہی ہے چنانچہ:
امام شهردار بن شيرويه بن شهردار الديلمي رحمه الله (المتوفى558)نے کہا:
أخبرنا أحمد بن خلف كتابة ، أخبرنا الحاكم ، حدثنا محمد بن أحمد بن سعيد الرازي ، حدثنا العباس بن حمزة ، حدثنا أحمد بن خالد الشیبانی ، حدثنا الحسن بن أحمد ، حدثنا يزيد بن عقبة بن المغيرة النوفلي ، حدثنا الحسن البصري بمكة ، سمعت أنس بن مالك ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا ترك العبد الدعاء للوالدين فإنه ينقطع عنه الرزق في الدنيا " . [الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر - مخطوط (ن) ص: 322]

امام ابن الجوزی نے اس کی سند کو اس طرح بیان کیا ہے:
أَنْبَأَنَا زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْبَيْهَقِيُّ أَنْبَأَنَا أَبُو عبد الله مُحَمَّدابْن عبد الله الْحَاكِمُ أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَرِّيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ النَوْفَلِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَرَكَ الْعَبْدُ الدُّعَاءَ لِلْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يَنْقَطِعُ عَلَى الْوَالِدِ الرِّزْقُ فِي الدُّنْيَا " [الموضوعات لابن الجوزي 3/ 86]۔


یہ روایت بھی موضوع و من گھڑت ہے ، سند میں ’’أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّيْبَانِيُّ الجويباري ‘‘ ہے ۔

امام ابن الجوزی اسی راوی کو اس روایت کے سلسلے میں‌ متہم قرار دیا ہے ، فرماتے ہیں:
هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَالْمُتَّهَم بِهِ الجويباري [الموضوعات لابن الجوزي 3/ 86]۔

واضح رہے کہ جب موضوعات کی کتاب میں ’’لَا يَصِحُّ ‘‘ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ روایت موضوع ہے۔

امام دارقطی نے بھی اس راوی کو متروکین میں شمار کیا ہے [الضعفاء والمتروكون للدارقطني ص: 9]۔

موضوعات پر لکھنے والے کئی اہل علم نے اس روایت کو موضوعات میں شمارکیا ہے مثلا ملاحظہ ہو اللآلئ المصنوعة (2/295) ، وتنزيه الشريعة (2/281، رقم 7) ، والفوائد المجموعة (ص 231) ۔

معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی موضوع و من گھڑت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
7 : فرمان رسولﷺ ہے : اگر کوئی ادمی مر جاتاہے اور اسکے گھر والے اسکی طرف سے موت کے بعد صدقہ کریں تو جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کو ایک نورانی طبق میں رکھکر صاحب قبر سے کہتے ہیں اے قبر والے یہ ہدیہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تیری طرف بھیجا ہے ۔( طبرانی)

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُنْكَدِرِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ الشَّامِيَّ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَذْكُرُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوتُ مِنْهُمْ مَيِّتٌ فَيَتَصَدَّقُونَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ، إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى طَبَقٍ مِنْ نُورٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ، فَيَقُولُ: يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيقِ، هَذِهِ هَدِيَّةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْكَ أَهْلُكَ فَاقْبَلْهَا، فَيَدْخُلُ عَلَيْهِ، فَيَفُرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ، وَيَحْزَنُ جِيرَانُهُ الَّذِينَ لَا يُهْدَى إِلَيْهِمْ بِشَيْءٍ» لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ "[المعجم الأوسط 6/ 314 رقم 6504]۔

یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
اس میں دو علتیں‌ ہیں:

پہلی علت:

اس کی سند میں أبومُحَمَّدٍ الشَّامِيَّ ہے ۔

امام ازدی نے اسے کذاب کہا ہے:

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أبو محمد الشامي يروي عن التابعين قال الأزدي كذاب مجهول [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 3/ 239]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
أبو محمد الشامي.روى حديثا عن بعض التابعين منكرا. قال الازدي: كذاب. [ميزان الاعتدال :4/ 570]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رواه الطبراني في الأوسط وفيه أبو محمد الشامي قال عنه الأزدي كذاب. [مجمع الزوائد :3/ 183]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
أبو محمد الشامي روى حديثا عن بعض التابعين منكرا قال الأزدي كذاب [لسان الميزان 7/ 102]

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى963)نے کہا:
أبو محمد الشامي عن بعض التابعين قال الأزدى كذاب مجهول [تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 133]۔

گویا کہ تمام محدثین نے امام ازدی کی بات سے اتفاق کیا ہے لہٰذا یہ راوی کذاب ہے۔


دوسری علت:
امام طبرانی کے شیخ‌ ’’مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ‘‘ کے حالات نامعلوم ہیں ، شیوخ طبرانی پر کتاب لکھنے والے نايف بن صلاح بن علي المنصوري نے کہا:
مات في ربيع الأول سنة سبع وتسعين ومائتين فتح الباب (4614)، تاريخ الإسلام (22/ 267)، المقفى الكبير (5/ 645).
• قلت: (مجهول الحال). [إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص: 547]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
8: امام طاؤس رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئ فوت ہوتا ہے 7 دن قبر میں اس کی بڑی آزماش ہوتی ہے، صاحبہ تابعین اس زمانے کہ پہلے لوگ مستحب سمجتے تھے 7 دن تک ان کے نام سے کھانے پکاکر ایصال ثواب کرتے تھے (حلیۃ الاولیاء جلد 4 صفحہ 11 )۔
اصل الفاظ ملاحظہ ہوں
حدثنا أبو بكر بن مالك، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، ثنا أبي، ثنا هاشم بن القاسم، ثنا الأشجعي، عن سفيان، قال: قال طاوس: «إن الموتى يفتنون في قبورهم سبعا، فكانوا يستحبون أن يطعم عنهم تلك الأيام»[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 4/ 11]۔

یہ کوئی قران کی آیت یا حدیث نہیں بلکہ امام طاؤس کا قول ہے ، لہٰذا یہ شرعی دلیل نہیں ۔
 
Top