• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایصال ثواب پر ایک نگاہ

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ایصال ثواب پر ایک نگاہ​

ایصال کی بحث سے آشنائی تب کی ہے جب منطق خصوصاتہذیب مین ہدایت کی بحث پڑھی کہ ہدایت کے دومعنی ہیں۔ایک اراءۃ الطریق اوردوسراایصال الی المطلوب۔
پھرکچھ دنوں کے بعد قرآن خوانی کے الفاظ کانوں میں پڑے۔لوگوں کو روپے لے کر قرآن خوانی کرتے دیکھااوربہت کچھ ۔جس سے قلب میں اس فعل کی شناعت قائم ہوگئی اوربندہ ان امور سے دورہی رہاجب کہ ساتھیوں کواس میں لت پت دیکھا۔یہ حقیقت ہے کہ مروجہ قرآن خوانی قرآن کو بیچنے کے مترادف ہے۔اتنے دوگے تواتناپڑھیں گے اوراس سے زیادہ دوگے تواتناپڑھیں گے۔

پھراسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن خوانی کروانے والا ان تمام حضرات کی دعوت بھی کرے۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بے چارے میزبان سے فی کس500/500روپے وصول کرتے ہین اوربتاتے ہیں کہ ہم نے اتناپڑھااوراتناپڑھا۔حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں پڑھاہوتاہے۔

قرآن خوانی نے موجودہ دور میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے جس میں علماء کثرت سے مبتلاہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن علماء کی بدولت یہ کاروبار عروج پر ہے اورچمک رہاہے اس میں بریلویوں کے بعد دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جواپناانتساب علمائے دیوبند سے کرتے ہیں۔

دیوبندی علماء یوں تو ایصال ثواب یعنی قران خوانی کی مروجہ شکلوں کوناجائز کہتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ دھڑلے سے اس میں شرکت بھی کرتے ہیں میرے خیال سے یہ ایسی واضح بات ہے کہ کوئی بھی سچائی اورحقیقت کا علم رکھنے والاشخص اس کاانکارنہیں کرے گا۔ بالخصوص ہندوستان میں اورہندوستان میں بھی بنگلور وغیرہ میں۔

ایصال ثواب پر حالیہ دنوں میں بہت بحثیں چلی ہیں اورردوومخالفت میں بہت کچھ لکھاگیاہے۔ کچھ لوگ اسے بالکل ناجائز قراردیتے ہیں اورکچھ لوگ اسے جائز قراردیتے ہیں۔مناسب ہے کہ نفس قرانی خوانی پر کچھ لکھنے سے قبل قرآن خوانی کے مروجہ طورطریقوں پر بات کرلی جائے۔

غیرشرعی ایصال ثواب

1: شادی بیاہ کے موقع پر علماء اورطلباء کو بلاکر قرآن پڑھایاجاتاہے اوران کی ایک وقت کھانے کی دعوت کی جاتی ہے اورکچھ روپے دیئے جاتے ہیں۔اگریہ بات مدرسہ کے علماء اورطلباء کو معلوم ہو کہ وہاں نہ روپے ملیں گے اورنہ کھاناملے گاتوکوئی بھی نہ جائے اورچونکہ یہ معروف امر ہے اورفقہ کی اصطلاح ہے المعروف کالمشروط ۔لہذا اس طرح کی قرآن خوانی کےعدم جواز میں کسی کوبھی شک نہیں ہوناچاہئے۔

2:شادہ بیاہ سے زیادہ کسی کی موت کے بعد قرآن خوانی کااہتمام کرایاجاتاہے اورکمال تویہ ہے کہ یہ قرآنی خوانی علماء ایسی ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ان کو توبہ کرناچاہئے۔مثلاابھی حالیہ دنوں میں فردین خان کے والد کی موت ہوئی تو کچھ قرآن خوانی علماء وہاں بھی پہنچ گئے اوربدلے میں کئی ہزار کی رقم لے کر واپس ہوئے۔حالانکہ حقیقت یہ ہےکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کادین وایمان تک مشتبہ ہے۔انہوں نے ہندؤں سے شادیاں کی ہیں اورمسلم بچیوں کی شادی ہندءوں سے کرائی ہے ۔کیاکوئی ایسوں کے پاس بھی جاکر قرآن خوانی کرسکتاہے ؟لیکن جب روپے کی چمک دمک دین اورایمان پر غالب آجائے توسند یافتہ علماء بھی اپنے سند کی حرمت کو قربان کرتے دیر نہیں لگاتے۔

3:موت کے کچھ عرصہ بعد کی مختلف رسمیں ہیں۔ساتواں، تیسواں، چالیسواں اورپتہ نہیں کیاکیا۔ان میں بھی قرآن پڑھنے کیلئے علماء حضرا ت کو کرایہ پر طلب کیاجاتاہے اورعلماء شوق سے کرایہ کے سانڈ بنتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حلالہ کیحدیث میں جس شکل وصورت کوکرایہ کے سانڈ سے تعبیر کیاگیاہے وہ یہاں پربھی صادق آتی ہے۔اولاتوایسی مجالس میں شرکت ہی ان بدعات کے جواز کو سندقبول عطاکردیتی ہے اورعوام ان کو دینی کام سمجھنے لگتے ہیں ۔ دوسرے قرآن جاکر پڑھنااوراس پر معاوضہ حاصل کرناسونے پر سہاگہ ہے۔

4:بنگلور میں کچھ یہ بھی رواج ہے کہ کچھ لوگ اپنے دوکان ومکان میں حصول برکت کیلئے یوں ہی کسی عالم اورحافظ کومقرر کرلیتے ہیں کہ ہم تمہیں اتناماہانہ دیں گے روزآکر قرآن پڑھ جایاکرو۔یہ شکل بھی عدم جوازکی ہے۔کیونکہ قرآن کو اجرت لے کر پڑھناجائز نہیں ہے۔

قرآن کی تعلیم دینااجرت لے کر جائز نہیں ہے۔ دینی علم کے ختم ہوجانے کے خوف سے اخف الضررین کے طورپر قرآن پاک یادینی تعلیم پر اجرت لیناجائز قراردیاگیاہے۔پھراس میں بھی قرآن پاک میں تراویح سنانے والے کی اجرت کوناجائز قراردیاگیاہے کیونکہ تراویح مین پوراقرآن ختم کرنافرض اورواجب نہیں ہے۔(لیکن اب تراویح پربھی اجرت عام ہے اورشاید ہی کوئی مسجد کسی بھی مسلک کی اس سے خالی ہو۔)

شرعی ایصال ثواب

اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ احادیث میں جن طریقوں سے مردوں کو ایصال ثواب پہنچانے کی بات آئی ہے وہ شرعی اورپسندیدہ ہیں۔احادیث میں ایصال ثواب کی کئی شکلیں ذکر کی گئی ہیں ۔ایصال ثواب کی کچھ شکلیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔

1:صدقہ جاریہ یعنی کہیں کنواں کھدوادیا،مسجد تعمیر کرادی یارفاہ عام کا کوئی ایساکام کردیا جس کی بدولت عوام الناس مدت دراز تک فائدہ اٹھاتے رہیں۔اسی تعلق سے وقف کا مسئلہ بھی آتاہے کہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی زمین وقف کردی،کوئی عمارت وقف کردی۔اس سے عامۃ المسلمین فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

2:علم نافع:یعنی کوئی کتاب ایسی تصنیف وتالیف کردی یاکچھ ایسے علمی کام انجام دیاکہ بعد والے نسلابعدنسل اس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔مثلادیکھئے محدثین نے حدیث کی کتابیں تالیف کیں۔اب اس کا ثواب ان کو اس وقت تک پہنچتارہے گاجب تک ان کتابوں سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہین گے۔
ائمہ اربعہ اورفقہاء کرام نے مسائل کااستنباط کیا۔ان کو اس وقت تک ثواب ملتارہے گاجب تک ان کے مسائل سے لوگ استفادہ کرتے رہیں گے۔
مفسرین اوردیگر دینی علوم پر لکھنے والوں نے جوکچھ لکھاتوجب تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں گے لوگوں کواس سے فائدہ ملتارہے گا۔داعیان دین جن کی کوششوں سے لوگوں نے اپنی قدیم گمراہی والامذہب چھوڑ کر مذہب اسلام اختیار کیا توان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کے نیک عمل کا ثواب ان کو بھی ملتارہے گا۔
مجاہدین نے اپنی جانیں دے کر سرحد اسلام کی جوحفاظت کی تواسلامی مملکت کے اندر رہنے والے لوگ جوچین وسکون سے ہیں ان کے نیک عمل کا ثواب بھی مجاہدین کو ملتارہے گا۔

3:نیک اولاد:قرآن وحدیث مین اس قسم کی دعائیں موجود ہیں جس سے خدا سے نیک اولاد کا سوال کیاگیاہے۔نیک اولاد انسان کیلئے سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔اگرکہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ وہ دنیاکی ہی جنت ہے۔انسان نیک اولاد اورنیک بیوی کی بدولت دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹتاہے۔کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی اولاد جونیک عمل کرتی ہے تواس کا ثواب بھی اسے ملتارہے گا۔اس کے علاوہ مزید فائدہ یہ ہے کہ نیک اولاد والدین کو انتقال کے بعد بھی یاد رکھتی ہے اوراس کے لئے دعائے خیرکرتی رہتی ہے۔جس کی بدولت شہرخموشاں مین آباد لوگوں کا مرتبہ بلند ہوتارہتاہے۔
حدیث میں آتاہے کہ کسی شخص کا مرنے کے بعد درجہ بلند کردیاجاتاہے وہ پوچھتاہے کہ اے اللہ میرادرجہ اوررتبہ بلند کردیاگیااس کی کیاوجہ ہے توجواب ملتاہے کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے دعااوراستغفار کا ہدیہ بھیجاہے اوریہ اسی کا ثمرہ ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْه ِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ : أَنَّى هَذَا ؟ فَيُقَالُ :باسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ (سنن ابن مانہ بسند صحیح)
اس کے علاوہ بھی شرعی ایصال ثواب کی کچھ اورشکلیں ہیں۔جنہیں دیکھتے چلتے ہیں۔

4:صدقہ کرنا۔اگرمرنے والوں کی جانب سے صدقہ کیاجائے تواس کا ثواب بھی ان کو پہنچتاہے اورملتاہے۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیااورمیراخیال ہے کہ اگرانکو مہلت ملی ہوتی تووہ صدقہ وخیرات کرتیں تواگرمیں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔ حضورپاکؐ نے فرمایا۔ہاں
عن أمّ المؤمنين عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا ( أي ماتت فجأةً ) وَ أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا ؟ قَالَ : نَعَمْ (البخاري 1388)
اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ کا بھی واقعہ ہے کہ انکی غیرموجودگی میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیاانہوں نے اس تعلق سے حضورپاک سے پوچھاکہ اگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ہاں ۔اس پر انہوں نے اسی وقت اپناباغ جس کانام مخراف تھاصدقہ کردیا۔
عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا ، أَنَّ سَعدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِي اللَّه عَنْهما تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَ هُوَ غَائِبٌ عَنْهَا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَ أَنَا غَائِبٌ عَنْهَا أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( نَعَمْ ) قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ ( اسم لبستان كان لها صَدَقَة ٌ عَلَيْهَا .(صحیح البخاری )

اسی طرح مسلم ،سنن نسائی اورابن ماجہ میں ہے ایک شخص نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میرے والد کاانتقال ہوگیاہے۔انہوں نے کچھ مال چھوڑاہے اوراس مال کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ہے تو کیااگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیایہ ان کیلئے کفارہ ہوگا۔آنحضرت ﷺؑ نے فرمایاہاں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أَبِي مَاتَ ، وَ تَرَكَ مَالاً وَ لَمْ يُوصِ ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ ؟ قَالَ : نَعَمْ.

تنبیہ:صدقہ جاریہ کی حدیث اوپر گزرچکی ہے ۔اس میں اوراس کے بعد ذکرکردہ حدیث میں فرق یہ ہے کہ صدقہ جاریہ خاص ہے ۔یعنی ایساصدقہ جس کا فیض عام ہو اورتادیر رہے۔جب کہ ماقبل مین ذکر کردہ دوتین حدیثوں میں صدقہ کی نوعیت عام آئی ہے۔اس میں کوئی وضاحت کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئی ہے۔یعنی ہم نے اپنے فوت شدہ کسی قریبی عزیز کی جانب سے کسی مسجد میں کوئی رقم دے دی،کسی غریب کی مدد کردی، کسی فقیر کو کچھ روپے دے دیئے یاکسی مدرسہ کی مالی امداد کردی تویہ سب اس میں شامل ہیں۔
تنبیہ:مشہور حدیث تویہی ہے کہ جب انسان مرجاتاہے تواس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں ہاں تین عمل کاثواب اسے ملتارہتاہے۔طبرانی کی مرفوع حدیث میں تین کی جگہ چارکاذکر ہے اوراس میں سرحد کی نگرانی کرنے والے کااضافہ ہے۔ بزار کی حضرت انس سے مرفوع روایت میں 7کاذکرہے۔اسی طرح ابن ماجہ،ابن خزیمہ اورابن عساکر کی روایت میں مزید کچھ چیزوں کا تذکرہ ہے۔ حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ تمام روایات سے حاصل شدہ کی تعداد 11تک پہنچتی ہے اوروہ یہ ہیں۔

1:علم جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے
2:نیک اورصالح اولاد کی دعا
3:کھجور کا درخت لگادیناجس سے دوسرے مستفید ہوتے رہیں
4:صدقہ جاریہ
5:قرآن پاک جو وراثتامنتقل ہوتارہے
6:سرحد کی نگرانی
7:کنواں کھدواناجس سے ضرورت مندوں کوپانی ملتارہے
8:نہرجاری کرانا
8:سرائے تعمیر کراناجس سے مسافروں کو فائدہ ہو
9ذکرکیلئے کوئی عمارت تعمیر کرادینا
10:قرآن پاک کی تعلیم کیلئے مدرسہ بنادینا
11:مسجد بنادینا

حافظ سیوطی مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں
وَقد تحصل من هَذِه الْأَحَادِيث أحد عشر أمرا وَقد نظمتها وَقلت إِذا مَاتَ بن آدم لَيْسَ يجْرِي عَلَيْهِ من فعال غير عشر عُلُوم بثها وَدُعَاء نجل وغرس النّخل وَالصَّدقَات تجْرِي وراثة مصحف ورباط ثغر وحفر الْبِئْر أَو إِجْرَاء نهر وَبَيت للغريب بناه يأوي إِلَيْهِ أَو بِنَاء مَحل ذكر وَتَعْلِيم لقرآن كريم فَخذهَا من أَحَادِيث بحصر
(شرح السیوطی علی مسلم4/228)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فقہی مسلک​

علماء کرام کے درمیان اس پر اجماع ہے کہ میت کیلئے دعا اورصدقہ کرنا جائز ہے۔اسی بات کو امیرالمومنین فی الحدیث حضرت عبداللہ بن مبارک نے اس طورپر تعبیر کیاہے کہ میت کی جانب سے صدقہ کئے جانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وقَالَ مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالْقَانِيَّ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ «إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْبِرِّ أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ» . قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ " قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ
(مقدمہ صحیح مسلم 16)

اورامام نووی اس بارے میں لکھتے ہیں
فَإِنَّ الصَّدَقَةَ تَصِلُ إِلَى الْمَيِّتِ وَيَنْتَفِعُ بِهَا بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَهَذَا هُوَ الصَّوَابُ وَأَمَّا مَا حَكَاهُ أَقْضَى الْقُضَاةِ أَبُو الْحَسَنِ الْمَاوَرْدِيُّ البصرى الفقيه الشَّافِعِيُّ فِي كِتَابِهِ الْحَاوِي عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ الْكَلَامِ مِنْ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَلْحَقُهُ بَعْدَ مَوْتِهِ ثَوَابٌ فَهُوَ مَذْهَبٌ بَاطِلٌ قَطْعًا وَخَطَأٌ بَيِّنٌ مُخَالِفٌ لِنُصُوصِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ فَلَا الْتِفَاتَ إِلَيْهِ وَلَا تَعْرِيجَ عَلَيْهِ
(شرح النووی علی صحیح مسلم ص1/90)

صدقہ میت کو پہنچتاہے اورا س سے اس کو فائدہ ہوتاہے اس بارے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اوریہی درست بات ہے ۔جوکچھ قاضی ابوالحسن الماوردی بصری نے اپنی کتاب الحاوی میں بعض متکلمین سے نقل کیاہے کہ میت کو کسی دوسرے ذریعہ سے ثواب حاصل نہیں ہوتا تووہ قطعی طورپر باطل ہے اورکتاب وسنت واجماع امت کی تصریحات کے خلاف ہے۔لہذایہ قول ایسانہیں ہے کہ اس کی جانب کچھ بھی توجہ کی جائے۔
دیگر عبادات کا ایصال ثواب

بعض روایات ایسی ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ میت کی جانب سے روزہ بھی رکھاجاسکتاہے اورحج بھی کیاجاسکتاہے۔
عن عَبْد اللَّهِ بْن بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ رَضِي اللَّه عَنْهما ، قَالَ : بَيْنَما أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ ، فَقَالَتْ : إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ ، وَ إِنَّهَا مَاتَتْ . فَقَالَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : ( وَجَبَ أَجْرُكِ وَ رَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ ) قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أفأصُومُ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( صُومِي عَنْهَا ) ، قَالَتْ : إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( حُجِّي عَنْهَا) . مسلم في صحيحه ( 1149)
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہیں کہ اسی درمیان ایک عورت آئی اوراس نے پوچھاکہ میں نے اپنی ماں پر ایک باندی صدقہ کیاتھا۔میری ماں کاانتقال ہوگیا(اوروہ باندی بطورمیراث میرے پاس واپس آگئی تواس باندی کے تعلق سے کیاحکم ہے)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہیں ثواب مل چکااورمیراث کے طورپر باندی تمہارے پاس واپس آگئی (یعنی تمہاری ملک ہوگئی)اس خاتون نے مزید پوچھاکہ اے اللہ کے رسول میری ماں پر ایک مہینے کے روزے واجب تھے توکیامیں ان کی جانب سے روزے رکھوں آنحضور نے فرمایاں ہاں!پھراس خاتون نے پوچھاکہ میری والدہ نے حج نہیں کیاتھاتوکیامیں ان کی جانب سے حج کرسکتاہوں۔حضورپاک نے ارشاد فرمایاکہ اپنی والدہ کی جانب سے حج کرو۔
اسی قبیل کی ایک اورحدیث ہے جس کو بخاری اورمسلم نے روایت کیاہے۔
عن ابن عباس رضي الله عنهما ، قال : جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله إن أمي ماتت ، و عليها صوم شهر أفأقضيه عنها ؟ قال : ( لو كان على أمك دين أكنت قاضيه عنها ؟ ) قال : نعم . قال : فدين الله أحق أن يُقضى(متفق علیہ)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااورعرض کیا:میری ماں کاانتقال ہوگیااوراس پر ایک مہینے کا روزہ واجب تھاتوکیامیں ان کی جانب سے قضاء کروں ۔حضورپاک نے فرمایا۔بھلابتاؤاگرتمہاری ماں پر قرض ہوتاتوکیاتم اس قرض کو ادانہ کرتے؟عرض کیاجی ہاں!فرمایاتوپھراللہ کاقرض اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے اداکیاجائے۔

علماء کا اختلاف

ائمہ مجتہدین کا عبادت بدنیہ کے سلسلے میں اختلاف ہے کہ آیامیت کی جانب سے اس کو اداکیاجاسکتاہے یانہیں۔مثلامیت کی جانب سے نماز پڑھ کر اس کو ثواب بخشاجاسکتاہے یانہیں۔یامیت کی جانب سے روزے رکھے جاسکتے ہیں یانہیں،یامیت کی جانب سے حج کیاجاسکتاہے یانہیں۔

واضح رہے کہ حج اورصوم کا مسئلہ اس وقت کاہے جب کہ وہ میت کے ذمہ واجب نہ ہو یامیت نے اس تعلق سے وصیت نہ کی ہوبلکہ محض نفل کے طورپر میت کی جانب سے حج کیاجائے یاروزہ رکھاجائے یاپھرنماز پڑھی جائے۔
مشہور مالکی محدث اورفقیہہ حافظ باجی موطاکی شرح منتقی میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
أَنَّ الْعِبَادَاتِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَضْرُبٍ:
ضَرْبٌ مِنْهَا مِنْ عِبَادَاتِ الْمَالِ لَا تَعَلُّقَ لَهُ بِالْبَدَنِ كَالزَّكَاةِ فَهَذَا يَصِحُّ فِيهِ النِّيَابَةُ.وَالضَّرْبُ الثَّانِي لَهُ تَعَلُّقٌ بِالْمَالِ وَلَهُ تَعَلُّقٌ بِالْبَدَنِ كَالْحَجِّ وَالْغَزْوِ.
وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي صِحَّةِ النِّيَابَةِ فِيهِ وَسَيَأْتِي ذِكْرُهُ فِي كِتَابِ الْحَجِّ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى.
وَالضَّرْبُ الثَّالِثُ لَهُ اخْتِصَاصٌ بِالْبَدَنِ وَلَا تَعَلُّقَ لَهُ بِالْمَالِ كَالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ، وَهَذَا لَا يَدْخُلُهُ النِّيَابَةُ بِوَجْهٍ وَبِهِ قَالَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ.
(المنتقی شرح الموطا2/63)

عبادات کی تین قسمیں ہیں۔عبادت کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا تعلق مال سے ہے جیسے زکوٰۃتواس میں نیابت صحیح ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق مال سے بھی ہے اوربدن سے بھی ہے جیسے حج اورجہاد۔تواس میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے۔عبادت کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق صرف بدن سے ہے ۔جیسے روزہ اورنماز ۔اس قسم میں نیابت درست نہیں ہے اوریہی جمہورفقہاء امام مالک، امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کاقول ہے۔
یہی بات معروف حنفی فقیہہ فخرالدین زیلعی مصنف تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق2/85نے بھی لکھی ہے۔
ثُمَّ الْعِبَادَةُ أَنْوَاعٌ مَالِيَّةٌ مَحْضَةٌ كَالزَّكَاةِ وَالْعُشُورِ وَالْكَفَّارَةِ وَبَدَنِيَّةٌ مَحْضَةٌ كَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالِاعْتِكَافِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَالْأَذْكَارِ، وَمُرَكَّبَةٌ مِنْهُمَا كَالْحَجِّ فَإِنَّهُ مَالِيٌّ مِنْ حَيْثُ اشْتِرَاطُ الِاسْتِطَاعَةِ وَوُجُوبُ الْأَجْزِيَةِ بِارْتِكَابِ مَحْظُورَاتِهِ وَبَدَنِيٌّ مِنْ حَيْثُ الْوُقُوفُ وَالطَّوَافُ وَالسَّعْيُ
پھرعبادت کی کئی اقسام ہیں ۔کچھ توصرف مالی ہیں جیسے زکوٰۃ ،عشر اورکفارہ ۔اورکچھ عبادات ایسی ہیں جوصرف بدنی اورجسمانی ہیں جیسے نماز،روزہ ،اعتکاف ،قرآن پڑھنا،ذکر واذکار۔اورکچھ عبادات ایسی ہیں جوکہ مالی اوربدنی کی جامع ہیں جیسے حج کہ اس میں استطاعت کیلئے مال کی شرط ہے اسی طرح کچھ کمی کوتاہی ہوگئی تواس کیلئے فدیہ وغیرہ رکھاگیاہے اورحج بدنی بھی اس لحاظ سے ہے کہ اس میں وقوف عرفہ ہے طواف ہے سعی وغیرہ ہے۔
احناف کا مسلک
اس بارے میں احناف کا مسلک صاف سیدھایہ ہے کہ وہ عبادات جومالی ہیں اس میں نیابت کارگرہوگی یعنی مکلف کی جانب سے کوئی دوسراکردے تو وہ اداہوجائے گا۔
وہ عبادات جو بدنی ہین اس میں نیابت نہیں ہوگی جیسے کہ روزہ نماز
وہ عبادات جو مالی اوربدنی کی جامع ہین اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر مکلف بیمار ہے عاجز ہے اورحج کے فریضہ کے باوجود قدرت نہیں رکھتاہے تو اس کی جانب سے نیابت کی جاسکتی ہے۔
(النِّيَابَةُ تُجْزِي فِي الْعِبَادَةِ الْمَالِيَّةِ عِنْدَ الْعَجْزِ وَالْقُدْرَةِ) ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ فِيهَا سَدُّ خَلَّةِ الْمُحْتَاجِ، وَذَلِكَ يَحْصُلُ بِفِعْلِ النَّائِبِ كَمَا يَحْصُلُ بِفِعْلِهِ، وَيَحْصُلُ بِهِ تَحَمُّلُ الْمَشَقَّةِ بِإِخْرَاجِ الْمَالِ كَمَا يَحْصُلُ بِفِعْلِ نَفْسِهِ فَيَتَحَقَّقُ مَعْنَى الِابْتِلَاءِ فَيَسْتَوِي فِيهِ الْحَالَتَانِ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَلَمْ تَجُزْ فِي الْبَدَنِيَّةِ بِحَالٍ) أَيْ لَا تُجْزِي النِّيَابَةُ فِي الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَّةِ بِحَالٍ مِنْ الْأَحْوَالِ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ فِيهَا إتْعَابِ النَّفْسِ الْأَمَّارَةِ بِالسُّوءِ طَلَبًا لِمَرْضَاتِهِ - تَعَالَى؛ لِأَنَّهَا انْتَصَبَتْ لِمُعَادَاتِهِ - تَعَالَى - فَفِي الْوَحْيِ عَادِ نَفْسَك فَإِنَّهَا انْتَصَبَتْ لِمُعَادَاتِي وَذَلِكَ لَا يَحْصُلُ بِفِعْلِ النَّائِبِ أَصْلًا فَلَا تُجْزِي فِيهَا النِّيَابَةُ لِعَدَمِ الْفَائِدَةِ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَفِي الْمُرَكَّبِ مِنْهُمَا تُجْزِي عِنْدَ الْعَجْزِ فَقَطْ) أَيْ فِي الْمُرَكَّبِ مِنْ الْمَالِ وَالْبَدَنِ تُجْزِي النِّيَابَةُ عِنْدَ الْعَجْزِ لِحُصُولِ الْمَشَقَّةِ بِدَفْعِ الْمَالِ وَلَا تُجْزِي عِنْدَ الْقُدْرَةِ لِعَدَمِ إتْعَابِ النَّفْسِ عَمَلًا بِالشَّبَهَيْنِ بِالْقَدْرِ الْمُمْكِنِ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَالشَّرْطُ الْعَجْزُ الدَّائِمُ إلَى وَقْتِ الْمَوْتِ)
(تبیین الحقائق2/85)
یہی بات درمختار علامہ حصکفی نے کہی ہے ۔
(الْعِبَادَةُ الْمَالِيَّةُ) كَزَكَاةٍ وَكَفَّارَةٍ (تَقْبَلُ النِّيَابَةَ) عَنْ الْمُكَلَّفِ (مُطْلَقًا) عِنْدَ الْقُدْرَةِ وَالْعَجْزِ وَلَوْ النَّائِبُ ذِمِّيًّا،لِأَنَّ الْعِبْرَةَ لِنِيَّةِ الْمُوَكِّلِ وَلَوْ عِنْدَ دَفْعِ الْوَكِيلِ (وَالْبَدَنِيَّةُ) كَصَلَاةٍ وَصَوْمٍ (لَا) تَقْبَلُهَا (مُطْلَقًا، وَالْمُرَكَّبَةُ مِنْهُمَا) كَحَجِّ الْفَرْضِ (تَقْبَلُ النِّيَابَةَ عِنْدَ الْعَجْزِ فَقَطْ) لَكِنْ (بِشَرْطِ دَوَامِ الْعَجْزِ إلَى الْمَوْتِ) لِأَنَّهُ فَرْضُ الْعُمْرِ حَتَّى تَلْزَمَ الْإِعَادَةُ بِزَوَالِ الْعُذْرِ
بات پوری وہی ہے جواوپرنقل کی گئی صرف اتنااضافہ ہے کہ اگرکسی مریض نے عجز اورعدم قدرت کی وجہ سے کسی سے حج بدل کرایا لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اس کو صحت ہوگئی اورجو عذر تھاوہ ختم ہوگیاتواسے پھرسے حج کرناپڑے گا۔

امام مالک ،امام شافعی اورظاہریہ کا مسلک

امام مالک اورامام شافعی کابھی مسلک یہی ہے کہ وہ عبادات جو مالیت سے تعلق رکھتی ہیں اس میں نیابت کارگرہوگی لیکن وہ عبادات جو بدنی ہین اس میں نیابت کارگرنہیں ہوگی۔البتہ حج کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔امام شافعی کے یہاں حج میں نیابت ہوگی اورامام مالک کے یہاں نیابت نہیں ہوگی۔ حنفیہ کا مسلک بھی حج کے سلسلے میں وہی ہے جو امام مالک کاہے۔امام احمد بن حنبل کے مسلک کی مجھے تحقیق نہیں ہوسکی۔
ظاہریہ کا کہناہے کہ ہرعبادت میں نیابت ہوسکتی ہے ۔چاہے وہ نمازہو،روزہ ہو حج ہوزکوٰۃ ہو یعنی عبادات کی جتنی بھی قسمیں ہیں سبھی میں مکلف کی جانب سے نیابت ہوسکتی ہے۔ اگر مکلف کے ذمہ کچھ نمازیں قضاء تھیں توولی اس کی جانب سے نمازیں پڑھ سکتاہے۔ اگرمکلف کے ذمہ کچھ روزے باقی تھے توولی روزہ رکھ سکتاہے۔

تلاوت قرآن سے ایصال ثواب


مسالک ائمہ
اس بارے میں احناف حنابلہ اورظاہریہ کا مسلک یہ ہے کہ یہ درست ہے۔ قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کیاجاسکتاہے۔ جب کہ امام شافعی اورامام مالک کی مشہور روایت یہ ہے کہ ایساکرنا درست نہیں ۔اوران دونوں ائمہ حضرات سے ایک روایت جواز کی بھی ہے۔

مسلک احناف
علامہ حصکفی اس سلسلے لکھتے ہیں
الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا،لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ. وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى - {وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى} [النجم: 39]- أَيْ إلَّا إذَا وَهَبَهُ لَهُ كَمَا حَقَّقَهُ الْكَمَالُ،
الدرالمختار2/596
اصولی بات یہ ہے کہ ہرشخص نے جس قسم کی بھی عبادت کی ہے اس کا ثواب دوسروں کو پہنچاسکتاہے۔اگرچہ وہ اسکی نیت عبادت کی ادائیگی کے وقت ہی کیوں نہ کرلے۔کیونکہ اس کے دلائل(ایصال ثواب) ظاہر ہیں۔جہاں تک اللہ تعالیٰ کا ارشادلیس للانسان الاماسعی کا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہی عبادت نفع دیتی ہے ۔لیکن اگرکوئی ثواب ہبہ کرے تواس سے یہ آیت خاموش ہے اوراحادیث کی وجہ سے اس کا بھی ثواب ملے گا۔
علامہ حصکفی کی عبارت کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں۔
قَوْلُهُ بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ زِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ - عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ كَمَا فِي الْهِنْدِيَّةِ ط وَقَدَّمْنَا فِي الزَّكَاةِ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ. اهـ.
مصنف کا قول بعبادۃ ما سے عام مراد ہے کہ خواہ وہ نمازہو روزہ ہو،صدقہ ہو،تلاوت ہو ذکر ہو،طواف ہو حج ہوعمرہ یااس کے علاوہ اورکچھ انبیاء علیہ السلام ،شہداء اولیاء اورصالحین کی قبروں کی زیارت اورمردگان کی تکفین اورنیکی کی تمام اقسام ہو (اس کا ایصال ثواب کیاجاسکتاہے)جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے زکوٰۃ کے بارے میں ہم نے ماقبل میں فتاوی تاتارخانیہ کی عبارت محیط کے حوالہ سے نقل کی تھی کہ جوشخص نفل صدقہ کرتاہے ا سکیلئے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین ومومنات کی جانب سے ایصال ثواب کی نیت کرلے کیونکہ ثواب سبھی کو پہنچے گا اورصدقہ کرنے والے کے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔
ایک اورحنفی فقیہہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ وَيَصِلُ (الاختیار لتعلیل المختار4/179)
اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے کسی بھی عمل کا ثواب دوسرے کو بخش سکتاہے اوردوسرے کو اس کا ثواب پہنچتاہے۔

مسلک شافعیہ

ومعنى (العلم المنتفع به) : إما كتب علم وقفها، أو علم غيره.فأما ما سوى ذلك من القرب، كالصلاة والقراءة والذكر.. فلا يلحق الميت ثوابها بفعل الغير لها عنه،
(البیان فی مذہب الامام الشافعی8/317)
عالم نافع کے ضمن میں کتب علم کا وقف اوردوسروں کو علم سکھانابھی ہے اس کے علاوہ جوکچھ عبادات مین سے نماز ،تلاوت ذکر وغیرہ ہے تواس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتاہے ۔
شافعی حضرات تلاوت قرآن سے میت کو ایصال ثواب کے منکر ہیں لیکن اسی کے ساتھ قبرپر تلاوت قرآن کے جواز کے قائل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں جہاں پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے وہاں پر خداکی رحمت اترتی ہے۔لہذا میت کی قبرپرتلاوت قرآن سے امید ہے کہ خداکی رحمت میت کوبھی شامل حال ہوگی۔

إلا أنه إذا قرئ القرآن عند القبر أو الميت.. فإن ثواب القراءة للقارئ، ولكن الرحمة تنزل حيث يقرأ القرآن، فيرجى أن تعم الرحمة الميت؛ لأنه كالجالس بينهم. هذا مذهبنا.
(البیان فی مذہب الامام الشافعی8/317)
ہاں مگرجب کہ قبریامیت کے پاس قران کی تلاوت کی جائے تو ثواب تو صرف قاری کو ہی ملے گا لیکن چونکہ رحمت قرآن پڑھنے کی جگہ پر نازل ہوگی توامید ہے کہ اس رحمت کے عموم میں میت بھی داخل ہوگا کیونکہ وہ بھی ان کے ساتھ اورشریک کی طرح ہے۔یہ شافعیہ کا مسلک ہے۔
یہی بات الحاوی الکبیر کے مصنف نے بھی لکھی ہے۔
فصل:أَحَدُهَا: مَا يَجُوزُ أَنْ يُفْعَلَ عَنْهُ بِأَمْرِهِ وَغَيْرِ أَمْرِهِ.وذلك قضاء الديون، وَأَدَاءُ الزَّكَاةِ، وَفِعْلُ مَا وَجَبَ مِنْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، وَالدُّعَاءُ لَهُ، وَالْقِرَاءَةُ عِنْدَ قَبْرِهِ.
(الحاوی الکبیر8/300)
ایک قسم وہ ہے جو میت کی جانب سے اس کے حکم پر اورحکم کے بغیر بھی کیاجاسکتاہے جیساکہ قرض کی ادائیگی،زکوٰۃ کی ادائیگی،اورواجب حج وعمرہ کی ادائیگی،میت کیلئے اوراس کی قبرپر تلاوت قرآن۔
لیکن واضح رہے کہ متاخرین فقہائے شافعیہ نے اس بات کو ماناہے کہ تلاوت قرآن پاک سے ایصال ثواب کیاجاسکتاہے۔ امام نووی لکھتے ہیں۔

وَأَمَّا قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ
(شرح النووی علی مسلم1/90)
بہرحال قرآن کریم کی تلاوت تو امام شافعی کا مشہور مسلک یہی ہے کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچے گا لیکن ان کے بعض اصحاب نے کہاہے کہ تلاوت قرآن کریم کا ثواب میت کوپہنچتاہے۔

مالکیہ کا مسلک
وَوَقَعَ خِلَافٌ فِي انْتِفَاعِهِ بِالْقِرَاءَةِ لَهُ وَرَجَّحَ بَعْضٌ انْتِفَاعَهُ بِهَا، فَلَا يَنْبَغِي إهْمَالُهَا سَوَاءٌ وَقَعَتْ عَلَى قَبْرِهِ أَوْ فِي غَيْرِهِ
(الفواکہ الدانی علی رسالۃ ابن ابی زید القیروانی2/291)
اورمیت کے تلاوت قرآن سے منتفع ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔اوربعض فقہاء نے میت کے منتفع ہونے کو ترجیح دی ہے۔تواس کو چھوڑنا اورترک کرنادرست ہے۔خواہ یہ تلاوت قرآن میت کی قبرپر ہو یاکہیں اور۔
ابْنُ رُشْدٍ فِي نَوَازِلِهِ ضَابِطُهُ: إنْ قَرَأَ الرَّجُلُ وَوَهَبَ ثَوَابَ قِرَاءَتِهِ لِمَيِّتٍ جَازَ ذَلِكَ وَحَصَلَ لِلْمَيِّتِ أَجْرُهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ.
(منح الجلیل شرح مختصرالخلیل1/509)
ابن رشدنوازل میں لکھتے ہیں کہ میت کو ثواب پہنچانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی شخص تلاوت قرآن کرے اوراس کا ثواب میت کو ہدیہ کردے تویہ جائز ہے اورمیت کو اجر حاصل ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ۔
اسی کتاب مین آگے چل کر لکھاہے۔
بِالْجُمْلَةِ فَيَنْبَغِي أَنْ لَا يُهْمَلُ أَمْرُ الْمَوْتَى مِنْ الْقِرَاءَةِ فَلَعَلَّ الْوَاقِعَ فِي ذَلِكَ هُوَ الْوُصُولُ لَهُمْ وَلَيْسَ هَذَا حُكْمًا شَرْعِيًّا، وَكَذَا التَّهْلِيلُ يَنْبَغِي أَنْ يُعْمَلَ وَيَعْتَمِدَ عَلَى فَضْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَسَعَةِ رَحْمَتِهِ.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مردوں کیلئے تلاوت کلام اللہ کو بالکل ترک نہ کیاجائے شاید کہ حقیقت اورواقعیت میں ان کو ثواب پہنچتاہے اوریہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔اسی طرح لاالہ الااللہ بھی کہناچاہئے اوراس سلسلے میں اللہ کے فضل اوراس کی وسیع رحمت پر بھروسہ کرناچاہئے۔

حنابلہ کا مسلک
اس سلسلے میں ابن قدامہ اپنی مشہور عالم تصنیف المغنی میں لکھتے ہیں۔
فَصْلٌ: وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا، وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ، إنْ شَاءَ اللَّهُ،
اورایک مسلمان کوئی سی بھی عبادت کرے اورا سکا ثواب دوسرے فوت شدہ مسلم کو بخش دے تواس سے میت کو نفع پہنچے گا اگراللہ نے چاہا۔
یہی بات مشہور حنبلی فقیہہ ابن مفلح نے کہی ہے۔
وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا) مِنْ دُعَاءٍ، وَاسْتِغْفَارٍ، وَصَلَاةٍ، وَصَوْمٍ، وَحَجٍّ، وَقِرَاءَةٍ، وَغَيْرِ ذَلِكَ (وَجَعَلَ ثَوَابَ ذَلِكَ لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ) .
المبدع فی شرح المقنع2/281
اورکوئی بھی نیکی چاہے وہ دعا،استغفار ،نماز،روزہ ،حج ،قرآن کی تلاوت یااورکچھ کرے اوراس کا ثواب مسلمان فوت شدہ کے نام کرے تواس کا نفع اس میت کو ہوگا۔
ظاہریہ کا مسلک بھی اس سلسلے میں امام احمد بن حنبل کے مسلک سے مشابہ ہے۔ان کے اقوال الگ سے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔


ابن تیمیہ اورابن قیم
ان حضرات کاشمار اگرچہ فقہائے حنابلہ میں ہی ہوتاہے اورہوناچاہئے لیکن چونکہ کچھ لوگوں نے انہیں الگ طرح کی حیثیت دے دی ہے اوربعض لوگوں کے خیال میں یہ لوگ ائمہ اربعہ سے بھی زیادہ اعلم وافقہ ہیں(ابتسامہ)لہذاان کےانبساط خاطر کیلئے ان کے بھی اقوال الگ سے ذکرکردیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے مقلدین کے پاس اگرگوش نصیحت نیوش ہوتوکان دھریں۔
ابن تیمیہ نے کئی مقامات پر تلاوت کلام اللہ سے ایصال ثواب کے تعلق سے گفتگو کی ہے لیکن بیشتر مقامات پر ان کا طرز عمل صرف علماء کا مسلک بیان کرنے میں رہاہے۔چنانچہ ایک سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں۔
أَمَّا الصِّيَامُ عَنْهُ وَصَلَاةُ التَّطَوُّعِ عَنْهُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ عَنْهُ فَهَذَا فِيهِ قَوْلَانِ لِلْعُلَمَاءِ: أَحَدُهُمَا: يَنْتَفِعُ بِهِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَحْمَد وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا، وَبَعْضِ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمْ. وَالثَّانِي: لَا تَصِلُ إلَيْهِ وَهُوَ الْمَشْهُورُ فِي مَذْهَبِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ.
(مجموع الفتاوی24/315)
بہرحال میت کی جانب سے روزہ،نفل نماز اورقران کی تلاوت تواس سلسلے میں علماء کے دوقول ہیں۔ ایک قولیہ ہے کہ میت کواس سے فائدہ ہوتاہے اوریہ امام احمد امام ابوحنیفہ ،دیگر اوربعض شافعیہ اوردیگر کا مسلک ہے۔دوسراقول یہ ہے کہ ان اعمال کا ثواب میت کو نہیں پہچتاہے اوریہی امام مالک اورامام شافعی کا مشہور مذہب ہے۔
اس مسئلہ میں علماء کے اختلاف پر انہوں نے کئی مقامات پر اپنی تصنیفا ت میں گفتگو کی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر وہ تلاوت کلام اللہ سے میت کو ایصال ثواب کے مقبول ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لَيْسَ فِي الْآيَةِ وَلَا فِي الْحَدِيثِ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَنْتَفِعُ بِدُعَاءِ الْخَلْقِ لَهُ وَبِمَا يُعْمَلُ عَنْهُ مِنْ الْبِرِّ بَلْ أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ مُتَّفِقُونَ عَلَى انْتِفَاعِ الْمَيِّتِ
(مجموع الفتاوی24/306)
ابن تیمیہ کے کے سامنے یہ سوال پیش ہواکہ قرآن میں ہے کہ انسان کو صرف اس کی کوشش ہی فائدہ پہنچاتی ہے حدیث میں ہے کہ مرنے کے بعد عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے سوائے تین اعمال کے توکیاانسان کو دیگر اعمال وافعال کا ثواب نہیں پہنچتا۔ اس پر انہوں نے یہ بات لکھی ہے کہ
آیت میں یاحدیث میں اس کا کوئی ذکرنہیں ہے کہ میت کو مخلوق کی دعاسے فائدہ نہیں ہوگا۔یااس کی جانب سے جونیک کام کئے جاتے ہیں اس کا ثواب اس کو نہیں پہنچتاہے بلکہ ائمہ اسلام اس پر متفق ہے کہ نیک کام سے میت کو فائدہ ہوتاہے۔
اشارہ سے گزرکر ابن تیمیہ نے اس سلسلے میں تصریح بھی کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وَالْعُلَمَاءُ لَهُمْ فِي وُصُولِ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَّةِ: كَالْقِرَاءَةِ وَالصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ إلَى الْمَيِّتِ قَوْلَانِ أَصَحُّهُمَا أَنَّهُ يَصِلُ۔الفتاوی الکبری لابن تیمیہ 4/257
میت کو عبادات بدنیہ جیسے تلاوت کلام اللہ،نماز،روزہ کے ثواب میت کو پہنچنے میں دوقول ہیں ان میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچتاہے۔
ابن قیم نے بھی اپنے استاد ابن تیمیہ کی ہی طرح ایصال ثواب کے وقوع کوترجیح دی ہے اوراس سلسلے میں ان کاخیال یہ ہے کہ چونکہ شریعت میں کوئی واضح طورپر ممانعت نہیں آئی ہے اس لئے دیگر اعمال پر قیاس کرتے ہوئے ایصال ثواب جائزہے۔

قاضی شوکانی:
غیرمقلدین حضرات کے یہاں ایک بڑانام قاضی شوکانی کابھی ہے۔ نواب صدیق حسن خان صاحب کے بارے میں بھی کچھ کتابوں میں لکھاہے کہ وہ قاضی شوکانی سے استمداد کے خواہاں رہتے تھے۔ قاضی شوکاں مددے کا نعرہ جذب وبے خودی میں بلند کردیاکرتے تھے۔
وہ نیل الاوطار میں [بَابُ وُصُولِ ثَوَابِ الْقُرَبِ الْمُهْدَاةِ إلَى الْمَوْتَى]میں لکھتے ہیں۔

وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي غَيْرِ الصَّدَقَةِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ هَلْ يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ؟
فَذَهَبَتْ الْمُعْتَزِلَةُ إلَى أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَيْهِ شَيْءٌ وَاسْتَدَلُّوا بِعُمُومِ الْآيَةِ وَقَالَ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ: إنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ، وَيَصِلُ ذَلِكَ إلَى الْمَيِّتِ وَيَنْفَعُهُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ انْتَهَى وَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَجَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ ثَوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَجَمَاعَةٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ إلَى أَنَّهُ يَصِلُ، كَذَا ذَكَرَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْكَارِ وَفِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ لِابْنِ النَّحْوِيِّ: لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ عِنْدَنَا ثَوَابُ الْقِرَاءَةِ عَلَى الْمَشْهُورِ، وَالْمُخْتَارُ الْوُصُولُ إذَا سَأَلَ اللَّهَ إيصَالَ ثَوَابِ قِرَاءَتِهِ، وَيَنْبَغِي الْجَزْمُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ دُعَاءٌ، فَإِذَا جَازَ الدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ بِمَا لَيْسَ لَلدَّاعِي، فَلَأَنْ يَجُوزَ بِمَا هُوَ لَهُ أَوْلَى۔(نیل الاوطار 4/113)


صدقہ کے علاوہ دیگر اعمال کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتاہے یانہیں
معتزلہ کاخیال ہے کہ میت کو کسی قسم کا ثواب نہیں پہنچتاہے اوراس سلسلے میں انہوں نے آیت کے عموم سے استدلال کیاہے(لیس للانسان الاماسعی)اورکنزکی شرح میں مصنف نے کہاہے انسان کو اس بات کااختیار ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسروں کو بخش دے چاہے وہ نماز ہویاروزہ یاحض یاصدقہ یاتلاوت قران یااس کے علاوہ نیکی کے دیگر اقسام وانواع۔ان تمام کاثواب میت کو پہنچتاہے اوراس کو فائدہ ہوتاہے اہل سنت کا مذہب یہی ہے۔امام شافعی اوران کے اصحاب کا مشہور مسلک یہ ہے کہ میت کو تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتاہے ۔جب کہ امام احمد بن حنبل،اورعلمائ کی ایک جماعت اورامام شافعی کے اصحاب کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ میت کو تلاوت قرآن کا ثواب پہنچتاہے۔نووی نے اذکار میں ایساہی ذکر کیاہے اورمنہاج کی شرح میں ابن نحوی نے لکھاہے کہ مشہور را ئے کے مطابق ہمارے نزدیک میت کو تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتاہے لیکن مختار مسلک یہ ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچتاہے جب وہ اللہ سے سوال کرے کہ وہ اس عمل کا ثواب فلانے کو پہنچادے۔(میت کو ثواب پہنچنے کے سلسلے میں)اعتقاد جازم ہوناچاہئے۔کیونکہ وہ دعاہے۔توجب میت کیلئے ایسی دعاکی جاسکتی ہے جس میں دعاکرنے والے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے توایسی دعاکرنابدرجہ اولی مناسب ہوگاجس میں دعاکرنے والے کے عمل کادخل ہے۔
خلاصہ کلام:
ان گزارشات بالخصوص مسلک پر تفصیلی کلام کرنے سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جمہور علماء کی رائے اس بارے میں کیاہے۔امام ابوحنیفہ اورامام احمد بن حنبل اوران کے اصحاب جواز کے قائل ہیں۔امام شافعی اورامام مالک عدم جواز کے قائل ہیں لیکن ان کے مسلک سے وابستہ علماء جواز کے قائل ہیں۔اسی طرح ظاہریہ بھی جواز کے قائل ہیں۔ ظاہریہ سے گزرکر اہل حدیث حضرات کے یہاں وقعت رکھنے والے،ابن تیمیہ،ابن قیم اورقاضی شوکانی بھی جواز کے قائل ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مانعین کے دلائل:

1:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کسی کو قرآن پڑھ کر بخشاہواورحضورپاک نے ایسانہیں کیاتویہ عمل بدعت ہے اورکل بدعۃ ضلالۃ
(یہ استدلال اصل میں ابن باز اوراسی کے ہم خیال علماء کاہے۔ حیرت ہے کہ اہل علم نے اس سے قبل بھی اس موضوع پر لکھاہے لیکن بات صرف دلائل تک محدود رہی لیکن ابن باز وغیرہ نے جس طرح کھینچ تان کر اس کو بدعت اوربدعت ضلالت ثابت کرناچاہاہے وہ حیرانگی کا باعث ہے یعنی جمہور علماء بدعت ضلالت کے قائل ہیں۔)

2:اصل عبادت میں توقیف ہے ۔یعنی جب تک عبادت کے سلسلے میں نص صریح نہیں ہوگی ۔تب تک اس کے عدم جواز کے بارے میں ہی کہاجائے گا۔

3:قرآن پاک میں ہے لیس للانسان الاماسعی اورایصال ثواب میں غیر کادخل ہے انسان کا اپناکوئی دخل نہیں ہے۔

4:حدیث پاک میں ہے اذامات ابن آدم انقطع عملہ الابثلاث۔مطلب یہ کہ جب انسان مرگیاتوتمام اعمال کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔اب صرف تین اعمال ہی ایسے ہیں جس کاثواب اس تک پہنچے گا۔ اگراس کے علاوہ دیگر اعمال کا بھی ثواب پہنچے گا توپھرالابثلاث کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔

مجوزین کے دلائل
1:عموم احادیث سے جمہور نے استدلال کیاہے کہ میت کو ایصال ثواب کیاجاسکتاہے بشمول تلاوت قرآن۔ کیونکہ جب ایک بار یہ ثابت ہوگیاکہ میت کوایصال ثواب کیاجاسکتاہے پھریہ بھی ثابت ہوگیاکہ ایصال ثواب مالی اوربدنی طورپر کیاجاسکتاہے یعنی میت کی جانب سے صدقہ اورحج کیاجاسکتاہے تو پھر تلاوت قرآن جوکہ بدنی عبادت ہے وہ بھی اس عموم میں شامل ہوجائے گا۔

2:اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سے کوئی ہلکاسااشارہ بھی مروی نہیں ہے کہ تلاوت قرآن کے ذریعہ ایصال ثواب نہیں کیاجاسکتا۔اگریہ امر جائز نہ ہوتاتواس سلسلے میں حضورپاک اورصحابہ کرام سے کچھ نہ کچھ مروی ضرور ہوتا۔یہ استدلال ابن تیمیہ کاہے کہ عدم ورود نہی جواز کی دلیل ہے۔

3:اس پر مسلمانوں کا عمل رہاہے۔بالخصوص امام احمد بن حنبل جنہوں نے طلب حدیث میں عالم اسلام کا سفر کیاتھاوہ کہتے ہیں کہ تلاوت قران کے ذریعہ ایصال ثواب عام ہے اورکسی نے نکیر نہیں کی۔
قال أحمد بن حنبل : الميت يصل إليه كل شيء من الخير ، للنصوص الواردة فيه ، و لأن المسلمين يجتمعون في كل مصر ، و يقرؤون ، و يُهدون لموتاهم من غير نكير۔
اس کے بعد ابن قدامہ حنبلی المغنی میں لکھتے ہیں۔ "فکان اجماعا"توگویایہ اجماع سکوتی ہے۔

4:احادیث اگرچہ ضعیف ہیں لیکن اس عمل کی تقویت کرتی ہیں اورحدیث اگرچہ ضعیف ہو لیکن اگر مسلمانوں کےمتوارث عمل سے اس کی تصدیق ہورہی ہوتو وہ حدیث قابل احتجاج واستدلال ہوجایاکرتی ہے۔


مانعین کے دلائل کاجائزہ
حقیقت یہ ہے کہ استدلال نمبر ایک اوراستدلال نمبر دوایک ہی ہیں۔لیکن یہ بنیادی طورپر ایک مغالطہ پر مبنی ہے۔کسی عمل کےسلسلہ میں نص صریح کا مطالبہ کرنادرست نہیں ہے الایہ کہ وہ عمل ازقبیل فرض ہو ۔ لیکن میت کو ثواب پہنچانے کا عمل کسی نے فرض وواجب نہیں کہاہے لہذا نص صریح کا مطالبہ کرنا اہل علم کےا صول استدلال سےبے خبری کااظہار ہے۔ اس سلسلے میں دلائل کے عموم اوراشارۃ النص وغیرہ سے بھی استدلال کیاجاسکتاہے۔خاص طورپر آیت اورحدیث کےعموم سے استدلال کرنے کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔لاصلوۃ لمن لم یقرابفاتحۃ القرآن میں اہل حدیث حضرات کا استدلال اسی من کے عموم پر ہے کہ من میں عموم ہے اورعموم سے ثابت ہواکہ مقتدی،امام منفرد،مسبوق سبھی کیلئے فاتحہ پڑھناضروری ہے۔

جمہورعلماء نے بھی اسی عموم سے استدلال کیاہے۔ ان کاکہنایہ ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیاکہ اعمال خیر کے ذریعہ میت کو ایصال ثواب کیاجاسکتاہے تواب اعمال خیر کی جتنی اقسام ہیں سبھی کے ذریعہ میت کو ایصال ثواب کیاجاسکتاہے۔ إنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ
دوسری بات یہ ہے کہ کسی عمل کو فرض وواجب قراردینے کیلئے تو نص صریح اورنص جدید کا مطالبہ کیاجاسکتاہے لیکن کسی چیز کے جواز کیلئے نص صریح کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتابلکہ اگراس سلسلے میں یہ کہاجائے کہ ممانعت کا نہ ہوناہی جواز کی وجہ ہے تو وہ درست ہے۔ اگرمانعین کا استدلال اس سے ہے کہ حضورپاک اورصحابہ کرام سے اس عمل کا کرناثابت نہیں ہے توہمارابھی استدلال اسی سے ہے کہ حضورپاک اور صحابہ کرام سے ممانعت ثابت نہیں۔

اگریہ عمل غلط ہوتاتوکسی نہ کسی درجہ میں ممانعت ثابت ہوتی لیکن کہیں سے بھی کوئی خفیف سے خفیف اشارہ نہیں ملتاکہ حضورپاک یاصحابہ کرام نے تلاوت قرآن کے ذریعہ ثواب کو منع کیاہو۔اس سلسلے میں ابن تیمیہ وغیرہ کا استدلال سے عدم ورود النہی سے ہے۔

جہاں تک مانعین کے آیت سے دلیل پکڑنے کاجائزہ ہے تو وہ بنیادی طورپر غلط ہے۔ اصل میں اس آیت سے عدم ایصال ثواب پر سب سے پہلے جن لوگوں نے استدلال کیاوہ معتزلہ تھے۔ اورمعتزلہ کابھی یہی خیال ہے کہ ایصال ثواب جائزہ نہیں ہے۔

آیت تویہ کہہ رہی ہے کہ انسان کواپناعمل نفع دے گا دوسرے کا عمل دوسرے کیلئے ہے لیکن اگرکوئی دوسرااپناعمل اس کو بخش دے توکیاوہ نفع دے گا یانہیں اس سے آیت خاموش ہے اوردوسرے لفظوں میں آیت میں یہ نہیں کہاگیاہے کہ انسان صرف اپنے سعی اورعمل سے ہی نفع مند ہوسکتاہے بلکہ آیت میں صرف یہ کہاگیاہے کہ انسان اپنے عمل کا مالک ہے۔
اس کی مثال ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں
ایک شخص صرف اپنے مال کا مالک ہے لیکن اس کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اگرکوئی دوسرااپنامال اس کو دے دے توبھی اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔بس آیت میں بھی اتنی بات کہی گئی ہے کہ انسان اپنے عمل کا مالک ہے لیکن اگرکوئی دوسرااپنانیک عمل اس کو بخش رہاہے تواس سے اس کو نفع پہنچے گایانہیں اس سے آیت خاموش ہے۔
أن الله تعالى لم يقل : إن الإنسان لا ينتفع إلا بسعي نفسه ؛ و إنما قال : ( لَيْسَ للإنْسانِ إلاَّ ما سَعَى ) ؛ فهو لا يملك إلا سعيه و لا يستحق غير ذلك ، و أما سعي غيره ؛ فهو له ، كما أن الإنسان لا يملك إلا مال نفسه و نفع نفسه ، فمال غيره ، و نفعُ غيره هو كذلك للغير ، لكن إذا تبرع له الغير بذلك جاز . [ مجموع الفتاوى : 24 / 366 ] .
اس آیت کا یک جواب علامہ حصکفی نے یہ دیاہے۔
{وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى} [النجم: 39]- أَيْ إلَّا إذَا وَهَبَهُ لَهُ كَمَا حَقَّقَهُ الْكَمَالُ، أَوْ اللَّامُ بِمَعْنَى عَلَى كَمَا فِي - {وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ} [غافر: 52](الدرالمختار2/596)
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا عمل تو وہی ہے جوصرف اس کا اپناعمل ہے لیکن اگرکوئی اس کو اپناعمل ہبہ کردے تووہ بھی اسکا اپناعمل ہوجائے گا۔ جیساانسان کا مال صرف وہی ہے جواس کا اپنامال ہے لیکن اگرکوئی اس کا اپنامال ہبہ کردے تو وہ بھی اب اس کا مال ہوجائے گااوراس کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ یہ تحقیق علامہ ابن کمال کی ہے۔دوسری تاویل یہ ہے کہ للانسان میں ل کو علی کے معنی پر لیاجائے جیساکہ قرآن پاک میں ولھم اللعنہ اورمطلب یہ ہے کہ ان پر لعنت ہو۔
ان سب سے ایک بہتر تاویل راقم الحروف کے خیال میں وہ ہے جو مولانا عبدالرشید گنگوہی علیہ الرحمہ نے کیاتھا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ
ایک مرتبہ شیخ الہند کے دل میں خیال آیاکہ آیت میں ہے کہ لیس للانسان الاماسعی کہ انسان کو صرف اپناعمل نفع دے گا اور حدیث میں آتاہے کہ دوسرے بھی ایصال ثواب حج وزکوٰ ۃ ا وردیگر ذرائع سے کرسکتے ہیں تواس اشکال کاحل کیاہے۔ وہ اتنےبیچین ہوئے کہ اسی وقت دیوبند سے گنگوہ کا رخت سفر باندھا۔ رات کا وقت تھالیکن جس وقت یہ اشکال پیداہوا۔اسی وقت چل پڑے۔ صبح ہوتے ہوتے گنگوہ پہنچے جب شیخ الہند حضرت گنگوہی کے پاس پہنچے تو وہ فجر کی نماز کیلئے وضو کررہے تھے۔ اسوقت حضرت گنگوہی کی بصارت جاچکی تھی انہوں نے پوچھاکون ۔انہون نے جواب محمود الحسن وہ حیران ہوئے کہ خلاف معمول اس وقت یہاں کیوں آئے۔ آنے کا سبب دریافت کیاتوانہوں نے اپنااشکال بتایا۔اشکال سنتے کے ساتھ فرمایاکہ آیت میں سعی سے مراد سعی ایمانی ہے اوراحادیث میں ایصال سے مراد اعمال ہیں۔سارااشکال اسی پل ختم ہوگیا۔
مطلب یہ ہے کہ آیت میں جوکہاگیاہے کہ لیس للانسان الاماسعی تواس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپناایمان ہی فائدہ دے گا۔ کسی دوسرے باپ دادا اورکسی قریبی رشتہ دار کا ایمان کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ایمان کیلئے ہرایک کو اپنی اورذاتی کوشش کرنی ہوگی۔اس میں کسی قسم کی نیابت چلنے والی نہیں ہے۔ جہاں تک احادیث کی بات ہے تو اس میں اعمال مراد ہیں کہ ایمان کے بعد کہ ایک شخص مومن ہے تواس کو دوسرامومن اعمال صالحہ کے ذریعہ ثواب بخش سکتاہے ایصال ثواب کرسکتاہے۔

مانعین کے دلائل میں سے حدیث پاک اذامات الانسان سے استدلال کی جہاں تک بات ہے تووہ بھی ان کے مطلب براری کیلئے کافی نہیں ہے۔ اذامات الانسان انقطع عملہ کی حدیث کا مستفاد یہ ہے کہ اس کا عمل ختم ہوگیالیکن دوسراپنے عمل کا ثواب میت کوبخش سکتاہے یانہیں اس سے یہ حدیث خالی ہے۔ اگرمانعین کہیں کہ حدیث کہتی ہے کہ صرف تین ذرائع سے ہی ثواب پہنچ سکتاہے اوراس کے علاوہ بقیہ ذرائع سے ثواب نہیں پہنچ سکتاتوہماراکہناہوگاکہ حدیث میں توان تین کے علاوہ صدقہ سےبھی میت کو ثواب پہنچنے کا ذکر ہے۔ حج کے ذریعہ بھی ثواب پہنچنے کا ذکرہے دعا اوراستغفار کے ذریعہ بھی ثواب پہنچنے کا ذکر ہے اوربقول علامہ سیوطی صدقہ جاریہ ان تین کے علاوہ گیارہ مزید طریقوں سے ہوتاہے تواب تین کا حصر باقی کہاں رہاجواس سے استدلال درست ہوگا۔
ابن تیمیہ کہتے ہیں۔
وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: {انْقَطَعَ عَمَلُهُ إلَّا مِنْ ثَلَاثٍ. .} لَمْ يَقُلْ: إنَّهُ لَمْ يَنْتَفِعْ بِعَمَلِ غَيْرِهِ. فَإِذَا دَعَا لَهُ وَلَدُهُ كَانَ هَذَا مِنْ عَمَلِهِ الَّذِي لَمْ يَنْقَطِعْ وَإِذَا دَعَا لَهُ غَيْرُهُ لَمْ يَكُنْ مِنْ عَمَلِهِ لَكِنَّهُ يَنْتَفِعُ بِهِ(مجموع الفتاوی24/308)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنے عمال خیر کا ثواب میت کواللہ سے دعاکرکے میت کو بخش سکتاہے اورمیت کواس سے نفع ہوگااس کی قوی اورپوری امید ہے۔ بقیہ تمام معاملات تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہیں۔ چاہے تووہ کسی بھی عمل کوقبول کرلے اورچاہے توکسی کو رد کردے۔

ایصال ثواب کا طریقہ کار کیاہو
جیساکہ ماقبل میں ذکر کیاجاچکاہے کہ اس دور میں ایک برارواج یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کو گھر پر بلایاجاتاہے اورپھرقرآن خوانی کی جاتی ہے اوراس کے بعد قران خوانی کرانے والا مدارس کے طلبہ اورمدرس کو رقم دیتاہے اوردعوت کرتاہے۔ اس سلسلے میں بہت سارے مفاسد ہیں۔

1:رقم اوردعوت ایک معروف امر ہے اورمعروف جب مشروط کے درجہ میں پہنچ جائے تو یہ اجرت علی القران ہوگیااوراجرت علی القران حرام ہے۔ اجرت پر قران پڑھنے پر جب قاری کو ہی کوئی اجر نہیں ملے گا تو وہ ایصال کس چیز کا کرے گا۔

2:مدارس کے طلبہ جب ٹولی کی شکل میں ایصال ثواب کیلئے دوسروں کے گھر جاتے ہیں تواس سے عوام الناس پر علمائ اورعلم دین سے تعلق رکھنے والی شخصیات اورخود دینی علم کے تعلق سے غلط اثرپڑتاہے۔ مولانااشرف علی تھانوی اپنی سوانح میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب وہ کانپور میں تھے تو کہیں مدارس کے طلبہ کے ساتھ ایصال ثواب کیلئے جارہے تھے راستہ میں کسی نے یہ طعن کسااوراس کی آواز مولانا کے کانوں تک پہنچ گئی کہ "پتہ نہیں آج کس کے گھر پر مصیبت آنے والی ہے"(مفہوم)اس کے بعد سے مولانا نے طلبہ کا قرآن خوانی کیلئے کسی کے گھر پر جانامنع کردیا۔

اس مسئلہ کاحل کیاہے ؟

تواب اس مسئلہ کاحل کیاہے کہ قرآن خوانی بھی ہو اوران مفاسد سبھی بچاجاسکے تواس کی تجویز ابن تیمیہ نے یہ پیش کی ہے کہ قاریوں کو اجرت پر بلانے کے بجائے (جس کو ہم اپنے عہد میں طلبہ کو گھر پر قرآن خوانی کیلئے بلانے سے تعبیر کرسکتے ہیں)وہ مدارس اورمعاہد جہاں قرآن کاپڑھناپڑھاناہورہاہے ان کو صدقہ کیاجائے ان کی مالی معاونت کی جائے اس طورپر ان مدارس اورمعاہد میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اورمدرس جوکچھ بھی پڑھیں گے ان کا ثواب صدقہ کرنے والے کو اوران کے واسطہ سے میت کو پہنچے گا۔
فَإِذَا تَصَدَّقَ بِهَذَا الْمَالِ عَلَى مَنْ يَسْتَحِقُّهُ وَصَلَ ذَلِكَ إلَى الْمَيِّتِ وَإِنْ قَصَدَ بِذَلِكَ مَنْ يَسْتَعِينُ عَلَى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَتَعْلِيمِهِ كَانَ أَفْضَلَ وَأَحْسَنَ فَإِنَّ إعَانَةَ الْمُسْلِمِينَ بِأَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ عَلَى تَعَلُّمِ الْقُرْآنِ وَقِرَاءَتِهِ وَتَعْلِيمِهِ مِنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ.(مجموع الفتاوی24/316)
اب یہی رائے عمومی طورپر علمائ احناف کی بھی ہے کہ مدارس کے طلبہ کو نہ بھیجاجائے بلکہ ایصال ثواب کی بہترین شکل یہی ہے کہ مدارس اورجامعات کو رقم ہدیہ کردی جائے ۔اوراس ذریعہ سے ان مدارس میں قال اللہ اورقال الرسول کا ثواب میت کو پہنچے گا۔اس کے علاوہ مدارس اورجامعات سے جودین کی خدمت ،نشرواشاعت اوربقائ کا سامان باوجود خامیوں اورکمیوں کے ہورہاہے اس کا بھی ثواب صدقہ کرنے والے کو اوراس کے ذریعہ سے میت کو پہنچے گا۔
(کوئی صاحب اس کو یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ مدارس کو چندہ دلوانے کی ایک کوشش ہے بانداز دیگر۔ابتسامہ)
آخر میں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ اس تعلق سے فورم پر دوتحریریں خاص ہیں ایک کفایت اللہ صاحب کی جنہوں نے مزاحیہ انداز میں ایصال ثواب کے وزن پر ایصال گناہ کا نظریہ منصہ شہود پر لایاہے۔ دوسرا سرفراز فیضی صاحب کالاجواب کے عنوان سے ایک تھریڈ ہےجس میں مزاحیہ انداز میں ایک بریلوی عالم کے حضرت حسین کو ایصال ثواب کے تعلق سے درگت دکھائی گئی ہے۔اس پر تفصیلی کلام کرنے کے بجائے ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جو مولانااسماعیل سلفی صاحب نے کہی ہے۔

تحریک آزادی اورشاہ ولی اللہ ان کی مشہور ومعروف کتاب۔ اس میں ایک باب میں ایک بریلوی عالم نے اہل حدیث کے مسائل پر مزاحیہ انداز میں کچھ لکھاتھااس پر مولانا کہتے ہیں کہ طنز ومزاح اچھی چیز ہے لیکن علمی اوردینی مسائل میں یہ مناسب نہیں کیونکہ جب دینی اورعلمی مسائل میں ایک نبی نے جواب دیااورقوم نے کہااتتخذناھزواتونبی کا جواب تھااعوذباللہ ان اکون من الجاہلین
ہم بھی کفایت اللہ اورسرفراز فیضی صاحب کے ایصال ثواب کے تعلق سے مزاحیہ مضامین پر یہی کہتے ہیں
اعوذباللہ ان اکون من الجاہلین
والسلام
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جمشید بھائی، ایک اہم موضوع پر آپ کی سنجیدہ اور معتدل تحریر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

اور تھوڑی حیرت بھی۔
اور یہ حیرت مضمون کی آخری چند لائنوں میں دور ہو گئی۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
جمشید بھائی میرا مضمون اختراع نہیں ایک سچے واقعہ کا بیان تھا۔ واقعہ کا تاثر منتقل ہوسکے اس لیے روایت میں نے ڈرامائی انداز میں کردی اور کردار کے نام تبدیل کردیے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ہمارا موقف اس بارے میں صاف ہے کہ آیت {وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى} [النجم: 39] عام ہے اور اس سے صرف انہیں چیزوں کو مستثنی کیا جاسکتا ہے جن کا نصا رسول اللہ سے استثناء ثابت ہو۔ اور ان مستثنیٰ چیزوں پر قیاس صحیح نہیں ہوگا۔
اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر کم الفاظ میں بہت ساری باتیں کہہ دی ہیں ۔
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا مَا سَعى أَيْ كَمَا لَا يُحْمَلُ عَلَيْهِ وِزْرُ غَيْرِهِ، كَذَلِكَ لَا يُحَصِّلُ مِنَ الْأَجْرِ إِلَّا مَا كَسَبَ هُوَ لِنَفْسِهِ، وَمِنْ هَذِهِ الْآيَةِ الْكَرِيمَةِ اسْتَنْبَطَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَهُ، أَنَّ الْقِرَاءَةَ لَا يَصِلُ إِهْدَاءُ ثَوَابِهَا إِلَى الْمَوْتَى، لِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ عَمَلِهِمْ وَلَا كَسْبِهِمْ وَلِهَذَا لَمْ يَنْدُبْ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ وَلَا حَثَّهُمْ عَلَيْهِ وَلَا أَرْشَدَهُمْ إِلَيْهِ بِنَصٍّ وَلَا إِيمَاءٍ، وَلَمْ يُنْقَلْ ذَلِكَ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَلَوْ كَانَ خَيْرًا لَسَبَقُونَا إِلَيْهِ، وَبَابُ الْقُرُبَاتِ يُقْتَصَرُ فِيهِ عَلَى النُّصُوصِ وَلَا يُتَصَرَّفُ فِيهِ بِأَنْوَاعِ الْأَقْيِسَةِ وَالْآرَاءِ، فَأَمَّا الدُّعَاءُ وَالصَّدَقَةُ فَذَاكَ مُجْمَعٌ عَلَى وُصُولِهِمَا وَمَنْصُوصٌ مِنَ الشَّارِعِ عَلَيْهِمَا.
وَأَمَّا الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيحِهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم: «إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: مِنْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ، أَوْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ مِنْ بَعْدِهِ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ» »
فَهَذِهِ الثَّلَاثَةُ فِي الْحَقِيقَةِ هِيَ مِنْ سَعْيِهِ وَكَدِّهِ وَعَمَلِهِ، كَمَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ «إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ» وَالصَّدَقَةُ الْجَارِيَةُ كَالْوَقْفِ ونحوه هي من آثَارِ عَمَلِهِ وَوَقْفِهِ، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتى وَنَكْتُبُ ما قَدَّمُوا وَآثارَهُمْ [يس:
12] الآية. وَالْعِلْمُ الَّذِي نَشَرَهُ فِي النَّاسِ فَاقْتَدَى بِهِ النَّاسُ بَعْدَهُ هُوَ أَيْضًا مِنْ سَعْيِهِ وَعَمَلِهِ.
وَثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ «مَنْ دَعَا إِلَى هَدْيٍ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا»
تفسير ابن كثير ط العلمية (7/ 432)

ویسے قرآن کے عموم سے خبر واحد یا قیاس کی بنیاد پر کسی چیز کو مستثنیٰ کرنے کے بارے فقہ حنفی کے اصول کیا ہیں؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ویسے قرآن کے عموم سے خبر واحد یا قیاس کی بنیاد پر کسی چیز کو مستثنیٰ کرنے کے بارے فقہ حنفی کے اصول کیا ہیں؟
سوال اچھاہے
جواب یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک نص کے عموم میں جب ایک مرتبہ تخصیص ہوجاتی ہے تو پھر اس کی عموم والی سابقہ حیثیت باقی نہیں رہتی۔
جب خبرمشہہور اوراجماع وغیرہ سے کچھ چیزوں کے بارے میں آیت کی تخصییص ہوچکی ہے اورویسے بھی یہ آیت اس مراد پردال ہے ہی نہیں جس کیلئے اس کو پیش کیاجارہاہے۔لہذا اس پر عموم قرآن کو خبرواحد سے یاقیاس سے مختص کرنے کے اعتراض کی کوئی تک ہی نہیں بنتی۔والسلام
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سوال اچھاہے
جواب یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک نص کے عموم میں جب ایک مرتبہ تخصیص ہوجاتی ہے تو پھر اس کی عموم والی سابقہ حیثیت باقی نہیں رہتی۔
جب خبرمشہہور اوراجماع وغیرہ سے کچھ چیزوں کے بارے میں آیت کی تخصییص ہوچکی ہے اورویسے بھی یہ آیت اس مراد پردال ہے ہی نہیں جس کیلئے اس کو پیش کیاجارہاہے۔لہذا اس پر عموم قرآن کو خبرواحد سے یاقیاس سے مختص کرنے کے اعتراض کی کوئی تک ہی نہیں بنتی۔والسلام
حوالہ بھی دے دیں براہ کرم!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حوالہ بھی دے دیں براہ کرم!
پہلاجواب تویہی ہےکہ یہ آیت اس دال پر مدلول ہی نہیں ہے جس پر بحث ہورہی ہے۔ یعنی اعمال اورفروع اعمال میں ایصال ثواب اس آیت مین زیر بحث ہے ہی نہیں بلکہ اس آیت میں سعی سے مراد سعی ایمانی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں دوسرے احتمالات اورمراد بھی لئے جاسکتے ہیں اوراذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال آپ نے سن رکھاہوگا۔
جوسوال آپ نے پوچھاہے اس کایہ جواب حاضر خدمت ہے۔
(وَأما الْعَام الَّذِي خص عِنْد الْبَعْض فَحكمه) أَنه يجب الْعَمَل بِهِ فِي الْبَاقِي مَعَ الِاحْتِمَال فَإِذا أَقَامَ الدَّلِيل على تَخْصِيص الْبَاقِي يجوز تَخْصِيصه بِخَبَر الْوَاحِد أَو الْقيَاس
اصول الشاشی26
وَإِذَا ثَبَتَ خُصُوصُ اللَّفْظِ بِالِاتِّفَاقِ جَازَ تَخْصِيصُهُ بَعْضَ مَا انْتَظَمَهُ اللَّفْظُ بِالْقِيَاسِ لِأَنَّهُ لَمَّا ثَبَتَ خُصُوصُهُ بِالِاتِّفَاقِ حَصَلَ اللَّفْظُ مَجَازًا عَلَى قَوْلِ الْأَكْثَرِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَسَاغَ الِاجْتِهَادُ فِي تَرْكِ دَلَالَةِ اللَّفْظِ فَصَارَ حُكْمُ الْعُمُومِ فِي هَذَا ثَابِتًا مِنْ طَرِيقِ الِاجْتِهَادِ فَجَازَ اسْتِعْمَالُ النَّظَرِ فِي تَخْصِيصِهِ بِخُرُوجِ لَفْظِ الْعُمُومِ مِنْ إيجَابِ الْعِلْمِ بِمَا انْطَوَى تَحْتَهُ مِنْ الْمُسَمَّيَاتِ، لِأَنَّ قَوْلَ مَنْ قَالَ إنَّ الْبَاقِيَ بَعْدَ التَّخْصِيصِ عَلَى الْعُمُومِ مَبْنِيٌّ عَلَى الِاجْتِهَادِ وَغَالِبِ الظَّنِّ دُونَ الْيَقِينِ وَحَقِيقَةِ الْعِلْمِ، وَمَا كَانَ هَذَا سَبِيلَهُ جَازَ تَخْصِيصُهُ بِمَا كَانَ طَرِيقُهُ غَالِبَ الظَّنِّ مِنْ خَبَرِ وَاحِدٍ أَوْ قِيَاسٍ.
الفصول فی الاصول1/224
قَالَ رَضِي الله عَنهُ وَالصَّحِيح عِنْدِي أَن الْمَذْهَب عِنْد عُلَمَائِنَا رَحِمهم الله فِي الْعَام إِذا لحقه خُصُوص يبْقى حجَّة فِيمَا وَرَاء الْمَخْصُوص سَوَاء كَانَ الْمَخْصُوص مَجْهُولا أَو مَعْلُوما إِلَّا أَن فِيهِ شُبْهَة حَتَّى لَا يكون مُوجبا قطعا ويقينا
اصول السرخسی1/144)
میراخیال ہے کہ یہ تین حوالے آپ کی تشفی کیلئے کافی ہوں گے۔والسلام
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
اگرمانعین کا استدلال اس سے ہے کہ حضورپاک اورصحابہ کرام سے اس عمل کا کرناثابت نہیں ہے توہمارابھی استدلال اسی سے ہے کہ حضورپاک اور صحابہ کرام سے ممانعت ثابت نہیں۔

اگریہ عمل غلط ہوتاتوکسی نہ کسی درجہ میں ممانعت ثابت ہوتی لیکن کہیں سے بھی کوئی خفیف سے خفیف اشارہ نہیں ملتاکہ حضورپاک یاصحابہ کرام نے تلاوت قرآن کے ذریعہ ثواب کو منع کیاہو۔
میرے خیال سے آپ کا بنیادی استدلال اسی سے ہے۔ اس ضمن میں آپ سے ایک سوال ہے:
نماز کے لیے اذان کہنا ایک مسنون عمل ہے لیکن نماز عیدین کےلیے اذان کہنا ثابت نہیں ہے اور میرے علم کی حد تک اس کی ممانعت بھی موجود نہیں ہے تو اگر کوئی شخص لوگوں کو اطلاع کرنے کے لیے نماز عیدین سے پہلے اذان شروع کر دے تو اس کا یہ عمل کیسا ہو گا؟
 
Top