ایصال ثواب پر ایک نگاہ
ایصال کی بحث سے آشنائی تب کی ہے جب منطق خصوصاتہذیب مین ہدایت کی بحث پڑھی کہ ہدایت کے دومعنی ہیں۔ایک اراءۃ الطریق اوردوسراایصال الی المطلوب۔
پھرکچھ دنوں کے بعد قرآن خوانی کے الفاظ کانوں میں پڑے۔لوگوں کو روپے لے کر قرآن خوانی کرتے دیکھااوربہت کچھ ۔جس سے قلب میں اس فعل کی شناعت قائم ہوگئی اوربندہ ان امور سے دورہی رہاجب کہ ساتھیوں کواس میں لت پت دیکھا۔یہ حقیقت ہے کہ مروجہ قرآن خوانی قرآن کو بیچنے کے مترادف ہے۔اتنے دوگے تواتناپڑھیں گے اوراس سے زیادہ دوگے تواتناپڑھیں گے۔
پھراسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن خوانی کروانے والا ان تمام حضرات کی دعوت بھی کرے۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بے چارے میزبان سے فی کس500/500روپے وصول کرتے ہین اوربتاتے ہیں کہ ہم نے اتناپڑھااوراتناپڑھا۔حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں پڑھاہوتاہے۔
قرآن خوانی نے موجودہ دور میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے جس میں علماء کثرت سے مبتلاہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن علماء کی بدولت یہ کاروبار عروج پر ہے اورچمک رہاہے اس میں بریلویوں کے بعد دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جواپناانتساب علمائے دیوبند سے کرتے ہیں۔
دیوبندی علماء یوں تو ایصال ثواب یعنی قران خوانی کی مروجہ شکلوں کوناجائز کہتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ دھڑلے سے اس میں شرکت بھی کرتے ہیں میرے خیال سے یہ ایسی واضح بات ہے کہ کوئی بھی سچائی اورحقیقت کا علم رکھنے والاشخص اس کاانکارنہیں کرے گا۔ بالخصوص ہندوستان میں اورہندوستان میں بھی بنگلور وغیرہ میں۔
ایصال ثواب پر حالیہ دنوں میں بہت بحثیں چلی ہیں اورردوومخالفت میں بہت کچھ لکھاگیاہے۔ کچھ لوگ اسے بالکل ناجائز قراردیتے ہیں اورکچھ لوگ اسے جائز قراردیتے ہیں۔مناسب ہے کہ نفس قرانی خوانی پر کچھ لکھنے سے قبل قرآن خوانی کے مروجہ طورطریقوں پر بات کرلی جائے۔
غیرشرعی ایصال ثواب
1: شادی بیاہ کے موقع پر علماء اورطلباء کو بلاکر قرآن پڑھایاجاتاہے اوران کی ایک وقت کھانے کی دعوت کی جاتی ہے اورکچھ روپے دیئے جاتے ہیں۔اگریہ بات مدرسہ کے علماء اورطلباء کو معلوم ہو کہ وہاں نہ روپے ملیں گے اورنہ کھاناملے گاتوکوئی بھی نہ جائے اورچونکہ یہ معروف امر ہے اورفقہ کی اصطلاح ہے المعروف کالمشروط ۔لہذا اس طرح کی قرآن خوانی کےعدم جواز میں کسی کوبھی شک نہیں ہوناچاہئے۔
2:شادہ بیاہ سے زیادہ کسی کی موت کے بعد قرآن خوانی کااہتمام کرایاجاتاہے اورکمال تویہ ہے کہ یہ قرآنی خوانی علماء ایسی ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ان کو توبہ کرناچاہئے۔مثلاابھی حالیہ دنوں میں فردین خان کے والد کی موت ہوئی تو کچھ قرآن خوانی علماء وہاں بھی پہنچ گئے اوربدلے میں کئی ہزار کی رقم لے کر واپس ہوئے۔حالانکہ حقیقت یہ ہےکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کادین وایمان تک مشتبہ ہے۔انہوں نے ہندؤں سے شادیاں کی ہیں اورمسلم بچیوں کی شادی ہندءوں سے کرائی ہے ۔کیاکوئی ایسوں کے پاس بھی جاکر قرآن خوانی کرسکتاہے ؟لیکن جب روپے کی چمک دمک دین اورایمان پر غالب آجائے توسند یافتہ علماء بھی اپنے سند کی حرمت کو قربان کرتے دیر نہیں لگاتے۔
3:موت کے کچھ عرصہ بعد کی مختلف رسمیں ہیں۔ساتواں، تیسواں، چالیسواں اورپتہ نہیں کیاکیا۔ان میں بھی قرآن پڑھنے کیلئے علماء حضرا ت کو کرایہ پر طلب کیاجاتاہے اورعلماء شوق سے کرایہ کے سانڈ بنتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حلالہ کیحدیث میں جس شکل وصورت کوکرایہ کے سانڈ سے تعبیر کیاگیاہے وہ یہاں پربھی صادق آتی ہے۔اولاتوایسی مجالس میں شرکت ہی ان بدعات کے جواز کو سندقبول عطاکردیتی ہے اورعوام ان کو دینی کام سمجھنے لگتے ہیں ۔ دوسرے قرآن جاکر پڑھنااوراس پر معاوضہ حاصل کرناسونے پر سہاگہ ہے۔
4:بنگلور میں کچھ یہ بھی رواج ہے کہ کچھ لوگ اپنے دوکان ومکان میں حصول برکت کیلئے یوں ہی کسی عالم اورحافظ کومقرر کرلیتے ہیں کہ ہم تمہیں اتناماہانہ دیں گے روزآکر قرآن پڑھ جایاکرو۔یہ شکل بھی عدم جوازکی ہے۔کیونکہ قرآن کو اجرت لے کر پڑھناجائز نہیں ہے۔
قرآن کی تعلیم دینااجرت لے کر جائز نہیں ہے۔ دینی علم کے ختم ہوجانے کے خوف سے اخف الضررین کے طورپر قرآن پاک یادینی تعلیم پر اجرت لیناجائز قراردیاگیاہے۔پھراس میں بھی قرآن پاک میں تراویح سنانے والے کی اجرت کوناجائز قراردیاگیاہے کیونکہ تراویح مین پوراقرآن ختم کرنافرض اورواجب نہیں ہے۔(لیکن اب تراویح پربھی اجرت عام ہے اورشاید ہی کوئی مسجد کسی بھی مسلک کی اس سے خالی ہو۔)
شرعی ایصال ثواب
اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ احادیث میں جن طریقوں سے مردوں کو ایصال ثواب پہنچانے کی بات آئی ہے وہ شرعی اورپسندیدہ ہیں۔احادیث میں ایصال ثواب کی کئی شکلیں ذکر کی گئی ہیں ۔ایصال ثواب کی کچھ شکلیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔
1:صدقہ جاریہ یعنی کہیں کنواں کھدوادیا،مسجد تعمیر کرادی یارفاہ عام کا کوئی ایساکام کردیا جس کی بدولت عوام الناس مدت دراز تک فائدہ اٹھاتے رہیں۔اسی تعلق سے وقف کا مسئلہ بھی آتاہے کہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی زمین وقف کردی،کوئی عمارت وقف کردی۔اس سے عامۃ المسلمین فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
2:علم نافع:یعنی کوئی کتاب ایسی تصنیف وتالیف کردی یاکچھ ایسے علمی کام انجام دیاکہ بعد والے نسلابعدنسل اس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔مثلادیکھئے محدثین نے حدیث کی کتابیں تالیف کیں۔اب اس کا ثواب ان کو اس وقت تک پہنچتارہے گاجب تک ان کتابوں سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہین گے۔
ائمہ اربعہ اورفقہاء کرام نے مسائل کااستنباط کیا۔ان کو اس وقت تک ثواب ملتارہے گاجب تک ان کے مسائل سے لوگ استفادہ کرتے رہیں گے۔
مفسرین اوردیگر دینی علوم پر لکھنے والوں نے جوکچھ لکھاتوجب تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں گے لوگوں کواس سے فائدہ ملتارہے گا۔داعیان دین جن کی کوششوں سے لوگوں نے اپنی قدیم گمراہی والامذہب چھوڑ کر مذہب اسلام اختیار کیا توان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کے نیک عمل کا ثواب ان کو بھی ملتارہے گا۔
مجاہدین نے اپنی جانیں دے کر سرحد اسلام کی جوحفاظت کی تواسلامی مملکت کے اندر رہنے والے لوگ جوچین وسکون سے ہیں ان کے نیک عمل کا ثواب بھی مجاہدین کو ملتارہے گا۔
3:نیک اولاد:قرآن وحدیث مین اس قسم کی دعائیں موجود ہیں جس سے خدا سے نیک اولاد کا سوال کیاگیاہے۔نیک اولاد انسان کیلئے سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔اگرکہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ وہ دنیاکی ہی جنت ہے۔انسان نیک اولاد اورنیک بیوی کی بدولت دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹتاہے۔کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی اولاد جونیک عمل کرتی ہے تواس کا ثواب بھی اسے ملتارہے گا۔اس کے علاوہ مزید فائدہ یہ ہے کہ نیک اولاد والدین کو انتقال کے بعد بھی یاد رکھتی ہے اوراس کے لئے دعائے خیرکرتی رہتی ہے۔جس کی بدولت شہرخموشاں مین آباد لوگوں کا مرتبہ بلند ہوتارہتاہے۔
حدیث میں آتاہے کہ کسی شخص کا مرنے کے بعد درجہ بلند کردیاجاتاہے وہ پوچھتاہے کہ اے اللہ میرادرجہ اوررتبہ بلند کردیاگیااس کی کیاوجہ ہے توجواب ملتاہے کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے دعااوراستغفار کا ہدیہ بھیجاہے اوریہ اسی کا ثمرہ ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْه ِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ : أَنَّى هَذَا ؟ فَيُقَالُ :باسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ (سنن ابن مانہ بسند صحیح)
اس کے علاوہ بھی شرعی ایصال ثواب کی کچھ اورشکلیں ہیں۔جنہیں دیکھتے چلتے ہیں۔
4:صدقہ کرنا۔اگرمرنے والوں کی جانب سے صدقہ کیاجائے تواس کا ثواب بھی ان کو پہنچتاہے اورملتاہے۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیااورمیراخیال ہے کہ اگرانکو مہلت ملی ہوتی تووہ صدقہ وخیرات کرتیں تواگرمیں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔ حضورپاکؐ نے فرمایا۔ہاں
عن أمّ المؤمنين عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا ( أي ماتت فجأةً ) وَ أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا ؟ قَالَ : نَعَمْ (البخاري 1388)
اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ کا بھی واقعہ ہے کہ انکی غیرموجودگی میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیاانہوں نے اس تعلق سے حضورپاک سے پوچھاکہ اگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ہاں ۔اس پر انہوں نے اسی وقت اپناباغ جس کانام مخراف تھاصدقہ کردیا۔
عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا ، أَنَّ سَعدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِي اللَّه عَنْهما تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَ هُوَ غَائِبٌ عَنْهَا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَ أَنَا غَائِبٌ عَنْهَا أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( نَعَمْ ) قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ ( اسم لبستان كان لها صَدَقَة ٌ عَلَيْهَا .(صحیح البخاری )
اسی طرح مسلم ،سنن نسائی اورابن ماجہ میں ہے ایک شخص نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میرے والد کاانتقال ہوگیاہے۔انہوں نے کچھ مال چھوڑاہے اوراس مال کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ہے تو کیااگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیایہ ان کیلئے کفارہ ہوگا۔آنحضرت ﷺؑ نے فرمایاہاں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أَبِي مَاتَ ، وَ تَرَكَ مَالاً وَ لَمْ يُوصِ ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ ؟ قَالَ : نَعَمْ.
تنبیہ:صدقہ جاریہ کی حدیث اوپر گزرچکی ہے ۔اس میں اوراس کے بعد ذکرکردہ حدیث میں فرق یہ ہے کہ صدقہ جاریہ خاص ہے ۔یعنی ایساصدقہ جس کا فیض عام ہو اورتادیر رہے۔جب کہ ماقبل مین ذکر کردہ دوتین حدیثوں میں صدقہ کی نوعیت عام آئی ہے۔اس میں کوئی وضاحت کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئی ہے۔یعنی ہم نے اپنے فوت شدہ کسی قریبی عزیز کی جانب سے کسی مسجد میں کوئی رقم دے دی،کسی غریب کی مدد کردی، کسی فقیر کو کچھ روپے دے دیئے یاکسی مدرسہ کی مالی امداد کردی تویہ سب اس میں شامل ہیں۔
تنبیہ:مشہور حدیث تویہی ہے کہ جب انسان مرجاتاہے تواس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں ہاں تین عمل کاثواب اسے ملتارہتاہے۔طبرانی کی مرفوع حدیث میں تین کی جگہ چارکاذکر ہے اوراس میں سرحد کی نگرانی کرنے والے کااضافہ ہے۔ بزار کی حضرت انس سے مرفوع روایت میں 7کاذکرہے۔اسی طرح ابن ماجہ،ابن خزیمہ اورابن عساکر کی روایت میں مزید کچھ چیزوں کا تذکرہ ہے۔ حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ تمام روایات سے حاصل شدہ کی تعداد 11تک پہنچتی ہے اوروہ یہ ہیں۔
1:علم جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے
2:نیک اورصالح اولاد کی دعا
3:کھجور کا درخت لگادیناجس سے دوسرے مستفید ہوتے رہیں
4:صدقہ جاریہ
5:قرآن پاک جو وراثتامنتقل ہوتارہے
6:سرحد کی نگرانی
7:کنواں کھدواناجس سے ضرورت مندوں کوپانی ملتارہے
8:نہرجاری کرانا
8:سرائے تعمیر کراناجس سے مسافروں کو فائدہ ہو
9ذکرکیلئے کوئی عمارت تعمیر کرادینا
10:قرآن پاک کی تعلیم کیلئے مدرسہ بنادینا
11:مسجد بنادینا
حافظ سیوطی مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں
وَقد تحصل من هَذِه الْأَحَادِيث أحد عشر أمرا وَقد نظمتها وَقلت إِذا مَاتَ بن آدم لَيْسَ يجْرِي عَلَيْهِ من فعال غير عشر عُلُوم بثها وَدُعَاء نجل وغرس النّخل وَالصَّدقَات تجْرِي وراثة مصحف ورباط ثغر وحفر الْبِئْر أَو إِجْرَاء نهر وَبَيت للغريب بناه يأوي إِلَيْهِ أَو بِنَاء مَحل ذكر وَتَعْلِيم لقرآن كريم فَخذهَا من أَحَادِيث بحصر
(شرح السیوطی علی مسلم4/228)