فرحان
رکن
- شمولیت
- جولائی 13، 2017
- پیغامات
- 48
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ
فقہی مسلک
علماء کرام کے درمیان اس پر اجماع ہے کہ میت کیلئے دعا اورصدقہ کرنا جائز ہے۔اسی بات کو امیرالمومنین فی الحدیث حضرت عبداللہ بن مبارک نے اس طورپر تعبیر کیاہے کہ میت کی جانب سے صدقہ کئے جانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وقَالَ مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالْقَانِيَّ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ «إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْبِرِّ أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ» . قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ " قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ
(مقدمہ صحیح مسلم 16)
اورامام نووی اس بارے میں لکھتے ہیں
فَإِنَّ الصَّدَقَةَ تَصِلُ إِلَى الْمَيِّتِ وَيَنْتَفِعُ بِهَا بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَهَذَا هُوَ الصَّوَابُ وَأَمَّا مَا حَكَاهُ أَقْضَى الْقُضَاةِ أَبُو الْحَسَنِ الْمَاوَرْدِيُّ البصرى الفقيه الشَّافِعِيُّ فِي كِتَابِهِ الْحَاوِي عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ الْكَلَامِ مِنْ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَلْحَقُهُ بَعْدَ مَوْتِهِ ثَوَابٌ فَهُوَ مَذْهَبٌ بَاطِلٌ قَطْعًا وَخَطَأٌ بَيِّنٌ مُخَالِفٌ لِنُصُوصِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ فَلَا الْتِفَاتَ إِلَيْهِ وَلَا تَعْرِيجَ عَلَيْهِ
(شرح النووی علی صحیح مسلم ص1/90)
دیگر عبادات کا ایصال ثواب
بعض روایات ایسی ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ میت کی جانب سے روزہ بھی رکھاجاسکتاہے اورحج بھی کیاجاسکتاہے۔
عن عَبْد اللَّهِ بْن بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ رَضِي اللَّه عَنْهما ، قَالَ : بَيْنَما أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ ، فَقَالَتْ : إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ ، وَ إِنَّهَا مَاتَتْ . فَقَالَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : ( وَجَبَ أَجْرُكِ وَ رَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ ) قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أفأصُومُ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( صُومِي عَنْهَا ) ، قَالَتْ : إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( حُجِّي عَنْهَا) . مسلم في صحيحه ( 1149)
اسی قبیل کی ایک اورحدیث ہے جس کو بخاری اورمسلم نے روایت کیاہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااورعرض کیا:میری ماں کاانتقال ہوگیااوراس پر ایک مہینے کا روزہ واجب تھاتوکیامیں ان کی جانب سے قضاء کروں ۔حضورپاک نے فرمایا۔بھلابتاؤاگرتمہاری ماں پر قرض ہوتاتوکیاتم اس قرض کو ادانہ کرتے؟عرض کیاجی ہاں!فرمایاتوپھراللہ کاقرض اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے اداکیاجائے۔
علماء کا اختلاف
ائمہ مجتہدین کا عبادت بدنیہ کے سلسلے میں اختلاف ہے کہ آیامیت کی جانب سے اس کو اداکیاجاسکتاہے یانہیں۔مثلامیت کی جانب سے نماز پڑھ کر اس کو ثواب بخشاجاسکتاہے یانہیں۔یامیت کی جانب سے روزے رکھے جاسکتے ہیں یانہیں،یامیت کی جانب سے حج کیاجاسکتاہے یانہیں۔
واضح رہے کہ حج اورصوم کا مسئلہ اس وقت کاہے جب کہ وہ میت کے ذمہ واجب نہ ہو یامیت نے اس تعلق سے وصیت نہ کی ہوبلکہ محض نفل کے طورپر میت کی جانب سے حج کیاجائے یاروزہ رکھاجائے یاپھرنماز پڑھی جائے۔
مشہور مالکی محدث اورفقیہہ حافظ باجی موطاکی شرح منتقی میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
أَنَّ الْعِبَادَاتِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَضْرُبٍ:
ضَرْبٌ مِنْهَا مِنْ عِبَادَاتِ الْمَالِ لَا تَعَلُّقَ لَهُ بِالْبَدَنِ كَالزَّكَاةِ فَهَذَا يَصِحُّ فِيهِ النِّيَابَةُ.وَالضَّرْبُ الثَّانِي لَهُ تَعَلُّقٌ بِالْمَالِ وَلَهُ تَعَلُّقٌ بِالْبَدَنِ كَالْحَجِّ وَالْغَزْوِ.
وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي صِحَّةِ النِّيَابَةِ فِيهِ وَسَيَأْتِي ذِكْرُهُ فِي كِتَابِ الْحَجِّ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى.
وَالضَّرْبُ الثَّالِثُ لَهُ اخْتِصَاصٌ بِالْبَدَنِ وَلَا تَعَلُّقَ لَهُ بِالْمَالِ كَالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ، وَهَذَا لَا يَدْخُلُهُ النِّيَابَةُ بِوَجْهٍ وَبِهِ قَالَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ.
(المنتقی شرح الموطا2/63)
یہی بات معروف حنفی فقیہہ فخرالدین زیلعی مصنف تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق2/85نے بھی لکھی ہے۔
ثُمَّ الْعِبَادَةُ أَنْوَاعٌ مَالِيَّةٌ مَحْضَةٌ كَالزَّكَاةِ وَالْعُشُورِ وَالْكَفَّارَةِ وَبَدَنِيَّةٌ مَحْضَةٌ كَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالِاعْتِكَافِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَالْأَذْكَارِ، وَمُرَكَّبَةٌ مِنْهُمَا كَالْحَجِّ فَإِنَّهُ مَالِيٌّ مِنْ حَيْثُ اشْتِرَاطُ الِاسْتِطَاعَةِ وَوُجُوبُ الْأَجْزِيَةِ بِارْتِكَابِ مَحْظُورَاتِهِ وَبَدَنِيٌّ مِنْ حَيْثُ الْوُقُوفُ وَالطَّوَافُ وَالسَّعْيُ
احناف کا مسلک
اس بارے میں احناف کا مسلک صاف سیدھایہ ہے کہ وہ عبادات جومالی ہیں اس میں نیابت کارگرہوگی یعنی مکلف کی جانب سے کوئی دوسراکردے تو وہ اداہوجائے گا۔
وہ عبادات جو بدنی ہین اس میں نیابت نہیں ہوگی جیسے کہ روزہ نماز
وہ عبادات جو مالی اوربدنی کی جامع ہین اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر مکلف بیمار ہے عاجز ہے اورحج کے فریضہ کے باوجود قدرت نہیں رکھتاہے تو اس کی جانب سے نیابت کی جاسکتی ہے۔
(النِّيَابَةُ تُجْزِي فِي الْعِبَادَةِ الْمَالِيَّةِ عِنْدَ الْعَجْزِ وَالْقُدْرَةِ) ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ فِيهَا سَدُّ خَلَّةِ الْمُحْتَاجِ، وَذَلِكَ يَحْصُلُ بِفِعْلِ النَّائِبِ كَمَا يَحْصُلُ بِفِعْلِهِ، وَيَحْصُلُ بِهِ تَحَمُّلُ الْمَشَقَّةِ بِإِخْرَاجِ الْمَالِ كَمَا يَحْصُلُ بِفِعْلِ نَفْسِهِ فَيَتَحَقَّقُ مَعْنَى الِابْتِلَاءِ فَيَسْتَوِي فِيهِ الْحَالَتَانِ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَلَمْ تَجُزْ فِي الْبَدَنِيَّةِ بِحَالٍ) أَيْ لَا تُجْزِي النِّيَابَةُ فِي الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَّةِ بِحَالٍ مِنْ الْأَحْوَالِ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ فِيهَا إتْعَابِ النَّفْسِ الْأَمَّارَةِ بِالسُّوءِ طَلَبًا لِمَرْضَاتِهِ - تَعَالَى؛ لِأَنَّهَا انْتَصَبَتْ لِمُعَادَاتِهِ - تَعَالَى - فَفِي الْوَحْيِ عَادِ نَفْسَك فَإِنَّهَا انْتَصَبَتْ لِمُعَادَاتِي وَذَلِكَ لَا يَحْصُلُ بِفِعْلِ النَّائِبِ أَصْلًا فَلَا تُجْزِي فِيهَا النِّيَابَةُ لِعَدَمِ الْفَائِدَةِ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَفِي الْمُرَكَّبِ مِنْهُمَا تُجْزِي عِنْدَ الْعَجْزِ فَقَطْ) أَيْ فِي الْمُرَكَّبِ مِنْ الْمَالِ وَالْبَدَنِ تُجْزِي النِّيَابَةُ عِنْدَ الْعَجْزِ لِحُصُولِ الْمَشَقَّةِ بِدَفْعِ الْمَالِ وَلَا تُجْزِي عِنْدَ الْقُدْرَةِ لِعَدَمِ إتْعَابِ النَّفْسِ عَمَلًا بِالشَّبَهَيْنِ بِالْقَدْرِ الْمُمْكِنِ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَالشَّرْطُ الْعَجْزُ الدَّائِمُ إلَى وَقْتِ الْمَوْتِ)
(تبیین الحقائق2/85)
یہی بات درمختار علامہ حصکفی نے کہی ہے ۔
(الْعِبَادَةُ الْمَالِيَّةُ) كَزَكَاةٍ وَكَفَّارَةٍ (تَقْبَلُ النِّيَابَةَ) عَنْ الْمُكَلَّفِ (مُطْلَقًا) عِنْدَ الْقُدْرَةِ وَالْعَجْزِ وَلَوْ النَّائِبُ ذِمِّيًّا،لِأَنَّ الْعِبْرَةَ لِنِيَّةِ الْمُوَكِّلِ وَلَوْ عِنْدَ دَفْعِ الْوَكِيلِ (وَالْبَدَنِيَّةُ) كَصَلَاةٍ وَصَوْمٍ (لَا) تَقْبَلُهَا (مُطْلَقًا، وَالْمُرَكَّبَةُ مِنْهُمَا) كَحَجِّ الْفَرْضِ (تَقْبَلُ النِّيَابَةَ عِنْدَ الْعَجْزِ فَقَطْ) لَكِنْ (بِشَرْطِ دَوَامِ الْعَجْزِ إلَى الْمَوْتِ) لِأَنَّهُ فَرْضُ الْعُمْرِ حَتَّى تَلْزَمَ الْإِعَادَةُ بِزَوَالِ الْعُذْرِ
بات پوری وہی ہے جواوپرنقل کی گئی صرف اتنااضافہ ہے کہ اگرکسی مریض نے عجز اورعدم قدرت کی وجہ سے کسی سے حج بدل کرایا لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اس کو صحت ہوگئی اورجو عذر تھاوہ ختم ہوگیاتواسے پھرسے حج کرناپڑے گا۔
امام مالک ،امام شافعی اورظاہریہ کا مسلک
امام مالک اورامام شافعی کابھی مسلک یہی ہے کہ وہ عبادات جو مالیت سے تعلق رکھتی ہیں اس میں نیابت کارگرہوگی لیکن وہ عبادات جو بدنی ہین اس میں نیابت کارگرنہیں ہوگی۔البتہ حج کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔امام شافعی کے یہاں حج میں نیابت ہوگی اورامام مالک کے یہاں نیابت نہیں ہوگی۔ حنفیہ کا مسلک بھی حج کے سلسلے میں وہی ہے جو امام مالک کاہے۔امام احمد بن حنبل کے مسلک کی مجھے تحقیق نہیں ہوسکی۔
ظاہریہ کا کہناہے کہ ہرعبادت میں نیابت ہوسکتی ہے ۔چاہے وہ نمازہو،روزہ ہو حج ہوزکوٰۃ ہو یعنی عبادات کی جتنی بھی قسمیں ہیں سبھی میں مکلف کی جانب سے نیابت ہوسکتی ہے۔ اگر مکلف کے ذمہ کچھ نمازیں قضاء تھیں توولی اس کی جانب سے نمازیں پڑھ سکتاہے۔ اگرمکلف کے ذمہ کچھ روزے باقی تھے توولی روزہ رکھ سکتاہے۔
تلاوت قرآن سے ایصال ثواب
مسالک ائمہ
اس بارے میں احناف حنابلہ اورظاہریہ کا مسلک یہ ہے کہ یہ درست ہے۔ قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کیاجاسکتاہے۔ جب کہ امام شافعی اورامام مالک کی مشہور روایت یہ ہے کہ ایساکرنا درست نہیں ۔اوران دونوں ائمہ حضرات سے ایک روایت جواز کی بھی ہے۔
مسلک احناف
علامہ حصکفی اس سلسلے لکھتے ہیں
الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا،لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ. وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى - {وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى} [النجم: 39]- أَيْ إلَّا إذَا وَهَبَهُ لَهُ كَمَا حَقَّقَهُ الْكَمَالُ،
الدرالمختار2/596
علامہ حصکفی کی عبارت کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں۔
قَوْلُهُ بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ زِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ - عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ كَمَا فِي الْهِنْدِيَّةِ ط وَقَدَّمْنَا فِي الزَّكَاةِ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ. اهـ.
ایک اورحنفی فقیہہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ وَيَصِلُ (الاختیار لتعلیل المختار4/179)
مسلک شافعیہ
ومعنى (العلم المنتفع به) : إما كتب علم وقفها، أو علم غيره.فأما ما سوى ذلك من القرب، كالصلاة والقراءة والذكر.. فلا يلحق الميت ثوابها بفعل الغير لها عنه،
(البیان فی مذہب الامام الشافعی8/317)
شافعی حضرات تلاوت قرآن سے میت کو ایصال ثواب کے منکر ہیں لیکن اسی کے ساتھ قبرپر تلاوت قرآن کے جواز کے قائل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں جہاں پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے وہاں پر خداکی رحمت اترتی ہے۔لہذا میت کی قبرپرتلاوت قرآن سے امید ہے کہ خداکی رحمت میت کوبھی شامل حال ہوگی۔
إلا أنه إذا قرئ القرآن عند القبر أو الميت.. فإن ثواب القراءة للقارئ، ولكن الرحمة تنزل حيث يقرأ القرآن، فيرجى أن تعم الرحمة الميت؛ لأنه كالجالس بينهم. هذا مذهبنا.
(البیان فی مذہب الامام الشافعی8/317)
یہی بات الحاوی الکبیر کے مصنف نے بھی لکھی ہے۔
فصل:أَحَدُهَا: مَا يَجُوزُ أَنْ يُفْعَلَ عَنْهُ بِأَمْرِهِ وَغَيْرِ أَمْرِهِ.وذلك قضاء الديون، وَأَدَاءُ الزَّكَاةِ، وَفِعْلُ مَا وَجَبَ مِنْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، وَالدُّعَاءُ لَهُ، وَالْقِرَاءَةُ عِنْدَ قَبْرِهِ.
(الحاوی الکبیر8/300)
لیکن واضح رہے کہ متاخرین فقہائے شافعیہ نے اس بات کو ماناہے کہ تلاوت قرآن پاک سے ایصال ثواب کیاجاسکتاہے۔ امام نووی لکھتے ہیں۔
وَأَمَّا قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ
(شرح النووی علی مسلم1/90)
مالکیہ کا مسلک
وَوَقَعَ خِلَافٌ فِي انْتِفَاعِهِ بِالْقِرَاءَةِ لَهُ وَرَجَّحَ بَعْضٌ انْتِفَاعَهُ بِهَا، فَلَا يَنْبَغِي إهْمَالُهَا سَوَاءٌ وَقَعَتْ عَلَى قَبْرِهِ أَوْ فِي غَيْرِهِ
(الفواکہ الدانی علی رسالۃ ابن ابی زید القیروانی2/291)
ابْنُ رُشْدٍ فِي نَوَازِلِهِ ضَابِطُهُ: إنْ قَرَأَ الرَّجُلُ وَوَهَبَ ثَوَابَ قِرَاءَتِهِ لِمَيِّتٍ جَازَ ذَلِكَ وَحَصَلَ لِلْمَيِّتِ أَجْرُهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ.
(منح الجلیل شرح مختصرالخلیل1/509)
اسی کتاب مین آگے چل کر لکھاہے۔
بِالْجُمْلَةِ فَيَنْبَغِي أَنْ لَا يُهْمَلُ أَمْرُ الْمَوْتَى مِنْ الْقِرَاءَةِ فَلَعَلَّ الْوَاقِعَ فِي ذَلِكَ هُوَ الْوُصُولُ لَهُمْ وَلَيْسَ هَذَا حُكْمًا شَرْعِيًّا، وَكَذَا التَّهْلِيلُ يَنْبَغِي أَنْ يُعْمَلَ وَيَعْتَمِدَ عَلَى فَضْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَسَعَةِ رَحْمَتِهِ.
حنابلہ کا مسلک
اس سلسلے میں ابن قدامہ اپنی مشہور عالم تصنیف المغنی میں لکھتے ہیں۔
فَصْلٌ: وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا، وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ، إنْ شَاءَ اللَّهُ،
یہی بات مشہور حنبلی فقیہہ ابن مفلح نے کہی ہے۔
وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا) مِنْ دُعَاءٍ، وَاسْتِغْفَارٍ، وَصَلَاةٍ، وَصَوْمٍ، وَحَجٍّ، وَقِرَاءَةٍ، وَغَيْرِ ذَلِكَ (وَجَعَلَ ثَوَابَ ذَلِكَ لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ) .
المبدع فی شرح المقنع2/281
ظاہریہ کا مسلک بھی اس سلسلے میں امام احمد بن حنبل کے مسلک سے مشابہ ہے۔ان کے اقوال الگ سے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
ابن تیمیہ اورابن قیم
ان حضرات کاشمار اگرچہ فقہائے حنابلہ میں ہی ہوتاہے اورہوناچاہئے لیکن چونکہ کچھ لوگوں نے انہیں الگ طرح کی حیثیت دے دی ہے اوربعض لوگوں کے خیال میں یہ لوگ ائمہ اربعہ سے بھی زیادہ اعلم وافقہ ہیں(ابتسامہ)لہذاان کےانبساط خاطر کیلئے ان کے بھی اقوال الگ سے ذکرکردیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے مقلدین کے پاس اگرگوش نصیحت نیوش ہوتوکان دھریں۔
ابن تیمیہ نے کئی مقامات پر تلاوت کلام اللہ سے ایصال ثواب کے تعلق سے گفتگو کی ہے لیکن بیشتر مقامات پر ان کا طرز عمل صرف علماء کا مسلک بیان کرنے میں رہاہے۔چنانچہ ایک سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں۔
أَمَّا الصِّيَامُ عَنْهُ وَصَلَاةُ التَّطَوُّعِ عَنْهُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ عَنْهُ فَهَذَا فِيهِ قَوْلَانِ لِلْعُلَمَاءِ: أَحَدُهُمَا: يَنْتَفِعُ بِهِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَحْمَد وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا، وَبَعْضِ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمْ. وَالثَّانِي: لَا تَصِلُ إلَيْهِ وَهُوَ الْمَشْهُورُ فِي مَذْهَبِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ.
(مجموع الفتاوی24/315)
اس مسئلہ میں علماء کے اختلاف پر انہوں نے کئی مقامات پر اپنی تصنیفا ت میں گفتگو کی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر وہ تلاوت کلام اللہ سے میت کو ایصال ثواب کے مقبول ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لَيْسَ فِي الْآيَةِ وَلَا فِي الْحَدِيثِ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَنْتَفِعُ بِدُعَاءِ الْخَلْقِ لَهُ وَبِمَا يُعْمَلُ عَنْهُ مِنْ الْبِرِّ بَلْ أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ مُتَّفِقُونَ عَلَى انْتِفَاعِ الْمَيِّتِ
(مجموع الفتاوی24/306)
ابن تیمیہ کے کے سامنے یہ سوال پیش ہواکہ قرآن میں ہے کہ انسان کو صرف اس کی کوشش ہی فائدہ پہنچاتی ہے حدیث میں ہے کہ مرنے کے بعد عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے سوائے تین اعمال کے توکیاانسان کو دیگر اعمال وافعال کا ثواب نہیں پہنچتا۔ اس پر انہوں نے یہ بات لکھی ہے کہ
اشارہ سے گزرکر ابن تیمیہ نے اس سلسلے میں تصریح بھی کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وَالْعُلَمَاءُ لَهُمْ فِي وُصُولِ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَّةِ: كَالْقِرَاءَةِ وَالصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ إلَى الْمَيِّتِ قَوْلَانِ أَصَحُّهُمَا أَنَّهُ يَصِلُ۔الفتاوی الکبری لابن تیمیہ 4/257
ابن قیم نے بھی اپنے استاد ابن تیمیہ کی ہی طرح ایصال ثواب کے وقوع کوترجیح دی ہے اوراس سلسلے میں ان کاخیال یہ ہے کہ چونکہ شریعت میں کوئی واضح طورپر ممانعت نہیں آئی ہے اس لئے دیگر اعمال پر قیاس کرتے ہوئے ایصال ثواب جائزہے۔
قاضی شوکانی:
غیرمقلدین حضرات کے یہاں ایک بڑانام قاضی شوکانی کابھی ہے۔ نواب صدیق حسن خان صاحب کے بارے میں بھی کچھ کتابوں میں لکھاہے کہ وہ قاضی شوکانی سے استمداد کے خواہاں رہتے تھے۔ قاضی شوکاں مددے کا نعرہ جذب وبے خودی میں بلند کردیاکرتے تھے۔
وہ نیل الاوطار میں [بَابُ وُصُولِ ثَوَابِ الْقُرَبِ الْمُهْدَاةِ إلَى الْمَوْتَى]میں لکھتے ہیں۔
وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي غَيْرِ الصَّدَقَةِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ هَلْ يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ؟
فَذَهَبَتْ الْمُعْتَزِلَةُ إلَى أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَيْهِ شَيْءٌ وَاسْتَدَلُّوا بِعُمُومِ الْآيَةِ وَقَالَ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ: إنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ، وَيَصِلُ ذَلِكَ إلَى الْمَيِّتِ وَيَنْفَعُهُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ انْتَهَى وَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَجَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ ثَوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَجَمَاعَةٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ إلَى أَنَّهُ يَصِلُ، كَذَا ذَكَرَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْكَارِ وَفِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ لِابْنِ النَّحْوِيِّ: لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ عِنْدَنَا ثَوَابُ الْقِرَاءَةِ عَلَى الْمَشْهُورِ، وَالْمُخْتَارُ الْوُصُولُ إذَا سَأَلَ اللَّهَ إيصَالَ ثَوَابِ قِرَاءَتِهِ، وَيَنْبَغِي الْجَزْمُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ دُعَاءٌ، فَإِذَا جَازَ الدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ بِمَا لَيْسَ لَلدَّاعِي، فَلَأَنْ يَجُوزَ بِمَا هُوَ لَهُ أَوْلَى۔(نیل الاوطار 4/113)
خلاصہ کلام:
ان گزارشات بالخصوص مسلک پر تفصیلی کلام کرنے سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جمہور علماء کی رائے اس بارے میں کیاہے۔امام ابوحنیفہ اورامام احمد بن حنبل اوران کے اصحاب جواز کے قائل ہیں۔امام شافعی اورامام مالک عدم جواز کے قائل ہیں لیکن ان کے مسلک سے وابستہ علماء جواز کے قائل ہیں۔اسی طرح ظاہریہ بھی جواز کے قائل ہیں۔ ظاہریہ سے گزرکر اہل حدیث حضرات کے یہاں وقعت رکھنے والے،ابن تیمیہ،ابن قیم اورقاضی شوکانی بھی جواز کے قائل ہیں۔
بھائ احادیث میں اولاد کا ہی زکر ہے کیا اولاد کے علاوہ دوسرا کوئ بھی ایصال ثواب کر سکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟