محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّاَيْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۲۲۴ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۲۲۵ لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ۰ۚ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۲۲۶
۲؎ قسم کھانے کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق قصد وارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ عادۃً یونہی اس نوع کے کلمات منہ سے نکل جاتے ہیں۔ قضاء ً اور عند اللہ یہ حلف نہیں سمجھا جائے گا۔
واللہ غفور رحیم۔
یعنی نباہ کرنا بہرحال بہتر ہے۔ قسم کی پروا نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے اور طلاق کے متعلق فرمایا:
فان اللہ سمیع علیم
یعنی اللہ تعالیٰ جانتے اور سنتے ہیں کہ تم دونوں میں سے کون ظالم اور کون مظلوم ہے ۔ لہٰذا طلاق کے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ ذراسی غفلت میں دونوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔
۱؎ ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خدا کی قسم سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ۔یعنی اگر کسی اچھے کام کے نہ کرنے پر قسم کھالو تو اسے توڑدینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی بات کے متعلق قسم کھالے اور اس کے بعد اسے محسوس ہو کہ اس نے غلطی کی ہے توقسم توڑدے اور کفارہ دے دے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی مسلمان کو نیکی کے احکام سے نہیں روکتے۔اورخدا کو اپنی قسموں کا حیلہ۱؎نہ بناؤ کہ نہ سلوک کرو اور نہ اللہ سے ڈرو اور نہ لوگوں میں اصلاح کراؤ اور خدا سنتا اور جانتا ہے۔(۲۲۴)تمھاری بیہودہ قسموں۲؎ پر خدا تمھیں نہیں پکڑے گا لیکن جو کچھ تمھارے دل کماتے ہیں، ان پر تمھیں پکڑے گا اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔(۲۲۵) ان لوگوں کو جو اپنی عورتوں۳؎ سے نہ ہمبستر ہونے پر قسم کھا بیٹھتے ہیں، چار مہینے تک کی مہلت ہے۔ پھراگروہ مل گیے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔(۲۲۶)
۲؎ قسم کھانے کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق قصد وارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ عادۃً یونہی اس نوع کے کلمات منہ سے نکل جاتے ہیں۔ قضاء ً اور عند اللہ یہ حلف نہیں سمجھا جائے گا۔
۳؎ ایلاء کے مفہوم میں اختلاف ہے ۔لغۃً قسم کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ شرعاً متفق علیہ مفہوم جس پر جمہور کا اتفاق ہے ۔ وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی عورت کی مقاربت سے چار مہینے سےزائد مدت کے لیے پرہیز کا عہد کرلے اور قسم کھالے کہ وہ اس عرصے میں عورت کے نزدیک نہیں جائے گا اور اگرچار مہینے یا اس سے کم مدت کے لیے قسم کھائے تو اس کا حکم یمین محض کا حکم ہوگا۔ ایلاء کا نہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہائے عظام کا یہی مذہب ہے۔جب یہ صورت حالات پیدا ہوجائے تو پھریا تو چار مہینے صبر کرکے رجوع کرلے تواس صورت میں کوئی کفارہ نہ ہوگا اور یا اگر مدت سے پہلے رجوع کرلے تو کفارہ یمین دے اوراگر کلی طورپر انقطاع کا قصد ہوتو طلاق دے دے۔ رجوع کے متعلق فرمایا:ا یلاء کا حکم
واللہ غفور رحیم۔
یعنی نباہ کرنا بہرحال بہتر ہے۔ قسم کی پروا نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے اور طلاق کے متعلق فرمایا:
فان اللہ سمیع علیم
یعنی اللہ تعالیٰ جانتے اور سنتے ہیں کہ تم دونوں میں سے کون ظالم اور کون مظلوم ہے ۔ لہٰذا طلاق کے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ ذراسی غفلت میں دونوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔